گنجلک ۔۔۔ مسعود مفتی

افضل: ملزم
امینہ: ملزم کی بیوی
سیمیں: ملزم کی کالج کی دوست
غلام رسول: ملزم کا چچا اور سُسر
غلام محمد: ملزم کا باپ
ملزم کی والدہ
وکیل استغاثہ
وکیلِ صفائی
سب انسپکٹر
جج

پہلا سین

(کمرۂ عدالت، ذرا اُونچے پلیٹ فارم پر جج بیٹھا ہے۔ عمر پچاس برس کے لگ بھگ۔ چہرے پر سنجیدگی، سامنے لکڑی کا کٹہرہ ہے، جس میں بائیں طرف ملزم افضل کھڑا ہے۔ پچیس برس کا نوجوان چہرے پر پریشانی اور مُرجھاہٹ۔ دائیں طرف دوسرے کٹہرے میں پولیس کا سب انسپکٹر بطور گواہ کھڑا ہے۔ اس کے پاس وکیل استغاثہ ہے اور ملزم کے پاس وکیل صفائی کھڑا ہے۔ عدالت میں آٹھ دس لوگ اور وکیل بیٹھے ہیں۔ گواہوں میں سے کوئی بھی اندر موجود نہیں۔ پردہ اُٹھنے پر گواہ عدالت سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے۔)
سب انسپکٹر: جی ہاں، میں اُس وقت تھانیدار تھا اور اس کیس کی تفتیش میں نے ہی کی تھی۔
وکیلِ استغاثہ: یہ کتنے عرصہ کا واقعہ ہے۔
سب انسپکٹر: کوئی چھ ماہ کا۔
وکیل استغاثہ: ساری تفصیلات بتائیے۔
سب انسپکٹر: میں صبح تھانے میں بیٹھا ڈاک دیکھ رہا تھا کہ مجھے ایک چٹھی ملی، لکھنے والی ایک خاتون تھی۔ مسماۃ امینہ، چٹھی راولپنڈی سے آئی تھی۔ مسماۃ امینہ نے لکھا تھا کہ میرے خاوند نے چار تاریخ کو موضع ستروال میں بس اسٹاپ کے قریب ایک سالہ بچے کو قتل کر کے اس کی لاش مسجد کے ساتھ والے کماد کے کھیت میں پھینک دی تھی۔ خط ملنے پر میں نے وہاں کے تھانیدار سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ پانچ تاریخ کو اسی مقام سے ایک سالہ بچے کی لاش ملی تھی جسے مقامی لوگوں میں سے کوئی شناخت نہ کر سکا تھا اور پوسٹ مارٹم کے بعد اسے دفن کیا گیا۔ متوفی کے کپڑے، جوتا اور گلے کا تعویذ محفوظ ہیں۔ میں نے یہ چیزیں منگوائیں، خط میں دیے ہوئے پتے کے مطابق مسماۃ امینہ سے جا کر ملا اور بعد از تفتیش ملزم کو گرفتار کر لیا اور چالان عدالت میں پیش کیا۔ (گواہ خاموش ہو جاتا ہے، جج کچھ لکھتا ہے)۔
وکیل صفائی: مائی لارڈ جِرح کی اجازت چاہتا ہوں۔
(جج سر ہلاتا ہے۔ وکیل صفائی گواہ کی طرف آتا ہے، وکیل ادھیڑ عمر کا آدمی ہے سر کے بال کھچڑی، سنہری فریم والا چشمہ لگاتا ہے۔ بات کے انداز میں طنز کا رنگ غالب ہے اور سمجھا سمجھا کر سوال کرتا ہے)
وکیل صفائی: تھانیدار صاحب۔ یہ بتائیے آپ نے ملزم کو گرفتار کہاں کیا تھا؟
سب انسپکٹر: مسماۃ امینہ نے ملزم کے گھر کا پتہ دیا تھا جو میرے تھانے کے علاقے میں تھا۔ میں وہاں گیا دروازہ کھٹکھٹانے پر ملزم باہر آیا اور میں نے اس کو گرفتار کر لیا۔
وکیل صفائی: کیا اس نے کوئی مزاحمت کی؟
سب انسپکٹر: بالکل نہیں۔
وکیل صفائی: جب آپ نے تھانے میں پوچھ گچھ کی تو اس کا ردِ عمل کیا تھا؟
سب انسپکٹر: اس نے فوراً اقبالِ جرم کر لیا تھا۔
وکیل صفائی: کیا اُس نے کچھ اور کہا تھا؟
سب انسپکٹر: (سوچ کر) اُس نے بتایا تھا کہ یہ ایم اے پاس ہے اور اچھی ملازمت پر ہے۔ (وکیل صفائی عدالت کی طرف منہ کر کے ذرا جھکتا ہے)
وکیل صفائی: بس می لارڈ!
(سب انسپکٹر سلیوٹ کرتا ہے اور کٹہرے سے باہر نکل کر لوگوں میں بیٹھ جاتا ہے)۔
جج: دوسرا گواہ پیش کیا جائے۔
(باہر اَردلی کی آواز سنائی دیتی ہے ’’غلام رسول گواہ‘‘ ۔۔۔۔ غلام رسول گواہ اندر آتا ہے۔ چھوٹے قد کا بوڑھا سا مرد ہے۔ سفید نو کدار داڑھی، اچکن اور ٹوپی پہنے ہوئے چہرے سے دنیا دار اور سمجھ دار آدمی نظر آتا ہے۔ تیز تیز بولتا ہے۔ کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے تو وکیل استغاثہ قریب جا کر کچھ کہتا ہے اور گواہ عدالت کی طرف منہ کر کے کہتا ہے)
غلام رسول: جو کہوں گا ایمان سے سچ کہوں گا۔
وکیل استغاثہ: آپ کا نام؟
غلام رسول: غلام رسول
وکیل استغاثہ: ملزم سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟
غلام رسول: یہ میرا بھتیجا ہے اور داماد بھی۔ اس کی شادی دو سال پہلے میری لڑکی امینہ سے ہوئی تھی۔
وکیل استغاثہ: پھر۔۔۔۔؟
چچا: کوئی چھ ماہ پہلے میں نے ملزم کو اپنی لڑکی کے ساتھ راولپنڈی سے روانہ کیا تھا۔ انہیں لاہور جانا تھا اور میں دو چار رشتے داروں کے ساتھ انہیں بس سٹاپ پر چھوڑنے آیا تھا۔ بس روانہ ہونے کے بعد میں دفتر چلا گیا۔ شام کو مجھے کہیں جانا تھا۔ دفتر سے وہاں گیا کافی رات گئے واپس آیا تو امینہ گھر میں تھی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ افضل نے اس کے بچے کو قتل کر دیا تھا اور وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگ آئی تھی۔ ملزم کا والد غلام محمد میرا چھوٹا بھائی ہے۔ میں نے اسے آنے کے لیے لکھ دیا۔ مگر اس کے آنے سے پہلے امینہ پولیس کو خط لکھ چکی تھی اور جب پولیس والے آئے تو میں نے سارا ماجرا ان کو بتا دیا۔
(وکیل استغاثہ عدالت کی طرف جھک کر بیان کے خاتمہ کا اظہار کرتا ہے اور دو قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ وکیل صفائی گواہ کے پاس آتا ہے)
وکیل صفائی: غلام رسول صاحب کیا آپ ہمیں بتا سکیں گے کہ آپ کی لڑکی امینہ کے اپنے خاوند یعنی ملزم کے ساتھ کیسے تعلقات تھے؟
چچا: ان کی آپس میں ناچاقی تھی۔
وکیل صفائی: (ذرا قریب ہو کر) شادی کے کتنے عرصہ بعد شروع ہوئی؟
چچا: تین چار دن بعد۔
وکیل صفائی: کتنا عرصہ رہی؟
چچا: اس کے بعد یہ علیحدہ ہی رہے۔ شادی کے چند روز بعد لڑکی لاہور سے میرے پاس راولپنڈی آ گئی اور پھر ڈیڑھ سال وہیں رہی۔
وکیل صفائی: تو پھر یہ چار چھ رشتہ داروں کے ساتھ لڑکی اور داماد کو بس پر چھوڑنے کی نوبت کیسے آئی؟
چچا: در اصل ان کا راضی نامہ ہو گیا تھا جس کے لیے ملزم کراچی سے ہمارے ہاں راولپنڈی آیا ہوا تھا۔ راضی نامہ کے بعد میں لڑکی کو اس کے ساتھ لاہور بھیج رہا تھا۔ اسی سلسلہ میں رشتہ دار بھی موجود تھے۔
وکیل صفائی: اب آپ تکلیف کر کے ہمیں یہ بتا دیں کہ ان کی ناچاقی کیوں ہوئی تھی۔
چچا: (بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھتا ہے پھر ذرا توقف کے بعد) گھروں میں ناچاقیاں ہو ہی جاتی ہیں۔
وکیل صفائی: جی ضرور ہوتی ہیں۔ خود میرے اپنے گھر میں ہوتی ہیں۔ آپ کے یہاں بھی ہوتی ہوں گی۔ لیکن کوئی وجہ تو ہمیشہ ہوتی ہے نا، چھوٹی یا بڑی!
چچا: (خاموش رہتا ہے)
وکیل صفائی: بھائی یہ باتیں تو آپ ہی بتائیں گے نا۔ آپ کی لڑکی کا معاملہ ہے۔ آپ کے داماد کا قصہ ہے۔ جھگڑے کی وجہ سے آپ کی لڑکی ڈیڑھ برس آپ کے یہاں رہی ہے۔ آپ نے عزیزوں کی موجودگی میں راضی نامہ کرایا ہے۔ آپ سے بہتر آدمی کون مل سکے گا ہمیں یہ سب کچھ بتانے کے لیے۔
چچا: در اصل ملزم شادی سے پہلے کسی اور لڑکی سے پیار کرتا تھا جو اس کے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی۔
وکیل صفائی: جی نہیں یہ وجہ تو نہیں۔
چچا: یہی ہے۔
وکیل صفائی: چلیے ممکن ہے ایسا ہو لیکن پھر بھی آپ اصل بات نہیں بتا رہے۔
چچا: میں جھوٹ تو نہیں کہہ رہا، یہ بھی حقیقت ہے۔
وکیل صفائی: یہ حقیقت ہو گی مگر میں دوسری بات پوچھتا ہوں۔
(جج کھنکارتا ہے، وکیل اس کی طرف دیکھتا ہے)
جج: وکیل صاحب، آپ ملزم پر جرح کر سکتے ہیں مگر اس سے بحث نہیں کر سکتے اور نہ ہی بزور کوئی بیان اُگلوا سکتے ہیں۔
وکیل صفائی: بہتر جناب والا۔ میں یہ بات یہیں چھوڑتا ہوں۔ (گواہ سے) آپ کی لڑکی کی تعلیم کیا ہے؟
چچا: وہ بی۔ اے میں پڑھتی تھی۔ جب اسے فورتھ ایئر میں کالج چھوڑنا پڑا۔
وکیل صفائی: کیوں چھوڑنا پڑا؟
چچا: میری بیوی کے فوت ہو جانے پر گھر کو دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس لیے میں نے اسے کالج سے اُٹھا لیا۔
وکیل صفائی: وہ کب فوت ہوئیں؟
چچا: کوئی چھ سال پہلے۔
وکیل صفائی: اور امینہ کی شادی آپ نے کب کی؟
چچا: (سوچ کر) اس کے فوت ہونے کے کوئی چار سال بعد۔
وکیل صفائی: تو ان چار سالوں میں یہ لڑکی گھر میں ہی رہتی ہو گی؟
چچا: جی ہاں، سارا گھر چلاتی تھی۔
وکیل: جی! بالکل ٹھیک ہے۔ ماشاء اللہ ذمہ دار بچی تھی! تو گھر میں تو اور لوگ بھی ہوتے ہوں گے۔
چچا: میری چھوٹی لڑکی تھی۔
وکیل: خُوب! تو وہ بھی سارا دن گھر میں ہوتی تھی یا پڑھتی تھی؟
چچا: جی نہیں وہ دن کو کالج جاتی تھی اور باقی وقت گھر میں ہوتی تھی۔
وکیل: جی جی۔ بالکل ٹھیک ہے۔ خیر چھوڑئیے اس بات کو۔ اچھّا یہ بتائیے آپ کب سے راولپنڈی رہتے ہیں؟
چچا: کوئی پچیس برس سے۔
وکیل: رہائش ایک ہی جگہ رہی ہے یا بدلتے رہے ہیں؟
چچا: ایک ہی جگہ، یہ ہمارا جدّی مکان ہے۔
وکیل: ماشاء اللہ تو پھر آپ قاضی صاحب کو بھی جانتے ہوں گے۔ وہ قریباً اتنا ہی عرصہ آپ کے ہمسائے تھے۔
چچا: جی۔
وکیل: ان کا ایک لڑکا نثار بھی تھا جو غالباً ملزم کا ہم عمر تھا۔
چچا: (ذرا بے چینی سے) جی۔
وکیل: ملزم آپ کا بھتیجا ہے۔ اکثر یہ آپ کے یہاں آتا ہو گا۔ کبھی دن بھر کے لیے۔ کبھی ہفتہ کے لیے۔ اور کبھی زیادہ بھی۔
چچا: جی ہاں، یہ بچے لمبی چھٹیاں میرے ہاں ہی گزارتے تھے۔
وکیل: ملزم ان دنوں نثار سے بھی ملتا ہو گا؟
چچا: سب ہی ہمسایوں کے بچے اکٹھا کھیلتے تھے۔
وکیل: اور آپ کی بچی امینہ بھی بچپن میں ان کے ساتھ کھیلتی ہو گی۔
چچا: کھیلتی ہو گی، بچے جو ہوئے۔
وکیل: (قدرے خاموش رہ کر) قبلہ بُرا نہ مانیے گا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ امینہ کی وجہ سے نثار اور ملزم میں رقابت تھی؟
چچا: (درشتی سے) مجھے کیا معلوم؟
وکیل: تو کیا یہ بھی نہیں معلوم کہ امینہ نے ملزم سے کئی دفعہ صاف صاف کہا تھا کہ وہ اس سے نفرت اور نثار سے محبت کرتی ہے؟
چچا: دیکھئے صاحب میں عدالت میں گواہی دینے آیا ہوں، کسی فلم کی شوٹنگ پر نہیں آیا۔
وکیل: اوہو! آپ تو ناراض ہو گئے۔ چلئے چھوڑئیے اس قصّے کو۔ ویسے نثار آج کل کہاں ہے؟
چچا: (غصّے میں) کہاں ہے کیا مطلب؟ وہ تو فوت ہو چکا ہے۔ اسکوٹر کے حادثے میں۔
وکیل: (قریب آ کر معنی خیز انداز میں) امینہ کی شادی سے کتنا عرصہ پہلے۔
چچا: (سیخ پا ہو کر) کچھ روز پہلے۔ اب یہ بھی کوئی سوال ہے پوچھنے والا۔
وکیل: چلئے صاحب نہیں پوچھتے۔ (عدالت کی طرف منہ کر کے جھکتا ہے) بس می لارڈ۔
(گواہ کٹہرے میں سے باہر آتا ہے تو کمرے کے باہر سے اردلی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ’’مسماۃ امینہ بی بی گواہ‘‘ ۔ گواہ غلام رسول آگے بڑھ کر وکیل استغاثہ کے کان میں کچھ کہتا ہے۔ دونوں کچھ مشورہ کرنے کے بعد وکیل آگے آ کر عدالت سے مخاطب ہوتا ہے)
وکیل: جناب والا! میں لڑکی کے والد کی طرف سے درخواست کرتا ہوں کہ عدالت اس گواہ کا بیان نہ لے، ملزم چونکہ تفتیش کے دوران اقبال جرم کر چکا ہے۔ اس لیے زیادہ گواہوں کی ضرورت نہیں، جو سوالات اس لڑکی سے پوچھنے ہیں، وہ دوسرے گواہوں سے پوچھے جا سکتے ہیں۔
(وکیل صفائی اپنی عینک ہاتھ میں پکڑے خاموش رہتا ہے۔ جج اس کی طرف دیکھتا ہے تو عینک لگا کر پہلے غلام رسول اور پھر وکیل استغاثہ کی طرف طنز سے دیکھتا ہے پھر عدالت سے مخاطب ہوتا ہے۔)
وکیل صفائی: جناب والا مقدمہ کی مسل یہ بتاتی ہے کہ مسماۃ امینہ ملزم کی بیوی ہے اور واحد عینی گواہ ہے۔ اگر وکیل استغاثہ کوئی اور گواہ ایسا پیدا کر سکتے ہیں جو قتل کے واقعات بتا سکے یا ملزم کی بیوی تصور ہو سکے میں تو محترمہ سے کوئی سوال نہ کروں گا۔
(جج، وکیل استغاثہ کی طرف مسکرا کر دیکھتا ہے وہ ڈھیلا سا ہو کر غلام رسول سے کانا پھوسی کرتا ہے۔ باہر سے اردلی کی دوبارہ آواز آتی ہے۔ ’’مسماۃ امینہ گواہ‘‘ وکیل استغاثہ پھر عدالت کی طرف متوجہ ہوتا ہے)
وکیل استغاثہ: تو اس حالت میں جناب والا۔ لڑکی کا بیان آخر میں لیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ تفصیلات دوسرے گواہوں سے مل جائیں اور لڑکی کو کم از کم پریشانی ہو۔
جج: درخواست منظور ہے۔
وکیل استغاثہ: (جھک کر آداب بجا لاتا ہے) تو اب جناب والا ملزم کی والدہ کی شہادت پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
(جج سر ہلا کر اجازت دیتا ہے۔ ایک معمر عورت دروازے میں سے نمودار ہوتی ہے۔ اسے ایک مرد اور ایک عورت سہارا دیے ہوئے ہیں اور وہ بہ مشکل آگے بڑھ رہی ہے۔ چہرے پر گہرے کرب کے آثار ہیں اور وہ بہت ضبط کر کے چل رہی ہے۔ کٹہرے میں داخل ہوتے ہی لڑکھڑاتی ہے، پھر گھبرا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ آنکھیں فرش پر ہیں اور وہ پریشانی سے بار بار سر پر دوپٹہ درست کرتی ہے)
وکیل: بی بی کیا ملزم آپ کا لڑکا ہے؟
والدہ: (سر اٹھائے بغیر، ہونٹ بھینچ کر اثبات میں سر ہلاتی ہے)
وکیل: آپ اس کے جرم کے بارے میں جو کچھ جانتی ہیں، عدالت کو بتائیں۔
(عورت دونوں ہاتھوں سے کٹہرے کو زور سے پکڑ لیتی ہے۔ اس کے بازو کانپ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر زمین کو دیکھتی ہے پھر آہستہ آہستہ نظر اُٹھا کر ملزم کو دیکھتی ہے اور ایک ٹک دیکھتی رہتی ہے۔ وکیل استغاثہ ذرا قریب ہو جاتا ہے۔ عورت کی آنکھوں میں آنسو پھوٹ پڑتے ہیں۔ اس کا سارا جسم سسکیاں دبانے کی کوشش میں ہلتا ہے اور پھر وہ بلک بلک کر روتی ہوئی کٹہرے پر سر ٹیک دیتی ہے۔ جج گھنٹی بجاتا ہے اور اردلی کو پانی لانے کا اشارہ کرتا ہے۔ وہ بھاگ کر پانی لاتا ہے مگر عورت ہاتھ سے گلاس پرے ہٹا دیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے آپ پر قابو پا کر سیدھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ وکیل استغاثہ نرمی سے اپنا سوال دہراتا ہے)
والدہ: (لمبی سسکی لے کر دونوں ہاتھ جوڑ دیتی ہے) مجھ پر رحم کرو۔ تم سب کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ خدارا مجھ پر رحم کرو۔ میں کس طرح اپنے بیٹے کے خلاف شہادت دے کر اسے خود ہی پھانسی پر چڑھاؤں۔ (روتی ہوئی کٹہرے پر جھک جاتی ہے)
(عورت کی چیخیں اور سسکیاں عدالت میں گونج رہی ہیں۔ جج اور وکیل پریشان نظر آتے ہیں۔ دونوں وکیل آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ پھر وکیل استغاثہ گواہ غلام رسول سے مشورہ کرتا ہے چند لمحے سوچ کر عدالت سے مخاطب ہوتا ہے)
وکیل استغاثہ: جناب والا، میرے خیال میں گواہ اس قابل نہیں کہ شہادت دے سکے۔ میں اجازت چاہتا ہوں کہ اسے ترک کر دیا جائے۔
(جج سر ہلا کر اجازت دیتا ہے اور قلم اٹھا کر کچھ لکھتا ہے۔ وکیل صفائی آگے آتا ہے، بڑے ترس سے ماں کی طرف دیکھتا ہے۔ آہستہ سے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہتا ہے ’’بی بی، آپ آرام کریں ہم لوگ آپ کے بیٹے کو بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ آپ گھر جا کر دعا کریں‘‘ ۔ عورت فرط جذبات سے اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر فرط گریہ سے بول نہیں سکتی۔ پھر انتہائی تشکّر بھرے انداز میں وکیل کی طرف دیکھتی ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنسو بھری آنکھوں سے لگا لیتی ہے۔ سہارا دے کر اندر لانے والے لوگ اسے تھام کر ہولے ہولے باہر لے جاتے ہیں اگلا گواہ آتا ہے اور کٹہرے میں کھڑا ہو جاتا ہے)
وکیل استغاثہ: ملزم سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟
گواہ: میں اس کا باپ ہوں۔ (وہ ملزم سے آنکھیں چراتا ہے)
وکیل استغاثہ: ملزم نے آپ سے کیا کہا تھا؟
باپ: (خالی الذہن سا ہو کر) کب؟
وکیل: (بے صبری سے) میرا مطلب ہے اپنے جرم کے بارے میں؟
باپ: (سر نیچا کر کے اپنے پاؤں کو دیکھتا ہے) اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے بچے کو مار ڈالا ہے اور اب پولیس کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ چاہتا تھا کہ میں پولیس کو اطلاع دوں لیکن۔۔۔ م۔۔۔ میں۔۔۔ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ نہ کر سکا۔ پھر مجھے بھائی جان کی طرف سے تار ملا۔ میں راولپنڈی جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔
وکیل استغاثہ: (جھک کر) بس جناب والا۔
(وکیل صفائی آگے آتا ہے اور جرح شروع کرتا ہے)
وکیل صفائی: دیکھئے قبلہ، ملزم نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ اس نے قتل کیوں کیا تھا؟
باپ: (نفی میں سر ہلاتا ہے)
وکیل صفائی: آپ نے پوچھا نہیں؟
باپ: پوچھتا کیا؟ مجھے سب معلوم تھا۔
وکیل: ذرا عدالت کو بتا دیجیے۔
باپ: ملزم بچے سے سخت نفرت کرتا تھا، کیونکہ اس کی شادی ہوئی تو بچہ اس سے پہلے کا تھا۔
وکیل صفائی: یعنی جب اس کی شادی ہوئی تھی تو بچہ لڑکی کی گود میں تھا؟
باپ: (وقفے کے بعد) جی نہیں۔
وکیل: تو؟
باپ: بچہ شادی کے پانچ ماہ بعد پیدا ہوا تھا۔
وکیل صفائی: (الفاظ چبا کر) پانچ ماہ بعد۔۔۔ تو ملزم کا ردِ عمل کیا تھا؟
باپ: وہ اس وقت تک بیوی کو چھوڑ کر کراچی چلا گیا تھا۔
وکیل صفائی: بیوی کو کیوں چھوڑا۔
باپ: شادی کے تیسرے دن اُسے پتہ چل گیا تھا کہ بیوی اُمید سے ہے تو وہ طلاق دینا چاہتا تھا لیکن ہم لوگوں نے منع کیا تو وہ اسے چھوڑ کر کراچی چلا گیا، جہاں وہ ملازم تھا۔
وکیل: کیا آپ گھر والوں کو پہلے سے پتہ تھا کہ لڑکی اُمید سے ہے؟
باپ: جی ہاں۔
وکیل: کیا آپ بتا سکیں گے کہ شادی کن حالات میں ہوئی؟
باپ: بھائی جان کی بیوی کی وفات کو چار سال گزر گئے تھے جب ایک دن بھائی جان نے بتایا کہ گھر میں نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے امینہ کے تعلقات ہمسایوں کے لڑکے نثار سے ہو گئے تھے۔ انھیں تب پتہ چلا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ انھوں نے نثار کے والد کو راضی کر لیا کہ نثار اور امینہ کی شادی کر دی جائے۔ مگر جب یہ فیصلہ ہوا تو چند دن بعد نثار سکوٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ تب بھائی جان میرے پاس آئے اور ہمیں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ امینہ کی شادی افضل سے کر دی جائے۔
وکیل صفائی: کیا آپ نے شادی سے پہلے ملزم کو ان حالات سے آگاہ کیا تھا۔
باپ: جی نہیں۔ اس حالت میں وہ شادی سے انکار کر دیتا جو ہم اس وقت کے حالات میں برداشت نہ کر سکتے تھے۔
وکیل: لیکن کیا اس کی والدہ کو علم تھا؟
باپ: جی ہاں میری بیوی امینہ کی سگی خالہ تھی اور بہن کی وفات کے بعد وہ بھی چاہتی تھی کہ امینہ کا مستقبل تباہ نہ ہو۔
وکیل صفائی: شادی کے بعد حالات کیسے رہے؟
باپ: افضل نے بیوی سے قطع تعلق کر لیا اور کراچی چلا گیا۔ بچے کی پیدائش پر بھی نہیں آیا۔ ہم سب اس پر زور ڈالتے رہے لیکن یہ نہ مانا۔ بالآخر ڈیڑھ سال بعد مان گیا۔ ہمارے کہنے پر گھر آیا، سسرال جا کر لڑکی کو لایا مگر راستے میں بچے کو قتل کر دیا۔
وکیل: جس دن ملزم کو پہلی بار پتہ چلا تھا تو اس کا ردِ عمل کیا تھا؟
باپ: شادی کے تیسرے دن یہ صبح ہی صبح ہمارے کمرے میں آیا۔ اس کا چہرہ بالکل سفید تھا اور یہ کانپ رہا تھا۔ غالباً یہ اس کشمکش میں تھا کہ بات ہمیں کیسے بتائے۔ اس کا خیال تھا کہ ہمیں اس بات کا پتہ نہیں اور یہ غلطی نادانستہ ہوئی ہے مگر جب ماں نے بٹھا کر کہا کہ اسے علم ہے کہ وہ کیا کہنے آیا ہے تو افضل بالکل حیران ہو گیا۔ پھر میں نے اسے ساری بات بتائی۔
وکیل صفائی: پھر؟
باپ: پھر یہ بالکل ساکت ہو گیا، جیسے پتھر کا بُت ہو۔
وکیل صفائی: کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُسے شدید صدمہ ہوا تھا؟
باپ: یقیناً۔ اسے اتنا صدمہ ہوا تھا کہ اس کا رنگ بالکل نیلا پڑ گیا تھا۔ میں نے چپکے سے جا کر دلہن کو چھت پر بھیج دیا تاکہ اسے شدتِ جذبات میں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
وکیل صفائی: آپ نے اسے نثار کا نام بھی بتا دیا تھا؟
باپ: جی ہاں۔
وکیل صفائی: پھر؟
باپ: پھر یہ کمرے میں جا کر لیٹ گیا اور کئی گھنٹے گُم سُم پڑا رہا۔ دوپہر کو اس نے کہا میں بیوی کو طلاق دے دوں گا۔ تب اس کی والدہ نے کہا کہ وہ اپنی مری ہوئی بہن کو کیا منہ دکھائے گی۔ اور ہم دونوں نے مل کر اسے بہت سمجھایا اور بہت زور ڈالتے رہے۔
وکیل صفائی: آپ نے کس طرح زور ڈالا؟
باپ: میری بیوی نے کہا تھا کہ اگر تم طلاق دو گے تو میں زہر کھا لوں گی۔
وکیل صفائی: پھر؟
باپ: پھر یہ خاموش ہو گیا۔ لیکن اگلی صبح جب ہم اٹھے تو یہ گھر سے غائب تھا۔ تیسرے دن پتہ چلا کہ یہ واپس کراچی چلا گیا ہے۔ جہاں اس کی ملازمت تھی چند دن بعد ہم نے دلہن کو میکے بھیج دیا۔
وکیل صفائی: کیا آپ نے بعد میں بھی صلح کی کوشش کی؟
باپ: مسلسل کوشش کرتے رہے اسے کئی خط لکھے۔ دو ایک دفعہ میں گیا بھی، لیکن یہ نہ مانتا تھا اور کہتا تھا کہ دفتر والے مجھے بے غیرت کہتے ہیں۔
وکیل: آپ کا کیا خیال ہے لوگوں کا یہ طعنہ قتل کا باعث بن سکتا ہے؟
باپ: جی ہاں۔ بلکہ اس طعنے کی وجہ سے وہ راضی نامہ نہ کرتا تھا اور پھر اسی طعنے کو دھونے کے لیے اُس نے قتل کیا۔
وکیل صفائی: بہت بہت شکریہ۔
(وکیل صفائی جج کو جھک کر آداب کرتا ہے اور دوسری طرف نکل جاتا ہے۔ گواہ باہر نکلنے لگتا ہے۔ تو جج کہتا ہے کورٹ کویسچن (COURT QUESTION) وکیل استغاثہ گواہ کو کٹہرے میں روک دیتا ہے)
جج: جب آپ کو لڑکی کی حالت کا علم تھا تو آپ اپنے لڑکے سے شادی پر کیوں رضا مند ہوئے۔
گواہ: (خاموشی سے فرش کو دیکھتا رہتا ہے۔ آنکھیں جھپکتا ہے۔ اور ٹھنڈی سانس لے کر بولتا ہے) جناب والا یہ ایک دن کا فیصلہ نہ تھا۔ یہ تو میرے سارے ماضی نے کیا تھا۔ میرے والدین کوئٹہ کے زلزلے میں مر گئے تھے صرف میں اور میرا بھائی بچے تھے۔ میری عمر پانچ سال کی تھی اور میرا بھائی غلام رسول سولہ برس کا تھا۔ اس نے بہت محنت مشقت کر کے پہلے اپنے آپ پڑھا۔ پھر مجھے پڑھایا۔ اپنی شادی کی، پھر اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے میری شادی کی۔ یہ بالکل میرے باپ کی طرح ہے۔ اس کی مرحومہ بیوی میری ماں کی طرح تھی، جب میں نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے اور اس کی ٹوپی اپنے قدموں میں دیکھی تو۔۔۔ تو۔۔۔ آپ ہی بتائیے میں کیا کرتا؟ میرے بھائی، میرے محسن، میرے باپ کی لڑکی مصیبت میں تھی۔۔۔ اسے اس وقت سہارا نہ دیا جاتا تو اس کی واحد منزل رنڈی کا کوٹھا تھی اور وہاں وہ اکیلی نہ جاتی۔ ہمارے سارے خاندان کی عزت ساتھ جاتی۔ مجھے اس کو بچانا تھا۔۔۔ اپنے بھائی کو بچانا تھا۔۔۔ اپنے خاندان کی عزت کو بچانا تھا اور ایک عظیم سانحے پر پردہ ڈالنا تھا۔ ایک زلزلے میں میں نے ماں باپ کھوئے تھے۔ دوسرے زلزلے میں ہمارا سارا خاندان تہس نہس ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا شاید اپنے بیٹے کی قربانی دے کر اس قہر کو روک سکوں۔ مگر۔۔۔ (وہ آنکھیں میچ کر نفی میں سر ہلاتا ہے) بیٹا بھی گیا۔۔۔ خاندان بھی گیا۔۔۔ عزت بھی گئی۔۔۔ (زور سے کٹہرے پر دو ہتڑ مار کر) سب کچھ گیا۔
(گواہ تیزی سے مڑ کر باہر چلا جاتا ہے۔ عدالت میں سنّاٹا ہے۔ چند لمحوں بعد وکیل صفائی آگے بڑھ کر جج سے مخاطب ہوتا ہے)
وکیل: جناب والا۔ ابھی گواہ کافی باقی ہیں اور عدالت کا وقت ختم ہونے کو ہے میری درخواست ہے کہ ملزم کی بیوی کا بیان بھی آج ہی لے لیا جائے تاکہ جرح کا مقصد پورا ہو سکے۔
جج: اجازت ہے۔
(وکیل استغاثہ باہر اشارہ کرتا ہے۔ اردلی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ’’امینہ بی بی گواہ‘‘ ۔ بائیس برس کی لڑکی دھیرے دھیرے اندر آتی ہے۔ اور کٹہرے میں رُک جاتی ہے۔ ملزم بے چینی سے پہلو بدلتا ہے۔)
وکیل استغاثہ: آپ ملزم کو پہچانتی ہیں؟
امینہ: (ملزم کی طرف دیکھے بغیر) جی ہاں۔
وکیل: یہ آپ کا شوہر ہے؟
لڑکی: (خاموش رہتی ہے)
وکیل: بتائیے؟
لڑکی: صرف قانون کی نظر میں (بڑی رکھائی سے بولتی ہے)
وکیل: آپ اس کے متعلق عدالت کو کچھ بتائیں گی؟
لڑکی: (خشمگیں انداز میں) کچھ؟؟۔۔۔ کچھ بتاؤں گی؟؟ میں تو چیخ چیخ کر ساری دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ اس ظالم سنگدل نے میرا پھول سا بچہ میری آنکھوں کے سامنے اینٹ سے کوٹ کوٹ کر چپٹا کر دیا۔ یہ تو اتنا مردود ہے کہ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ کلکاریاں مار کر ہنس رہا تھا جب اس نے ضربیں لگانا شروع کیں (دونوں ہاتھ پھیلا کر) جس طرح پیاز کو سل پر رکھ کر کوٹتے ہیں۔ اس طرح اس نے میری بچے کو کھیت میں بنّے پر ڈال کر اینٹ سے پیس ڈالا۔ اس کی نازک پسلیاں کانچ کی چوڑی کی طرح کرچی کرچی ہو گئیں۔ (چہرہ ڈھانپ کر رونے لگتی ہے)
وکیل استغاثہ: (قریب آتا ہے) بہن حوصلہ کیجیے۔۔۔ یہ عدالت ہے، ذرا اپنے پر قابو رکھیے۔ بس صرف یہ بتا دیں کہ قتل کہاں ہوا؟
لڑکی: (سسکیاں آہستہ آہستہ کم ہوتی ہیں اور وہ بولنے کی کوشش کرتی ہے) جب ابّا جان نے راولپنڈی سے ہمیں روانہ کیا۔ تو اس نے مجھے راستے میں ایک جگہ بس سے اتار لیا کہ کچھ رشتہ داروں سے ملنا ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ جب ہم کھیتوں میں سے گزر رہے تھے۔ تو کہنے لگا۔۔۔ راضی نامہ کی باقی شرطیں تو سب کو پتہ ہیں لیکن ایک شرط صرف مجھے معلوم ہے جواب تمہیں بتاؤں گا۔۔۔ اس کے بعد تمہاری میری زندگی خوشگوار ہو جائے گی۔۔۔ کمینہ۔۔۔ ذلیل۔۔۔ جیسے میں اس کے ساتھ رہنے میں بڑی خوش تھی۔۔۔ میری تو جُوتی بھی اس کے ساتھ خوش نہ رہ سکتی تھی۔ اور یہ بچپن سے جانتا تھا کہ میں اس سے کتنی نفرت کرتی تھی۔
وکیل استغاثہ: بہن یہ باتیں چھوڑئیے، صرف اتنا بتا دیجیے کہ پھر کیا ہوا؟
لڑکی: ہونا کیا تھا؟ اُس نے اینٹ اٹھا کر اس معصوم کا خاتمہ کر دیا، میں شور کرنے لگی تو یہ مجھے چاقو دکھانے لگا مگر میں کماد کے کھیت میں چھپ گئی اور پھر موقع پا کر سڑک سے راولپنڈی جانے والی بس پر بیٹھ کر گھر پہنچ گئی۔
وکیل استغاثہ: آپ نے پولیس کو اطلاع دی تھی؟
لڑکی: گھر پہنچنے سے پہلے ڈاک خانہ گئی تھی۔ وہاں سے لفافہ خریدا اور وہیں لکھ کر تھانے دار کو پوسٹ کر دیا تھا۔ تب گھر گئی تھی۔
وکیل استغاثہ: بس جناب والا۔
وکیل صفائی: (آگے آتا ہے، چند ثانیے لڑکی کے پاس کھڑا ہو کر اسے دیکھتا ہے پھر جیسے الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر بول رہا ہو۔) بیٹی تم کہہ رہی تھیں کہ تمہیں اس سے نفرت ہے مگر تم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ اسی نے تم سے شادی کر کے تمہیں ایک عظیم تباہی سے بچا لیا ہے اور یہ تم پر احسان تھا۔
لڑکی: تباہی، کون سی تباہی؟؟ (درشتی سے پوچھتی ہے)
وکیل: یہی کہ بن بیاہی ماں بننے کے بعد تو تمہیں کسی کوٹھے پر ہی پناہ مل سکتی تھی نا؟
لڑکی: وہ کیوں؟
وکیل: اور کون سا راستہ باقی تھا؟
لڑکی: وکیل صاحب!! آپ لوگوں کے محدود ذہن یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ بیوی اور طوائف کے درمیان میں کوئی سٹیج ہے۔ جس کی شادی نہ ہوئی آپ کو اس کے ذہن میں طوائف کلبلاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ در اصل اس عورت کا نہیں بلکہ آپ بزرگوں کے ذہن کا فتور ہے۔ مجھے کیا ضرورت تھی شادی کرنے کی؟ میں اپنی غلطی پر خود ہی سزا بھگتنے کو بالکل تیار تھی مگر، اپنے انداز میں، عورت تو یادوں کے سہارے کانٹوں پر بھی میٹھی نیند سو سکتی ہے اور میرے پاس نثار کی یادیں ہی نہیں ایک گوشت پوست کی نشانی بھی تھی، میں اسے سینے سے لگا کر تو دوزخ کو بھی گلزار سمجھتی۔ مجھے نثار مل گیا تھا۔ اس کے بعد زندگی میں کسی اور چیز کی تمنا نہ تھی۔ آپ لوگوں کے لیے وہ مر گیا ہے، مگر لیے وہ اب بھی زندہ ہے۔ جب تک میری سانس چلتی ہے اس میں نثار کی دھڑکن شامل رہے گی۔ میرے بزرگ میرے دل میں جھانک کر تو دیکھتے، کوئی گنجائش ہوتی تو وہاں خاوند گھسیٹتے، مگر انھوں نے تو ڈھلے ڈھلائے فارمولوں سے فرض کر لیا کہ میں اب طوائف ہی بنوں گی
(بیان جاری ہے مگر سین آہستہ آہستہ فیڈ آوٹ ہو جاتا ہے)
دوسرا سین

(پردہ اُٹھتے ہی عدالت کا اجلاس نظر آتا ہے، وکیل صفائی اپنے دلائل پیش کر رہا ہے۔ حسب سابق کمرے میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں)
وکیل صفائی: جناب والا۔ اپنی پچیس سالہ عدالتی زندگی میں، میں نے پہلا کیس دیکھا ہے جس میں سارے مجرمان باہر گھوم رہے ہیں اور ایک بے گناہ پر الزام ہے۔ میں جناب والا بے گناہ ہی کہوں گا، باوجود ملزم کے اقبال جرم کے، اس لیے کہ جو کچھ اس نے کیا وہ وہی کرنے پر مجبور تھا اور اگر نہ کرتا تو اس کی زندگی جہنم ہو جاتی اور وہ ایسا فرد بن جاتا جس سے کسی بھی بھیانک عمل کی توقع ہر وقت ہو سکتی۔ جناب والا۔ چونکہ ملزم اقبال جرم کر چکا ہے اس لیے میں تمام گواہوں پر جرح ایک خاص زاویے سے کرتا رہا ہوں تاکہ عدالت کے سامنے ایک طرف ملزم کی ذہنی کیفیت آ جائے، اور دوسری طرف ان طاقت ور محرکات کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس مقدمے میں ایک مجرم نہیں بلکہ کئی مجرم ہیں، سب سے پہلی مجرم اس کی بیوی امینہ ہے جو اپنی غلطی کو اپنا تمغہ بنا کر عمر بھر کے لیے ملزم کے سینے پر لگانا چاہتی تھی۔ دوسرا مجرم لڑکی کا باپ ہے جس نے اپنے احسانات اور بھائی کی فرمانبرداری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی داغدار لڑکی ملزم پر مسلط کر دی۔ تیسرا مجرم اس لڑکے کا باپ ہے جو اپنی احسانمندی میں بھول گیا کہ اس کا لڑکا ایک علیحدہ اِکائی ہے۔ سوچنے سمجھنے والی اکائی۔ محبت اور نفرت کرنے والی اکائی، طعنوں پر شرم کھانے والی اکائی۔ باپ نے اپنی زندگی گزار لی تھی، بیٹے کو اپنی زندگی گزارنی تھی۔ کار کے فالتو پانچویں پہیے کی طرح اسے ایک پرانی کار سے نہیں جوڑا جا سکتا تھا بلکہ اسے خود زندگی کی حرکت میں رہنا تھا۔ اگر آپ کو سزا دینا ہے تو ان مجرمان کو سزا دیں جو یکے بعد دیگرے ایسے حالات پیدا کرتے گئے جن کا حاصل صرف ایک تھا کہ ملزم اس بچے کو ختم کرے، جو اس کے رقیب کی نشانی بن کر اسے ہر وقت سانپ کی طرح ڈس رہا تھا۔ بے غیرتی کا طعنہ بن کر اس کے رگ و پے میں احساسِ کمتری رچا رہا تھا۔ لوگوں کی ہنسی مذاق کا مستقل نشانہ تھا۔ اس ملزم کو سزا کیوں دیتے ہیں جبکہ اس کو بھی صاف ستھری زندگی بسر کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مرنے والے بچے کو تھا یا اس کی ماں کو ہے یا دیگر گواہوں کو ہے۔ یہ ملزم اعتراف جرم کے باوجود بے گنا ہے، معصوم ہے، کیونکہ اسے قسمت نے متعدد گناہوں کے سنگم میں ڈبکی دی۔ اسے پکڑنے سے پہلے ان دھاروں کو پکڑیں جو ملزم کی بیوی، ملزم کے باپ اور ملزم کے چچا نے جنم دیے۔ جناب والا۔ یہ زندگی ایک پیچیدہ گنجلک ہے۔ اس میں کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کس کے عمل کا تار کس کی قسمت میں اٹکا ہے۔ ہمیں کوئی اندازہ نہیں کہ کہاں سے کھینچ پڑے گی تو کون سی گرہ پکی ہو جائے گی یا کھل جائے گی۔ بعض اوقات ایک جھٹکے سے سارے تار سیدھے ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات صدیوں کی محنت یہ گنجھل نہیں کھول سکتی۔ اور ملزم اس گونجھل کی مرکزی گرہ ہے۔ یہ بے چارہ تین ضابطوں میں بٹا ہوا ہے۔ اوّل خاندانی نظام کا ضابطہ ہے جو گھر اور خاندان کی عزّت کے نام پر قربانی چاہتا ہے۔ دوسرا سوسائٹی کی اقدار کا ضابطہ ہے جو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کی عزت کرتا ہے۔ اور تیسرا آپ کا قانون ہے جو قاتل کو پھانسی پر لٹکا دیتا ہے۔ جناب والا! اکثر اوقات یہ تینوں ضابطے آپس میں منطبق نہیں ہوتے اور ایک دوسرے کی ضد بن جاتے ہیں، ایسی صورت میں بے چارہ فرد ان کے تقاضے پورے کرنے میں اس طرح تباہ ہوتا ہے جس طرح کسی جسم کو مختلف اطراف سے کھینچ کر اُس کے چیتھڑے اُڑا دیے جائیں۔ سَر۔ یہ ملزم ایسا ہی فرد ہے۔ اپنے ضابطے پر پرکھنے سے پہلے خدارا سوچیے کہ غیرت کے ضابطے پر اس کا عمل درست ہے یا نہیں۔ اگر یہ آپ کو ناخوش کرتا تو وہ ضابطہ اس سے ناراض رہ کر اُٹھتے بیٹھتے سزا دیتا رہتا ہے۔ اور اگر اسے خوش کرتا ہے تو آپ اسے پھانسی کا پھندا دکھاتے ہیں۔ فرد کی ازلی اور ابدی مجبوری کو دیکھیے جناب والا اور سوچیے کہ ملزم گناہگار ہے یا بے گناہ۔
(وکیل صفائی بات ختم کر کے جھکتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ جج کچھ لکھتا ہے۔ پھر وکیل استغاثہ کی طرف دیکھتا ہے۔ وہ اُٹھ کر اپنے دلائل شروع کرتا ہے)
وکیل استغاثہ: میں وکیل صفائی کی طرح آپ کو حسین الفاظ کی قوس قزح نہیں دکھاؤں گا بلکہ صرف یہ عرض کروں گا کہ ایک قتل ہوا ہے، قاتل اقبال جرم کرتا ہے۔ گواہان تائید کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں قانون کا فیصلہ کیا ہے؟ قانون کسی شخص کو ایسی کوئی زندگی ختم کرنے کی اجازت نہیں دیتا جو ایک دفعہ وجود میں آ گئی ہو۔ قانون کا منشا صرف انصاف ہے۔ قانون کا کام یہ نہیں کہ دلوں کی دھڑکنیں گنتا پھرے یا پیمانے لے کر احساس کمتری کو ماپتا رہے۔ قانون عمل کی سزا دیتا ہے۔ عمل کا جواز نہیں ڈھونڈتا۔ قانون خون کے گرم قطرے کو دیکھتا ہے مقتول کی ٹھنڈی لاش کو دیکھتا ہے۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑتا ہے جس نے خون گرایا اور اس قاتل کو سزا دیتا ہے جس نے قتل کیا۔ ہمیں نہ قاتل کی حسرتوں سے واسطہ ہے نہ مقتول کی پلکوں پر آنسو دیکھنے ہیں، بلکہ قانون کے محدود دائرے میں رہ کر اور جذبات سے بالاتر ہو کر جرم کا جائزہ لینا ہے۔ ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ معاشرے میں کوئی شخص اپنی قانونی حدود سے تجاوز کر کے دوسرے کی قانونی حدود میں دخل اندازی نہ کر سکے۔ ملزم اپنے لیے تو صاف ستھری زندگی کا خواب دیکھتا ہے مگر اسے اس معصوم کھلکھلاتے بچے کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں جو دنیا میں زندگی گزارنے کا ویسا ہی پختہ حق لے کر آیا ہے جیسا ملزم اپنے لیے چاہتا ہے۔ قانون اس حق کو تسلیم کرتا ہے اور چونکہ ملزم نے وہ حق چھینا ہے اس لیے یہ قصور وار ہے اور اسے سزا ملنی چاہیے۔
(فیڈ آوٹ)

تیسرا سین

سکرین پر اخبار کا عکس۔ پہلا عنوان ہے
’’بچے کے قاتل کو پھانسی کی سزا‘‘
مشہور مقدمۂ قتل کا فیصلہ

چوتھا سین

جیل کا کمرہ قریباً دس فٹ لمبا اور آٹھ فٹ چوڑا۔ سامنے سلاخوں کا دروازہ۔ ملزم افضل چٹائی پر بیٹھا ہے۔ اور قرآن شریف پڑھ رہا ہے۔ مگر اس میں محویت نہیں ہے۔ تھوڑا پڑھتا ہے، پھر سوچ میں ڈوب جاتا ہے، پھر پڑھنے لگتا ہے۔ مگر پڑھتا پڑھتا خالی الذہن ہو جاتا ہے۔ اتنے میں ایک لڑکی سلاخوں والے دروازے کے پاس ہولے ہولے آ کر رکتی ہے۔ ملزم کو چند ثانیے دیکھتی ہے۔ پھر سلاخیں پکڑ کر قریباً جھول سی جاتی ہے۔ اس طرح کہ اس کا چہرہ ایک بازو کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ وہ جھولتے وقت بڑے کرب انگیز انداز میں کہتی ہے ’’خدا۔۔‘‘ ملزم لاپروائی سے سر اُٹھاتا ہے۔
ملزم: کون؟
(لڑکی آہستہ آہستہ منہ اُدھر گھماتی ہے۔ ملزم ایک دم۔ تڑپ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر لپک کر آگے آتا ہے۔ اور بے تابی سے اس کے سلاخوں پر ٹکے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ لیتا ہے۔ حیرت اور شوق سے اسے چند ثانیے دیکھتا ہے)
ملزم: سیمیں تم؟؟ تم ادھر کیسے؟
لڑکی: (محویت کے عالم میں اسے دیکھتی رہتی ہے۔ پھر سپاٹ انداز میں کہتی ہے) میں نے اخبار میں دیکھا تھا۔ (ملزم اسے اوپر نیچے دیکھتا ہے، جیسے اس کا ردِ عمل جانچ رہا ہو) مگر مجھے یقین نہیں آتا تھا۔ (تڑپ کر) فضلی یہ تم نے کیا کر دیا؟؟
ملزم: (گرفت اس کے ہاتھوں پر ڈھیلی پڑ جاتی ہے اور وہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر ہارے ہوئے انداز میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ دو چار ثانیے چپ رہتا ہے اور پھر شکایت بھرے انداز میں بولتا ہے) سیمیں! تم بھی یہی کہتی ہو کہ میں نے کیا کیا ہے؟ کیا بے غیرتی کے طعنے دینے والوں نے کچھ نہیں کیا۔ کیا میرے دفتر والوں نے کچھ نہیں کیا جن کی آنکھوں میں میرے لیے ہتک کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیا امینہ نے کچھ نہیں کیا جو میری بیوی ہوتے ہوئے بھی نثار کے بچے کو مجھ پر ترجیح دیتی تھی اور مجھ سے کھُلم کھُلا نفرت کا اظہار کرتی تھی! کیا میرے گھر والوں نے کچھ نہیں کیا جو مجھے اس جہنم میں مستقل طور پر رکھنا چاہتے تھے؟ (بے چینی سے کمرے میں ایک چکر لگاتا ہے)
سیمیں: قصور جس کا بھی ہوا فضل، تم تو مجھ سے چھن گئے نا۔۔۔ جب تم آخری دفعہ مجھ سے ملے تو مجھ سے تم نے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ (رونے لگتی ہے) میں سمجھتی تھی اگلی دفعہ تمہیں دولہا کے روپ میں۔۔۔ دیکھوں گی۔۔۔ مگر آج کیا دیکھ رہی ہوں!!
ملزم: مجھے سب یاد ہے سیمیں! جب تم سے آخری دفعہ ملا تھا تو میں۔۔۔ واپسی پر جیسے اُڑ رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ امی سے بات کرنے کی دیر ہے اور سب کچھ طے ہو جائے گا۔ مگر۔۔۔ جب میں گھر پہنچا تو شام سے پہلے۔۔۔ میرا نکاح ہو گیا۔ میں اُف نہ کر سکا۔۔۔ تمہیں کیا بتاتا اور کس منہ سے بتاتا۔۔۔ مر تو میں اسی دن گیا تھا۔۔۔ اب تو صرف رسم ہی پوری کرنی ہو گی۔
سیمیں: (روتے ہوئے) ایسانہ کہو افضل۔ انشاء اللہ تعالیٰ اپیل منظور ہو جائے گی۔
افضل: (قریب آ کر) اپیل بھی تو قانون کے مشینی پرزے سنیں گے سیمیں! ان میں انسانیت کہاں۔ وہ منظور نہیں ہو گی۔
سیمیں: نہیں افضل ضرور ہو گی۔
افضل: (زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ) اگر ایسے ہی یقین تھا تو پرسوں آتیں، جب اپیل کا فیصلہ ہو گا تاکہ تمیں آزادی سے ملتا۔ آج کیوں آئی ہو؟
سیمیں: (چند لمحے اسے دیکھتی ہے) میں تو کچھ سمجھنے کو آئی تھی۔ میں تو صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ میرا فضلی قاتل کیسے ہو سکتا ہے۔ تم جو میرا آئیڈیل تھے۔ جو کالج کی مجلسوں کی جان تھے۔ جس کے نغمے میری رُوح سلب کر لیتے تھے۔ اور جس کے بشاش چہرے پر مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ تم کیسے قتل کر سکتے تھے۔ میرا آئیڈیل مجھے کیسے مایوس کر سکتا تھا؟ مگر مجھے ساری کہانی یہاں آ کر پتہ چلی۔
افضل: اب تو تم سب کچھ جان گئی ہو!!
سیمیں: ہاں افضل۔۔۔ تم نے مجھے دو رو مال دیے تھے۔ گھر سے چلی تو ساتھ لے لیے۔۔۔ کہ اگر تم نے کسی سفلے پن کی وجہ سے قتل کیا ہے تو میں یہ رو مال واپس کر دوں گی۔ اور تم سے سارے رشتے توڑ لوں گی۔
افضل: (سلاخوں میں منہ دبا کر) پھر اب؟
سیمیں: مگر نہیں۔۔۔ تم تو الجھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتے تھے۔ خدا کی اتنی حسین دنیا ہے، اس میں اتنی نعمتیں ہیں، مگر حالات کی اُلجھنیں اسے جہنم بنا دیتی ہیں۔ الجھنوں سے نجات کی کوشش کرنا کوئی گناہ نہیں کوئی جرم نہیں۔ میں اب بھی تمہاری ہی ہوں فضلی۔
افضل: (شدتِ جذبات سے اس کے بازو پکڑ لیتا ہے) سیمیں ایک رو مال مجھے دیتی جاؤ۔
سیمیں: تم کیا کرو گے؟۔۔۔ وہ میرے پاس تمہاری نشانی ہے۔
افضل: اس دنیا میں میرے تین دن باقی ہیں۔۔۔ صرف تین دن۔۔۔ ان تین دنوں سے آگے میرا کوئی مستقبل نہیں جس کے متعلق سوچ سکوں۔ نہ کوئی امنگ اُٹھے گی، نہ کل کے خواب ہوں گے، نہ خواہشیں جنم لیں گی، نہ آئندہ کے لیے ہونٹوں سے دعائیں نکلیں گئیں۔ آگے دیکھنے کو میرے پاس کچھ بھی تو نہیں سیمیں۔ یہ تین دن گو آنے والے ہیں لیکن ابھی سے ماضی کا حصہ ہیں، کیوں کہ میں ان دنوں میں صرف ماضی کو ہی یاد کر سکوں گا۔ موت کی تلخی چکھنے سے پہلے میں تلخ یادوں سے بچنا چاہتا ہوں۔ تم رو مال دو گی تو میں اپنا ذہن اس میں لپیٹ کر تمہاری گود میں رکھ دوں گا۔
سیمیں: (روتے ہوئے رو مال بڑھاتی ہے) بس کرو افضل۔ بس کرو۔
افضل: (رو مال کے ساتھ اس کا ہاتھ بھی تھام لیتا ہے) میں وصیت کر جاؤں گا سیمیں کہ میرے بعد یہ رو مال صرف تمہیں واپس کیا جائے گا۔۔۔ یہ گھاٹے کا سودا نہیں سیمیں۔۔۔ جب یہ رو مال تمہیں واپس ملے گا تو۔۔۔ یہ صرف رو مال ہی نہیں ہو گا، اس کے کسی کونے میں میری روح بھی بندھی ہو گی۔ (لڑکی بلک بلک کر رونے لگتی ہے)
فیڈ آوٹ

پانچواں سین

(سکرین پر اخبار کا عکس)
’’افضل کی اپیل نامنظور‘‘
’’اقبال جُرم کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہتی‘‘
عدالت کا فیصلہ

چھٹا سین

(پردے پر تاریکی ہے۔ پس منظر میں صبح کی اذان دُور سے سنائی دیتی ہے۔ اندھیرے میں سلاخوں والا دروازہ کھلنے کی آواز آتی ہے۔ ساتھ ہی ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کی جھنکار بھی ہے۔ قدموں کی چاپ)
وقفہ
(پردے پر آہستہ آہستہ روشنی بڑھتی ہے۔ سلاخوں والا پورا دروازہ نظر آتا ہے۔ کیمرہ قریب جاتا ہے۔ کمرہ اندر سے خالی ہے۔ ایک سلاخ کے گرد رو مال گرہ کی شکل میں لپٹا ہے۔ کیمرہ رو مال پر فوکس ہو کر دھیرے دھیرے قریب آتا ہے۔ حتیٰ کہ سارا رو مال سکرین پر چھا جاتا ہے۔)
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے