کاغذ پہ دھری آنکھیں: فرح دیبا ورک۔ ۔ ۔ ابرار مجیب

کاغذ پہ دھری آنکھیں: فرح دیبا ورک۔ ۔ ۔ ابرار مجیب

ادب کے موجودہ منظر نامے میں نثری نظم یا غیر عروضی شاعری کے جواز اور عدم جواز کی بحث ایسی ہی ہے جیسے کسی زمانے میں سارتر کی وجودیت کو کوئی ہاتھی کی سونڈ سمجھ رہا تھا اور کوئی اس کی دُم۔ شعری مطالعات میں اب سوال یہ نہیں ہے کہ غیر عروضی شاعری جسے عرف عام میں نثری شاعری بھی کہتے ہیں ’’شاعری‘‘ کے خانے میں رکھی جا سکتی ہے یا نہیں، یہاں میں جدید نظم میں ہئیت کے تجربات کی تاریخ دہرا کر اپنی بقراطیت کا اظہار ضروری نہیں سمجھتا کہ شرر سے لے کر سارا شگفتہ تک جدید نظم نے کتنی کروٹیں بدلیں بلکہ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شعری مطالعات نظم کے حوالے سے اب ا س نہج پر گامزن ہیں کہ غیر عروضی شاعری تجربات اور مشاہدات کے پس منظر میں عروضی یا پابند شاعری سے کتنی مختلف ہے۔ کیا یہ ایک بالکل مختلف شعری رویہ ہے ؟ کیا موضوعاتی، فکری اور فلسفیانہ سطح پر بہترین غیر عروضی شاعری ہمیں کسی ایسے تجربے سے گزارتی ہے جو اردو کے روایتی شعری رویے سے الگ، تازہ اور مختلف النوع ہے ؟ میرا خیال ہے ہمارا عہد جس قسم کے پیچیدہ عوامل اور حالات کی آماجگاہ ہے، مذہبی انتہا پسندی، کلچرل کرائسس اور تصادم، معاشی سامراجیت کا فروغ جسے گلوبلائزیشن کا نام دیا گیا ہے نے ایسے موضوعات کو جنم دیا ہے جسے شعر کے روایتی سانچے میں پیش کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ دوسری بات یہ کہ افہام و تفہیم کے تمام تر مباحث سے قطع نظر یہ بات طے ہے کہ غیر عروضی شاعری انسانی تجربات و مشاہدات کے طبعیاتی اور ما بعد الطبعیاتی صورت حال کو اس کے حقیقی پس منظر میں براہ راست پیش کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ غزل کی تنگ دامنی اور بیان کی وسعت کے لئے ایک مختلف وسیلہٗ اظہار کی ضرورت صرف غالب کی شاعرانہ تعلی کا اظہار نہیں بلکہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ سجاد ظہیر کے پگھلا نیلم سے لے کر سارا شگفتہ کی آنکھیں تک سماج، فرد، تہذیب، فلسفہ اور نفسیاتی عوامل کو ایک مختلف منظر نامے میں دیکھنے، سمجھنے اور پیش کرنے کا عمل صاف نظر آتا ہے۔
اس تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ فرح دیبا ( ایف ڈی) ورک کی غیر عروضی نظموں کا مجموعہ میرے سامنے ہے اور میں ایک خوشگوار حیرت سے دوچار ہوں۔ اس مجموعے میں شامل نظموں کی سب سے بڑی خوبی موضوعات کا تنوع اور انہیں ، مشاہداتی سچائی کو مسخ کئے بغیر پیش کرنے کا براہ راست عمل صاف نظر آتا ہے۔ نظم کے مصرعوں میں گنجلک علائم کی بھرمار، ناقابل فہم استعاروں اور تفہیم کی سرحدوں سے باہر جاتی ہوئی فکری بے راہ روی یا عرف عام میں جسے مجذوب کی بڑ کہتے ہیں اور جو آج غیر عروضی شاعری کے تساہل پسند شعرا کی خصوصیت بن چکی ہے ہمیں ایف ڈی ورک کے یہاں نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ایف ڈی ورک کے شعری رویے کو ڈائرکٹ اپروچ سے تعبیر کیا ہے۔ ڈائرکٹ اپروچ سے میر ی مراد یہ ہے کہ فنکار اپنے مشاہدات و تجربات کا بیان کچھ اس صفائی اور مہارت سے پیش کرے کہ ایک طرف حقیقی مشاہدہ اور تجربہ نمایاں نظر آئے اور دوسری طرف بیان کے مختلف ٹکروں کی ہم آہنگی سے کسی نئی حقیقت کا امکان روشن ہوتا ہوا نظر آئے۔ ایف ڈی ورک کی غیر عروضی شاعری میں حقیقت کا انکشاف مشاہدات و تجربات کے براہ راست بیان سے ہوتا ہے۔ نظمیہ شاعری سے قطع نظر اگر ہم کافکا اور نیر مسعود کے افسانوی رویوں کو گہرائی سے دیکھیں تو ہم پر واضح ہوگا کہ ان کے زیادہ تر افسانے مشاہداتی بیان پر مبنی ہیں۔ مکان، سڑک، کوئی پرانا شہر، ان کی جزئیات، خوشبو، لمس، قبریں، لوگ، لوگوں کے حلیوں کی جزئیات وغیرہ وغیرہ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انسانی حرکات وسکنات کی جزئیات سے لے ماحول کی باریک تفصیلات سے گندھے افسانے کسی انجانی حقیقت کو طشت از بام کرتے نظر آتے ہیں۔ مجھے ایف ڈی ورک کی نظموں میں بھی یہی رویہ کار فرما نظر آتا ہے، ان کے یہاں معروضی مشاہدات کی جزئیات اپنے اختتام پر کسی حقیقت کے اسرار کی نقاب کشائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت معلوم اور نامعلوم کے درمیان کہیں موجود ہے اور ایف ڈی ورک اسے ہمارے ادراک کا حصہ بنا دیتی ہیں۔ یہاں میں مثال کے طور پر ایف ڈی ورک کی دو نظمیں پیش کرتا ہوں:

نظم: ریت کا گھر

ریت کا ایک گھر بنا کے
بیٹھی سوچ رہی ہوں
جانے کب ہوا کا جھونکا
ساری ریت اُڑائے
جانے کب بارش کا پانی
گھر کو ریت بنائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نظم: شکایت

وہ پھول توڑ لیتا ہے
کیوں کہ اسے پھول اچھے لگتے ہیں
اپنے من پسند پرندے
اس نے پنجرے میں قید کر رکھے ہیں
پھر بھی
اسے مجھ سے شکایت ہے
کہ میں اس کی محبت کا یقین نہیں کرتی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایف ڈی ورک کے یہاں موضوعات کا تنوع ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ عام رجحان کی پیروی کرتے ہوئے بطور شاعرہ انہوں نے خو د کو نسائی جذبات اور ان کے مسائل تک خود کو محدود نہیں رکھا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے یہاں نسائی تجربات پر مبنی نظمیں نہیں ہیں یا ان کے یہاں نسائی موضوعات کی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ان کی نظموں میں موجود ہے اور بہت گہری فکری بصیرت کے ساتھ موجود ہے لیکن مجھے جو بات متاثر کرتی ہے وہ یہ کہ انہوں نے اپنے تخلیقی رویے میں فیمینزم کو بطور فیشن نہیں برتا ہے اور مظلوم عورت کے روایتی استحصال کی داستان نہیں سنائی ہے۔ ایف ڈی ورک آج کی عورت کے نفسیاتی عوامل اور انفرادی کردار کو بھی سامنے لاتی ہیں، ان کی بعض نظموں میں عورت کا منفی کردار بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔ مثلاً یہ نظم دیکھیں۔
نظم: سہیلی

اسے میری جو بھی شئے
پسند آ جاتی
بلا جھجک استعمال کر لیتی
مگر بتا ضرور دیتی
ایک دن اسے
میرا شوہر بھا گیا
مگر اس بار اس نے
بتانا ضروری نہیں سمجھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عورتوں کے منفی رویوں اور کرداروں کے پس منظر میں ایف ڈی ورک کی اور بھی کئی نظمیں، اس لحاظ سے ورک کی نظر یک چشمی نہیں بلکہ وہ حقیقت کی متلاشی نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف ایک عورت ہونے کے ناطے ایف ڈی ورک نے سماج کے ان تاریک گوشوں پر بھی اپنے ادراک کی روشنی ڈالی ہے جو اب تک ہماری نظروں سے پوشیدہ تھے یا جنہیں بعض مصلحت یا مجبوری کی بنا پر شاعرات بیان کرنے سے قاصر تھیں۔ ایف ڈی ورک نے بالکل نئے تناظر میں عورتوں کی انفرادیت اور موجودہ سماجی اور سیاسی چوکھٹے میں اس کا مقام، عورتوں کے خلاف استحصالی قوتوں کے بدلتے پینترے یعنی شیرینی میں ملفوف زہریلے فلسفیانہ افکار کو پہچانا ہے اور انہیں نمایاں بھی کیا ہے۔ ورک کی نظم ’’وقت‘‘ کی سادہ بیانی میں پوشیدہ گہرے طنز کو ملاحظہ کریں:
اس کا دعویٰ ہے
کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے
میری ہر شئے پر
اس کا حق ہے
اور وہ میری خاطر
آسمان سے تارے بھی توڑ کر
لا سکتا ہے
بشرطیکہ
اس کے پاس وقت ہو

جنسی استحصال کی انتہائی گھناؤنی صورت ورک کی نظم ’’مگر‘‘ میں نظر آتی ہے، اس نظم کی قراء ت ہمیں ایک سرسامی کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے اور ہم بھی کرب کے اس اندھے غار میں اتر جاتے ہیں جس میں نظم کی کردار بھٹک رہی ہے، ایک بے حسی اور سناٹا لئے ہوئے۔
اس کی پرسکون آنکھوں میں
نمی تک نہیں
کیونکہ
وہ اپنے سوتیلے باپ
کے قاتل کو جانتی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایف ڈی ورک کی شاعری میں عورت اور مرد کے ازلی رشتے کا ایک نیا تناظر ابھرتا نظر آتا ہے۔ نظم ’’ ریل کی پٹری ‘‘ کا مرد کردار عورت کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص فاصلے کو برقرار رکھتے ہوئے جیسا کہ ریل کی پٹریوں کے درمیان ہوتا ہے چلنا نہیں چاہتا، اور شاعرہ اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہے کہ جب بھی ریل کی پٹریاں ملتی ہیں جان لیتی ہیں۔ عورت اور مرد کے مابین کیا کوئی رشتہ برابری کی سطح پر ممکن نہیں ؟ ریل کی دو پٹریوں کی طرح ہم آہنگی کے ساتھ دونوں ایک ساتھ سفر کیوں نہیں کرسکتے ؟ مرد ہمیشہ اس رشتہ کے اندر کسی مخصوص خواہش کی تکمیل کا خواہاں کیوں ہے ؟ مرد اور عورت کے رشتے میں مخصوص جذبے کی تکمیل ایک کلیدی استحصالی مرکزہ ہے جس کے چاروں طرف زندگی نامی جوہر کے بنیادی ذرات گردش کر رہے ہیں۔
ورک کی شاعری میں موضوعاتی تنوع کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہے، اور ان پر تفصیلی گفتگو کی جا سکتی ہے، لیکن میں عصر ی حسیت کے حوالے سے اسلامی معاشرے میں جاری مذہبی منافرت اور انتہا پسندی پر سوالیہ نشان لگاتی ہوئی ایف ڈی ورک کی نظم ’’معاوضہ‘‘ پیش کر کے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
بم دھماکے میں جھلسی ہوئی لاش
صحن میں پڑی ہے
بہن کی بین
سینہ چھلنی کر رہے ہیں
اور وہ اپنے لرزتے ہاتھوں کی
مٹھیاں بھینچے
کھڑا سوچ رہا ہے
وہ اپنے جس مشن سے
کامیاب لوٹا ہے
اس کا جشن منائے
یا ماتم
میرا اپنا خیال ہے کہ اس مجموعہ کی نظمیں قاری سے گہری بصیرت اور بصارت دونوں کا مطالبہ کرتی ہیں۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے