مخدوم محی الدین: فن اور شخصیت کے آئینے میں ۔۔۔ رؤف خلش

 

مخدوم محی الدین کا نام ایک انقلابی اُردو شاعر اور ایک سیاسی رہنما دونوں حیثیتوں سے ممتاز اور نمایاں ہے۔ اگر صف اوّل کے (۵) ایسے اُردو شعراء کے نام گنوائے جائیں جنھوں نے نظم کو اکائی کا تصور دینے اور علامات و اشاریت سے مالا مال کرنے میں کامیاب اجتہاد کیا ہے تو فہرست اس طرح ہو گی۔ اختر الایمان، میرا جی، ن۔ م۔ راشد، فیض احمد فیض اور مخدوم محی الدین۔ مخدوم کی شعر گوئی کا آغاز ۱۹۳۳ء سے ہوتا ہے۔ جب ان کی عمر کوئی ۵۲ سال رہی ہو گی۔

اُن کی پیدائش ۳ فبروری ۱۹۰۸ء کو حیدرآباد کے ضلع میدک کے تعلقہ اندوال میں ہوئی۔ ۱۹۳۷ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے۔ پاس کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں انگریز حکمرانوں کے خلاف عوام کا غم و غصہ تحریکوں کی شکل میں ظاہر ہو چکا تھا۔ مارکسی تعلیمات کے زیر اثر نوجوان طبقہ اپنی سماجی و معاشرتی سرگرمیوں میں مصروف عمل تھا۔ آزادی کی جد و جہد بڑے پیمانے پر جاری تھی۔ یہ تمام کاوشیں ادب میں بھی نئے رجحانات لے کر داخل ہوئیں۔ مخدوم، حالات کے ان بدلتے تیوروں سے غافل نہیں تھے۔ ۱۹۳۶ء میں جب ترقی پسند تحریک نے اپنی پوری جولانیوں کے ساتھ معاشرے کے ہر شعبہ میں قدم رکھا تو حیدرآباد میں اس کی تشکیل و تشہیر کا سہرا مخدوم کے سر رہا۔ ان کے ساتھی ادیبوں میں سبطِ حسن، اختر حسین رائے پوری، جے .وی.نرسنگ راؤ اور جے .سوریا نائیڈو تھے۔

انجمن کی نشستیں سروجنی نائیڈو کے بنگلے ’’گولڈن تھرشولڈ‘‘ واقع نامپلی اسٹیشن روڈ، حیدرآباد پر ہوا کرتی تھیں جو اس تحریک کی موئید تھیں۔ قدامت پسند، اس تحریک کے سخت مخالف تھے لیکن مولانا حسرت موہانی اور قاضی عبد الغفار جیسے بزرگوں کی حمایت اسے حاصل تھی۔ اس انجمن کے علاوہ حیدرآباد میں اشتراکی خیالات رکھنے والوں کی ایک اور انجمن ’’کامریڈ اسوسی ایشن‘‘ بھی تھی جس کے اراکین میں ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، جواد رضوی، عالم خوندمیری اور اومکار پرشاد وغیرہ شامل تھے۔

۱۹۳۹ء میں مخدوم کا تقرر سٹی کالج میں بہ حیثیت استادِ اُردو عمل میں آیا۔ اس وقت تک مخدوم ایک شاعر کی حیثیت سے حیدرآباد میں کافی شہرت حاصل کر چکے تھے۔ ان کی نظم ’’انقلاب‘‘ پر علمائے دکن کی جانب سے کفر کا فتویٰ صادر ہوا تھا۔ کالج کے اربابِ مجاز کو یہ شکایت تھی کہ مخدوم اپنے لکچروں میں اشتراکی خیالات و نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔ اس صورتحال اور دوسری مصلحتوں کی بناء پر انہوں نے سٹی کالج میں کوئی دو سال تک کام کرنے کے بعد ۱۹۴۱ء میں اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ اس دوران ان کے سیاسی رجحانات کا رنگ تیزی کے ساتھ ابھرتا رہا اور وہ ہمہ وقتی طور پر عملی سیاست کے میدان میں داخل ہو گئے۔

حیدرآباد میں پوشیدہ طور پر ۱۹۳۹ء میں کمیونسٹ پارٹی کا قیام عمل میں آ گیا تھا۔ اُس وقت سوائے مجلس اتحاد المسلمین کے، کسی سیاسی پارٹی کا وجود نہیں تھا کیونکہ دوسری سیاسی پارٹیوں پر امتناع عائد تھا۔ آصف سابع کے اس شاہی دور میں کمیونسٹ پارٹی کا اہم مقصد حیدرآباد میں جمہوری حکومت کا قیام اور شاہی حکومت کا خاتمہ تھا۔ ترقی پسند تحریک کا مقصد بھی ادب میں انہی نظریات کی تشہیر کرنا تھا۔ اس تحریک سے مخدوم کی وابستگی اس حقیقت کی مظہر ہے کہ ان کے جذبات، خیالات اور قوتِ ارادی نے اس مسلک کو کُلّی طور پر قبول کر لیا تھا۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے مخدوم نے اسے اکتسابی فن کے طور پر نہیں اپنایا کیونکہ وہ محض ’’موزوں طبع‘‘ نہیں تھے بلکہ ان کے فہم و ادراک میں آزادیِ افکار اور بالغ نظری ہی قوم کی نجات دہندہ تھی۔ مخدوم ۲۵ اگسٹ ۱۹۶۹ کو انتقال کر گئے۔ ۶۱ سال کی عمر پائی۔ ان کی شاعری کا کینوس کوئی ۳۶ سال کے عرصہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے:

(۱) سرخ سویرا ۱۹۴۴ء

(۲) گُل تر ۱۹۴۱ء

(۳) بساطِ رقص ۱۹۴۴ء

ان تینوں مجموعوں میں آخری مجموعہ ’’بساطِ رقص‘‘ کے ۴ ایڈیشن شائع ہوئے۔ بعد کے ایڈیشنوں میں مخدوم کا وہ کلام بھی شامل ہے جو ۱۹۴۴ء سے ۱۹۶۹ء تک (یعنی انتقال تک) کہا گیا۔

مخدوم کی شاعری کو اُن کے لب و لہجے اور اسلوب کے لحاظ سے ۳ ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور: ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۸ء تک (مدت: ۱۴ سال) ۔ مخدوم کی شاعری کا آغاز ۱۹۳۳ء کے لگ بھگ ہوا۔ ان کی پہلی نظم ’’پیلا دوشالہ‘‘ تھی جو کہیں شائع نہیں ہوئی۔ اس نظم کی ’’شانِ نزول‘‘ یہ ہے کہ ایک صاحب نے (جو نئے نئے جامعہ عثمانیہ داخل ہوئے تھے) اپنے سینئر طلباء کو حسبِ روایت پارٹی نہیں دی تھی۔ جوابی کاروائی کے طور پر ان صاحب کا پیلا دو شالہ غائب کر دیا گیا۔ مخدوم کی نظم ’’پیلا دو شالہ‘‘ اسی شال کے کھو جانے کا ’’مزاحیہ مرثیہ‘‘ تھی۔ ان کی مطبوعہ پہلی نظم ’’طور‘‘ ہے جو ۱۹۳۳ء میں شائع ہوئی۔ یہ نظم رومانی ہے اور پابند نظم کی تعریف میں آتی ہے۔ ایک اور نظم ’’انقلاب‘‘ کی یہ سطریں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ رجعت پسندی سے کس قدر متنفّر ہیں ؎

حرم کے دوش پہ عقبیٰ کا دام ہے اب تک

سروں میں دین کا سودائے خام ہے اب تک

توہمات کا آدم غلام ہے اب تک!

مخدوم کا پہلا مجموعہ کلام ’’سرخ سویرا‘‘ ۱۹۴۴ء میں چھپا تھا۔ اُن کی ابتدائی شاعری میں ہم کو رومان کی جھلکیاں زیادہ ملتی ہیں۔ جیسے ان کی نظمیں ’’طور‘‘ ، ’’آتش کدہ‘‘ ، ’’سجدہ‘‘ ، ’’جوانی‘‘ اور ’’ساگر کے کنارے‘‘ وغیرہ لیکن بعد میں ان کی دور بینی اور سماجی شعور نے حسن و عشق کے محدود کوچے سے نکل کر دوسرے خارجی موضوعات کی وسعتوں کو بھی ناپنا شروع کر دیا۔

’’سرخ سویرا‘‘ میں جتنی نظمیں ہیں تقریباً سب میں (سوائے دو نظموں ’’اندھیرا‘‘ اور ’’استالین‘‘ کے) ردیف و قافیہ کا اہتمام (کہیں شعوری اور کہیں غیر شعوری طور پر) موجود ہے۔ پابند نظم سے آزاد نظم کا سفر اُن کی نظم ’’اندھیرا‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ موضوع کے بے ساختہ اظہار کے لئے پابندی سدّ راہ بن رہی ہے۔ ترقی پسند شعراء نے آزاد نظم کو اسی بنا پر فروغ دیا اور مخدوم اور فیض غالباً ترقی پسند شعراء کے وہ اولین شعرأ ہیں جنھوں نے اپنے کامیاب اظہار کے لئے آزاد نظم کے سانچے کو قبول و اختیار کیا۔ پیکر تراشی کے علاوہ نقطۂ عروج تک پہنچنے کا مرکزی خیال کس طرح ادا ہوا ہے وہ نظم ’’اندھیرا‘‘ میں ملاحظہ ہو ؎

شب کے سناٹے میں رونے کی صدا

کبھی بچوں کی، کبھی ماؤں کی

چاند کے تاروں کے ماتم کی صدا

رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم

صرف خورشیدِ درخشاں کے نکلنے تک ہے

رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

شاعر کی شخصیت میں اس کا نظریۂ حیات کس طرح سموتا ہے اس کی نمایاں و کامیاب مثال مخدوم کی شاعری ہے۔ مخدوم کبھی زندگی کی کشمکش اور طویل سفر میں تنہا چلنے کے قائل نہیں رہے بلکہ اپنے ہمراہ ساری جمعیت، سارے قافلے کی الجھنوں کا بار اٹھانا انھوں نے پسند کیا۔ اجتماعیت کو انفرادیت پر ترجیح دینا، جس کو تنقید نگاروں نے دو اصطلاحوں ’’غمِ جاناں‘‘ اور ’’غمِ دوراں‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مخدوم کا اکلوتا شعر اس نظرئیے کی اچھی مثال ہے ؎

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

مخدوم محرومی یا ناکامی سے مایوس ہونا نہیں چاہتے، اس خوف سے کہ کہیں وہ تلخی یا جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر نراج کی وادیوں میں آرام نہ لے لیں۔ ’’قنوطیت‘‘ کے مقابل ’’رجائیت‘‘ کو اپنانے کا یہ حوصلہ ان کے پہلے شعری سفر کا خاص وصف ہے۔ مخدوم نے دوسرے دور میں بھی جو ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۹ء (مدت ۱۲ سال) کا احاطہ کرتا ہے نظم کی صنف کو ہی اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔ غزل کی صنف کو انھوں نے ۱۹۵۹ء میں اختیار کیا۔ جہاں سے ان کے شعری سفر کا تیسرا اور آخری دور شروع ہوتا ہے۔ ہندوستان کو ۱۹۴۷ء میں انگریزی حکومت سے آزادی نصیب ہوئی اور اِدھر نظام کی شاہی حکومت بھی ستمبر ۸۴۹۱ء کو دم توڑ گئی۔ یہاں سے مخدوم کے شعری موضوعات میں تبدیلی آئی۔ ہئیت اور فارم بھی بدلے۔ اس دوسرے دور میں سوائے دو پابند نظموں ’’آج کی رات نہ جا‘‘ اور ’’بھاگ متی‘‘ کے مخدوم نے آزاد نظم کو ہی برقرار رکھا۔ مخدوم کا دوسرا شعری مجموعہ ’’گُلِ تر‘‘ ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ یہ مجموعہ ان کی شاعری کے دوسرے دور اور تیسرے دور کے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے۔ تیسرا دور ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۹ء (مدت ۱۰ سال) تک یعنی ان کے انتقال تک جاری رہا۔

ہندوستان کی آزادی اور تقسیم و نیز سقوطِ حیدرآباد کے بعد بھی ان کے اندر کا فنکار اُنہی تعمیری خطوط پر سوچتا رہا جس انداز سے ہر انسان دوست فنکار سوچ سکتا ہے۔ ۱۹۴۷ء کے فرقہ ورانہ فسادات، حیدرآباد کا پولیس ایکشن، نظام کی شاہی حکومت کا خاتمہ، انڈین یونین میں حیدرآباد کا انضمام، جاگیردارانہ نظام کا دم توڑنا، یہ سب ایسے معمولی واقعات تو نہ تھے کہ مخدوم ان سے چشم پوشی کرتے۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا جس کے نتیجے میں انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔

اپنے تہذیبی ورثے کو جو سالہا سال کی ذہنی و روحانی کاوشوں کا حاصل تھا، مخدوم نے اپنے جمالیاتی ذوق اور شعری حسن سے خوب نکھارا، سنوارا اور نسبتاً شگفتہ انداز سے شعری قالب میں سمو دیا۔ ’’گلِ تر‘‘ کے مخدوم ’’سرخ سویرا‘‘ کے مخدوم سے ان معنوں میں مختلف ہیں کہ ان کی بعد کی شاعری دھیمی دھیمی آنچ کی نرم روی موضوعات کے تنوع، گھلاوٹ اور نغمگی کی آئینہ دار ہے۔ آزادی کے موضوع پر ’’چاند تاروں کا بن‘‘ ان کی وہ شاہکار نظم ہے جس کی ہم پلہ نظمیں جدید شاعری میں ایک دو ہی نکلیں گی۔

مخدوم کا تیسرا اور آخری شعری مجموعہ ’’بساطِ رقص‘‘ ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔ جو ایک طرح سے مخدوم کی تمام تر شعری کاوشوں کی کلیات ہے۔ جس کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تازہ ترین ایڈیشن ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا۔

مخدوم کی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور کو چھوڑ کرجس میں صرف ہمیں نظمیں ہی ملتیں ہیں تیسرے دور کے آغاز سے یعنی ۱۹۵۹ء سے مخدوم نے غزل کہنا شروع کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ۱۹۵۹ء میں ممبئی میں ایک ہند و پاک عظیم الشان طرحی مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں پاکستان سے جوش ملیح آبادی اور شوکت تھانوی وغیرہ نے شرکت کی تھی۔ تمام شعراء نے طرحی غزلیں سنائیں اور جوش نے ’’طرحی نظم‘‘ جس کا ٹیپ کا مصرعہ تھا ’’کیا گُل بدنی، گُل بدنی، گُل بدنی ہے!‘‘ سنایا۔ مخدوم کی پہلی غزل جو اتفاقاً ان کی پہلی طرحی غزل بھی تھی بہت مقبول ہوئی۔ خصوصاً یہ تین شعر ؎

سیماب وشی، تشنہ لبی، باخبری ہے

اس دشت میں گر رختِ سفر ہے تو یہی ہے

اک شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو

کم کم ہی سہی، نسبتِ پیمانہ رہی ہے

دھڑکا ہے دلِ زار ترے ذکر سے پہلے

جب بھی کسی محفل میں تری بات چلی ہے

بیشتر تنقید نگار فیض و مخدوم کی شاعری کا تقابلی موازنہ بھی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً وہ فنی و ذہنی یگانگت ہے جس کا رنگ دونوں کے پاس جا بجا ملتا ہے۔ خارجی و داخلی موضوعات، تہذیبِ نفس، کلاسکیت میں جدیدیت کا چرچا رہتا تھا یہ سب باتیں دونوں کی شخصیت میں مشترک ہیں۔

بذلہ سنجی، حاضر جوابی اور ظرافت مخدوم کی شخصیت کے اہم جزو رہے۔ طالب علمی کے دوران یونیورسٹی میں ان کی لطیفہ گوئی کا چرچا رہتا تھا۔ یہ وصف ان کی حیات تک برقرار رہا۔ مخدوم ہمیشہ ہر ترقی پسند نظرئیے، نئے پن اور زندگی کے ہر مثبت پہلو کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں انٹلکچول طبقے خصوصاً نوجوانوں کے حلقوں میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ درمیانہ طبقہ ہو، غریب طبقہ ہو، مزدوروں یا کسانوں کی بیٹھک ہو، طلبا کا اجتماع ہو، مخدوم ہر قسم کی فضا اور ماحول میں گھُل مل جاتے۔ سیاست داں ہونے کے ناطے انھیں اکثر مشتعل ہجوم اور غیر سماجی عناصر سے بھی واسظہ پڑتا رہتا لیکن وہاں بھی وہ اپنی سوجھ بوجھ اور خوش طبعی کے باعث بڑے سے بڑے مجمع کو قابو میں کر لیتے۔

محفل کے آداب کا پاس رکھنا، ملنساری اور رکھ رکھاؤ میں یقیناً ان کا جواب نہ تھا۔ البتہ ایک شئے ان کے مزاج میں ایسی تھی جسے آپ ان کی ’’خود شناسی‘‘ کہہ لیجئے، وہ کسی کی زبان سے اپنے بارے میں کڑی تنقید یا زیادہ صحیح الفاظ میں اپنی تنقیص برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ عادت ان کے مخصوص مزاج کا حصّہ ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سماجی حیثیت سے ایک اعلیٰ مقام کا حامل ہر گھڑی غیر ضروری یا نا مناسب الزام تراشی برداشت نہ کر سکتا ہو کیونکہ ایسی باتوں کو درگزر کر دینے سے کم ظرف لوگوں کو شہ بھی مل جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے مخدوم بھی اسی نظرئیے کے تحت اپنی تنقیص گوارا نہ کر پاتے۔ اس سے ہٹ کر مخدوم کو لوگ ہمیشہ انتہائی مخلص، ہنس مکھ، پُر کشش اور سنجیدہ پاتے۔ اپنے عقائد کی بناء پر وہ شروع ہی سے اشتراکی رہے۔ تلنگانہ تحریک جو ایک طرح سے جاگیرداروں اور کسانوں کا تصادم تھی اور جس کے ہیرو مخدوم رہے، اس میں بھی ان کا مزاج، مصلحتوں کی تمام آلائشوں سے قطعاً پاک رہا۔

جہاں انھوں نے شاہی نظام کے خلاف یہ شعر کہا ؎

پڑی ہے فرقِ مبارک پہ ضربتِ کاری

حضورِ آصفِ سابع پہ ہے غشی طاری

وہیں امن کے تعلق سے تاشقند میں ہوئی ہند و پاک کانفرنس کی کامیابی پر یہ شعر کہا ؎

جہاں میں جنگ نہیں، امن سر بلند چلے

نسیمِ صلح چلے، بادِ تاشقند چلے

جس طرح مخدوم دیکھنے، سننے میں حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کا نمونہ نظر آتے، ان کی شاعری بھی اس وصف سے خالی نہیں۔ غالباً مخدوم واحد شاعر ہیں جنھوں نے دکنی الفاظ (جنھیں کوئی بھی شعر میں لانے کو اپنی احساسِ کمتری سمجھتا) نہایت بے باکی اور خود اعتمادی کے ساتھ اپنے شعر میں استعمال کئے ہیں۔ جب لکھنؤ یا دلّی والے اپنی زبان پر فخر کر سکتے ہیں، اس کا روزمرّہ یا محاورہ ادب میں لانے سے نہیں جھجکتے تو دکن والے کیوں اس سے پیچھے رہیں؟ یہ بات اپنے شعروں کے ذریعہ مخدوم نے جتلائی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی نظموں کی یہ سطریں ملاحظہ ہوں ؎

دور ’’محبس‘‘ کی فصیلوں سے بہت دور کہیں (قید)

کوئی ’’سنچل‘‘ نہ کوئی چاپ نہ کوئی دھڑکن (سنّاٹا)

زندگانی، تازگی، عقل و فراست کا ’’مسان‘‘ (مشرق)

مخدوم ہمیشہ جس سیاسی پارٹی سے وابستہ رہے اس کے اُصولوں پر کاربند رہنے کو اپنا ایمان سمجھتے رہے۔ اپنے اس عوامی کردار میں انھوں نے وضعداری کی شان بھی برقرار رکھی اور ’’وفا داری بشرطِ استواری‘‘ کا جیتا جاگتا نمونہ بھی بنے رہے۔ یہ خصوصیات محض ان کی اپنی شخصی خوبیوں کی مرہونِ منّت تھہں۔ مزدوروں اور کسانوں کے لئے اپنی اعلیٰ صلاحیتیں وقف کر دینا…..ان کے مطالبات منوانے کے لئے ہر مخالف وار کا بے باکی سے مقابلہ کرنا ثابت کرتا ہے کہ ان میں ’’جرأت رندانہ‘‘ کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ حق و باطل اور خیر و شر کی لڑائی تو ازل سے جاری ہے۔ لیکن مخدوم کے مزاج میں جو جبر و استبداد کی طاقتوں کے خلاف کھُلا چیلنج کرنے کا انداز موجود تھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کہ یہ قطعہ اس کا ترجمان ہے ؎

اُسی ادا سے اُسی بانکپن کے ساتھ آؤ

پھر ایک بار اُسی انجمن کے ساتھ آؤ

ہم اپنے ایک دلِ بے خطا کے ساتھ آئیں

تم اپنے محشرِ دار و رسن کے ساتھ آؤ

مخدوم کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شاعر کم اور لیڈر زیادہ تھے۔ یہ خیال درست نہیں۔ ان کی شخصیت تو ان ہمہ گیر پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جن کی بنأ پر مخدوم نے اپنی سماجی و سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ مخدوم نہ صرف ایک بڑے شاعر تھے بلکہ ایک بلند حوصلہ انسان بھی تھے۔ ان کے کردار میں روایت و ذہنی غلامی کے خلاف وہ بے پناہ جذبہ تھا کہ اس سے ان کی فطرت اور فن میں طبع زادگی، بے ساختگی اور برجستگی آ گئی تھی اور یہی چیز اُن کو ایک بڑا شاعر اور اہم انسان بناتی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے