غزلیں ۔۔۔ طارق بٹ

تمام کیا وہ سوئے بام ہو گیا

گلیوں میں اک ہجوم سرِ شام ہو گیا

 

کہنا کہ ‘عشق ہے ہمیں’ دُشنام ہو گیا

کیا نیک نام لفظ تھا بدنام ہو گیا

 

ہے کون جو کہ عشق کا بھرتا نہیں ہے دم

ہے کون جو نہ بندۂ بے دام ہو گیا

 

مفہوم لفظِ عشق کا جس تس پہ ہے کھلا

یہ جانیے کہ اس کا تو بس کام ہو گیا

 

یوں ہم سے عشق پیشہ بہت سے ہوئے مگر

نام اُس کا ہی چلا ہے جو گمنام ہو گیا

 

دل کی کشید ہے یہ اسے جس نے بھی پیا

وہ خود بھی اک چھلکتا ہوا جام ہو گیا

 

اس کار و بار زیست سے کیا حاصل و وصول؟

یوں بھی یہ کام یار، بہت عام ہو گیا

٭٭٭

 

 

ہر جوئے تمنا مری ‘دریا’ کے گئی ہے

جو لہر اُٹھی دل سے، غضب ڈھا کے گئی ہے

 

کچھ خواب نئے ڈھب سے ترشوا کے گئی ہے

یہ رت بھی گئی رت ہی سا، ڈہکا کے گئی ہے

 

اس روپ کے منظر سے گئی دھوپ، مگر دیکھ

جو دام، شفق رنگ سا پھیلا کے گئی ہے

 

کل ذکر ترا کرتی رہی بادِ شمالی

آئی تھی اِدھر، پھر مجھے بہلا کے گئی ہے

 

اُس نیم نگاہی میں شرابور پڑا ہوں

دو بوند کوئی چشم جو برسا کے گئی ہے

 

کمھلا نہ سکی یاد کے شاداب دریچے

سو بار خزاں آئی، قسم کھا کے گئی ہے

 

تھی تیز قدم عمرِ رواں، بوجھ تھا بھاری

سو، گردِ سفر سب یہیں دفنا کے گئی ہے

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے