غزلیں ۔۔۔ نوید ناظم

 

ہوں درد میرے دروں ہی سہی

ٹھیک ہے، اب جو یوں ہے تو یوں ہی سہی

 

عشق ہم کو اگر ہے تو ہے کیا کریں

خبط کہہ لو، چلو یہ جنوں ہی سہی

 

میں بہرحال اب صرف اس کا ہی ہوں

مجھ پر اُس کا فسوں ہے؟ فسوں ہی سہی!

 

اب ضرور اُس کی محفل میں جاؤں گا میں

خوں جو ہو آرزو کا تو خوں ہی سہی

 

اُٹھ پھر اک بار اُس کی گلی کو چلیں

چین ہی کچھ ملے، کچھ سُکوں ہی سہی

٭٭٭

 

 

ہوئی ہے مات لیکن مات سے آگے بہت کچھ ہے

یہ بس اک بات تھی اس بات سے آگے بہت کچھ ہے

 

اگر تم میرے اندر سے گزر پاؤ تو دیکھو گے

مِرے اندر ہی میری ذات سے آگے بہت کچھ ہے

 

شبِ فرقت سے کوئی بچ نہ پایا آج تک ورنہ

ہمیں لگتا تو ہے اس رات سے آگے بہت کچھ ہے

 

مِرے حالات سن کر رو پڑے ہو تم، ذرا ٹھہرو!

مجھے کہنے تو دو حالات سے آگے بہت کچھ ہے

 

پریشاں ہو گئے ہو میری آنکھوں کے برسنے سے ؟

نمونہ تھا یہ، اس برسات سے آگے بہت کچھ ہے

 

ارے اک جام تو ساقی یونہی خیرات میں دے گا

مگر مت بھولنا خیرات سے آگے بہت کچھ ہے

 

اُسے جذبات کا اک کھیل لگتی تھی محبت سو

وہ کہہ کر چل دیا "جذبات سے آگے بہت کچھ ہے ”

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے