نظمیں ۔۔۔ رؤف خلش

 

چوکھٹے میں بولتی تصویر

____________________

 

خباثت اُس کے چہرے سے

کبھی ظاہر نہیں ہوتی

کھرچ کر پھینک دی کس نے

ہر اک جذبے سے ہے عاری

ہمیشہ مسکراہٹ ایک جیسی

سبھی کو اُس نے ’’میک اپ‘‘ کی طرح

یکسر اُتارا ہے

’’تجارت‘‘ مشغلہ اُس کا

’’مروّت‘‘ اُس کا ایک اوزار

’’محبت‘‘ کو برتتا ہے ’’کرنسی‘‘ جان کر اکثر

بہت ہی گھاک ہے وہ اپنے پیشے میں

نظر آتا ہے کیوں مجھ کو

چوکھٹے میں بولتی تصویر

٭٭٭

 

 

 

ایک نظم

____________________

 

 (ننّھے پوتے سفیان کیلئے)

 

ہمارے گھر میں تمھاری آمد نے

پانچ نسلوں کے سلسلے

برقرار رکھے

زمانہ گذرا

تمھارے اجداد، اپنے ہاتھوں

جو پاسداری، ادب، قناعت

کی ایک بنیاد رکھ گئے تھے

اب اُس پہ کیوں بے مروّتی کی

مہین پرتیں چڑھی ہوئی ہیں

 

مجھے یقیں ہے:

تمھاری آنکھوں کی روشنی

سارے موتیوں کو کھنگال لے گی

قرار آسا تمھاری فطرت

سبھی تلوّن مزاجیوں کو

سنبھال لے گی

مجھے یقیں ہے:

تمھاری یہ  پُرسکوں طبیعت

مکاں کے اس اضطراب کو

پُر سکوں فضاؤں میں

ڈھال لے گی!

٭٭٭

 

 

 

 

رام جی رونے لگے

____________________

 

سادھوؤں، سنتوں کی بیٹھک میں تھا چرچا کا وشئے

کیا وہ کوئی دھرم یدھ تھا، دھرم سنکٹ تھا، یا کیا تھا؟

دُکھ بھری بانی سُنائی دی:

دھرم سنکٹ تھا، نہ کوئی دھرم یدھ تھا

پریم شکشا کا اُچارن ہو رہا تھا

راج نیتی جا کے ٹکرائی

پھر کرودھ اگنی میں کتنے دیش واسی جل مرے

پریم گاتھاؤں کی کتنی پستکیں جلنے لگیں

نیائے انیائے کی باتیں ماننے والے

’’پاپ‘‘ کی گٹھری کو لے کر

’’پُنّ‘‘ کا اُپہار سمجھے

رام جی کے دوار پہنچے تو وہی بانی سنائی دی:

سب شرَدّھا، ساری بھگتی رہنے دو اپنی جگہ

یہ چڑھاوے کی تو سامگری نہیں ہے

 

آگ کی لپٹوں میں ’’تانڈو ناچ‘‘ جاری ہے

شانتی کو بھنگ کر کے

آج میرے دوار کیوں آئے ہو، جاؤ

پریم شکشا کے سبھی پنّے

اُسی اگنی میں جلتے جا رہے ہیں

جاؤ! پھر اک چاہ میں ڈوبے ہوئے ہردے سے

’’پریم اُپنّیاسوں‘‘ کی  تم رچنا  کرو

من ہے ساگر ایسا،

جس کی ’’سیما ریکھا‘‘ ہی نہیں

موہ لو من کو، اسی میں ڈھونڈ لو مکتی

پھر اس کے بعد میرے پاس آنا

اتنا کہہ کر رام جی رونے لگے!!

٭٭٭

 

 

 

 

ہائی ٹیک سٹی کے نام

____________________

 

اُس حویلی کے دالان میں رونقیں

اپنا ڈیرہ جمائے، برسہا برس

جام آسائشوں کے لٹاتی رہیں

پھر بدلتی رُتوں نے

چند لمحوں میں

سب پرانی بہاروں کا مفہوم بدلا

ٹوٹ کر بام و در

فرش پر آ گرے

 

ڈیوڑھیوں میں پنپتے ہوئے

نت نئے خواب کے سلسلوں نے

کچھ نئے تازہ منظر اُگائے

اور بڑھتی ہوئی بھیڑ میں

کچھ فلک بوس ٹاور دکھائی دیئے

لمحہ لمحہ تجسّس کے اعداد

کمپیوٹروں کو سجھائی دیئے

 

راز پردوں سے باہر نکل آئے ہیں

ان دھندلکوں میں مانا

’’پراسراریت‘‘ کا دھندلکا نہیں

کوئی منظر مگر

دیر تک رہنے والا نہیں!!

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے