اندھیروں کی سرحد پر ۔۔۔ مہران ملاح (سندھی)/ دیوی ناگرانی

آخر میں اس کی پرواہ کیوں کرتی ہوں؟ جب میں نے ہی اسے دھتکار دیا ہے، تو پھر اس کے خیال آ کر کیوں میرے دل کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں؟ اس کا اپنا مسئلہ ہے، جب رابطہ ہوگا تو اس کی مدد کروں گی۔ میں کیوں خود کو پریشان کروں؟ پر مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ جیسے ان کی پریشانی میری بھی پریشانی ہے۔ اگر میرا اس کے ساتھ کوئی ناطہ نہیں ہے تو پھر یہ بےچینی، یہ چھٹپٹاہٹ کیسی؟

جب وہ روٹھا تھا تو اس نے کہا تھا – ‘اچھا، آپ اپنے الگاؤ پر قائم رہنا، ہم اپنا ناطہ نبھائیں گے ۔’

میں نے سوچا وہ بیزار ہو کر بھاگ جائے گا، پر اس نے واقعی اپنا ناطہ نبھایا۔ جیسے کہا، ویسے کر دکھایا۔ پر میرا الگاؤ اتنا کمزور کیسے پڑ گیا ہے، جو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا خیال میرے من میں گھر کر گیا ہے ۔ میں اس کے خیالوں کی سرحد پار کرنا چاہتی ہوں، تاکہ اس کی کوئی بھی بات، کوئی بھی یاد میرا پیچھا نہ کر سکے۔ میں اس سے نفرت کرنا چاہتی ہوں، جیسے اس سے میرا گھر متاثر نہ ہو اور اس کے مسئلوں کی یہ بے چینی، یہ بکھیڑا (خواہش کے خلاف گزر رہی زندگی) قائم رہے۔

گزرے سال ایک موقعے پر ملنے کے بعد اس نے مجھے واک کرنے کی آفر دی تھی، اور کچھ ایسے نرمی سے زور دیا کہ میں خود کو روک نہ پائی ۔ میری گاڑی نے بھی آنے میں دیر کی تھی اس لیے سوچا جب تک ڈرائیور پہنچے تھوڑا ٹہل لوں۔ روڈ کے دونوں طرف کھڑے قد آور پیڑ تیز ہوا کے باعث جھوم جھوم کر اک دوسرے سے الفت کا ناطہ نبھا رہے تھے ۔ وہ بھی مجھ سے کچھ دوری رکھ کر، برابری میں چل رہا تھا۔ ‘کچھ کہنا ہے؟’

‘ہاں !’ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے گردن کو حلقے سے ہلاتے ہوئے کہا ۔

‘دیکھو، اگر وہی پیار ویار والی بکواس شروع کی تو میں یہیں سے لوٹ جاؤں گی۔’

‘تمہارے لئے پیار کا لفظ اتنا بے معنی کیوں ہے؟

‘یہ فرصت میں رہنے والوں کا دل بہلاوا ہے۔ ما مقبول اور ناکام لوگوں کی کمزوری ہے۔ جب زندگی میں کوئی بھی کام کرنے کے لئے نہیں ہوتا تو آدمی پیار کرتا ہے۔ وہ صرف سستی کا سامان حاصل کرتا ہے۔‘

میں نے پیار کے خلاف ایسے جذباتی جملے نکالے ہی تھے کہ وہ بیکل ہو گیا ۔ ہوا کے جھونکے رات رانی کی مہک لئے ہمیں چھو کر گزرتے رہے تھے۔ چاند کسی جاسوس کی طرح پیڑوں کے جھرمٹ کے بیچ سے جھانک کر ہمیں دیکھ رہا تھا۔

‘اب کہہ بھی ڈالو، تمام راستہ چپ رہتے آئے ہو ۔’

‘تم سچ میں بہت مہربان ہو۔ میری سبھی نادانیوں کے باوجود مجھے وقت دیتی ہو، میری باتیں سنتی ہو، میری پرواہ کرتی ہو ۔’

‘اصلی بات پر آؤ ۔’

‘تم ناراض ہوتی ہو نا! اچھا اب آگے سے نہ میں تمہیں ایس ایم ایس کروں گا اور نہ ہی کوئی فون کال۔ نہ تمہارے آفس میں آؤں گا، نہ ہی ایسا کوئی کام کروں گا جس سے تمہارا دل دکھی ہو۔ پر تمہیں قسم ہے، کبھی بھی مجھ سے یہ مانگ نہ کرنا کہ میں تمہیں چاہنا چھوڑ دوں، کیونکہ تمہارے بنا میں جی نہ سکوں گا۔‘

اس دن میرے وجود کو موت جیسے سناٹے نے گھیر لیا ۔ پچھتاوے کے احساس نے میرے اندر آگ لگا دی تھی۔ ایک آدمی کی دوسرے آدمی کے سامنے بے بسی کی حالت نے میرے اندر ایک بھونچال پیدا کیا۔ میں نے اپنے وجود کو ذرہ ذرہ ہو کر بکھرتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ اسی لیے اس رات میری زبان سے ایک بھی لفظ نہ نکل پایا۔

آج میں کتنی اکیلی ہوں۔ سبھی رشتے ہوتے ہوئے بھی بیگانی اور بیکل، پر اس دنیا میں ایک شخص ایسا ضرور ہے، جس سے میں خود کو چھپا نہ پائی ہوں ۔ جبکہ میں سخت سے سخت بات کو بھی مسکرا کر ٹال دیتی ہوں ۔ پر وہ میری مسکراہٹ میں چھپی اداسی کو بھی بھانپ لیتا ہے۔

کتنا گھمنڈ ہے اسے! اپنا کام اوروں سے چھپائے پھر رہا ہے۔ کاش! اگر مجھ سے وہ سیدھے سیدھے کہہ دے تو میں اپنی طرف سے کوشش  کر کے اس کی مدد کر دوں، پر بڑا بد دماغ دماغ ہے اس کا۔ اگر کام اس کا اپنا ہے تو وہ ربط کیوں نہیں کرتا؟ ابھی پرسوں ہی میں نے اسے فون کیا اور پوچھا – ‘کوئی بھی کام ہو تو مجھ سے کہنا۔’

پر ابھی تک اس نے کوئی خبر ہی نہیں دی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ایسے لا پرواہ شخص کو آدمیوں کی بھیڑ میں کھڑا کر کے طمانچہ ماروں!

مجھے پتہ ہے کہ وہ ہرگز فون نہیں کرے گا ۔ ہو سکتا ہے کسی مصیبت میں ہو؟ مجھے ہی اسے فون کرنا چاہئیے ۔ میں نے اسے اپنی زندگی سے ڈی لیٹ ضرور کیا ہے پر اس کا سیل نمبر میرے سم کارڈ میں محفوظ ہے ۔ یہ لو، یہ اس کا ہی نمبر سکرین پر آ گیا ہے ۔ کال تو کروں پر پتہ نہیں وہ کیا سمجھ بیٹھے؟ خیر چھوڑو اسے، ایسا موقع بھی تو پھر نہیں آئے گا، کیونکہ گھر میں بھی وہ سبھی سے اکھڑا اکھڑا سا ہے۔

مجھ سے فیصلہ کیوں نہیں ہوتا؟ چلو اسے کال کرتی ہوں ۔ بھلا جو اتنا پیار کرے اس سے کیا حساب کتاب کرنا! اگر وہ سدھر گیا ہوتا تو بہت دن پہلے بھاگ گیا ہوتا ۔ پر وہ تو آزمائش پر پورا اترا ہے ۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ایک دن وہ میرے آفس میں چلا آیا اور اتفاقاً وہاں کوئی اور نہیں تھا ۔ مجھ سے کہا – ‘کبھی تم نے سوچا ہے کہ میں تم سے کیا چاہتا ہوں؟’

‘یہی جو ایک مرد ایک عورت سے چاہتا ہے!’ میں نے جواب دیا ۔

‘نہیں’ اس نے کہا ۔ ‘میں صرف یہی چاہتا ہوں کہ تم مان لو کہ میں تمہارا چاہنے والا ہوں ۔’

‘اس سے کیا ہوگا؟’

‘میں یہ سمجھنے لگوں گا کہ میں تمہیں چاہنے کے قابل بن گیا ہوں ۔ میں تمہارے دل کے دفتر میں اپنی رجسٹریشن کروانا چاہتا ہوں ۔’

٭٭

 

کبھی کبھی دل کو اس کی باتیں بالکل سمجھ میں نہ آتی ۔ اس کے ساتھ میرا رشتہ خود میرے لئے ایک معمہ سا بنا ہوا ہے ۔ پر ایک بات ضرور ہے، کہ وہ جب بھی میرے نزدیک ہوتا ہے تو میرا دل مسرور ہو جاتا ہے، وجود میں کسی طاقت اور توازن کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔

سوچ رہی ہوں کہ اسے کال کروں، پر جانے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ کال تو کر لوں، پر بات کہاں سے شروع کروں؟ چلو ایسا کرتی ہوں، پہلے تو سلام کروں گی اور پھر اپنا نام بتاؤں گی ۔ پر اسکے آگے کیا کہوں گی؟ اور کیا کہوں گی، یہی کہ آپ نے تو بالکل ہی ربط نہیں کیا ۔ آپ کی پریشانی کا کیا ہوا؟ پھر ایسے ہی بات آگے بڑھ جائے گی اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کال رسیو ہی نہ کرے یا بے رخی سے پیش آئے۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ فی الحال ایسا موقع پھر ملے گا ۔ اس وقت وہ کسی تکلیف کے دور سے گزر رہا ہے اور اسی بہانے بات کی جا سکتی ہے ۔ پر مان لو یہ پل گزر گیا تو پھر شائد رابطے کی کوئی راہ ہی نہ بچے!

بھاڑ میں جائے، میرا کیا جاتا ہے! اس کی زندگی میں اونچ نیچ جو بھی ہے، وہ خود جو کرنا چاہے کر لے۔ سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں، پر مجال ہے کہ اس کی کھوپڑی کچھ سیدھا سوچے۔ ہمیشہ الٹی سوچ، الٹا عمل۔ کہا ہے، کئی بار کہا ہے کہ میں ہرگز تمہاری نہیں ہو سکتی، پر ‘اونٹنی لگائے دس، اونٹ لگائے تیرہ’ والی بات ہو گئی ۔ واقعی عاشق، گنوار اور دنیا کو کچھ بھی سمجھانا ناممکن ہے!

میرے خیال ہیں، یا ریگستان کا سفر، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اچھا اب اس کا نمبر ہی ملا لیتی ہوں۔ ‘آپ کا ملایا ہوا نمبر فی الحال ابھی بند ہے، مہربانی کر کے تھوڑی دیر بعد کوشش کریں’ موبائل سے آواز آتی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے