سفرِ عشق ۔۔۔ طارق محمود مرزا (پانچویں اور آخری قسط)

قسط وار: پانچویں اور آخری قسط

قیامِ مکہ

 

ہر ٹریول ایجنسی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مکہ مکرمہ کے مہنگے ہوٹلوں کا کرایہ کم سے کم دنوں کا ادا کرنا پڑے اور حاجیوں کو عزیزیہ جیسی جگہ رکھ کر پیسے بچائے جائیں۔ ان کے پیکج اور اشتہاروں میں صرف بڑے ہوٹل ہی دکھائے جاتے ہیں۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔

عزیزیہ میں دو راتیں گزارنے کے بعد اگلی صبح بسیں ہمیں لینے کے لیے ہوٹل کے سامنے موجود تھیں۔ ہم نے عزیزیہ میں اپنے ہوٹل اور اس کے سامنے اس پہاڑ پر بھی الوداعی نظر ڈالی۔ یہ سارا علاقہ انتہائی اہم اور تاریخی ہے۔ منیٰ میں جہاں تین شیطانوں کے مجسمے ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کرنا چاہتے تھے۔ شیطان نے ان کو بہت ورغلانے کی بہت کوشش کی کہ اپنے بیٹے کے بجائے دنبے کی قربانی دے دو۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے اس کی بات نہیں مانی تو پھر اس نے حضرت اسماعیلؑ کو بہکانے کی کوشش کی کہ تمہارے باپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ تمہیں ذبح کرنا چاہتا ہے تم اس سے جان چھڑا کر بھاگ جاؤ۔ دونوں پیغمبروں نے شیطان پر لعنت بھیجی اور اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہو گئے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی حضرت اسماعیلؑ کو بچا لیا اور ان دونوں باپ بیٹے کی فرمانبرداری کو اتنا پسند کیا کہ قربانی کی یہ سنت ہمیشہ کے لیے عام کر دی اور ان شیطانوں کو ہمیشہ کے لیے لعنت کا نشانہ بنا دیا۔

منیٰ میں ہمارے دو حاجیوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا اور پولیس آ گئی تھی۔ یہ جگہ جہاں اللہ اور اس کے برگزیدہ پیغمبروں کو مرغوب ہے وہاں شیطان کو بھی پسند ہے۔ وہ بھی اس جگہ پر پھیلانے کی خوب کوشش کرتا ہے۔ ایک طرف توبہ استغفار کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔

گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور مغفرت طلب کی جاتی ہے۔ دوسری طرف شیطان کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ وہ کب یہ چاہتا ہے کہ لوگ گناہوں کی دلدل سے باہر نکل جائیں۔ ان کے دلوں پر گناہوں کی سیاہی کے بجائے ایمان کی روشنی آ جائے۔ جہاں اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کی بارش برساتا ہے اور اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ سے دور لے جاتا ہے وہاں شیطان اپنی محنت کو ضائع ہوتے دیکھ کر بہت سٹپٹاتا ہے۔ وہ انہیں ورغلانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے۔ یہ پورا علاقہ جس میں منیٰ، مزدلفہ، عرفات اور جمرات واقع ہیں یہ سب اللہ اور شیطان کے درمیان کشمکش والے علاقے ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہاں شیطان کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ہے۔ یہاں اللہ نے اس کو بری طرح رسوا کیا ہے اور اپنے بندوں کے لیے رحمتوں برکتوں اور اپنی محبتوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ گناہ گاروں کے گناہ معاف کر کے انہیں اپنے سایہ رحمت میں پناہ دی ہے۔ یہاں آنے والوں اور توبہ استغفار کرنے والوں کو شیطان کے شر سے بچا کر اپنے دامنِ رحمت و عفو میں جگہ دی ہے۔ ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے ہیں۔

آج بھی مکہ جانے والی سٹرکیں اتنی ہی مصروف تھی۔ آج بھی ہر گاڑی کا رخ خانہ کعبہ ہی کی جانب تھا۔ لیکن آج ہمارے اُوپر کوئی دباؤ نہیں تھا۔ جلدی پہنچنے کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی 12 ذو الحج والے دن تھی۔

ہم ہوٹل کے سامنے اُترے تو ظہر کی نماز کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ اس لیے ہم ہوٹل کے بجائے سیدھے خانہ کعبہ کی جانب چل دیے۔ لیکن وہاں پہنچنا اتنا آسان نہیں تھا۔ سڑک لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ حرم کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ راہ میں کھڑے تھے اور کچھ واپس بھی آ رہے تھے۔ ہجوم کی وجہ سے ایک ایک قدم اٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ ابھی ہم راستے میں تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا اور جماعت کھڑی ہو گئی۔ یہ جماعت صرف خانہ کعبہ میں موجود نمازیوں پر مشتمل نہیں تھی بلکہ خانہ کعبہ کے گرد و نواح کی تمام سڑکیں، دکانیں، فٹ پاتھ ہر جگہ نمازی اس جماعت میں شامل تھے۔ امام کی آواز دور دور تک سنائی دے رہی تھی اور نمازی حرم کے امام کے ساتھ ساتھ رکوع و سجود کر رہے تھے۔

سڑک اور فٹ پاتھ دوپہر کی تپتی دھوپ میں آگ کی طرح تپ رہے تھے۔ اس تپتی سڑک اور فٹ پاتھ پر لوگ اس انہماک سے کھڑے تھے جیسے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں اور قالین پر کھڑے ہوں۔ اس وقت اندر اور باہر کے نمازیوں کے انہماک میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اللہ اللہ یہ بھی کیا حسین منظر تھا۔

اگلے کئی دن ہماری نمازیں اسی طرح کبھی حرم کے صحن میں، کبھی راہ میں، کبھی سڑک پر اور کبھی فٹ پاتھ پر ادا ہوئیں۔ اس لیے ہم ہمیشہ وضو کر کے گھر سے نکلتے تھے اور جائے نماز اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ جہاں راستہ بند ہوا اور نماز شروع ہوئی وہیں سے ہماری مسجد شروع ہو جاتی تھی۔

حج کے دنوں میں خانہ کعبہ بلکہ ارد گرد کا سارا علاقہ لوگوں سے بھرا نظر آتا ہے۔ کوئی سڑک، کوئی فٹ پاتھ، کوئی دکان، کوئی کیفے ایسا نہیں تھا جہاں جمگھٹا نہ لگا ہو۔ میں حرم سے ملحق مکہ ٹاور کی دکانوں اور ریستورانوں میں گھومتا رہا۔ وہاں بھی ہر دکان اور کیفے لوگوں سے بھری ہوتی تھی۔ کہیں بیٹھنے کی یا سکون سے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ شاپنگ مال کے اندر بھی کہیں بیٹھنے کی جگہ نظر نہیں آئی۔ دکانوں کے اندر دکاندار اور گاہک دونوں کھڑے نظر آئے۔ ان ہی دکانوں کے درمیان ہمیں گلوریا جین (بین الاقوامی کافی شاپ) نظر آیا۔ وہاں کرسیاں اور میز لگے ہوئے تھے۔ ہمیں سستانے کا ایک ٹھکانہ مل گیا۔ جب نمازوں سے فرصت ہوتی اور کمرے میں جانے کا جی نہ چاہتا تو یہیں آ کر بیٹھتے تھے۔ کئی دفعہ کافی کی طلب نہیں ہوتی تھی لیکن وہاں بیٹھنے کے لالچ میں پینا پڑتی تھی۔ ہم وہاں بیٹھ کر کافی بھی پیتے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے زائرین کو بھی دیکھتے رہتے تھے۔

سعودی عرب میں میرے کالج کے زمانے کے کچھ دوست تھے۔ کالج سے نکلنے کے بعد ہم ایسے بچھڑے کہ پچیس چھبیس برس تک رابطہ نہ ہو سکا۔ حالانکہ کالج کے زمانے میں ہماری دوستیاں ایسی ہوتی تھیں کہ ایک دن بھی الگ رہنا دشوار لگتا تھا۔ زندگی کی دوڑ میں جذبات، رشتے ناتے، دوستیاں، شوق اور محبتیں تک حالات اور واقعات کی نذر ہو جاتی ہیں۔ وقت مرہم بھی ہے اور جراح بھی۔ خود ہی زخم دیتا ہے اور خود ہی اسے سیتا ہے۔ یہ وقت ہی ہے جو محبتوں کی مالا بن کر زندگی کو حسین بناتا ہے۔ جب یہ وقت بدلتا ہے تو اس مالا کا ہر موتی بکھر کر وقت کی گردمیں گم ہو جاتا ہے۔

ایک دوست کے بھائی سے سڈنی میں اچانک ملاقات ہوئی تو اس کے ذریعے دوسروں سے بھی رابطہ ہو گیا۔ جب میں حج پر گیا تو ان دوستوں میں سے ایک ملک محمد اعجاز نے جدہ سے مکہ مکرمہ آ کر ہم سے ملاقات کی۔ دوسرے دوستوں میں سے کچھ بہت دور مقیم تھے اور ایک چھٹیوں پر پاکستان گیا ہوا تھا۔ مکہ سے سب سے قریب ملک اعجاز ہی تھا جو جدہ میں رہائش پذیر ہے۔ ایک صبح ملک اعجاز اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہمارے ہوٹل پہنچ گیا۔ 1987 میں جب ہم ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے تو ہم دونوں کی عمریں چھبیس برس تھیں۔ 2013 میں جب ہماری اگلی ملاقات ہوئی چھبیس مزید برس گزر چکے تھے اور ہم اپنی عمر کی نصف سنچریاں سکور کر چکے تھے۔ چھبیس سال قبل ہم نوجوان تھے مستقبل بنانے کی فکرمیں رہتے تھے۔ اسی سلسلے میں ملک اعجاز وزارت دفاع قطر اور میں وزارت دفاع عمان میں بھرتی ہو کر دو مختلف ملکوں میں چلے گئے۔ میں عمان سے آسٹریلیا آ گیا اور ملک اعجاز چندبرس بعد قطر سے پاکستان اور پھر سعودی عرب چلا گیا جہاں وہ اب بھی مقیم ہے۔ میں پہلی دفعہ بھابھی سے ملا تو بہت متاثر ہوا۔ وہ بہت اچھی خاتون ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے ہاں اولاد نہیں ہے۔ تاہم دونوں میاں بیوی اولاد نہ ہونے کے باوجود خوش رہتے ہیں۔ ملک اعجاز انتہائی ہنس مکھ، خوش اخلاق اور خوش لباس ہے۔ جس محفل میں وہ موجود ہو وہاں کوئی بور نہیں ہوتا۔ چکوال کے علاقے کی مخصوص زبان بولتا ہے جس میں ساری زندگی تبدیلی نہیں آئی۔ جیسا خوش باش وہ کالج کے دنوں میں ہوتا تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ وقت نے اس شخص کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔

ہوٹل کے دروازے پر دیکھتے ہی میں نے اُسے پہچان لیا۔ قدرے فربہ ہونے کے باوجود اس کی شکل و شباہت میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی تھی۔ جب گفتگو ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اس کے کھلبلے پن، شرارت اور حسِ مزاح میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ ویسا ہی ہنس مکھ، یار باش اور دریا دل ملک اعجاز تھا۔ یہ صبح کا وقت تھا۔ ہم نے بھابھی کو اوپر کمرے میں میرے اہلیہ کے پاس پہنچا دیا اور خود ایک اور ہم جماعت سیملنے مکّہ ٹاور کی طرف چل دیے۔

سلیم احمد بھی ہماراہم جماعت اور بہت اچھا دوست تھا۔ ہر وقت مسکرانے والا خاموش طبع سلیم احمد اساتذہ سمیت ہم سب کا پسندیدہ تھا۔ کسی نے اُ سے اونچی آواز میں بولتے نہیں سنا۔ اپنے نام کی طرح سلیم الطبع شخصیت کا مالک سلیم اس وقت سعودیہ میں بہت اچھے کاروبار کا مالک تھا۔ وہ سارا دن سونے سے کھیلتا تھا کیونکہ اس کی سونے کی دُکانیں تھی۔ یہ دکانیں سعودیہ کی سب سے بڑی عمارت اور سب سے مصروف جگہ مکہ ٹاور کے اندر تھیں۔ وہاں سلیم احمد کی ایک دو نہیں بلکہ پانچ دکانیں تھیں جسے وہ خود اور اس کے بھائی سنبھالتے تھے۔

ہماری ملاقات سلیم کے بھائی سے ہوئی۔ اس نے بتایا ’’بھائی گھر گیا ہے۔ میں فون کرتا ہوں ابھی آ جائے گا‘‘

اس نے سلیم کو فون کر کے ہمارے بارے میں بتا دیا۔ میں سلیم کے چھوٹے بھائی کو دیکھ رہا تھا جس نے لمبی داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ سفید داڑھی میں وہ اچھا خاصا بزرگ لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں سلیم احمد پہنچ گیا۔ اس کو پہچاننا مشکل ہوا کیونکہ اس کی داڑھی بھائی سے بھی لمبی اور اس سے زیادہ سفید تھی۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ تمام چھ بھائیوں نے ایسی ہی لمبی اور برف کی طرح سفید داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں۔ میں اس میں پُرانا سلیم احمد تلاش کر رہا تھا جو دِل کش خد و خال کا مالک تھا۔ وہ مسکرایا تو چمکتی آنکھوں اور سفید دانتوں کی وجہ سے وہی پرانا سلیم نظر آیا۔

سلیم کی دکانیں سونے کی زیورات سے بھری ہوئی اور چکا چوند روشنیوں سے آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں۔ اس کے بھائی اور ملازم گاہکوں کو نمٹانے میں مصروف تھے۔ دُکان میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی لہٰذا ہم کافی شاپ میں جا بیٹھے۔ چھبیس سال کے بعد تین دوست ملے تو اتنے لمبے عرصے کی یادوں اور واقعات کا سلسلہ چل نکلا۔ یادوں کا یہ لامتناہی سلسلہ ظہر تک جاری رہا۔ ظہر کی نماز ہم تینوں نے خانہ کعبہ میں اکھٹے ادا کی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے بچھڑے دوستوں کو ملوا دیا تھا۔

ملک اعجاز جدہ سے لمبی ڈرائیو کر کے مجھے ملنے آیا تھا۔ وہ میرے لیے اور میری اہلیہ کے لیے تحفے بھی لایا تھا۔ مکہ میں آ کر بھی کھانے اور چائے کا بل اس نے دیا۔ یہ اس کی بہت پرانی عادت تھی۔ وہ ہمیشہ سے دریا دل اور یار باش واقع ہوا تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں بھی جب ہم نکھٹو تھے تو وہ کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا۔ اس کی یہ عادت اب بھی برقرار تھی۔ اس معاملے میں وہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔

شام کو جب وہ میاں بیوی واپس جانے لگے تو میری آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔ ملک اعجاز بھی رو مال سے اپنی آنکھیں صاف کر رہا تھا۔ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ چند لمحوں کے لیے بجھ سا گیا۔ میں چند دنوں بعد آسٹریلیا واپس جا رہا تھا اور آئندہ ملاقات کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ دو دوستوں کی دوستی میں وقت اور زمانہ اس طرح حائل ہوا تھا کہ ربع صدی گزر گئی تھی۔ ا تنے عرصے بعد آج مختصر سی ملاقات ہوئی مگر ایک بار پھر بچھڑنے کے لئے۔

سوسو جوڑ سنگت دے ویکھے، آخر وِتھاں پیئاں

جنہاں باجوں ایک پل نہیں سی لنگدا، اَج شکلاں یاد نہ رہیاں (میاں محمد)

چھبیس سالوں کے سفر میں ہم جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہو چکے تھے۔ اگلے چھبیس سال کس نے دیکھے تھے۔ یہاں کل کی خبر نہیں ہے۔ زندگی کے پچاس پچپن سال ایسے گزرے تھے جیسے چند لمحے یا زیادہ سے زیادہ چند سال گزرتے ہیں۔ کل تک ہم دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے اور آج اپنی شامِ زندگی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کل تک جن کے بغیرسانس لینا دشوار تھا آج ان کی شکلیں بھی یاد نہیں ہیں۔

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں

لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں (غالب)

 

آخری چند دن

 

اگلے تین دن پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ حجاز مقدس میں آنے کے فوراً بعد ہمارے گلے میں درد کا سلسلہ شروع ہوا جو آخر تک ختم نہیں ہوا۔ حالانکہ ہم نے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں اور دوا کا بھی اہتمام کیا تھا۔ لیکن کسی دوا کا اثر نہیں ہوا۔ گلے کی اس دُکھن کی وجہ سے بخار اور جسم میں درد رہنے لگا تھا حالانکہ اینٹی بائیوٹک دواؤں اور پیناڈول کا استعمال بھی جاری تھا۔ یہ دوائیں ہم آسٹریلیا سے بھی لے کر گئے تھے اور سعودیہ میں کیمسٹ شاپ سے بھی خریدتے رہتے تھے۔ پینا ڈول ہماری روزمرہ کی خوراک بن گئی تھی۔ اس کے بغیربستر سے اٹھنا محال تھا۔ اس دوا نے ہمیں نمازیں پڑھنے کے قابل بنایا ہوا تھا۔ اس کے مضر اثرات بھی مرتب ہو رہے تھے۔ ہماری بھوک بالکل ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ جسم میں نقاہت تھی۔ ہر وقت ٹھنڈ لگتی تھی۔ آخری دنوں میں ہم نے اے سی بھی بند کر دیا تھا۔ اے سی چلتا تھا تو جسم مزید اکڑ جاتا تھا اور اُٹھنا دو بھر ہو جاتا تھا۔ آخری دنوں میں جب ہم الشہداء میں مقیم تھے تو اکثر چوبیس گھنٹے میں ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے۔ حالانکہ یہاں ناشتے اور رات کے کھانے کے لیے ہم نے اضافی رقم ادا کی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمیں ہر کھانے کے ٹوکن دے دیئے تھے۔ ہم ہر کھانے پر ایک ایک ٹوکن ان کو واپس کر دیتے تھے۔

مدینہ منورہ کے رامادا ہوٹل میں بھی کھانے کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی بلکہ افراط ہی افراط تھی۔ لیکن الشہداء میں تو ڈشیں شمار کرنا ہی مشکل تھا۔ وسیع و عریض ریستوان میں ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک رنگا رنگ اور گرما گرم ڈشیں سجی ہوتی تھیں۔ ان میں عربی، ترکی افریقی، ایشیائی، یورپین اور پاکستانی، بنگالی سبھی قسم کے کھانے شامل ہوتے تھے۔ ہم اکثر کھانا کھانے جاتے ہی نہیں تھے۔ اگر جاتے بھی تو ایک آدھ چیز پلیٹ میں رکھ کر بیٹھ جاتے۔ سب لوگوں کی حالت ہماری طرح خراب نہیں تھی۔ ہم نے کچھ احباب کو دل کھول کر کھاتے دیکھا۔ صحت اچھی ہو تو بھوک لگنا لازم ہے۔ صحت کی خرابی نے ہمیں کھانوں کا ذائقہ ہی بھلا دیا تھا۔ کوئی شے بھاتی ہی نہیں تھی۔ تاہم پانی پینے اور چائے نوشی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس کے علاوہ ہم گرم پانی میں شہد ملا کر اکثر استعمال کرتے رہتے تھے۔ اس کی وجہ سے گلے کا درد قابو میں رہتا تھا۔

میرا بھتیجا اے ڈی مرزا اور اس کی اہلیہ بھی مکہ میں تھے۔ وہ ہمیں ملنے ہمارے ہوٹل چلے آئے۔ ان کا ہوٹل خانہ کعبہ سے کافی دور تھا۔ وہ دن میں ایک بار آتے اور جاتے تھے۔ درمیان کا سارا وقت وہ خانہ کعبہ اور اس کے گرد و نواح میں گھوم پھر کر گزارتے تھے۔ انہیں ہمارا ہوٹل اور کمرہ بہت پسند آیا۔ اب وہ اِدھر اُدھر گھومنے کے بجائے فالتو وقت ہمارے ساتھ ہی گزارنے لگے۔ اُن کے آنے سے ہمیں خوشی ہوتی تھی۔

ہمارے پاس ناشتے اور ڈنر کے اضافی ٹوکن موجود تھے۔ لہٰذا ہم ان میاں بیوی کو ایک دن ناشتے پر اور ایک دن ڈنر پر لے گئے۔ اتنی ساری ڈشیں دیکھ کر میرا بھتیجا کہنے لگا ’’آپ لوگ کسی پارٹی میں آئے ہوئے ہیں کیا؟‘‘

ایسا ہی لگتا تھا۔ وہاں کھانے کی اتنی افراط دیکھ کر یہی گمان ہوتا تھا کہ کوئی مہنگی پارٹی ہو رہی ہے۔ اس افراط کو ہم نے کبھی پسند نہیں کیا نہ ہمیں اتنے کھانوں کی ضرورت تھی۔ ہمیں تو تازہ بنا ہوا تھوڑا سا سالن اور ایک روٹی کافی تھی۔ اِس کے علاوہ وہاں جو کچھ بھی تھا ہمارے لیے بے کار تھا۔ در اصل یہ بڑے بڑے ہوٹل دوسرے ہوٹلوں سے مقابلہ بازی کی وجہ سے اس افراط کا مظاہرہ کرتے تھے۔ جسے حاجیوں کی اکثریت پسند نہیں کرتی۔ ہماری نسبت ہمارا بھتیجا اور اس کی اہلیہ جوان اور صحت مند تھے۔ انہوں نے کسی حد تک اس بوفے میں کھانے کا حق ادا کیا۔ ہم انہیں کھاتا دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔ دورانِ حج اس طرح کسی عزیز کا ساتھ مل جائے تو یہ بھی غنیمت ہے۔

اس دوران ہماری طبیعت نے تھوڑی اجازت دی تو ہم نے ایک اور طواف کر لیا۔ یہ طواف بھی اوپر کی منزل سے کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے بھی بہت زیادہ دھکم پیل سے بچنے کے لیے اس لمبے مگر پرسکون طواف کو ہی پسند کیا۔ اس طواف میں میں نے اپنی پسندیدہ دُعا بار بار مانگی۔ یہ دُعا میں نے اسکول کے زمانے میں دعاؤں کی ایک کتاب سے سیکھی تھی۔ یہ دعا مجھے اتنی اچھی لگی کہ پوری دعا میں نے کتاب سے نقل کر لی اور اسے زبانی یاد کرنے لگا۔ اس عربی دعا کا مطلب مجھے کافی حد تک سمجھ آ گیا تھا۔ تاہم اسے پوری طرح سمجھنے کے لیے اور اس کا ترجمہ کرانے کے لیے میں اسے اپنے عربی کے استاد کے پاس لے گیا۔ مولانا ظفر صاحب عربی کے بہت اچھے استاد تھے۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ براہ مہربانی اس دُعا کا اردو ترجمہ لکھ دیں۔ مولانا سمجھے کہ مجھے یہ دُعا کسی اور نے لکھ کر دی ہے جو مولانا کی عربی استعداد کا امتحان لینا چاہتا ہے۔ میں نے ان کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دُعا میں نے مسجد میں رکھی ایک دُعاؤں کی کتاب سے نقل کی ہے۔ یہ مجھے بہت پسند ہے۔ میں اسے یاد کر رہا ہوں اور ا س کو سمجھنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔ مولانا کو میری بات کا یقین آ گیا اور وہیں بیٹھے بیٹھے اس دُعا کے نیچے اس کا ترجمہ لکھ کر دے دیا۔

یہ 1972 کا واقعہ ہے جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ اس وقت سے میں ہر نماز کے بعد، تلاوتِ قرآن کے بعد اور دیگر مواقع پر یہی دُعا مانگتا ہوں۔ اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے بہت ادب کے ساتھ درج ذیل دعائیں یا حاجات مانگی گئی ہیں۔ ایمانِ مستقیم، دائمی فضل، رحمت کی نظر، مکمل عقل، علم نافع، منور دل، احسان کرنے کی توفیق، صبر جمیل، اجرِ عظیم، ذکر کرنے والی زبان، صابر بدن، وسعتِ رزق، شکر کرنے والی زبان، مغفرت، مقبول عمل، نیک اولاد، اچھی صحت، مستجاب الدعوات، جنت الفردوس میں دائمی ٹھکانہ، دوزخ سے نجات، حیا والی آنکھ، والدین کی دُعائیں، نبی پاکﷺ کے روضے کی زیارت اور خانہ کعبہ میں حاضری کی توفیق۔

اس کے اکتالیس برس بعد جب میں خانہ کعبہ میں طواف کر رہا تھا اور مذکورہ دُعا بار بار مانگ رہا تھا تو اچانک میرے اُوپر انکشاف ہوا کہ میرے رب نے تو میری دُعائیں کب کی سن لی ہیں۔ اُنہیں شرف قبولیت بھی عطا کر دیا۔ چالیس بیالیس سال پہلے جب میں نے یہ دعائیں مانگنی شروع کی تھی تو اس وقت مجھے شاید یقین نہیں ہو گا کہ یہ دعائیں قبول ہوں گی یا نہیں۔ لیکن آج میں اس دُعا کے ایک ایک لفظ، ایک ایک سوال اور اپنی ایک ایک حاجت پر غور کر رہا تھا تو میرے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔ سوائے ان کے جن کا مجھے علم نہیں ہے باقی ساریں حاجتیں میرے رب نے میرے سامنے اور میری زندگی میں ہی پوری کر دی تھیں۔ ظاہر ہے روزِ آخرت اور قیامت کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کے علاوہ میں نے جو کچھ ربِّ ذو الجلال سے مانگا تھا وہ مجھے پہلے ہی عنایت کر چکا تھا۔ والدین کی دعائیں، وسعتِ رزق، احسان کرنے والا ہاتھ، نیک اولاد، عقل سلیم، ذکر کرنے والی زبان، نفع دینے والا علم، ایمان کی روشنی، نبی پاکﷺ کے روضے کی زیارت، حج خانہ کعبہ اور وہ سب کچھ جو میں زندگی بھر مانگتا رہا، اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ ان سب سے مجھے نوازتا رہا۔

مجھ اپنے رب سے پوری اُمید ہے کہ جس طرحا س نے میری دوسری تمام حاجات کو پورا کیا ہے اسی طرح وہ مجھے آخرت میں بھی شرمندہ نہیں کرے گا۔ اپنے نیک بندوں کے ساتھ اٹھائے گا اور اپنے پیارے نبیﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے گا۔ اس کے علاوہ بھی میرے رب نے مجھے بہت کچھ عطا کیا تھا جس میں دنیا کی ہر نعمت، گھر کی ہر خوشی، نیک اور وفادار شریک حیات، نیک اور تابعدار اولاد، معاشرے میں با عزت مقام، زبان اور قلم میں اظہار کی طاقت، صحت مند جسم، دین اور دنیا کا علم۔

میں اپنے رب کی کس کس نعمت کو یاد کروں۔

میرے سامنے ان نعمتوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا میں شاید حق دار بھی نہیں تھا۔ لیکن میرے مالک نے مجھے دل کھول کر نوازا تھا۔

اس نے مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے، کسی کا احسان اٹھانے اور کسی کے آگے شرمندہ ہونے سے ہمیشہ بچایا۔

میں تو اسے بھی بھولا ہوا تھا لیکن اس نے مجھے کبھی نہیں بھلایا۔ بلکہ مجھے ساری زندگی نوازتا ہی رہا۔ نوازتا ہی رہا۔

اس انکشاف کے بعد کہ میرے مالک نے میری دعاؤں کو اپنی رحمت و کرم سے منظور اور مقبول فرما لیا ہے بلکہ مجھے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو میں نے اس سے کبھی دل سے اور کبھی بے دلی سے مانگا تھا، میں سر تا پا شکر سے بھر گیا۔

طواف کے باقی چکروں میں میں نے دُعا مانگنا بند کر دی۔ صرف شکر ادا کرتا رہا۔ وہ سامنے بیٹھا دیکھ، سُن اور مسکرا رہا تھا۔ اس سیاہ پوش گھر سے اس کی مسکراہٹ بلند ہونا شروع ہوتی تھی تو آسمانوں تک پھیل جاتی تھی۔ یہ مسکراہٹ ہر سو دکھائی دیتی تھی۔ اُسے اپنے بندوں سے کتنا پیار تھا۔ اس مسکراہٹ میں اس کی شفقت، اس کی محبت اور اس کا کرم پوشیدہ تھا۔ اس مسکراہٹ میں انعام ہی انعام تھا۔ خوشی ہی خوشی تھی۔۔ خوشخبری تھی۔ ایسے رنگ تھے جنہوں نے میری زندگی کو رنگین بنا دیا۔

یہ سچ ہے کہ اس کے کارخانے میں رحمت ہی رحمت اور مغفرت ہی مغفرت ہے۔

وہ توبہ قبول کرنے والا، دُعاؤں کو سننے والا اور نوازنے والا ہے۔

اس کے گھر میں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں ہے۔

اس لیے اس سے مانگتے رہنا چاہیے۔

عاجزی اور انکساری کے ساتھ اس کے در پر صدا بلند کرتے رہیں۔

کسی بھی وقت اس کی رحمت جوش میں آ سکتی ہے۔

بس وہی ہے جو توفیق دیتا ہے۔

ایک لمحے میں انسان کی کایا پلٹ دیتا ہے۔

بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پر لا سکتا ہے۔

یا اللہ میرے قلب کو اپنے نور سے منور فرما دے۔

یا اللہ میرے دل میں اپنا گھر کر دے۔

آمین

ہمارے ساتھی روز کم ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ وہ ساتھی تھے جو براہِ راست مکہ مکرمہ آئے تھے اور حج کے بعد نبی پاک حضرت محمد مصطفیﷺ کے دربار میں حاضری کے لیے مدینہ جا رہے تھے۔ ہم نے اللہ کے فضل سے حج سے پہلے یہ سعادت حاصل کر لی تھی۔ اس لیے ہماری واپسی مکہ مکرمہ سے ہونا تھی۔ مکہ میں چونکہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ نہیں ہے اس لیے ہم مکہ سے جدہ جا رہے تھے جہاں سے براستہ دبئی اسلام آباد جانا تھا۔

حاجیوں کے چہروں پر بشاشت کھل کر نظر آ رہی تھی۔ آغازِ سفر والی سنجیدگی اور فکر اب نظر نہیں آتی تھی۔ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہو کر واپس جا رہے تھے۔ حج جیسا مشکل، طویل اور صبر سآزما فریضہ ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ یہ دُہری خوشی تھی جو ان کے چہروں اور آنکھوں سے عیاں تھی۔ ایک تو فرض کی ادائیگی کی خوشی، حاجی بن جانے کی خوشی اور گھر لوٹنے کی خوشی۔ کئی ہفتوں کی جدائی کے بعد جلد ہی وہ اپنے اپنے گھروں میں اپنے عزیز و اقارب کے درمیان ہوں گے۔ اب ان کے جذبات کی شکل تبدیل ہو گئی تھی۔ آتے ہوئے جن چہروں پر گھمبیر سنجیدگی طاری تھی اب وہاں مسکراہٹیں ناچ رہی تھیں۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے تصور میں مگن تھے۔

حج کے بعد صبح شام حاجیوں کی واپسی جاری تھی۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہتا ہے۔ تاہم آسٹریلیا یورپ اور امریکہ کے حجاج کا قیام اتنا طویل نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرف جانے والی پروازوں میں اتنا رش نہیں ہوتا جتنا پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش جانے والی پروازوں میں ہوتا ہے۔ ان تین ممالک کے حاجیوں کی تعداد ماشاء اللہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ حج کے دوران جدھر نظر دوڑائیں ان تین ممالک کے حاجی ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ مکہ مدینہ حرمین شریفین اور دوسرے مقدس مقامات پر ان تین ممالک کے حاجی سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔

اسی حساب سے ان تین ممالک سے بے شمار پروازیں حاجیوں کو لاتی اور لے جاتی ہیں۔ اَلحمدُ للہ اب لوگوں کے پاس پیسہ بھی خوب آ گیا ہے۔ لہذا ان ان تین ملکوں سے جہاز بھر بھر کر سعودیہ جاتے ہیں۔ جہاں یہ لوگ نہ صرف حج اور عمرہ کرتے ہیں بلکہ جی بھر کر شاپنگ بھی کرتے ہیں۔

 

پچھلی صدی کا حج

 

چند عشرے پہلے یہ صورتِ حال نہیں تھی۔ اس وقت نہ تو لوگوں کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ وہ حج اور عمرہ ادا کر سکیں اور نہ سعودی عرب کی حکومت زیادہ لوگوں کو آنے کی اجازت دیتی تھی۔ تیس چالیس برس قبل کوٹہ سسٹم پر سختی سے عمل ہوتا تھا۔ عازمین سالہا سال تک درخواستیں دیتے رہتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو اجازت ملتی تھی۔ بہت سے لوگ وسائل ہونے کے باوجود کوٹہ سسٹم کی سختی کی وجہ سے حج پر نہیں جا سکتے تھے۔ جن خوش نصیبوں کو اجازت ملتی تھی دُور دُور سے لوگ انہیں مبارک باد دینے آتے تھے۔ اُس دور میں پورے علاقے میں اکّا دکّا حاجی ہوتا تھا۔ لوگ اسے حاجی صاحب کہتے اور اُس کا بے حد احترام کرتے تھے۔ اس کی خوش قسمتی پر رشک کرتے تھے۔ لوگ حاجیوں سے مکے اور مدینے کی باتیں سنتے ہوئے اس طرح ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے جیسے قرآن سن رہے ہوں۔ ان دنوں حج کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ اسّی کی دہائی تک حاجیوں کی اکثریت بحری جہاز کے ذریعے سعودی عرب جاتی تھی۔ حج پر جانے حج کی ادائیگی کرنے اور واپس گھر پہنچنے تک اُنہیں چھ چھ ماہ لگ جاتے تھے۔ کئی لوگ سمندری بیماری کا شکار ہو کر راستے میں ہی لقمہِ اجل بن جاتے تھے۔ ان کی لاشیں سمندر کی نذر کر دی جاتی تھیں۔

مکہ اور مدینہ میں ان دنوں رہائش اور سفر کی اتنی سہولتیں نہیں تھیں۔ اشیائے ضرورت گراں اور ہوٹل بہت کم اور مہنگے تھے۔ لہذا اکثریت خیموں میں رہتی تھی۔ ظاہر ہے گرمی ان دنوں بھی اتنی ہی ہوتی تھی جتنی آج کل ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ اِن دنوں مکہ مدینہ میں ہر چھوٹا بڑا ہوٹل ائر کنڈیشنڈ ہے۔ اُس دور میں خیمے ہوتے تھے جن میں ائیر کنڈیشنر تو درکنار پنکھا بھی نہیں ہوتا تھا۔

اُس دور میں عازمینِ حج اشیائے خوردونوش اپنے ہمراہ لے کر جاتے تھے۔ وہ نہ صرف آٹا لے کر جاتے تھے بلکہ روٹی پکانے کے لئے توا اور چولہا بھی ان کے سامان کا حصہ ہوتا تھا۔ لمبے سفر میں وہ جہاں قیام کرتے، شامیانے نصب کرتے، چولہے جلاتے، کھانا پکاتے اور کھاتے تھے۔

بزرگ بتاتے ہیں کہ ساٹھ ستر برس قبل متعدد عازمینِ حج سفری صعوبتیں برداشت نہیں کر پاتے تھے اور راستے میں یادورانِ حج ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے تھے۔ وہ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے تھے جو نہ صرف طویل اور جاں گسل مسافت بلکہ حجاز مقدس کی سختیوں کو برداشت کر لیتے تھے اور بخیریت گھر کو لوٹتے تھے۔ اُس دور میں سفر حج پر روانہ ہونے سے پہلے عازمینِ حج اپنے عزیز واقارب اور دوست احباب سے بخشوا کر نکلتے تھے۔ وہ اپنی جائیدادا ورجمع پونجی ورثاء کے حوالے کر کے اور وصیت لکھ کر سفر کا آغاز کرتے تھے۔ کیونکہ ان دنوں اس سفر سے زندہ سلامت لوٹنا معجزے سے کم نہیں ہوتا تھا۔

اس سے بھی تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو بیسویں صدی کے شروع کے عشروں میں عازمینِ حج پیدل اور اُونٹ بردار قافلوں کے ذریعے سرزمینِ عرب جایا کرتے تھے۔ اونٹوں پر سامان لدا ہوتا تھا اور لوگ کبھی پیدل اور کبھی اونٹ پر سوار ہو کر سفر کرتے تھے۔ ان دنوں حج پر آنے اور جانے میں سالوں لگ جاتے تھے۔ ان دنوں سفر کے ذرائع تو ناپید تھے ہی ذرائع رسل و رسائل بھی عنقا تھے۔ جب تک حاجی دو تین سال بعد گھر لوٹ کر نہیں آتا تھا اس دوران گھر والوں کو اس کی کوئی خبر نہیں ہوتی تھی۔ انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ زندہ بھی ہے یانہیں۔

جب قافلہ واپس آتا تھا تو تب علم ہوتا تھا کہ کون زندہ لوٹ کر آیا ہے اور کون اس سفر میں کام آ گیا۔

کچھ لوگ سفر کی صعوبتوں کا شکار ہو جاتے تھے اور کچھ راہزنوں کی بھینٹ چڑھ جاتے تھے۔ یہ راہزنی سرزمین عرب پر عام تھی۔ کیونکہ عرب کے بدّوؤں میں جہالت، غربت اور لاقانونیت عام تھی۔ یہ وہ دور تھا جب عرب دنیا میں بھوک اور بے روزگاری تھی۔ بہت سے عرب مزدوری کرنے ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں جاتے تھے۔ حاجیوں اور زائرین کے قافلوں کو لوٹنا اور انہیں قتل کر دینا عام سی بات تھی۔ مکہ اور مدینہ میں بھکاریوں کی بھرمار ہوتی تھی۔ مقامی لوگ کام کم کرتے تھے۔ زیادہ تر لوٹ مار کرتے تھے یا پھر بھیک مانگتے تھے۔ اس وقت ہندوستان کی مسلم ریاستیں مثلاً حیدرآباد دکن وغیرہ ان عربوں کی مدد کرتی رہتی تھیں۔ عرب مزدوروں کی زیادہ تعداد انہی ریاستوں میں مزدوری کرنے آتی تھی۔ ان میں سے بہت سے یہیں رچ بس گئے۔ ان کی نسلیں اب ہندوستانی ہیں۔

1950 کی دہائی میں عرب ملکوں میں تیل نکلنے کے بعد تبدیلی آنا شروع ہوئی جو اسّی کی دہائی میں عروج پر پہنچ گئی۔ اب وہ دوبارہ مائل بہ زوال ہیں۔ دیکھتے ہیں مستقبل میں عربوں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ سب تیل پر منحصر ہے۔

 

مکہ ٹاور

 

طبیعت کی ناسازی کے باوجود ہم اپنی نمازیں خانہ کعبہ میں ہی ادا کر رہے تھے۔ صرف چند نمازیں ہوٹل کی مسجد میں ادا ہوئیں۔ اگر کسی دن خانہ کعبہ میں نہیں پہنچ سکتے تھے تو اپنے ہوٹل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی جماعت میں شامل ہو جاتے تھے۔ دوسرے بے شمار لوگ جو خانہ کعبہ کے ارد گرد رہتے تھے وہ بھی یہی کرتے تھے۔

امام کعبہ کی آواز بذریعہ لاؤڈ اسپیکر دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ لوگ جہاں موجود ہوتے ہیں وہیں خشوع خضوع کے ساتھ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ حرم شریف سے ملحق کئی ہوٹل ایسے ہیں جہاں آپ ہوٹل کے اندر رہ کر بھی خانہ کعبہ کی نماز میں شامل ہو سکتے ہیں۔ گویا کہ ہوٹل کو خانہ کعبہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس طرح کی ایک عمارت کا نام مکہ ٹاور ہے۔

نمازوں کے وقفے کے دوران میں اکثر مکہ ٹاور میں چلا جاتا تھا۔ البرج البیت کے نام سے یہ دنیا کی چوتھی بڑی عمارت ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہونے کے علاوہ یہ دیگر کئی ریکارڈز کی بھی حامل ہے۔ اس کی اونچائی چھے سو دس میٹر ہے اور اس میں 95 منزلیں ہیں۔ اس عمارت کے اوپر ٹاور (مینار) دنیا کا سب سے بلند ٹاور ہے۔ البرج البیت میں سات ٹاور شانہ بشانہ ایستادہ ہیں۔ اس عمارت میں ایک لاکھ سے زائد لوگ رہائش پذیر ہیں یا کاروبار کرتے ہیں۔ اس عمارت کے بلند ترین ٹاور پر دنیا کا سب سے بڑا کلاک نصب ہے۔ اس کلاک کا قطر 40 میٹر ہے جو بِگ بین (Big been) سے چھ گنا بڑا ہے۔ ٹاور یامینار کے اوپر نصب چاند چوبیس قیراط سونے کا بنا ہوا ہے۔ یہ سونا منوں کے حساب سے ہے۔ دنیا کے اس بلند ترین مینار کے اندر بھی نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین نظارہ گاہ ہے۔ اس اونچے گھڑیال میں مختلف رنگوں کی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کلاک کو اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مینار کے اوپر نصب طلائی چاند کی روشنیاں آٹھ کلومیٹر بلند ہو کر آسمان کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اس مینار میں کل اکیس ہزار برقی لیمپ (Lights) نصب ہیں۔

سعودی عرب کے فرمانروا عبد اللہ بن عزیز کی سرپرستی میں یہ عجوبہ روزگار عمارت محض چھ برس کی ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اسے بنانے اور ڈیزائن کرنے والے انجینئر سبھی مسلمان تھے کیونکہ مکہ مکرمہ میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔

ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کی مالیت سے تعمیر ہونے والی اس عدیم المثال عمارت، گھڑیال، مینار اور سونے کے چاند سے، جہاں سعودی فرمانرواؤں کی بے پناہ دولت و ثروت کا اظہار ہوتا ہے وہاں مسلمانوں کی فن تعمیر سے رغبت اور مہارت کا ثبوت بھی ملتا ہے۔

یہ عمارت فن تعمیر کا ایسا نمونہ ہے جس نے ثابت کر دیا ہے کہ امت مسلمہ میں ایسے نابالغہ روزگار انجینئر اور معمار موجود ہیں جن پر پوری امت فخر کر سکتی ہے۔ اگر حالات اور مواقع میسر ہوں تو قوم اپنی کیا نہیں کر سکتی۔

ذرانم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیر ہے ساقی

البرج البیت، بیت اللہ سے ملحق تعمیر کیا گیا ہے۔ یوں یہ دنیا کا سب سے بڑا مینار، دنیا کا سب سے بڑا کلاک اور دنیا کی سب سے بڑی عمارت، کرہ ارض کی سب سے مقدس عمارت کے ساتھ کھڑا ہے۔

 

بیت اللہ کی تاریخ

 

اللہ کا یہ گھر اتنا بڑا، اتنا عظیم اور اتنا متبرک ہے کہ ہر کلمہ گو کے دل میں بستا ہے۔ ہر مسلمان دن میں کئی مرتبہ اس گھر کا نام لیتا ہے اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے۔ اللہ کا یہ گھر حجم اور جسامت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے روحانی تقدس اور مرکز اسلام ہونے کی وجہ سے عظیم ہے۔

اس سیاہ پوش گھر کی عجیب تاثیر اور کشش ہے۔ اس کے اندر سے جیسے نورسا پھوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کی طرف دیکھتے رہیں تو دل و دماغ کی عجیب کیفیت ہونے لگتی ہے۔ ایک برقی رو سی اس عمارت کے اندر سے نکلتی اور آپ کے دل و دماغ میں اترتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ کوئی عام دنیاوی عمارت نہیں ہے بلکہ کرہ ارض پر اللہ کے حکم سے فرشتوں کی مدد سے تعمیر ہونے والا پہلا خانہ خدا ہے۔

جی ہاں بیت اللہ کی سب سے پہلی تعمیر فرشتوں نے کی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ سے پہلے اس کے وجود کی تصدیق اس طرح سے ہوتی ہے۔ امام بخاریؒ نے حضرت عباسؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ حضرت حاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو چھوڑ کر چلتے چلتے اس مقام پر رُکے جہاں سے حضرت حاجرہ اور حضرت اسماعیل آپ کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ آپ نے بیت اللہ کا رخ کیا اور اللہ سے یہ دعا مانگی ’’اے ہمارے رب میں اپنی اولاد میں سے بعض کو ایک بے زراعت میدان میں تیرے محترم گھر کے پاس آباد کر رہا ہوں‘‘ (سورۃ ابراہیم 3)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے یہ دعا اس وقت مانگی جب آپ نے حضرت اسماعیلؑ اور ان کی والدہ کو مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ چکے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیت اللہ کا وجود حضرت ابراہیمؑ سے پہلے موجود تھا۔ ہو سکتا ہے عمارت کا ڈھانچہ منہدم ہو چکا ہو لیکن بنیادیں موجود تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بعد والوں نے خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو انہی بنیادوں پر کی۔

زید بن ہارون کہتے ہیں میں اس وقت موجود تھا جب حضرت عبد اللہ بن زبیر نے بیت اللہ کی عمارت کو منہدم کیا اور اسے ازسرنو تعمیر کرتے ہوئے حطیم کو اس میں شامل کر لیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بنیادیں اُبھری شکل کے پتھر تھے جیسے اونٹ کی کوہان۔ ان بنیادوں کی مضبوطی کا اندازہ اس تحقیق سے بھی ہوتا ہے جو 1417 ہجری میں کئی گئی۔ شاہ فہد بن عبدالعزیز نے جب اس کی بنیادوں کی کھدائی کروائی تو خانہ کعبہ کی بنیادوں کے پتھر کسی سیمنٹ اور مسالے کے بغیر نہایت مضبوطی سے اس میں جڑے ہوئے تھے۔ ان کی ظاہری شکل اونٹ کے کوہان کی سی ہے۔ 1417 ہجری میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا کام چھ ماہ میں مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر بن لادن کمپنی نے کی۔ بنیادیں اگرچہ وہی ہیں البتہ انہیں مضبوط کر دیا گیا ہے۔ پتھروں کے درمیان نیا مسالہ لگایا گیا ہے۔ دونوں چھتوں کو از سر نو تعمیر کر کے تینوں ستونوں کو نئی لکڑی سے بنایا گیا۔

بیت اللہ کی بنیادوں کی پائیداری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ حضرت ابراہیمؑ کے زمانے سے ہی حساب لگایا جائے تواس کی تعمیر کو چار ہزار سال ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے کے حالات اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں۔ اس طویل تاریخی دور میں ان بنیادوں نے نہ جانے کتنے طوفانوں اور سیلابوں کا سامنا کیا ہو گا لیکن آج بھی وہ اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ کعبۃ اللہ آج بھی پوری شان سے قائم ودائم ہے۔ یہ بے شک اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے۔ ورنہ زمانے کے دست وبرد سے محفوظ سے محفوظ عمارتیں بھی خاک ہو کر خاک میں مل جاتی ہیں۔

 

الوداعی خاموشی

 

جیسے جیسے جدائی کا وقت قریب آ رہا تھا ویسے ویسے دل غم کے سمندر میں ڈوبتا جاتا تھا۔ آغاز میں اس سیاہ پوش گھر میں اتنی زیادہ کشش محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھی۔ اب تو نفل نمازیں اور قرآن کی تلاوت بھی چھوٹ گئی تھی۔ میں جب بھی فرائض سے فارغ ہوتا تھا تو کسی گوشے میں بیٹھ کر ٹکٹکی لگا کر اس گھر کو دیکھتا رہتا تھا۔ بعض اوقات اسے دیکھنے میں اتنا منہمک ہوتا کہ گھنٹوں گزر جاتے۔ دل پھر بھی نہیں بھرتا تھا۔ اللہ کے گھر میں کچھ ایسی کشش تھی کہ اسے دیکھے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ اب جب کہ ہمارے درمیان فاصلے حائل ہو گئے ہیں تو بھی یہ اسی طرح اپنی طرف بلاتا رہتا ہے۔

خانہ کعبہ میں انسان کبھی بے کیف نہیں ہوتا۔ اللہ کے گھر کی اپنی کشش ہوتی ہے۔ زائرین اور عقیدت مندوں کا میلہ الگ سجا ہوتا ہے۔ اس میں مختلف رنگ ونسل کے حامل، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف لباسوں میں ملبوس ہر نوع کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ ایک چیز ان سب میں یکساں ہوتی ہے وہ ہے عقیدت اور محبت۔ وہ سب اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں سے ان کی آنکھوں سے اور ان کے انداز سے ان کی محبت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ زائرین خانہ کعبہ کو دیکھتے ہیں تو ایک روحانی مسرت ان کے چہروں پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے رب کے حضور دعائیں مانگتے ہیں۔ گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور دوزخ سے نجات مانگتے ہیں۔ لوگوں کے جذبات کھلی کتاب کی طرح پڑھے جا سکتے ہیں۔ میں گھنٹوں یہ کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔

مجھے ان لوگوں پر رشک آتا تھا جو اللہ سے اس طرح مانگتے تھے کہ ابھی لے کر ہی اٹھیں گے۔ یقین اور ایمان ان کے چہروں پر نقش ہوتا تھا۔ یہ یقین اور یہ ایمان اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ کتنا بڑا تحفہ ہے۔ مجھ جیسے گناہ گار جو ہر چیز کو شک کی نظر سے سائنسی توجیہہ سے اور منطق سے پرکھنے کے عادی ہوتے ہیں کبھی اتنے پختہ یقین اور ایمان کے حامل نہیں ہو سکتے۔ ہم کتابوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ اپنے ہی من کو پڑھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ساری زندگی یقین اور بے یقینی کی درمیانی کیفیت میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ ہم سائنسی فارمولوں کو تو مانتے ہیں لیکن اس کے ماننے میں تساہل اور تاخیر سے کام لیتے ہیں جس نے انسان کا دماغ اور یہ سائنس بنائی ہے۔ اگر مانتے بھی ہیں تو اس میں وہ یقین وہ شدت اور وہ گہرائی نہیں ہوتی جو ایک کم پڑھے لکھے سائنس سے نابلد اور کتابوں سے دُور رہنے والے شخص میں ہوتی ہے۔

کاش کہ یہ شدت اور یہ گہرائی مجھے نصیب ہو جائے۔ میں گہرے پانی میں اپنا قدم رکھوں تو میرا توکل اور میرا ایمان نہ ڈگمگائے۔

اے میرے مالک اپنے کرم سے میرے دل کی یہ ڈگمگاہٹ دور کر دے۔ یا اللہ اس میں اپنے پختہ ایمان کی روشنی بھر دے۔ جو تو اپنے نیک اور صالح بندوں کے دل میں بھرتا ہے۔ اے دو جہانوں کے مالک میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تیرا ہو جاؤں۔ صرف تیرا۔ اپنے اور میرے بیچ کے سارے فاصلے مٹا دے۔ مجھے اپنے قریب کر لے۔ بہت قریب۔

مکہ مکرمہ واپس آنے کے بعد ہم نے ایک دفعہ طواف کیا تھا۔ اگلے تین چار دن نیچے والے فلور پر بے پناہ رش اور اوپر والے فلور کے طویل المسافت طواف کے لیے خرابی صحت آڑے آ رہی تھی۔ مسلسل بخار، بدن کا درد، بھوک کی کمی، کمزوری اور ٹھنڈ نے ہمیں نڈھال کیا ہوا تھا۔ پیناڈول نے اس حد تک سہارا دیا ہوا تھا کہ خانہ کعبہ میں نماز یں ادا کر رہے تھے۔

واپسی سے ایک روز قبل بعد نماز عصر میں اپنے معلم امام کویتی سے ملا۔ میں نے ان سے دریافت کیا ’’امام صاحب میری اور اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے۔ تاہم ہم نمازوں کے لیے خانہ کعبہ حاضری دے رہے ہیں۔ مگر پچھلے تین دن سے طواف نہیں کر سکے۔ عزیزیہ سے واپس آنے کے بعد ہم نے ایک طواف کیا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں اس کو طوافِ وداع قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟‘‘

کویتی صاحب شرعی مسئلہ بتا کر جان چھڑانے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ ہر وہ بات بتاتے تھے جو ہمیں اللہ سے قریب لے جا سکے۔ کہنے لگے ’’دیکھئے الحمد للہ آپ کا حج مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد ایک اضافی طواف بھی ہو گیا۔ اب آپ کسی بھی وقت رخصت ہو سکتے ہیں۔ آپ پر کوئی ذمہ داری باقی نہیں ہے۔ لیکن جاتے ہوئے اسے مل کر نہیں جاؤ گے جس کے لیے اتنا لمبا سفر کیا ہے۔ پھر نہ جانے زندگی میں یہ موقع ملے یا نہ ملے۔ اس رات سے فائدہ اٹھائیں اور جانے سے پہلے ایک اور طواف کر لیں۔ اس سے الوداعی ملاقات کر لیں۔ اپنی اور اپنے خاندان کی صحت و سلامتی اور بہتری کی دعا مانگیں۔ جہاں تک آپ کی خرابی صحت کا تعلق ہے میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں وہ آپ کو کچھ نہیں ہونے دے گا۔ آپ جس سے ملنے جائیں گے وہی آپ کا خیال رکھے گا۔‘‘

میں نے دیکھا کہ کویتی صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیے۔ میں ان کے گلے لگ گیا ’’بہت شکریہ امام صاحب! ہم یہ طواف ضرور کریں گے۔ آپ ہمارے لیے دُعا کریں‘‘

امام صاحب نے میری پشت پر تھپکی دی اور سلام دے کر رخصت ہو گئے۔

اسی رات بعد نماز عشاء ہم نے طواف کی نیت کی۔ اس دفعہ بھی نیچے والی منزل پر خانہ کعبہ سے ملحق حصے پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ وہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ اس لیے ہم حسب سابق سب سے اوپر والی منزل پر جا پہنچے۔ وہاں بھی رش کم نہیں تھا۔ تاہم اس میں گنجائش موجود تھی۔ رات کے اس پہر موسم بھی قدرے معتدل تھا۔ ہم نے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا بلکہ آب زم زم پی کر ہی گزارا ہو رہا تھا۔

سعودی عرب کی شدید گرمی میں پسینے کے مسلسل اخراج کی وجہ سے جسم میں پانی کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔ حرمین شریفین میں آب زم زم کی وافر اور مسلسل دستیابی کی وجہ سے زائرین کو بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اس شدید گرمی میں اگر وہاں پانی کی کمی ہو تو نہ جانے کتنے لوگ موت کا شکار ہو جائیں۔ آب زم زم نہ صرف لاکھوں لوگوں کی زندگی بچاتا ہے بلکہ ان کی صحت بھی بحال رکھتا ہے۔

اسی آب زم زم کے سہارے اور اللہ کی مدد کے سہارے ہم نے تین گھنٹے میں طواف وداع مکمل کر لیا۔ دوران طواف رب تعالیٰ سے اپنی، اپنے بچوں، اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کی خیریت و عافیت اور دین و دنیا کی بھلائی کی دعا مانگتا رہا۔ جن جن اصحاب نے دُعا کے لیے کہا تھامیں نے ان سب کا نام لے کر اللہ رب ذوالجلال سے ان کے لیے دعائے عافیت مانگی۔ اپنے وطن کی امن و ترقی کی، اپنے ہم وطنوں کے سکون، اتفاق و محبت اور خوشحالی کی دُعا مانگی۔

طواف کے بعد آدھی رات کے وقت ہم ہوٹل کی جانب روانہ ہوئے تو بیت اللہ میں طواف کرنے والوں اور عبادت کرنے والوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا دن میں ہوتا تھا۔ خصوصاً زمینی حصے (گراؤنڈ فلور) میں ذرا بھی کمی نہیں ہوئی تھی۔

در اصل بعض لوگ یہ سوچ کر رات کے اس حصے کا انتخاب کرتے ہیں کہ اس وقت طواف کرنے والوں کا ہجوم کم ہو گا۔ مگر دوسرے بہت سے لوگوں نے بھی یہی سوچا ہوتا ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ خانہ کعبہ میں کس وقت ہجوم کم ہوتا ہے۔ اللہ کے اس گھر میں چوبیس گھنٹے عبادت گزاروں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہاں دن اور رات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ رات بھر لوگ اسی طرح آتے رہتے ہیں جیسے دن میں آتے ہیں۔ بیت اللہ کی خوبصورت روشنیوں نے ویسے بھی دن کا سماں پیدا کر رکھا ہوتا ہے۔ صفائی والا عملہ دن رات مصروف رہتا ہے۔ سیکورٹی والے چوبیس گھنٹے ہوشیاری سے اپنے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں۔

عبادت کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ وہاں آرام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ ٹولیاں بنا کر بیٹھے اور مصروفِ گفتگو ہوتے ہیں۔ خانہ خدا ہر شخص کو اپنی آغوشِ میں سمیٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ملتا ہے۔

خانہ کعبہ سے باہر سڑک پر بھی لوگوں کی کمی نہیں تھی۔ وہاں بھی دن کا ہی سماں تھا۔ لوگ گھوم پھر رہے تھے۔ کھا پی رہے تھے۔ ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ گویا پورے علاقے میں خوب چہل پہل تھی۔ کنگ عبدالعزیز روڈجس پر ہمارا ہوٹل واقع تھا وہاں اکثر دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ رات کے اس وقت بھی دکانوں میں گاہکوں کی کمی نہیں تھی۔ ہم ان کے بیچ میں سے گزرتے الشہداء پہنچ گئے۔ لفٹ کے زریعے کمرے میں پہنچے تو ہمارے پاس آرام کے لیے صرف تین گھنٹے باقی تھے۔ اس کے بعد تہجد کی نماز، پھر فجر اور پھر کوچ تھا۔

تین گھنٹے بعد الارم بجا تو ہم بلا تاخیر اٹھ گئے۔ حجازِ مقدس میں اللہ کی ایسی مدد شامل حال تھی کہ نیند یا سستی اس کے در پر حاضری کے آڑے نہیں آتی تھی۔ پہلے دن جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تھے اور چند گھنٹوں کے آرام کے بعد صبح تین بجے تیار ہو کر مسجد نبویﷺ میں حاضر ہوئے تھے اُس دن سے آج اس مقدس سرزمین پر آخری رات تک اللہ کے گھر کا بلاوا نیند، سستی حتیٰ کہ بیماری پر بھی غالب رہا۔ گھر میں میری آنکھ اتنی آسانی سے نہیں کھلتی۔ لیکن حرمین شریفین کی سحرخیزی میں ایک لطف اور سرور ہے۔ اس کی وجہ سے ایک لمحے کی تاخیر بھی ناگوار گزرتی ہے۔

علی الصبح برقی قمقموں کی روشنی میں کنگ عبدالعزیز روڈ جیسے خنک چاندنی میں نہایا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی بادِ صبا جسم و جاں کو معطر کر رہی تھی۔ اوس میں بھیگی فضا، آخری پہر کا سناٹا، جس میں درجنوں لوگ خاموشی سے سوئے کعبہ رواں دواں تھے۔ عجیب خوابناک ماحول تھا۔

چھوٹے چھوٹے خاموش قافلے ہر سمت اور ہر دروازے سے حرم پاک میں داخل ہو رہے تھے۔

آج نہ جانے خاموشی کا راج کیوں تھا۔

حتیٰ کہ حرم پاک کے اندر ہزاروں لاکھوں لوگ بھی خاموش تھے۔

سب دم سادھے چپ چاپ بیٹھے تھے۔

میں نے سر اٹھا کر سیاہ پوش گھر کو دیکھا۔

وہاں بھی خاموشی تھی۔

الوداعی خاموشی۔

اداس کر دینے والی خاموشی۔

بچھڑنے کی خاموشی۔

یہ خاموشی دور تک میرے اندر بھی پھیل گئی۔

نماز کے بعد دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو زبان نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ وہ بھی خاموش تھی۔ اس دن میں صرف ایک ہی دعا مانگنا چاہتا تھا کہ جہاں کہیں بھی ہوں لوٹ کر یہیں آؤں۔ میرا دل صدائیں دے رہا تھا لیکن زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ بڑی مشکل کے بعد میری زبان سے لفظ ادا ہونے شروع ہوئے۔

اے میرے مالک مجھے ہمیشہ اپنا قرب عطا کرنا۔

ہمیشہ اپنی شفقت اپنے کرم اور اپنی محبت کا سایہ میرے سر پر قائم رکھنا۔

یا اللہ میرا ہاتھ تھامے رکھنا۔ میری رہنمائی کرتے رہنا۔

یا اللہ مجھے اس راستے پر گامزن رکھنا جو تمہیں پسند ہو۔

اے میرے مالک اس راستے سے دور رکھنا جس پر چلنے والے تیرے معتوب ہوئے۔

یارب مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل کرنا۔ اے دو جہانوں کے مالک اپنے اور میرے حبیب حضرت محمدﷺ کی شفاعت نصیب فرمانا۔

یا اللہ مجھے اپنے پیارے نبیﷺ کے سامنے شرمندہ نہ ہونے دینا۔

اے ربّ ذو الجلال میری اور میرے خاندان کی حفاظت کرنا۔ میرے بچوں کو دین کے راستے پر چلانا۔

انہیں دین اور دنیا کی کامیابیاں عطا کرنا۔

انہیں اپنے در پر حاضری کی توفیق اور ہمت عطا کرنا۔

اے میرے مالک میری عبادتوں میری نمازوں اور میرے حج کو قبول کرنا۔

یا اللہ میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور ادھوری دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کرنا۔

یا اللہ میری دُعا قبول فرما۔ یا اللہ میری دُعا قبول فرما۔ یا اللہ میری دُعا قبول فرما۔

کافی دیر تک میں گڑگڑاتا رہا۔ اس دوران میری زبان سے لفظ کم اور آنکھوں سے اشک زیادہ جاری تھے۔ ان اشکوں کو روکنا بہت مشکل تھا۔ ہر وقت جیسے پلکوں پر اٹکے ہوئے تھے۔ اِدھر رب کا تصور ذہن میں آتا اُدھر یہ بارش کی طرح برسنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب بہنا شروع کرتے تو رکنے کا نام نہیں لیتے۔

اتنے بڑے دربار میں ایک ادنیٰ شخص آنسوؤں کے علاوہ اور کیا نذرانہ دے سکتا ہے۔ اس کے پاس اظہار کا دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہوتا۔ رہ

سہ کر آنسو رہ جاتے ہیں۔ کاش ان اشکوں کو زباں مل جائے۔ کاش یہ میراحالِ دل بیان کر سکیں۔ کاش یہ اس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکیں۔

نماز کے بعد میں نے سیاہ پوش گھر پر الوداعی نظر ڈالی اور بھاری قدموں اور بھاری دل کے ساتھ واپس ہوٹل چل دیا۔

 

سفرِ واپسی

 

راستے میں ٹی سٹال سے ہم نے چائے کا ایک ایک کپ لیا۔ کمرے میں آ کر ایک دو بسکٹ کھائے اور روانگی کے لیے تیار ہو گئے۔ ہمارا سامان رات سے ہی بندھا رکھا تھا۔ فوری استعمال والی چند اشیاء سمیٹ کر بیگ میں ڈالیں۔ کمرے میں الوداعی نظر دوڑائی اور سامان لے کر باہر نکل آئے۔

الشہداء کی وسیع و عریض خوبصورت لابی جو اکثر مہمانوں سے آباد نظر آتی ہے وہاں کچھ لوگ گروپوں کی شکل میں موجود تھے۔ ایک خالی گوشہ دیکھ کر ہم نے سامان رکھا اور صوفوں پر بیٹھ گئے۔ اس وقت صبح کے سات بجے تھے جبکہ آٹھ بجے ہماری جدہ کے لیے رواںگی تھی۔ جہاں سے دبئی کے لیے ہماری پرواز سہ پہر چار بجے تھی۔

حاجیوں کو اسی طرح سات آٹھ گھنٹے قبل ایئر پورٹ پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس میں سے کچھ وقت مکہ مکرمہ سے جدہ کے سفر میں گزرتا ہے بقیہ کاغذی کاروائی کرنے میں کام آتا ہے۔ سب سے اہم کام متعلقہ محکمے سے اپنا پاسپورٹ وصول کرنا ہوتا ہے۔ جب تک مسافر کو پاسپورٹ نہیں ملتا اور اس کا بورڈنگ کارڈ اس کے ہاتھ میں نہیں آ جاتا اسے سکون نہیں ملتا۔ کیونکہ تیس لاکھ حاجیوں کے ہوتے ہوئے کچھ بھی انہونی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم جیسے بین الاقوامی مسافروں کا پاسپورٹ کھو جائے تو بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ اضافی ادا کیے ہوئے ٹیکس ایئر پورٹ پر ہی واپس کیے جاتے ہیں۔ بورڈنگ کارڈ کا حصول اور چیک اِن کا مرحلہ بھی جدہ میں آسان اور سیدھا نہیں ہوتا۔ جدہ ایئر پورٹ ان دنوں بے انتہا مصروف ہوتا ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر حاجیوں کو آٹھ گھنٹے قبل ایئرپورٹ پہنچایا جاتا ہے۔ یا کم از کم ہوٹل سے فارغ کر کے روانہ کر دیا جاتا ہے۔ اس کی قسمت اچھی ہو تو ڈرائیور وقت پر ایئرپورٹ پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر قسمت خراب ہو تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایئر پورٹ کے لیے اتنا پہلے روانہ ہونے کی کچھ اور بھی وجوہات ہیں جو سفر کی تفصیل پڑھ کر آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔

ہم لابی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ لبیک کا مالک ہمیں الوداع کہنے کے لیے آ گیا۔ وہ ہر حاجی کو رخصت کرنے خود آتا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے کہا ’’آپ اوپر جا کر ناشتہ کر لیں۔ ابھی آپ کی بس جانے میں کچھ وقت ہے‘‘

میں نے اہلیہ کی طرف دیکھا تو اس نے اشارہ کیا اس کا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ میرا دل اس سے بھی زیادہ کھانے سے اُچاٹ تھا۔ لہٰذا میں نے جواب دیا ’’آپ کا شکریہ! ہمیں اس وقت کھانے کی طلب نہیں ہے‘‘

اس نے کہا ’’جیسے آپ کی مرضی! آپ کو آب زمزم کی ایک بوتل ہماری طرف سے دی جائے گی۔ ہمارے لوگ آپ کو بس کے اڈے پر اتار کر آئیں گے۔ بس کا بندوبست ہم نے کیا ہوا ہے‘‘

وہ رخصت ہوئے تو ہمارے گروپ کے مزید تین جوڑے ہوٹل کی لابی میں آ گئے۔ ان میں جاوید صاحب بھی شامل تھے جو سڈنی واپس جا رہے تھے۔ باقی دوستوں میں ایک جوڑا لاہور اور دوسرا ملبورن جا رہا تھا جبکہ ہماری منزل اسلام آباد تھی۔ ان سب کا تعلق آسٹریلیا سے تھا۔ تقریباً ساڑھے آٹھ بجے دو کاروں میں بٹھا کر ہمیں لاری اڈے پہنچا دیا گیا۔ وہاں بہت سی بسیں موجود تھیں۔ ہمیں ایک بس ڈرائیور کے حوالے کرنے کے بعد ہمارا مینجر لوٹ گیا۔

بس ڈرائیور نے ہماری طرف توجہ ہی نہیں دی۔ وہ وہاں موجود دوسرے ڈرائیوروں سے بات چیت میں مصروف رہا۔ یہ ڈرائیور خالص بدو تھا۔ اس نے قندورہ پہن رکھا تھا جو بے حد میلا اور گندا تھا۔ چپلوں میں سے اس کے کھردرے اور گندے پاؤں جھانک رہے تھے۔ لگتا تھا صدیوں سے یہ پاؤں دھوئے نہیں گئے اور جوتوں سے بھی بے نیاز رہے ہیں۔ اس کے دانت میل خوردہ اور چہرے پر خشخشی سی داڑھی تھی۔ عربی کے علاوہ وہ کسی اور زبان کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتا تھا۔ جبکہ ہم مسافروں میں سے کسی کو بھی عربی نہیں آتی تھی۔

گھنٹہ ڈیڑھ تو اس ڈرائیور نے ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے یا ہم اس کی بس کے مسافر ہی نہیں ہیں۔ اس دوران آٹھ دس مزید سواریاں ہمارے ساتھ آ شامل ہوئیں۔ ان کا تعلق کسی دوسرے گروپ سے تھا۔

یہ ایک ویران سا بس اڈہ تھا۔ جس کے سامنے بڑے بڑے خشک پہاڑ اور چٹیل علاقہ تھا۔ قرب و جوار میں کوئی آبادی نہیں تھی۔ بس اڈے پر ایک انتظار گاہ اور ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا۔ ہم لوگ انتظار گاہ کے بجائے اپنی بس کے پاس ہی اپنے اپنے سوٹ کیسوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔

تقریباً ساڑھے دس بجے ہمارا سامان بس پر چڑھا دیا گیا۔ بعض مسافر بھی اپنی اپنی سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ لیکن بس چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وہ تو شکر ہے بس کا انجن اور ایئر کنڈیشنر آن تھا ورنہ اس کھلے اور چٹیل میدان میں دھوپ اور گرمی عروج پر تھی۔ سبزہ یا درخت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی تھی۔ بس پتھر تھے جو اس دھوپ میں چمک رہے تھے۔

ہمارے سوٹ کیس بس کی چھت پر رکھے ہوئے تھے۔ وہاں موجود دو عربوں نے اس کام میں ڈرائیور کی مدد کی تھی۔ میں نے نوٹ کیا کہ انہوں نے سوٹ کیس اوپر جا کر رکھ دیے ہیں لیکن کسی رسی وغیرہ سے باندھا نہیں ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو ایک صاحب کہنے لگے ’’شاید چلتے وقت ڈرائیور انہیں رسی سے باندھے گا‘‘

اس وقت بارہ بج چکے تھے جب ہماری بس اپنی جگہ سے ہلی۔ یوں اس اڈے پر ہم نے تین گھنٹے سے زائد انتظار کیا تھا۔ ڈرائیور نے اُوپر جا کر سامان نہیں باندھا تھا۔ بس کے اندر بھی کافی جگہ اور سیٹیں خالی تھیں۔ لیکن ہم نے اپنا سامان پہلے ہی اوپر رکھ چکے تھے۔ متوقع رش کے پیش نظر میں نے اپنا چھوٹا بیگ بھی اوپر رکھوا دیا تھا جس میں نقدی اور دوسری قیمتی اشیاء تھیں۔ اب مجھے اس کی فکر ہونے لگی۔ میں نے ڈرائیور سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن زبان آڑے آ گئی۔ اسے انگریزی اور اردو بالکل نہیں آتی تھی جبکہ میری ٹوٹی پھوٹی عربی بھی اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ ناچار ہم خاموش ہو گئے۔ ہم نے سوچا کہ آخر وہ پیشہ ور بس ڈرائیور ہے۔ سامان کیسے باندھنا ہے اور گاڑی کیسے چلانی ہے، وہ ہم سے بہتر جانتا ہو گا۔ لیکن یہ ہماری غلط فہمی تھی۔ وہ شخص عقل اور پیشہ ورانہ مہارت ہر پہلو سے عاری تھا۔ مسافروں سے اُس نے سلام دعا تک نہیں کی تھی۔ وہ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھا اور خود عقل سے پیدل تھا۔

وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ عین موٹر وے پر جہاں بس کی رفتار سو کلو میٹر سے زائد تھی گڑگڑاہٹ سی سنائی دی۔ کسی سواری نے سامان گرتے دیکھ لیا تو اس نے شور مچایا۔ ڈرائیور متوجہ ہوا تو اس نے آہستہ آہستہ گاڑی کی رفتار کم کرنے کی کوشش کی۔ رفتار کم ہوتے ہوتے اور رُکنے کے لیے مناسب جگہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بس کئی کلومیٹر آگے نکل آئی۔ ڈرائیور نے بھی بیک ویو مرر سے کچھ گرتا دیکھا تھا۔ اس موٹر وے پر گاڑیوں کی حد رفتار اتنی زیادہ ہے کہ پیچھے آنے والی گاڑیوں کو اس سامان کی وجہ سے حادثہ بھی پیش آ سکتا تھا۔

ڈرائیور کو اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ پہلی دفعہ پریشان نظر آیا۔ ہم ڈرائیور سے اور اس مسافر سے پوچھ رہے تھے کہ کتنے سوٹ کیس گرے ہیں۔ لیکن کسی کو صحیح علم نہیں تھا۔

سعودی عرب میں ٹریفک سڑک کے دائیں طرف چلتی ہے۔ جس سڑک پر ہم سفر کر رہے تھے اس کے دائیں جانب کافی گہرا اور پتھریلا علاقہ تھا۔ سڑک کا فی اونچائی پر تھی۔ اگر سوٹ کیس سڑک پر گرے تھے تو وہ حادثے کا باعث بن سکتے تھے۔ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے گاڑی کو بھی نقصان پہنچ سکتا تھا اور سوٹ کیس بھی ٹوٹ کر بکھر سکتے تھے۔ اگر وہ سڑک سے باہر گہرائی میں جا کر گرے تھے تو انہیں ڈھونڈنا تقریباً نا ممکن تھا۔

ادھر ڈرائیور بس کے پیچھے کھڑا آنے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے اشارے کی مدد سے گرے ہوئے سامان کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ ڈرائیور کی اشارہ بازی کے جواب میں ایک کار آ رکی۔ اس میں دو مقامی نوجوان سوار تھے۔ انہوں نے ڈرائیور کو کچھ بتایا۔ میں جلدی سے اس کے پاس گیا اور ان سے پوچھا۔ وہ انگریزی سمجھتے تھے۔ انہوں نے بتایا ’’آپ کی بس سے گرا ہوا ایک سوٹ کیس سڑک پر پڑا تھا۔ ہم نے اسے اٹھا کر سٹرک کے کنارے رکھ دیا ہے اور پولیس کو فون کر کے بتا دیا ہے‘‘

میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’آپ ہمارے ڈرائیور کو بتا سکتے ہیں کہ اِسے کس پولیس اسٹیشن میں جانا چاہیے۔‘‘

انہوں نے ڈرائیور کو سمجھایا اور چلے گئے۔

ہم دوبارہ بس میں بیٹھے اور ڈرائیور نے بس چلا دی۔ میں نے پھر اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس کا لہجہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ لہٰذا ہم اس کے رحم و کرم پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ بس بدستور جدے کی طرف دوڑتی جا رہی تھی جبکہ ہم میں سے ایک یا زائد کا سامان پیچھے رہ گیا تھا۔ پندرہ بیس کلومیٹر کے بعد موٹر وے سے نکلنے کا پہلا راستہ نظر آیا تو ڈرائیور نے وہ ایگزٹ لے لیا۔ باہر نکل کر اس نے یو ٹرن لیا اور واپس اسی موٹر وے پر مکہ کی جانب گامزن ہو گیا۔ اس وقت تک ہم تقریباً ایک گھنٹے سے زائد ڈرائیو کر چکے تھے۔ میرے حساب سے ہم جدہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ لیکن اب پھر دور جا رہے تھے۔ اس وقت تک ڈیڑھ بج چکا تھا۔ اب ان حالات میں خطرہ تھا کہ ہم بر وقت ایئرپورٹ نہیں پہنچ پائیں گے۔ یہ حج فلائٹ تھی جس کے لیے گھنٹوں پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔

ہم تو آٹھ گھنٹے پہلے ہوٹل سے نکل آئے تھے لیکن ایسے ڈرائیور کے ہتھے چڑھ گئے تھے جو اپنی ہی دھُن میں مگن تھا۔ اسے احساس ہی نہیں تھا کہ تاخیر کی صورت میں ان مسافروں کو کتنی بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔ حج کے دنوں میں آپ کی فلائٹ چھوٹ جائے تو پھر دوسری فلائٹ آسانی سے نہیں ملتی۔ کیونکہ لاکھوں لوگ پہلے ہی انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہی فکر ہم سب کو کھائے جا رہی تھی کہ اب کیا ہو گا۔

تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ڈرائیور نے ایک پولیس اسٹیشن کے باہر بس روکی۔ بھلا ہو پولیس والوں کا وہ فوراً باہر نکل آئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ایک ہی سوٹ کیس ملا ہے۔ پولیس والوں کے کہنے پر ہم نے بس کی چھت پر چڑھ کر اپنا اپنا سامان چیک کیا۔ میں نے اس وقت خدا کا شکر ادا کیا جب دیکھا کہ ہمارے تینوں سوٹ کیس وہیں موجود تھے۔ میں نے اہم کاغذات والا چھوٹا سوٹ کیس نیچے اتار لیا۔

پولیس والے اندر سے جو سوٹ کیس لائے وہ جاوید صاحب کا تھا۔ یہ کافی بڑا اور بھاری سوٹ کیس تھا۔ خوش قسمتی سے گرنے کے باوجود ٹوٹ پھوٹ سے بچ گیا تھا اور بدستور مقفل تھا۔ پولیس نے وہ سوٹ کیس ہمارے حوالے کیا۔ اس دفعہ ڈرائیور نے سامان کے اوپر ایک جال سا بچھایا اور پھر رسی بھی پھیر دی۔ یہی کام وہ شروع میں کر لیتا تو اتنی پریشانی نہ اٹھانی پڑتی اور نہ ہی اتنی تاخیر ہوتی۔

اب ہم دوبارہ جدّہ کی طرف محو سفر تھے۔ اس دفعہ راستے میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا لیکن جدہ پہنچ کر ڈرائیور ایئر پورٹ کا راستہ بھول گیا۔ وہ کسی سے پوچھ رہا تھا اور نہ کسی کو بتا رہا تھا۔ بس گاڑی بے مقصد شہر میں گھما رہا تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ ہماری بس ایک مقام سے دو دفعہ گزر چکی ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو وہ بھی فکر مند ہو گئے۔ ہمیں گڑ بڑ کا احساس ہو چکا تھا۔ دوسرے ساتھی بھی چوکنا ہو گئے۔ ڈرائیور کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ حسبِ سابق کسی بات کا جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آخر ایک پٹرول پمپ پر اس نے بس روک دی اور ایئر پورٹ کا راستہ معلوم کرنے کے لیے آفس کے اندر چلا گیا۔

تمام مسافر حیران و پریشان بیٹھے تھے۔ اڑھائی بج چکے تھے۔ ہماری فلائٹ کی روانگی میں صرف ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ ابھی تک ہم ایئرپورٹ ہی ڈھونڈ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے ڈرائیور واپس آیا اور واپس اسی راستے پر بس موڑ لی جدھر سے آئے تھے۔ اس دفعہ ہم سب بھی باہر دیکھ رہے تھے۔ آگے چل کر ائیر پورٹ کا سائن نظر آیا تو ہم نے ڈرائیور کو متوجہ کیا۔ اس نے بروقت گاڑی اس طرف موڑ لی ورنہ وہ آگے نکلا ہی جا رہا تھا۔

اتنی دیر میں ایک ساتھی نے اپنے موبائل پر جدہ کا نقشہ کھول لیا۔ وہ ڈرائیور کے پاس جا بیٹھا اور اس کی رہنمائی کرنے لگا۔ ان صاحب کی رہنمائی میں ہم ایئرپورٹ تو پہنچ گئے لیکن وہ اندرون ملک والی پروازوں کا ائیر پورٹ تھا۔

ایک دفعہ پھر ہماری بس سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ پانچ دس منٹ بعد ہمیں بین الاقوامی ہوائی اڈہ نظر آیا تو مسافروں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس وقت پونے تین بج چکے تھے۔ ایئرپورٹ کی عمارت کے سامنے ایک مخصوص زاویے پر بسیں پارک کرنا پڑتی ہیں۔ ہمارا ڈرائیور کافی دیر تک کوشش کرتا رہا لیکن ان مخصوص نشانوں کے اندر پارک نہ کر سکا۔ تھک ہار کر اس نے درمیان میں ہی بس روک لی اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا سامان چھت سے اتارا اور نیچے اتر کر ڈرائیور کا انتظار کرنے لگے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے پاسپورٹ ڈرائیور نے ہی لے کر دینے تھے۔ آج ہمارا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں تھا۔

جب وہ باہر نکلا تو ہم نے اسے ائیرپورٹ کے اندر چلنے کے لیے کہا۔ لیکن اس کے پاس وہی جواب تھا جو صبح سے سنتے آئے تھے ’’انامافی معلوم۔ انا مافی معلوم۔ (مجھے علم نہیں ہے۔ مجھے علم نہیں ہے) ۔ ہم تقریباً دھکیلتے ہوئے اُسے اندر لے گئے۔ وہاں پاسپورٹ حاصل کرنے والا کاوئنٹر بھی ہم نے ہی ڈھونڈا۔ انہوں نے یہ پاسپورٹ ڈرائیور کو دیے اور اس سے دستخط لینے لگے۔ اس دوران ہم نے یہ پاسپورٹ اپنے ہاتھ میں لیے اور ساتھیوں کے درمیان تقسیم کر دیے۔ پاسپورٹ ہاتھ میں آتے ہی ہم نے دوڑ لگا دی۔ اُدھر ڈرائیور بخشش بخشش کہتا ہوا ہمارے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ لیکن کسی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ سب تیر کی طرح چیک اِن کاؤنٹر پر جا کر رُکے۔

لیکن یہ ساری بھاگ دوڑ بیکار گئی۔ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ ہماری فلائٹ کا کاؤنٹر بند ہو چکا تھا۔

حالانکہ پرواز میں ایک گھنٹہ ابھی باقی تھا۔ دنیا کے مختلف ایئر پورٹ پر بین الاقوامی فلائٹ کا کاؤنٹر بند ہونے کے مختلف اوقات مقرر ہیں۔ بیشتر فضائی کمپنیوں کے کاؤنٹر ایک گھنٹہ پہلے بند ہو جاتے ہیں۔ لیکن میں نے ایسے ایئر پورٹ بھی دیکھے ہیں جہاں پندرہ منٹ پہلے بھی بورڈنگ کارڈ ایشو کر دیا گیا۔ سعودی عرب جیسے ملک میں ہم بحث نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی کوئی دباؤ ڈال سکتے تھے۔ لہٰذا ہم اُسی طرح قطار بنا کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑے رہے۔ حالانکہ عملے کے دونوں افراد نے جواب دے دیا تھا۔ انہوں نے صاف بتا دیا تھا کہ اس فلائٹ کی سروس بند ہو چکی ہے۔ اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ آپ لوگ کسی دوسری فلائٹ میں سیٹیں بک کرا لیں۔ یہ کہہ کر وہ کاؤنٹر سے بھی ہٹ گئے تھے۔

ہماری مایوسی اور پریشانی اس وقت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ہم نے اپنا ہوٹل چھوڑ دیا تھا اور مکہ سے جدہ آ گئے تھے۔ اس فلائٹ نے ہمیں دبئی پہچانا تھا جہاں سے ہمیں اگلی فلائٹ پکڑنا تھی۔ سب ساتھیوں نے مختلف پروازوں کے ذریعے مختلف جگہوں پر جانا تھا۔ جہاں ہمارے عزیز و اقارب انتظار کر رہے تھے۔ مگر ہم تو جدہ میں ہی پھنس گئے تھے۔ یہاں سے متبادل فلائٹ ملنا بہت مشکل تھا۔ کیونکہ ہر فلائٹ مہینوں پہلے پوری طرح بک ہو چکی ہوتی ہے۔ پھر ہماری اگلی فلائٹ کا بھی مسئلہ تھا۔ اس کی بھی نئے سرے سے بکنگ کروانا پڑتی۔ غلطی بہرحال ہماری تھی کیونکہ ہم بر وقت ائیر پورٹ نہیں پہنچ پائے تھے۔

اگر ہم اس پرواز سے نہ جا سکے تو پھر کون سی پرواز سے جائیں گے؟

اس دوران ہم کہاں ٹھہریں گے؟

کیا ہمیں دوبارہ ٹکٹ خریدنا پڑیں گے؟

یہاں ہمارے گروپ والے بھی ہماری مدد کو موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آج صبح ہمیں فارغ کر دیا تھا۔ ہمارے ذہنوں میں یہی سوالات گردش کر رہے تھے۔ بلکہ ہم سب کے چہروں پر بھی تحریر تھے۔

اتنی دیر میں مقامی لباس میں دو عربی آئے۔ وہ ہماری قطار کو نظر انداز کر کے سیدھے کاؤنٹر پر جا دھمکے۔ ان کے ہاتھ میں ٹکٹ اور پاسپورٹ تھے۔ انہیں دیکھ کر عملے کے دونوں آدمی واپس آ گئے۔ ان کی گفتگو شروع ہوئی جو ظاہر ہے ہمیں پوری طرح سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بار بار دبئی کا ذکر ہو رہا تھا اور گھڑی دکھائی جا رہی تھی۔ دوسری طرف عملے کے لوگ اپنی گھڑیاں دکھا رہے تھے اور ان کے گھڑے جیسے سر نفی میں ہِل رہے تھے۔

دو تین منٹ کی بحث کے بعد عملے کے ان آدمیوں نے ان عربیوں سے پاسپورٹ اور ٹکٹ لے لیے۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے ہاتھ میں بورڈنگ کارڈ تھما دیے گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہم چار خاندانوں کے پاسپورٹ بھی پکڑ لیے۔ اگلے چند منٹوں میں ہمارے بورڈنگ کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھے اور ہم امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بھاگے چلے جا رہے تھے۔

عملے کے وہ دونوں آدمی ہمیں جانوروں کی طرح ہانک رہے تھے اور جلدی جلدی کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے جو دس پندرہ منٹ ضائع کیے تھے اس کا انہیں احساس نہیں تھا۔ وہ ہمیں ایسے ہانک رہے تھے جیسے کوئی جانوروں کو ہانکتا ہے۔ کیا خوب کسٹمرسروس ہے ہمارے عربی بھائیوں کی۔ وہ بین الاقوامی مسافروں کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر اپنے زیرِ کفالت مزدوروں کی طرح ہانک رہے تھے۔

امیگریشن ہال میں جانے سے پہلے ہم نے فارم بھرے اور کاؤنٹر پر جا کھڑے ہوئے۔ یہ فارم ہال کے دروازے پر رکھے ہوئے تھے۔ سیکورٹی کے عملے اور امیگریشن والوں کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ وہ معمول کے مطابق بال کی کھال اتار رہے تھے۔ میرے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو اتنی جلدی تھی کہ کوئی پیچھے مڑ کر دیکھنے کا بھی روا دار نہیں تھا۔

جب میرا نمبر آیا تو معلوم ہوا کہ میں نے غلط فارم بھر دیا ہے۔ اس دوران میرے سارے ساتھی امیگریشن کے مراحل سے نکل کر جہاز کی طرف بڑھ گئے۔ میں نے امیگریشن والوں سے دوسرا فارم مانگا تو وہ ان کے پاس نہیں تھا۔ لہٰذا میں امیگریشن ہال کے داخلی دروازے کے باہر گیا اور نیا فارم لے کر آیا۔ فارم بھر کر پھر نئے سرے سے قطار میں کھڑا ہونا پڑا۔ اتنی دیر میں میرا اور میری اہلیہ کا نام پکارا جانے لگا۔ اعلان تھا کہ آپ کی فلائٹ روانگی کے لیے تیار ہے آپ جلد از جلد گیٹ نمبر بارہ پر پہنچیں۔

میں نے ہاتھ بلند کر کے عملے کو بتایا کہ یہ ہم ہیں۔ اس دفعہ انہوں نے پاسپورٹ لیے اور فوری کاروائی شروع کر دی۔ اگلے چند منٹ میں ہمیں جہاز پر پہنچا دیا گیا۔ جونہی ہم اندر پہنچے دروازے بند کر دیے گئے۔ ہم جہاز میں سوار ہونے والے سب سے آخری مسافر تھے۔

سعودی ایئر لائن کے جہاز کی سیٹ پر بیٹھے تو یوں لگا کہ لمبی میراتھن ریس کے بعد منزل پر پہنچے ہوں۔ پچھلے کئی گھنٹے بلکہ یہ پورا دن ایسا گزرا تھا کہ اس کے بارے میں سوچ کر آج بھی پسینہ آ جاتا ہے۔ ہم انتہا درجے کی جسمانی اور ذہنی مشقت بلکہ اذیت سے گزرے تھے۔ صرف اس وجہ سے کہ ہمیں نا تجربہ کار، جاہل اجڈ ڈرائیور کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس شخص کو یہ کام سونپنے سے پہلے ذرا بھی نہیں سوچا گیا کہ اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کو تکلیف اور پریشانی اُٹھانا پڑ سکتی ہے۔

اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا (اگرچہ ایسا ہونے کے امکانات ہی نہیں ہیں) تو اس کی شکایت بہت دور تک جاتی اور اس کے ذمہ دار تمام لوگوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔

اگر پاکستان میں بھی ہوتا تو کسی نہ کسی کو شکایت کی جا سکتی تھی یا میڈیا میں خبر آ سکتی تھی۔ لیکن سعودی عرب جیسے ملک میں یہ سب چلتا ہے۔ وہاں سب سے نرالا لیکن ان کا اپنا انداز حکمرانی ہے۔ جس میں کسی کی کوئی شنوائی نہیں ہے۔ ہمارے بس میں محض ایک چیز تھی جو وہاں پر ہر روز سکھائی جاتی تھی وہ ہے صبر۔ سو ہم بھی صبر کے گھونٹ پی کر وطن لوٹ آئے۔

حجاز مقدس اور خصوصاً حرمین شریفین میں جتنی خیر و برکت اور روح کی بالیدگی حاصل ہوئی اس کے عوض میں ہم نے ان تمام لوگوں کو دل سے معاف کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو معاف کرے جن کے ہاتھوں مجھے یا دیگر لوگوں کو تکلیف پہنچی۔ اللہ تعالیٰ ان کو آسانیاں فراہم کرنے کی توفیق عطا کرے۔

جہاز کی آرام دہ سیٹ بہت آرام اور سکون دے رہی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شدید جسمانی اور ذہنی تھکن کے بعد سکون کا سانس لینے کا موقع ملا تھا۔ جب سر پر سے فکر اور پریشانی کا بوجھ کم ہوا تو احساس ہوا کہ ہم کتنے تھک چکے ہیں۔ پچھلی رات ہم صرف دو اڑھائی گھنٹے سوئے تھے۔ اُوپر سے دن کا ایک ایک لمحہ پریشانی، فکر اور تشویش میں گزرا تھا۔ اس فکر اور پریشانی میں ہمیں خیال ہی نہیں آیا کہ کل رات سے لے کر آج شام تک ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بھاگ دوڑ میں بھوک پیاس حتیٰ کہ اپنی بیماری کو بھی بھولے ہوئے تھے۔

تاہم اب کچھ سکون ملا تو بھوک اور پیاس محسوس ہونے لگی۔ جسم کا درد بھی یاد آنے گا اور گلے کی تکلیف بھی ستانے لگی۔ یہ سچ ہے کہ بڑی مصیبت میں انسان چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو بھول جاتا ہے۔ ہم بھی فلائٹ چھُٹ جانے کی بڑی فکر میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے بھوک پیاس اور دکھ درد سب بھولے ہوئے تھے۔ اب فلائٹ مل گئی اور اس کی آرام دہ سیٹ پر بیٹھ کر وہ چھوٹے مسائل یاد آ گئے تھے۔ بھوک چمک اٹھی تھی۔

ایسا بہت دنوں بعد ہوا تھا۔ پچھلے کئی دنوں سے یا تو ہم نے کھانا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اگر دن میں ایک آدھ مرتبہ کھاتے بھی تھے تو بہت بے دلی اور بے رغبتی سے نوالہ حلق سے نیچے اترتا تھا۔ مگر آج اتنے دنوں بعد سعودیہ ایئرلائن میں ملنے والے پلاؤ اچھا لگ رہا تھا۔ ہم نے رغبت سے کھایا۔ یہ سلسلہ اگلی پرواز میں بھی جاری رہا۔ میری طبیعت بحال ہونے لگی تھی۔

جدہ ایئر پورٹ پر میرے ساتھیوں نے ایسی پھرتیاں دکھائیں کہ ہم بار بار ان سے پیچھے اور اکیلے رہ جاتے تھے۔ سب پر افراتفری کا عالم طاری تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں تھے۔ امیگریشن کے کاؤنٹر پر جب ہمیں روک لیا گیا تو انہوں نے اندر جاتے ہوئے ہمدردی بھری نظر ڈالی اور پردے کے پیچھے غائب ہو گئے۔ جہاز میں جا کر ہم پھر شیر و شکر ہو گئے۔ سب باری باری ہماری سیٹ پر آ کر ہماری خیریت دریافت کرتے رہے۔ دبئی ایئر پورٹ پر اُتر کر پھر وہی منظر دہرایا گیا۔ ایئر پورٹ کے طول عرض میں ساتھی اس طرح گم ہوئے کہ جاتے ہوئے خدا حافظ بھی نہیں کہا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ سفر میں بننے والی دوستیاں (چاہے یہ سفر کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو) سفر ختم ہوتے ہی ایسے ختم ہوتی ہیں جیسے ریت میں بنے گھروندے تیز ہوا سے اُڑ جاتے ہیں۔

اتنے عرصے بعد ائیر ہوسٹس کو پورے میک اپ کے ساتھ بنا سنورا دیکھا تو عجیب سا لگا۔ در اصل دورانِ حج کوئی مرد یا عورت نہیں ہوتا، عازمینِ حج ہوتے ہیں یا پھر حاجی۔ کوئی کسی کو دوسری نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ حالانکہ دورانِ طواف، قیام مزدلفہ اور دوسری جگہوں پر مرد اور عورتیں اکٹھے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی مرد یا عورت کے ذہن میں جنسِ مخالف کے بارے میں کوئی غلط خیال بھی آ جائے۔

لیکن جہاز میں بیٹھتے ہی جیسے شیطان آزاد ہو گیا تھا۔ تنگ لباس میں ملبوس ایئر ہوسٹس، اس کا شوخ میک اپ، اس کا انداز دلبرانہ، مردوں کی ستائشی نظریں، سعودی مردوں کا اس سے مذاق اور باقی مسافروں کا دبے دبے مسکرانا، یہ سب عجیب لگ رہا تھا۔ لیکن کیا سب کے لیے ایسا کہا جا سکتا ہے۔ شاید نہیں۔ کسی کے دل کا حال دوسرا کیسے جان سکتا ہے۔ پھر یہ تو اس دُنیا کے مسافر تھے جس کے بارے میں جاننا اور بھی مشکل ہے۔

یہ شہرطلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے

پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے کہ ابلیس

 

دبئی ائرپورٹ

 

سعودیہ ایئر لائن میں جس دنیا کی ایک جھلک نظر آئی تھی دبئی ایئرپورٹ پر اس کے جلوے عام تھے۔ دبئی ائیر پورٹ کئی دُنیاؤں کا سنگم ہے۔ وہاں حاجیوں کے قافلے بھی اُترتے ہیں اور یورپین سیاح بھی نظر آتے ہیں۔ وہاں شلوار قمیض اور دھوتی کرتا پہنے پاکستانی اور بنگالی مزدور بھی نظر آتے ہیں تو شارٹ اسکرٹ میں ملبوس یورپی اور امریکی خواتین بھی اپنے بدن کی نمائش کر رہی ہوتی ہیں۔ عربی قندورے بھی نظر آتے ہیں اور افریقی لباس کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہاں برقع پوش خواتین بھی ہوتی ہیں اور بھارت اور پاکستان کی الٹرا ماڈرن خواتین بھی اپنے لباس اور جسم کی چکا چوند دکھا رہی ہوتی ہیں۔ ایک طرف معمولی لباس پہنے مزدور نظر آتے ہیں تو دوسری طرف پچاس پچاس افراد کی معیت میں پاکستانی سیاستدان اور ان کے خاندان بھی شاپنگ کے لیے دبئی آتے جاتے رہتے ہیں۔

دبئی ایئر پورٹ پر انتہائی مہنگی اشیاء پر مشتمل دکانیں اور بین الاقوامی کھانوں کے ریستوران موجود ہیں۔ ان کے کھانوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ کئی کیفے ایسے ہیں جن میں کافی کا ایک کپ دس ڈالر کا ہے۔ چمکتے دمکتے سونے کے زیورات، جدید ترین فیشن کے ملبوسات، دنیا کے مہنگے ترین عطریات (پرفیوم) مہنگی شرابیں، سگریٹ، چمڑے کی مصنوعات، فن پارے، تحائف (گفٹ شاپ) کی دکانیں اور وہ ہر چیز برائے فروخت ہے، جو تصور میں آ سکتی ہے۔

ان کے علاوہ کھانے پینے کے لیے ہر قسم کے ریستوران جگہ جگہ موجود ہیں۔ ان میں دنیا بھر کے کھانے ملتے ہیں۔ ان کی قیمت سن کر ایک دفعہ تو بھوک اڑ جاتی ہے۔ لیکن یہ دبئی ہے جو دنیا بھر کے چور اچکوں، رشوت خوروں، کرپٹ اور ناجائز کمانے والوں کی جنت ہے۔ ان کی حرام کی کمائی، ان کی یہ جنت غریبوں اور مزدوروں کے لیے دوزخ سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ ایک طرف اگر کوئی پچاس ڈالر کا لنچ کھا کر مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا باہر نکلتا ہے تو دوسری طرف مزدور بینچ پر بیٹھے گھر کا بنا انڈا پراٹھا کھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔

کچھ مسجد سے نماز پڑھ کر آ رہے ہوتے ہیں اور کچھ مے خانے اور جوئے خانے میں گھسے ہوتے ہیں۔

کچھ لوگ قیمتی تحائف خرید رہے ہوتے ہیں کچھ ان تحائف والوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

ایئر پورٹ کے ایک حصے میں دو بنچوں پر چند پاکستانی اور ہندوستانی مزدور بیٹھے غالباً اپنی فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے حلیے اور انداز سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بڑے شہروں سے دور کسی ایسی جگہ مزدوری کرتے ہیں جہاں صنفِ نازک کا گزر بہت کم ہوتا ہے۔ وہ ہر مسافر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔ لیکن کسی ماڈرن یا فیشن زدہ عورت کو دیکھتے تو جیسے ان کی باچھیں کھل جاتیں اور دیدے کھلے کے کھلے رہ جاتے۔ جیسے یہ منظر انہوں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔

اتنے میں برٹش ائیر ویز کی ایئرہوسٹس اپنے چست لباس، مختصر ترین سکرٹ، برہنہ ٹانگوں اور اونچی ایڑی والی جوتی کے ساتھ ایک طرف سے نمودار ہوئی۔ اپنے دراز قد، سنہرے بالوں اور بدن کو نمایاں کرنے والے لباس کے ساتھ وہ ان دیہاتیوں پر جیسے بجلی بن کر گر پڑی۔ وہ سانس تک لینا بھول گئے تھے۔ آنکھوں کے ساتھ ساتھ ان کے منہ بھی کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔ جیسے جیسے وہ ان کے قریب آتی جا رہی تھی ویسے ویسے ان کا فشارِ خون بلند ہوتا جا رہا تھا۔ ائیر ہوسٹس اونچی ایڑی والی جوتی سے ٹک ٹک کرتی گویا ان کے دل پر وار کرتی ان کے پاس سے گزر گئی۔ اس کے ہر قدم سے مزدوروں کے دل بھی دھک دھک کر رہے تھے۔ جونہی وہ ان کے پاس سے گزری تو اس کی ہیجان انگیزی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مزدور پہلے سے بھی زیادہ بے چین دکھائی دینے لگے۔ ایسے لگتا تھا کہ ان میں سے ایک آدھ کا دل ضرور بیٹھ جائے گا۔ ان کی نظریں اس پر اس وقت تک گڑی رہیں جب تک وہ ایک موڑ پر جا کر نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔ اس حسینہ کو بھی اپنی جان لیوا اداؤں کا احساس تھا۔ وہ ان کی نظروں کو پڑھ کر آگے گئی تھی۔ لہٰذا اس نے موڑ مڑنے سے پہلے گھوم کر ایسی قاتلانہ نظروں سے دیکھا کہ رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ یہ سات آٹھ نوجوان مرغِ بسمل کی طرح تڑپ کر رہ گئے۔

دبئی ایئر پورٹ ایک ایسے بین الاقوامی شہر کی مانند ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے لباس، اپنی تہذیب و تمدن، اپنے عقیدے اور اپنی زبان کے ساتھ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ ان میں ہر رنگ ونسل، ہرزبان، ہر تہذیب، ہر طبقے اور ہر علاقے کے لوگ شامل ہیں۔ اس انتہائی وسیع و عریض، صاف ستھرے اور منظم ایئر پورٹ پر کام کرنے والے عملے کے تمام ارکان انگریزی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ وہ ہر ممکن مسافروں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کا انداز اور طریقہ بہت دوستانہ اور خوشگوار ہے۔

ایک اسلامی ملک میں بین الاقوامی سطح کی کسٹمر سروس دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ کاش کہ تمام اسلامی ممالک یو اے ای کی تقلید کرتے ہوئے اسی مثالی کسٹمر سروس کا مظاہرہ کریں اور اقوام عالم میں اچھی اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ اس سے اسلام کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا جو اس وقت عام دنیا سے پوشیدہ ہے۔ ا صل اسلام اور اس کا اصلی چہرہ وہ ہر گز نہیں ہے جو یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور دوسرے غیر مسلم ممالک کے لوگوں کے ذہنوں میں بدقسمتی سے بٹھا دیا گیا ہے۔

اسلام کا اصل چہرہ دیکھنے کے لیے ریاست مدینہ اور اس کے شہریوں کا تصورذ ہن میں لانا پڑے گا۔ جو اتنا دوستانہ، اتنا حلیم اور اتنا انسان نواز تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ اللہ کے وہ بندے جن کی تربیت خود رسول پاکﷺ نے کی تھی اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔ یہ ان کا اخلاق تھا جس کی وجہ سے اسلام جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیل گیا تھا۔ اس دور کے مسلمانوں کے اخلاق حسنہ کی وجہ سے غیر مسلموں کے جھنڈ کے جھنڈ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تھے۔ جہاں مسلمانوں کا قدم پڑتا تھا وہاں وہ اپنے حسنِ اخلاق سے نئی مثالیں اور نئی تاریخ رقم کرتے تھے۔ اسلام بروز شمشیر نہیں بلکہ اسی اخلاق کی وجہ سے پھیلا ہے۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا ہتھیار اللہ پر ایمان اور ان کا اخلاق تھا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے آدھی دنیا فتح کر لی تھی۔ پیغمبراسلامﷺ کی انسان دوستی، حسن اخلاق، احترام انسانیت، عفو و درگزر، رحم دلی، جود و سخا اور نرم دلی کی ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں جن کا اعتراف دنیا بھر کے غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ وہ اپنے بدترین دشمنوں کو بھی بددُعا نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے اپنے، اپنے خاندان اور مسلمانوں کے جانی دشمنوں اور قاتلوں کو بھی معاف کر کے رہتی دنیا تک مثال قائم کر دی۔

حضور نبی کریمﷺ اپنے اوپر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی مزاج پرسی کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ صلح حدیبیہ میں ان کی صلح جوئی، فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان، جنگ بدر کے قیدیوں کی واپسی، مدینہ کے یہودیوں کو تحفظ کی یقین دہانی، اہل طائف کے ظلم کے جواب میں ان کو بد دعا دینے سے انکار کرنا، اہل قریش کے تمام ظلم و ستم کو معاف کر دینا، اپنے خاندان کے خون معاف کر دینا، غلاموں سے حسنِ سلوک، خواتین کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، جنگی قیدیوں سے رحم دلی سے پیش آنا۔ یہ تمام حالات و واقعات پیغمبر اسلامﷺ کے اعلیٰ ترین اخلاق، انسانیت نوازی اور صلہ رحمی کی وہ روشن مثالیں ہیں کہ ان کا عشر عشیر بھی اگر کسی عام مسلمان کے کردار میں شامل ہو جائے تو وہ حسنِ اخلاق کا روشن مینار بن جائے۔

اسلامی ریاستوں میں ایک کتا بھی بھوکا نہیں رہتا تھا اور کمزور سے کمزور شخص بھی اتنا ہی محفوظ تھا جتنا مملکت کا سربراہ ہوتا تھا۔ اسلام دوسرے مذاہب اور ان کے پیروکاروں کا احترام سکھاتا ہے۔ تحمل اور بردباری کا سبق دیتا ہے۔ برداشت اور صبرسکھاتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان کسی کی دل آزاری کر ہی نہیں سکتا۔ وہ مہمان کی عزت کرتا ہے اور پڑوسی کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں تعلیمات اسلام کا حصہ ہیں۔

ان سے ہر مسلمان واقف ہے۔ ہم نماز روزے کی پابندی تو کرتے ہیں۔ حج اور زکوٰۃ کا بھی اہتمام کرتے ہیں جو اچھی بات ہے۔ اس کے ساتھ اگر ہم پیغمبراسلام کے حسن اخلاق کی تعلیمات پر بھی عمل کریں تو نہ صرف ہماری زندگی سنورسکتی ہے بلکہ پورا معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔

اسلام کی اصل تعلیم اور عبادات کا مقصد انسان کے اخلاق کی تعمیر ہے۔ اگر غور کیا جائے نماز، روزہ حج، زکوٰۃ سبھی ارکانِ اسلام ہمارے اخلاق کو سنوارنے کا ذریعہ اور راستہ ہیں۔ با جماعت نماز پر اس لیے زور دیا گیا ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمانوں سے میل ملاقات رکھے۔ روزہ جسمانی قربانی ہے جو یاد دلاتی ہے کہ بھوکے اور نادار لوگوں کا بھی ہمارے اوپرحق ہے۔ حج مسلمانوں کے بین الاقوامی اجتماع کا نام ہے۔ جہاں جسمانی اور مالی قربانی کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں سے ملنے ملانے اور دوست بنانے کا موقع ملتا ہے۔ زکوٰۃ تو نام ہی مدد اور قربانی کا ہے۔ آپ اپنی حلال کمائی سے کمزوروں اور ناداروں اور حق داروں کی اس طرح مدد کرتے ہیں کہ ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے۔

گویا اسلام کے بنیادی ارکان اور عبادات جہاں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں وہاں یہ معاشرے کی اونچ نیچ کم کرنے، کمزوروں کی مدد کرنے، بھائی چارہ، اخوت اور مساوات بھی سکھاتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان عبادات کو اس کی روح کے مطابق ادا کیا جائے۔

دبئی ایئرپورٹ کی طرح امارات ایئر لائن کا طیارہ بھی تمام سہولتوں سے مزین اور خوش شکل اور خوش اطوار عملے پر مشتمل تھا۔ کسی بھی ایئر لائن کے طیارے میں داخل ہوتے ہی اس کی سروس کا اندازہ عملے کے استقبال سے ہو جاتا ہے۔ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہوتا کہ عملے کی یہ مسکراہٹ اصلی ہے یا کاروباری۔ بعض ایئر لائنوں میں ان دونوں کا فقدان ہوتا ہے۔ ان کے عملے کا انداز ایسا ہی ہوتا ہے جیسے نیو خان کے بس کنڈیکٹر ہوتے تھے۔ (یہ بسیں استعمال کئے ہوئے ایک مدت ہو گئی ہے اللہ کرے اب پہلے سے بہتر حالات ہوں) جو سواریوں کو بس کے اندر دھکیل رہے ہوتے تھے۔ کچھ ایئر لائنیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کے فضائی میزبان نہ ہی مسکرائیں تو بہتر ہے۔

آپ بورڈنگ کارڈ ہاتھ میں لے کر خوشگوار موڈ میں کسی جہاز میں داخل ہوتے ہیں اور توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی خوش شکل ایئر ہوسٹس مسکرا کر آپ کا استقبال کرے گی۔ سیٹ تک آپ کی راہنمائی کرے گی۔

اس کے برعکس اندر داخل ہوتے ہی کسی حسینہ کی بجائے ایک اُدھیڑ عمر مرد جس کی توند ڈیڑھ فٹ آگے نکلی ہوئی ہے گھور کر مشکوک نظروں سے آپ کا بورڈنگ دیکھتا ہے۔ جیسے پرائمری سکول کے استاد بچوں کا ہوم ورک دیکھتے ہیں۔ پھر زبان سے کچھ کہے بغیر آگے جانے کا اشارہ کر کے خود دُوسری طرف دیکھنے لگتا ہے۔

ایسے فضائی میزبان کو پورے سفر میں زحمت دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اگر پیاس بھی لگی ہو تو صبر کے گھونٹ سے گزارا کیا جاتا ہے۔ اس ماسٹر ٹائپ میزبان سے ڈرسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں بُرا ہی نہ منا جائے۔ ویسے بھی بزرگوں سے خدمت کرانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

ایسے میزبانوں کا ایک فائدہ بہرحال ضرور ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے بچے اور بڑے کسی بدنظمی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کھانے پینے کی چیزیں بھی کم استعمال ہوتی ہیں۔ فضائی میزبان کے رُعب اور دبدبے کی وجہ سے کسی بدنظمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اسی رُعب اور دبدبے کی وجہ سے کوئی ان سے کھانا اور پانی بھی طلب نہیں کرتا لہٰذا فضائی کمپنی کی ہر لحاظ سے بچت ہی بچت ہے۔

امارات ایئر لائن اور طیارے کا عملہ بہرحال ایسا ہر گز نہیں تھا۔ نوجوان مردوں اور نوجوان خواتین پر مشتمل یہ عملہ آدھا مقامی یعنی عربی بولنے ولا اور باقی یورپین تھا۔ یہ عربی لڑکے اور لڑکیاں بھی رواں انگریزی بول رہے تھے۔ امارات ایئر لائن ان دنوں دنیا کی بڑی اور مصروف ترین فضائی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کے سارے کھانے حلال ہوتے ہیں۔ ورنہ بڑی بڑی فضائی کمپنیوں کے حلال کھانے ایسے بے ذائقہ اور بدمزہ ہوتے ہیں جیسے مسلمان مسافروں کو جیل کی سی کلاس کے قیدی سمجھ رہے ہوں۔

کہا جاتا ہے کہ امارات ائیر لائن کو بنانے اور سنوارنے میں پی آئی اے کا بڑا کردار ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملائشیا، سنگاپور، کوریا اور چین کی معیشت کے پہئیے بھی پاکستانی ماہرین کے ہاتھوں کے لگے ہوئے ہیں۔

میرا سوال ہے کہ یہی پاکستانی اپنی ائیر لائن اور اپنے ملک کی معیشت کی گاڑی آگے کیوں نہیں بڑھا سکتے۔ اپنے ملک کے اداروں کو بنانے اور سنوارنے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے۔ کیا ان ماہرین کی مہارت اپنے گھر میں استعمال نہیں ہو سکتی۔ یا پھر اہلِ حکومت کی نیت ہی ٹھیک نہیں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ہاتھ بنانے اور سنوارنے والا ہو اور دو ہاتھ اس کو بگاڑنے اور تباہ کرنے میں لگے ہوں۔ ان تخریبی ہاتھوں کے ہوتے ہوئے گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ان ہاتھوں کو روکنے بلکہ مروڑنے اور توڑنے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے وہ وقت جلد آئے جب اچھی نیت والے، مثبت سوچ والے، تعمیری نقطہ نظر والے، ایماندار اور محب وطن اور مخلص لوگ آگے آئیں اور قوم کی ڈوبتی ہوئی معیشت، ڈوبتے اداروں اور بلکتے اور سسکتے عوام کی حالت بہتر بنا سکیں۔

اس سلسلے میں قوم کے ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار خوش اسلوبی سے ایمانداری سے اور بھرپورانداز میں ادا کرے۔ اپنی نیت صاف رکھے اور کسی دباؤ اور لالچ کے بغیر اچھے نیک اور صاحب کردار لوگوں کا ساتھ دے۔ اور جو لوگ اس معیار پر پورا نہیں اترتے ان سے ہر صورت میں قطع تعلق کریں۔ قومیں افراد سے بنتی ہیں۔ جب افراد سدھر جائیں گے تو قوم کی حالت سدھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ کیونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔

 

پاک سر زمین

 

اس وقت تقریباً آدھی رات تھی جب ہمارے جہاز کے پہیوں نے پاک سرزمین کو چھوا۔ اسلام آباد ائیر پورٹ کی کھلی فضا میں اس وقت اوس بھری خنکی تھی۔ چاندنی اور ائیر پورٹ کی روشنیوں میں خاصے فاصلے پر چند جہاز کھڑے نظر آتے تھے۔ لیکن کہیں ہل چل نہیں تھی۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ اس خاموشی کو توڑتی ہوئی شٹل بس جہاز کے سامنے آ کر رکی۔ ہم ایک مقدس سرزمین سے دوسری پاک سرزمین پر قدم رکھنے والے تھے۔ یہ زمین بھی میرے لیے مقدس تھی۔ اس پاک سرزمین پر میرا جنم ہوا تھا۔ میں اس کی مٹی، اس کی فضاؤں اور اس کی ہواؤں میں پروان چڑھا تھا۔ اس زمین سے میرا ازلی رشتہ تھا۔ یہ زمین میرے پرکھوں کی وارث تھی۔

مسافر ایک ایک کر کے بس میں سوار ہونے لگے۔ میں نے سیڑھیوں سے اُتر کر زمین پر قدم رکھا تو ایک ٹھنڈک سی رگ وپے میں دوڑ گئی۔ یہ ٹھنڈک میری مٹی اور اس کے پیار کی تھی۔ میرے وطن اور اس کی فضاؤں کی تھی۔ ان فضاؤں میں ایک نور سا گھلتا محسوس ہوا۔ یہ پورے چاند کی چاندنی کا کمال تھا یا میرے دل میں انگڑائی لینے والے کسی قومی نغمے کا سرور تھا۔ یہ چاندنی، یہ خنکی، یہ خاموشی اور دور کھڑے سرو کے درخت جیسے جادو سا کر رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ جوتے اتار کر ننگے پاؤں اس دودھیا روشنی میں چہل قدمی شروع کر دوں۔ میں نے سر اٹھا کر چاند کی طرف دیکھا تو یوں لگا جیسے مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہا ہو۔

چاند تو ہر جگہ اور ہر ملک میں اپنی چاندنی بکھیرتا ہے لیکن یہ منظر کہیں اور نظر نہیں آیا۔ یہ میرے اندر چھپا پیار تھا کہ مجھے باہر کا منظر یوں حسین لگ رہا تھا۔

یہ میرے وطن کی مٹی اور اس کی ہواؤں کا کمال تھا جس نے میرے اندر اور باہر دونوں کو رنگین بنا دیا تھا۔

اپنے آبائی وطن سے محبت انسان کے خون میں رچی ہوتی ہے۔ روزگار اگر ہمیں وطن سے دور لے بھی جاتا ہے تو ہمارے دل وطن سے دور نہیں ہوتے بلکہ اس کے ساتھ ہی دھڑکتے ہیں۔ پردیس میں رہنے والے تمام پاکستانی چاہے وہ پچاس سال سے ہی باہر کیوں نہ رہ رہے ہوں پاکستان کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ اگر وطن پر ذرا سی آنچ آتی ہے تو انہیں تشویش اور فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ اگر وطن سے اچھی خبریں آتی رہیں تو ان کے دل کو تسلی رہتی ہے۔

یہ تمام پردیسی دیار غیر میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پاکستان کے قومی دن اور قومی تہوار جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ قومی مشاہیر کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ قومی زبان اور اس کے ادب کی ترویج و ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور پاکستان سے ادبی شخصیات کو بلا کر ان کے لیے ادبی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

وہ پاکستان سے آنے والی ہر ہم شخصیت کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور اسے اپنے سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اپنے ملک کی قومی ٹیموں کی بھرپور پذیرائی کرتے ہیں۔

یہ پاکستانی پاکستان کے اندر ہر فلاحی ادارے کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ اپنے اہل خانہ، اپنے عزیز و اقارب اور احباب کی مدد کرتے ہیں اور ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں چاہے خود ان کو کتنی ہی محنت کیوں نہ کرنا پڑے۔ زر مبادلہ کی مسلسل ترسیل کے ذریعے وہ پاکستان کی معیشت بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی ملک سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی ملک کے اندر رہنے والے۔ لہٰذا ان کی وفاداری اور حب الوطنی پر سوال اٹھانے سے پہلے ذرا سوچ لینا چاہیے کہ ایسے کلمات سے لاکھوں پاکستانیوں کی دلآزاری ہوتی ہے۔ آپ ان پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیتے، نہ دیں۔ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے، نہ دیں۔ لیکن ان کی حب الوطنی پر شک نہ کریں۔

دوسرے لوگ جس میں سرکاری اور نیم سرکاری اہلکار، کاروباری افراد، سفارت خانوں کا عملہ، کھلاڑی اور صحافی باہر جا کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں سمجھی جاتی اور نہ ہے۔ اسی طرح عام پاکستانی بھی بہتر روزگار حاصل کرنے اپنی اور اپنے خاندان کی بہتر کفالت کرنے اور بیرون ملک جا کر رہتے ہیں تواس سے ان کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کیوں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

اگر یہ سارے پاکستانی وطن واپس آ جائیں تو اس سے ملک کو کیا فائدہ ہو گا۔ اس سے پاکستان کی معیشت پر سخت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو زر مبادلہ کی ترسیل بند ہو جائے گی اور دوسرا ان تمام لوگوں کے لیے روزگار کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ گویا ان لاکھوں پردیسیوں نے باہر جا کر وطن کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے بالواسطہ طور پر روزگار فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

بیرون ملک رہنے الے پاکستانیوں کے بارے میں اخبارات اور ٹی وی پر دل آزار باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو ملک کے دماغ، آنکھیں اور زبان ہیں یعنی صحافی، دانشور اور اینکر حضرات۔ ان کی زبانی یہ باتیں سن کر نہ صرف دل دکھتا ہے بلکہ افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہ سب خلاف حقیقت اور گمراہ کن باتیں ہوتی ہیں۔

ہم آپ کی نظروں سے دور ہوئے ہیں ہمیں اپنے دل سے دور تو نہ کریں۔

اللہ کرے کہ وطن عزیز میں روزگار کے اتنے مواقع حاصل ہو جائیں کہ کسی کو وطن نہ چھوڑنا پڑے۔ کسی کو اپنوں کی جدائی کا غم نہ سہنا پڑے۔ اللہ کرے کہ کسی کو اپنے وطن سے دور کسی غیرمٹی میں نہ دفن ہونا پڑے۔

 

وجہ تصنیف

 

حج ہمارے اوپر فرض تھا۔ اہلیہ کا اصرار تھا کہ یہ فرض جلد از جلد ادا کر کر لیا جائے جب کہ میں سُستی اور مصروفیات کی وجہ سے اِسے ملتوی کرتا جا رہا تھا۔ جب پروگرام حتمی شکل اختیار کر گیا تو میں نے سوچا چلو فرض بھی ادا ہو جائے گا اور بیگم کی ضد بھی پوری ہو جائے گی۔ ایک دفعہ یہ فرض پورا ہو جائے میں پھر اسی زندگی کی طرف لوٹ جاؤں گا جیسی اب تک گزاری ہے۔ واپس آ کر وہی پہلے والے شب روز ہوں گے۔

وہی دُنیا کے دھندے، وہی کاروباری جھمیلے، وہی دوستوں کی محفلیں، وہی کتابوں کی دنیا اور وہی سیرسپاٹے ہوں گے۔ پھر وہی زندگی ہو گی جس میں صرف دُنیا اور دُنیاداری کے تقاضے ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ کوئی اور فکر نہیں ہو گی۔ آخرت کی کوئی پرو اہ نہیں ہو گی۔ نہ قیامت کا ڈر ہو گا نہ حساب کی فکر ہو گی۔ میں نے زندگی کچھ ایسے ہی گزاری تھی۔ سب کچھ جان کر بھی انجان بنا رہا۔ حج کے بعد میں اسی دنیا میں لوٹ جانا چاہتا تھا۔ ویسی ہی زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ حج پر جانے سے پہلے میں نے یہی سوچا تھا۔ لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے ضروری نہیں وہ ایسا کر پائے۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتا ہے۔ کوئی اور بھی ہے جو کسی بھی وقت بھاگ کھینچ کر اُسے راستہ بدلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

حج کے تجربات قلم بند کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے وہاں جا کر کوئی تصویر نہیں بنائی تھی۔ کوئی ڈائری نہیں لکھی تھی۔ کوئی نوٹ تحریر نہیں کیا تھا۔ میں تو صرف اپنا فرض ادا کرنے گیا تھا۔ فرض ادا کرنے کے بعد پرانی دنیا میں لوٹ جانا چاہتا تھا۔ حجازِ مقدس سے لوٹنے کے بعد میرے اندر کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ انہوں نے میری زندگی کا رُخ بدل دیا۔ میرے شب و روز کی کا یا پلٹ دی۔ میں جس طرح کی زندگی گزار رہا تھا اس میں کشش ختم ہو گئی۔ میں اپنا کاروبار آگے بڑھانا چاہتا تھا مگر اس کی وجہ سمجھ نہیں آتی ہے۔ بہت سے پرانے مشاغل سے دِل اُچاٹ ہو گیا ہے۔ سیر و سیاحت کا سلسلہ ختم تو نہیں ہوا لیکن اس میں بھی پہلے والا مزا نہیں رہا۔ حتیٰ کہ پینتیس برس سے جاری سگریٹ نوشی جو دورانِ حج بھی جاری رہی، وہ بھی ترک کر دی۔

واپس آنے کے بعد جیسے جیسے وقت گزرتا گیا حرمین شریفین میں گزرا ایک ایک لمحہ جیسے مجھے ہانٹ کرتا رہا۔ میرے درِ دل پر دستک دیتا رہا۔ وہ مناظر اور وہ لمحات میرے دل و دماغ سے اوجھل نہیں ہوتے تھے۔ میں کچھ اور سوچنا چاہتا تھا مگر میری سوچوں پر سبز گنبد اور سیاہ پوش گھر چھا جاتا تھا۔ مسجد نبویؐ اور خانہ کعبہ جیسے میری نظروں کے سامنے پھرتے رہتے تھے۔ حرم پاک میں گزرا ایک ایک لمحہ، ایک ایک دُعا، ایک ایک نماز، ایک ایک طواف اور ان سے ملنے والی تسکین، سرور اور روحانی مسرت جیسے میرے دل کو گدگداتی رہتی تھی۔ سب سے بڑھ کر بیت اللہ کا نظارہ میرے ذہن ودل پر نقش ہو کر گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا حتّیٰ کہ ان پربند باندھنا مشکل ہو گیا۔

جب یہ سیلاب بہت بڑ ھ گیا تو میں نے اپنے ہاتھ میں قلم تھام لیا اور اِسے تحریر شروع کر دیا۔ دورانِ تحریر اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ جذبوں کے بند ٹوٹنے لگے۔ یہ جذبے سیلابی صورت اختیار کر گئے۔ سوچنا اور لکھنا تو درکنار دل کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اشکوں کا سلسلہ بار بار رواں ہو جاتا۔ لفظ کاغذ پر پھیل کر کچھ اور شکل اختیار کر لیتے۔ اس دھُندلاہٹ میں سبز گنبد اور سنہری جالی جھانکنے لگتی۔ اس کیفیت سے نکلنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کئی دن لگ جاتے۔ کئی کئی مہینے کاغذ اور قلم سے نا تا ٹوٹ جاتا۔ لیکن یہ سفر رُکا نہیں۔ آہستہ آہستہ تقریباً دو سال تک چلتا رہا۔ جب بھی غبار بڑھتا تھا تو لفظوں کو صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر اسے کم کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ نہ تو میں اس موضوع پر لکھنے کے قابل تھا اور نہ اس کا اہل۔ یہ کام میں نے بلا ارادہ بلکہ مجبوراً کیا ہے۔ اللہ جانتا ہے یہ میری پہلی تحریر ہے جو میں نے دماغ سے نہیں دِل سے لکھی ہے۔

اسے لکھتے ہوئے اکثر اپنے آپ کو سمیٹنا اور سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اِسے لکھ کر میرے من کی آگ میں قدرے کمی آئی ہے۔ یہ تپش کچھ لفظوں اور کچھ اشکوں کی صورت میں خارج ہوئی۔

جی چاہتا ہے کہ ایک بار پھر روضہ رسولﷺ اور بیت اللہ کی زیارت نصیب ہو۔ حالانکہ یہ دونوں مقام میرے دل کی کتاب پرسجے ہوئے ہیں۔ یہ میری خوش بختی ہو گی کہ اللہ کے ان گھروں میں دوبارہ حاضری نصیب ہو۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ میری اس ٹوٹی پھوٹی اور خام تحریر کو اپنی بارگاہ میں منظور و قبول فرمائے۔ اس تحریر میں جو کوتاہیاں، غلطیاں اور خامیاں ہیں انہیں معاف فرمائے۔ اس میں اگر کوئی اچھی بات اور اچھا پیغام ہے تو اُسے میری شفاعت کا ذریعہ بنائے۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے