پرفسور مسعود الحسن۔۔ ایک وہ تھا جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا۔۔۔ مظفر حسین سید

اس ایک عمر میں پتہ نہیں کتنے ستم ہائے فلک برداشت کرنے ہیں، کتنے اپنوں کی جدائی کا غم انگیز کرنا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ’تو‘ کہنے والے تو کب کے رخصت ہو چکے، اب’ تم‘ کہنے والوں کا بھی فقدان ہے۔ اسی تسلسل حیات و ممات میں ہمارے ایک اور بزرگ، مشفق، استاد بے مثل، عالم بے بدل، فحول اکبر، غطریف تعلّم، نیز علیٰ کل اک انسان لا تمثال، پرفسور (دکتور) مسعود الحسن صاحب ہمارے مثل الف ہا شاگردان درس و خوشہ چینان دسترخوان علم کو داغ مفارقت دے کر راہیِ امصار عالم بالا ہوئے، اور اپنی بے مثل وراثت علمی و ادبی کے ہم رشتہ ایک ایسا خلائے بسیط بھی پیدا کر گئے کہ جس کا پُر ہونا، رسماً نہیں، عملاً و حقیقتاً ممکن نظر نہیں آتا، کہ جو بادہ کش جاتا ہے وہ نہ اپنا ثانی چھوڑتا ہے، نہ کوئی ایسا جانشین حقیقی، جو بہ استحاق، منبر نشین ہو سکے۔ ع۔ دنیا میں تجھ سے لاکھ سہی، تو مگر کہاں۔

گذشتہ چند برس ہمارے مہربانان محترم، اساتذۂ کرام سے محرومی کو محیط رہے ہیں۔ معین احسن جذبی صاحب، اشتیاق عابدی صاحب اور سلامت اللہ خاں صاحب کی رخصت عدم کو ایک زمانہ بیتا، مگر ہاشم قدوائی، اسلوب احمد انصاری اور قاضی عبد الستار صاحبان کے سانحات ارتحال تو ابھی کل کی بات ہیں، ان تمام اکابر کو مرحوم کہتے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ع۔ جب نام ترا لیجے تب آنکھ بھر آوے‘‘ کے مصداق ان تمام افراد فرید کا غم جاں گسل ہے، مگر ان کی روشن یادیں اک یادگار بے غایت۔ اب یادوں کی اس الم ناک، مگر تابناک کہکشاں کے ستارہ ہائے منور میں مسعود الحسن صاحب کی رحلت کے ساتھ ایک اور منبع نور کا اضافہ ہوا ہے۔

ملاقات اوّل تو یوں یا و نہیں کہ اسا تذہ کرام سے باضابطہ تعارف تو ہوتا نہیں، اوّلاً رونمائی ہوتی ہے، پھر نیاز حاصل ہوتا ہے اور تب جا کر قربت، اگر مقدور میں ہوئی تو نصیب ہوتی ہے۔ کچھ یہی مضمون اس ناچیز اور مسعود صاحب مرحوم کے ضمن میں تھا۔ دانشگاہ سید میں درجہ یاز و ہم میں داخلہ لیا تو انگریزی کی درسگاہ میں ایک دراز قد، خوش لباس، خوش گفتار مرعوب کن اور بیک نظر نستعلیق شخصیت نظر نواز ہوئی، چند دن میں اندازہ ہو گیا کہ اگرچہ ایک گونہ کرختگی و سختی، چہرے پر ہمہ وقت آویزاں تھی، مگر اس نقاب خارجی کے پردے میں ایک مشفق و شفیق استاد متمکن تھا، جس کی داد و دہش علمی، ارزاں و فراواں تھی۔ گیارہویں درجہ کے ایک عام طالب علم کو کوئی لائق فائق اور سنجیدہ استاد کہاں گردانتا، مگر ایک یکطرفہ تعلق، بہر کیف قائم ہو گیا، جو آئندہ برسوں میں مسلسل فزوں رہا۔ موصوف مکرم کا درس کیا تھا، اک دریائے رواں تھا، جس کی سیرابی تو عام تھی مگر افہام محال الحصول، بہر صورت کوئی نودس ماہ کب گزرے، احساس نہ ہوا، اور نصاب مکمل ہو گیا۔

حق بیانی ملحوظ ہو تو یہ اعتراف لازم ہے کہ درجہ دوازہم (یعنی بی۔ اے، سال اوّل) میں انگریزی ادب کو بطور مضمون اختصاص (آنرز) اختیار کرنے میں اگر انگریزی داں والد محترم کے مشوروں کا التزام تھا، تو وہیں یہ اشتیاق بھی کہ اب شاید مسعود صاحب جیسے استاد سے مزید استفادۂ علمی کے وسیع تر مواقع حاصل ہوں اور بعینہٕ یہی ہوا بھی، کہ دیگر با فیض اساتذہ مکرم کے شانہ بشانہ مسعود صاحب کی سرپرستی یوں میسر آئی کہ انگریزی کلاسیکی شاعری کا ایک پرچہ انہیں برائے درس تفویض ہوا تھا۔ اس زمانے کے اساتذہ کرام میں جن چند حضرات کی یاد سے مفر ممکن نہیں، ان میں محترمین اشتیاق عابدی، اقبال حسن اور مقبول صاحب شامل ہیں۔ (سلامت اللہ صاحب، اسلوب صاحب، زاہدہ زیدی وغیرہم کی سرپرستی بعد میں میسّر آئی)۔

برسبیل تذکرہ والد محترم کا ذکر نکل آیا تو یہ عرض کرنا با محل ہو گا کہ وہ بھی نہ صرف علیگ تھے، بلکہ اسلوب صاحب کے ہم سبق بھی، وہ اگرچہ مسعود صاحب سے قدرے اکبر (سینئر) تھے، تاہم وہ بقول خود، اس ہونہار نوجوان سے بخوبی واقف تھے اور اس کی لیاقت و صلاحیت کے معترف بھی۔ ان کی زبان مبارک سے ہم نے مسعود صاحب کا ذکر اکثر سنا۔ بہر کیف، یہ بھی داستان دگر ہے، جس کی تفصیل کی گنجائش یہاں نہیں۔

اس کم علم و کم نظر کی گفتگو اہل علم و فہم، نیز ذوق ادب سے ثروت مند احباب سے اکثر ہوتی ہے کہ فی زمانہ ہمارے معاشرے میں ادبا بھی ہیں، شعرا بھی اور ایک سے ایک فاضل مقالہ نگار بھی، مگر ایک طرف صحیح معنیٰ میں علماء (اسکالرز) حضرات کا فقدان ہے تو دوسری طرف استادان علوی عنقا ہیں۔ یہاں راقم نا چیز، بہ کمال ذمہ داری یہ عرض کرتا ہے کہ مسعود صاحب ذی علم بھی تھے اور استاد بے مثل بھی۔ وہ نہ انشاپرداز تھے، نہ افسانہ نویس، نہ شاعر، مگر وہ عالم بے بدل تھے اور معلّم لا مثال اور یہ وہ دو اوصاف ہیں، جن سے آج ہمارا معاشرۂ علم و تعلم محروم ہے۔ ان کے درس سے فیض یاب ہوتے وقت اس کوتاہ علم کے ذہن میں مصحفی کا یہ شعر اکثر بازگشت کرتا تھا ؎

استخواں بندیِ الفاظ کا عالم تو دیکھ

اہل معنی کی جدا ہووے ہے تقریر کا ڈول

گفتار در زبان فرنگ تو ایک سیل رواں کے مانند تھی ہی، مادری زبان میں گفتگو بھی اتنی ہی شگفتہ تھی اور نجی محفلوں میں ان کی پر گوئی، فہم سخن اور اُردو دانی کا خوشگوار تجربہ اکثر ہوتا تھا۔

موصوف مرحوم سے آخری ملاقات کی یاد بڑی دل شکن ہے۔ یہ ملاقات معنی آفریں، ابھی ماہ دو ماہ قبل ہوئی تھی۔ دانشگاہ سید میں انگریزی کی ایک کتاب کی رسم اجراء تھی اور اس پر مباحثہ بھی۔ صاحب کتاب کی عنایت بے غایت، نیز ناشر کتاب ہذا کے تحرک کے طفیل اس کم سواد کو اس بزم علم میں شریک ہونے اور یا وہ گوئی کا مرتکب ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ اس محفل علم میں استاد معنوی پرفسور عبدالحق بھی بطور مقرر خصوصی مدعو تھے، اور از حد مسرت کا مقام یہ تھا کہ اس بزم دانش کی صندلیِ صدارت پر مسعود صاحب رونق افروز تھے اور اس خاکسار کے لئے یہ امر باعث طمانیت تھا کہ اب ان کی حوصلہ افزائی نصیب ہونی تھی۔ مزید یہ کہ استاد محترم سے ملاقات کا شرف بھی ایک عرصے کے بعد حاصل ہو رہا تھا۔

اس وقت تک مسعود صاحب کی عمر نو عشروں کو پار کر چکی تھی، اس عمر میں عموماً بینائی کمزور ہو جاتی ہے اور اور یادداشت جواب دے جاتی ہے، اس لئے محفل کے افتتاح سے قبل اس ناچیز نے عرشۂ محفل پر ہی قبلہ مسعود صاحب کے روبرو، سر کو قدرے نہیں، مکمل طور پر خم کر کے دست بستہ سلام عرض کیا اور گوش گزار کیا کہ یہ ناچیز آپ کا شاگرد نالائق، مظفر حسین سید ہے۔ انہوں نے مصافحہ کی بجائے معانقے سے سرفراز کیا اور ایک تاریخی جملہ عطا کیا، جس کے سمعی شاہد کئی اکابرین دانشگاہ تھے۔ انہوں نے فرمایا۔ ’’میاں! جو آپ کو نہیں جانتا اور پہچانتا، وہ نابینا ہے اور میں تو آپ کی تحریر یں پڑھتا رہتا ہوں‘‘- ظاہر ہے کہ استاد محترم (اور وہ بھی مسعود صاحب) کے یہ فقرے اس ناچیز کے لئے نہ صرف تبرک تھے، بلکہ تعویذ گلو بنانے کے لائق تھے اور آج بھی ہیں۔

اگرچہ راقم نے ملاحظہ کیا کہ مسعود صاحب بہ قوت ایستادہ تھے۔ اور ان کے قدم بھی تیز نہیں توسست روی کا شکار بھی ہر گز نہیں تھے، تاہم کبر سنی کی علامات ان کے وجود پر سایہ فگن تھیں، مگر اس اندیشے کا احساس چنداں نہیں ہو سکا کہ ان کا سایۂ با شفقت اس ناچیز اور اس کے مثل ہزار ہا شاگردان مسعود کے سرسے جلد اٹھنے والا ہے۔ مگر حیف کہ شاید دو ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ وہ سانحہ ظہور پذیر ہو گیا، جس کا احتمال تو تھا مگر توقع اس قدر جلد نہ تھی۔ اس قصۂ المناک کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی ایک ماہ قبل ہمارے مشفق، شفیق بالتحقیق، حکیم ظلؔ الرحمن صاحب نے اپنی تاریخ ساز، مثال زمانہ، ابن سینا اکادمی کے پرچم تلے، سالانہ توسیعی خطبے کے انعقاد کا اعلان فرمایا اور اس فرض خوشگوار کی تکمیل کے لئے ناچیز کے مجب، پرفسور ارتضیٰ کریم کا انتخاب کیا۔ مزید کرم فرمائی یہ کہ انہوں نے اس کم علم کو حکم دیا کہ خطیب امروز کا تعارف آپ کے ذمہ ہے کہ آپ کی ان سے ذاتی معاملت و رشتۂ احبالی ہے، نیز آپ ان کے درجات علم و فضل سے کماحقہٗ، آگاہ ہیں۔ اب حکیم صاحب کا حکم تو اس ناچیز کے لئے غیر ضمانتی سمّن تھا، سو سرتابی ممکن نہ تھی۔ محترم حکیم صاحب اور مسعود صاحب کے دیرینہ مراسم بھی تھے، ہر دو حضرات ایک دوسرے کے علم و فضل کے معترف بھی اور حسن سلوک کے قائل بھی تھے۔ اس لئے حکیم صاحب کی بیشتر بزم ہائے علم و دانش میں منصب صدارت پر فسور مسعودالحسن ہی فائز ہوتے تھے، اور میزبان مہربان کی عنایات بے غایت کے طفیل اس خاکسار کو اکثر ان کے سایۂ صدارت میں شرکت و ہر زہ سرائی کے کئی مواقع نصیب ہوئے تھے۔ اس مرتبہ بھی اگرچہ راقم کو باضابطہ یہ اطلاع نہ تھی، مگر قلبی طور پر یقین کا مل تھا کہ اس بزم کی صدارت بھی مسعود صاحب ہی فرمائیں گے، اور پھر اس ناچیز کی بن آئے گی، حسب وضع داریِ استاد کچھ شاباشی بھی حصہ میں آئے گی اور حسب معمول، خاصا فیض بھی ہو گا، بس یہی خواب تھا اور تاریخ مقر رہ کا انتظار، کہ ایک شب، اچانک بغیر کسی تمہید کے، کرم فرمائے من پرفسور سید محمد ہاشم نے یہ روح فرسا خبر بد سنائی کہ مسعوالحسن صاحب بھی ایں جہانی سے آں جہانی ہو گئے اور وہ بھی بغیر کسی پیشگی تنبیہہ کے کہ نہ کسی مرض کا شکار ہوئے، نہ صاحب فراش ہونے کی نوبت آئی، بس شب باش ہوئے اور خلاف معمول، علی الصبح طلوع نہ ہو سکے۔ اس روح فرسا خبر کے ہم رشتہ، یہ حیران کن اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ چند روز، بلکہ ایک روز قبل تک انہوں نے ناچیز کے ہم چشموں اور اپنے خردوں سے نہ صرف تل فونی گفتگو کی تھی، بلکہ حسب عادت، جستجوئے علمی کے تحت بعض کتب و مقالہ جات کے سلسلے میں استفسارات بھی فرمائے تھے۔ کیا ہی با معنیٰ اور کامیاب زیست تھی، اور کیا متفخرّانہ صبر و سکون سے لبریز فرجام، کہ جس کی مثال ملنا، گر نا ممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔ بے اختیار زبان پر یہ شعر رواں ہو گیا ؎

لاکھ سادہ سہی، تیری وہ جبیں کی تحریر

اس سے اکثر مرے افکار کو ملتی تھی زباں

ممدوح موصوف مسعود صاحب، اگرچہ سرتاپا علم و دانش کا پیکر تھے اور تعلّم و تدریس کے لئے وقف، تاہم وہ معاشرۂ گرد و پیش سے لاتعلق ہرگز نہ تھے۔ وہ منصب درس کے علاوہ بعض انتظامی مناصب پر بھی فائز رہے اور چند عوامی ذمہ داریاں بھی بخوبی سرانجام دیں، بہ حیثیت شعبہ انگریزی کے صدر (چیرمین) کلیات فنون کے سربراہ (ڈین) دانشگاہی محکمۂ نظم ضبط کے نگراں (پروکٹر)، دانشگاہی مجلس انتظام و انصرام (ای، سی) کے رکن، دانشگاہی مجلس تعلیم (اے، سی) کے رکن، مدرسہ جات دانشگاہ (یونیورسٹی اسکولز) کے منتظم اعلیٰ، نیز اساتذۂ دانشگاہ کی انجمن (اسٹاف ایوسی ایشن) کے معتمد (سکریٹری) وغیرہم۔

اگرچہ ان کی سنجیدگی، درشت روئی کی حدود میں داخل تھی، مگر وہ بد خلاق ہر گز نہ تھے۔ ان کی گفتار نرم تھی، اور لہجہ جب سخت ہوتا، تب بھی تکلیف دہ اور مظہر برہمی نہیں ہوتا تھا۔ اپنے تمام تر تحفظات اور بظاہر سختی و درشتگی کی علامات کے باوصف، وہ بہ باطن انتہائی مشفق و نیک نفس تھے۔ شرافت شخصی ان کا وصف بے مثل تھی۔ اپنے انہی اوصاف کے باعث وہ رفقا، طلبا، اکابر و صغائر، تمام عناصر میں مقبول تھے۔ ان سے اختلاف تو کافی حضرات کرتے ہوں گے، مگر برملا مخالفت کوئی نہیں کر پاتا تھا۔ یہ ان کی مقناطیسی شخصیت کا اثر تھا۔ اگرچہ اس ناچیز کو ذاتی سطح پر ان سے بہت زیادہ استفادے کے مواقع حاصل نہیں ہوئے، مگر جو میسر آئے، وہ بیش قیمت تھے، نیز یہ کم سواد ان کے فیض عام سے بخوبی واقف تھا اور ہمیشہ ان کی فرادی عظمت کا قائل اور معترف رہا، آج بھی ہے اور تازیست رہیگا۔

مسعود صاحب کی قوّت ارادی، اور خود اعتمادی بے مثل تھی، نیز وہ بے پناہ اخلاقی جرأت کے حامل تھے، اپنی اسی طاقت کی اساس پر انہوں نے تمام مراحل سرکئے، علمی، عملی، انفرادی، اجتماعی و انتظامی، بلکہ ہنگامی بھی۔ مسعود صاحب علیگ برادری کے رکن کبیر تھے، اس لحاظ سے اس بے وقعت علیگی کے برادر اکبر، نیز استاد مکرم و محترم۔ علاوہ ازیں ایک تعلق اور بھی تھا، کہ اس ناچیز کا وطن اجدادی بھی مراد آباد ہے اور مسعود صاحب کے ساتھ، یہ ایک قدر مشترک تھی۔ تاہم اس رشتے کو نہ تو کبھی اس ناسواد نے لائق اہمیت جانا اور نہ انہوں نے علم ہونے کے باوجود، اس کو کبھی کوئی زائد اہمیت دی۔ ظاہر ہے کہ یہ تو ایک اتفاق واقعاتی تھا، بس۔

مسعود صاحب مجاہد قلم بھی تھے اور غازیِ گفتار بھی۔ ان کی تحریر کی طرح ان کی تقریر بھی اپنی مثال آپ تھی۔ اگرچہ اُن کی شناخت اوّل بطور، ایک مثالی استاد کے تھی، لیکن ان کے علمی و ادبی کارناموں کی فہرست بھی، کچھ مختصر نہیں، بنیادی نہج پر وہ ماہر کتابیات تھے (ایکسپرٹ آف ببلوگرافی) اس میدان میں ان کے کئی کارنامے بے مثال ہیں، علاوہ ازیں، انگریزی شاعری پران کی ایک بڑی بیش قیمت تالیف ہے، ان تمام امور سے اہل علم بخوبی واقف ہیں، لہٰذا ان کی فہرست سازی ضروری نہیں۔ تاہم ان کے کارنامۂ حیات (لائف ورک) کا ذکر لازم ہے، یعنی ’انگریزی ادب میں تصوف‘(روز آغاز تا عہد حاضر)۔ یہ شاید دنیا بھر میں اپنی نوعیت کا اوّلین (اور شاید ہنوز واحد) کام ہے، جو اپنی کلّیت و کمیّت کے سبب، انہیں ہمیشہ زندہ جاوید رکھے گا۔

مسعود صاحب نے اپنی طویل پاری بڑی شان سے کھیلی، اور اس کا اختتام بڑے تبختر انفرادی سے کیا- کوئی چہار عشرے سے متجاوز مدّت کو محیط عمل تدریس انجام دیا، اوّلاً درسگاہ حمیدیہ بھوپال میں اور بعد ازاں، دانشگاہ سید، علی گڑھ میں۔ تعلیم و تعلّم کے مختلف مراحل کے متوازی علمی و منصبی ترقیاتی منازل بھی طے کیں۔ تعلیم مراد آباد اور علی گڑھ کی تھی تو تکمیل تعلیم (دکتوریت) انگلستان کی۔ جہاں رہے سرخ رو ہے، سرخیل بن کر رہے اور یہ کوئی معمولی امتیاز نہیں تھا۔

اپنی حیات طویل میں مسعود صاحب کو بڑے جانکاہ حادثات برداشت کرنے پڑے۔ ان کی حیات میں ان کی دختر کا انتقال ہوا، ان کی شریک حیات رحلت عدم میں ان پرسبقت لے گئیں اور ان کے پسر عزیز پر افتاد پڑی، ایک عرصہ تک مصائب کے بادل چھائے رہے۔ مگر موصوف نے بڑی مستقل مزاجی اور پا مردی سے حالات کا مقابلہ کیا، غموں کو انگیز کیا، اور مصائب پر قابو پانے کی حتی الوسع سعی کی۔ اور بالآخرت حالات بہتر ہوئے۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور سفر حیات جاری رہا۔ اسی آن سے، اسی شان سے، آخر ایک دن کاتب تقدیر نے ان کے رِحال آخرت کا پروانہ مرسل کر دیا۔

ہمیں یہ اعتراف کرنے ہیں، باک نہیں کہ مسعود صاحب سے ہمارا بہت زیادہ واسطہ نہیں تھا، روز مرہ کی ملاقات بھی نہیں تھی، اور ان کے دولت کدے پر حاضری بھی خال خال تھی، مگر ایک تعلق خاطر بہر حال تھا، جو اپنی جگہ مستحکم تھا، نیز، سال بہ سال پختہ سے پختہ تر ہو کر دیرینہ بھی ہو گیا تھا، اور قربت نہ سہی، مگر یہ سلسلۂ موالات کم و بیش نصف صدی کو محیط ہوا۔ اب پچاس برس کو بسیط تعلق خاطر میں، کئی صد قصّہ ہائے مشترک ہو سکتے ہیں، اور ان میں سے دس بیس تو لائق تذکرہ بھی ہوں گے، تاہم بطور اعادہ یاد کیا جائے، تو یاد ہائے شیریں و تلخ کے بطور، صرف چند واقعات کا ذکر کافی ہے۔ ایک واقعہ، اگرچہ معمولی تھا، مگر اپنی اثر پذیری میں غیر معمولی، اس عاصی کا دانشگاہ میں ماہ اوّل ہی تھا اور مسعود صاحب کی درسگاہ میں ہنوز رسائی نہ ہوئی تھی، اس لئے واقفیت کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ نو جوانی کا عالم تھا اور سرخوشی کا زمانہ، لہٰذا، کسی عمارت کے زینے کی منزلوں کو یکے بعد دگر طے کرنا خلاف شان تھا، کوشش ہوتی تھی کہ ایک دو جست میں یا زائد از زائد چند جستوں میں زینہ طے ہو جائے اور دوسری منزل تک قدم رسا ہو جائیں۔ ایسی ہی ایک احمقانہ، بشکل شجاعانہ کاوش میں یہ ناچیز ایک دن زمیں بوس ہو گیا۔ آنکھوں کا اندھیرا دور ہوا تو چشم ہائے حیراں نے ملاحظہ کیا کہ ایک شفیق استاد نے بڑی مستعدی اور کمال محبت سے نہ صرف راقم کو سہارا دے کر، اس کے قدموں پر قائم کیا، بلکہ انتہائی فکر مندی سے دریافت کیا، ’’صاحب زادے، چوٹ تو نہیں لگی‘‘۔ کچھ احساس ندامت و شرمندگی اور کچھ مائل بہ پستی ہونے کی خفت، ناچیز نے صرف نفی میں سر کو جنبش دی اور عالم وحشت کے سبب ان کا شکریہ بھی ادانہ کر سکا۔ تاہم ان کا چہرۂ مہربان اسی دن سے دل پر نقش ہو گیا اور وقت کے ساتھ یہ نقش گہرا اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ بعد ازاں علم ہوا کہ وہ چہرۂ انور مسعود صاحب کا تھا۔ اگر باور کیا جائے تو موصوف ممدوح سے یہ پہلی ملاقات تھی، اگر چہ اتفاقی اور حادثاتی تھی اور کچھ ایسی باعث توقیر بھی نہ تھی۔

دوسرا واقعہ یہ کہ ایک مرتبہ ہم چند احباب کے ساتھ شاہراہ دانشگاہ پربر سر عام، محو گفتگو تھے، تبھی نازنینان درسگاہ نسوانی کا ایک غول قریب سے گزرا۔ انصاف کی بات تو یہ کہ ہمارے گروہ شیطانی نے ان کی جانب شاید نگاہ بھی نہ کی۔ مگر پتہ نہیں، مسعود صاحب کہاں سے تاک رہے تھے کہ چشم زدن میں وارد ہو گئے اور لگے سخت باز پرس بلکہ گوشمالی کرنے، ہم لوگوں نے لاکھ صفائی دی، مگر اس دن وہ کچھ سننے کو آمادہ نہ تھے۔ بہر حال کافی زبانی زدو کوب کیا، مضروب کیا۔ خیر، سزا تو تفویض نہیں کی، مگر تنبیہات شدید سے سب کے ذہن کو خوف گرفتہ کیا اور سب طلبا کو منتشر ہونے کا حکم دے کر، راہیِ کتب خانۂ آزاد ہو گئے، دلچسپ بات یہ کہ انہیں تو شاید یاد نہ رہا ہو، مگر ہمیں یہ واقعہ ہمیشہ یاد رہا، یوں بھی کہ بے خطا ہدف دشنام بننا پڑا تھا۔ تاہم بعد ازاں قربت کے بعد بھی ہم کبھی ان کی بارگاہ میں مزید صفائی پیش نہ کر سکے اور انہوں نے تو کبھی کوئی ذکر کیا ہی نہیں، کہ یہ امر خلاف شان بے نیازی تھا۔

تیسرا واقعہ: ایک مرتبہ اس نا چیز نے کسی مراعت کے لئے دانش گاہی انتظامیہ کی خدمت میں ایک درخواست گزاری، ضابطے کے تحت، دفتر نظم و ضبط (پروکٹر آفس) سے تفتیش و تحقیق کرائی گئی، جس میں اگرچہ فیصلہ محفوظ تھا، مگر بوسیلۂ شناسائے چند، اس نارسا نے اس خفیہ فیصلے سے واقفیت حاصل کر لی اور بطور تعجیل نفاذ، اس ضمن میں قبلہ مسعود صاحب سے رجوع کیا جو اس وقت دانشگاہ کے نگران نظم و ضبط (پروکٹر) تھے۔ اس وقت تک یہ کم سواد ان کی شناخت کا حصہ نہیں بنا تھا کہ نووارد تھا۔ انہوں نے تمام کوائف کی سماعت، بہ صبر و ضبط فرمائی پھر سوال کیا، ’’مگر میاں، آپ کو اس خفیہ فیصلے کا علم کیسے ہوا؟‘‘، ناچیز کا جواب جیسے انہیں معلوم تھا، اس لئے وہ خود ہی گویا ہوئے، ’’جائیے انہی لوگوں سے کار روائی کے لئے کہئے، جنہوں نے آپ پر یہ راز افشا کیا ہے ‘‘۔ ان کا لہجہ خاصہ سخت بلکہ درشت تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک امر انتظامی درپیش تھا اور اس بے عقل کی بے عقلی سے ان کے محکمے کی ایک کمزور یا جاگر ہوئی تھی، تاہم انہوں نے مزید کوئی بازپرس نہیں کی اور خادم کو رخصت کرتے ہوئے، صرف یہ جملہ ارشاد فرمایا، ’’آپ کی یہ جسارت آپ کے خلاف بھی جا سکتی ہے، بہرحال وقت کا انتظار کیجئے‘‘۔ اس قصہ کا نقطہ عروج یہ کہ جب فیصلہ کی تشہیر ہوئی تو، ہنوز وہ راقم کے حق میں تھا اور اس کا نفاذ بھی بلا فصل ہوا۔

ایک اور واقعہ بطور ذکر آخر: ایک مرتبہ جب چند روز کے اندر موصوف کے صدر کلیات (ڈین) ہونے کی خبر گرم تھی، تو چند قائدین طلبا نے ان سے رجوع کیا، اور چند پیشگی مراعات کے لئے ملتجی ہوئے۔ اگر چہ مراعات انفرادی نہیں، بلکہ اجتماعی نوعیت کی تھیں اور ان کی منظوری میں کوئی قانونی قباحت بھی نہ تھی، مگر یہ طریق کار مسعود صاحب کے مزاج کے منافی اور کسی دباؤ کے تحت کام کرنا ان کے اصول کے خلاف تھا۔ لہذا انہوں نے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں فرمایا کہ، وہ اس سلسلے میں کسی قسم کی وکالت کو راہ دینا نہیں چاہتے۔ جب ایک قائد طلبا نے ترکی بہ تر کی کہا کہ ’’صاحب کل آپ ڈین ہو جائیں گے، تو مفاد عامہ کے کئی ایسے معاملات میں، آپ سے رجوع کرنا ہی پڑے گا، آپ کوہماری بات سننی بھی ہو گی اور ماننی بھی پڑے گی‘‘۔ یہ باغیانہ جملہ سن کر مسعود صاحب نے اس قائد کی جانب بالخصوص اور دیگر قائدین طلبا کی طرف بالعموم، چشم ہائے خشمگیں سے نظر کی اور فرمایا، ’’ اگر یہ بات ہے تو ہم آپ کی یہ ڈین شب قبول ہی نہیں کریں گے ‘‘۔ اور من وعن یہی ہوا، انہوں نے صدارت کلیات کا (با اختیار) منصب، بہ یک زبان مسترد کر دیا، اور اس ضمن میں احباب و رفقا کے اصرار کے علاوہ شیخ الجامعہ کے احکام کی بھی پروا نہیں کی۔ یہ تھے مسعود صاحب، اپنے اصولوں کے تحفظ کے لئے سب کچھ قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار۔ ایسے اور بھی کئی واقعات ہوں گے، جن کا ذکر یہاں ممکن نہیں۔

مسعود صاحب اپنی رحلت ملک عدم سے کوئی اکتیس برس قبل ملازمت سے وظیفہ یاب ہو گئے تھے۔ مگر عملاً وہ کبھی سبکدوش نہیں ہوئے۔ بلکہ بعد از ملازمت وہ امور دانشگاہی میں اور زیادہ مستعد ہو گئے تھے۔ ہر علمی مجلس و معاشرتی سرگرمی میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ اور ہر جا معاشرۂ دانشگاہ کو ان کی ضرورت محسوس ہوتی تھی، ہر جگہ ان کی پذیر ائی ہوتی تھی اور ہر موقع پر، جہاں بھی انہیں یاد کیا جاتا، وہ بڑی خندہ پیشانی تشریف لاتے تھے۔ بلکہ زمانۂ اخروی میں تو وہ ایک ہمہ وقت تیار (ریڈی میڈ) صدر مجلس بن گئے تھے۔ بیشتر علمی و ادبی ہی نہیں بلکہ سماجی محفلوں میں بھی وہ مہمان خصوصی یا صدر کی مسند پر فائز نظر آتے تھے اور ہر جگہ بر موقع، بر محل و بر موضوع ان کی تقریر، سیر حاصل ہوتی تھی، اکثر ایسا محسوس ہوتا (انگریزی ادب تو خیر ان کا موضوع خاص تھا، اور اردو ادب بھی بہ تکمیل ان کی دسترس میں تھا۔ سو تمام محاکات پر ان کی نظر تھی) کہ وہ علمی ادبی ہی نہیں بلکہ عمرانی امور پر بھی کمال قدرت کے حامل تھے، جس کا زندہ و تابندہ ثبوت، ان کی عالمانہ و دانشورانہ تقریر ہوتی تھی۔

مسعود صاحب کی میراث نہایت بیش قیمت ہے، اور شہروں بلکہ ملکوں کو بسیط و محیط ہے۔ آج دنیا بھر میں ان کے شاگرد موجود ہیں جن میں پرفسور بھی ہیں، دکتور بھی، شیوخ الجامعہ بھی، افسران اعلی بھی اور قائدین میدان سیاست بھی۔ در اصل مسعود صاحب کے علم و فضل و اوصاف جمیلہ پر گفتگو کے لئے کئی دفتر درکار ہیں، سردست، تحریر ہٰذا صرف بطور خراج عقیدت پیش کی گئی ایک تاثراتی تسطیر ہے اور اسی دائرے کے اندر اس کی قرأت موزوں ہو گی۔

بہ طور اتمام گفتگو، بس ایک اور واقعہ کہ یادگار بھی ہے اور بے مثل بھی۔ ایک مرتبہ مدّاحان مسعود نے یہ مہم شروع کی کہ موصوف کو بحیثیت استاد موقر ایک علمی و تعلّمی منصب تفویض ہو، جو ان کا حق تھا، نیز ان سے کم صلاحیت بلکہ بے بضاعت افراد کا مقدر بھی بن چکا تھا۔ تاہم، عصری انتظامیہ کے معاندانہ رجحان اور چند خدائی فوجدار قسم کے مخالفین کی نا مبارک مساعی کے باعث وہ منصب و اعزاز، بطور شہپر، موصوف کی کلاہ با تبریک کی زینت نہ بن سکا۔ راقم اگرچہ اس وقت دانشگاہ میں بحیثیت طالب علم باوجود نہ تھا، مگر تمام متعلقہ حقائق و کوائف سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس لئے جب ایک سفر شہر علم کے دوران مسعود صاحب سے ملاقات ہوئی، تو راقم نے اس باب میں ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ علی گڑھ کی مروّجہ غلط بخشیوں کا حوالہ دیا اور اپنی مایوسی و ناخوشی کا بے محابہ اظہار کیا، تو موصوف نے اپنے مخصوص زیر لب تبسّم خجستہ کے ہم رشتہ، فارسی کا ایک شعر پڑھا، اور اس کے علاوہ ایک لفظ نہیں کہا، کہ اس کے بعد کچھ کہنے کا اقتضاء ہی نہ تھا، شعر:

نہ اینجادست برسر بلکہ سربردست می باشد

بہ بزمت عاشقِ دیوانہ آدابے دگر دارد

{ترجمہ: یہاں (محبوب کی بزم میں) ہاتھ سر پر (رکھ کر واویلا) نہیں ہوتا، بلکہ ہاتھ پر سر (رکھ کر) پیش کیا جاتا ہے، (کیونکہ) تیری بزم میں دیوانگیِ عشق کے آداب کچھ اور ہی ہیں۔}

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے