دو نظمیں ۔۔۔ تنویر قاضی

 

باغوں میں گھرے باغ

__________________

 

خواب نہیں تھے

چلغوزے کے باغ تھے جیسے

طائر طائر اُڑتے رہتے سپنے

سنگِ مر مر کے فوارے

بھرے ہوئے نیلے پانی سے

ایک لحاف میں بیٹھ کے کھاتے

موسم کے پھل

خواب نہیں تھے

سُرخ گلاب تھے

خواب نہیں تھے

چلغوزے کے باغ تھے

سائیبیرین کُونجیں

ساتھ بِتاتیں سرما، جھیل کنارے

بالوں میں کنگھی کرتا

چاندی سا ہاتھ اور شب مُسکاتی

سونے جیسی کوئی پُرانی یاد ستاتی

ہجر کا نغمہ فصلِ بہار میں کوئل گاتی

جگراتوں کی بھیڑ

اچانک دھکم پیل میں کر دیتا ہے

زور کا ریلا باغ سے باہر

ہمیں کہانی پر اُکساتا درد الاؤ

بکرے کی سجی بنتے ہوئے دیکھتے جاتے

باری ہماری اور کوئی لے جاتا

کھڑکی آندھی سے کھل جاتی

کچھ نہ دکھائی دیتا

گرد و غبار میں لپٹا منظر

جالا بننے والی مکڑی خوش ہو جاتی

جب پوشاک بسنتی اُس نے پہنی

بھول گیا سُرخاب اُڑان میں اپنی ٹہنی

باغ کے دروازے پر روک لیئے جاتے جب، رونے لگتے

مخروطی حیران کبوتر

سُرخ اناروں کی چھاگل اور آنکھوں کے بادام

ناف انجیر اور پوروں کے چلغوزے، بوسہ مانگتے

چلغوزے کے باغ نہیں تھے، خواب تھے وہ

خواب نہیں تھے، چلغوزے کے باغ تھے

٭٭٭

 

 

 

 

چاکلیٹ

__________________

 

 

دل کا زرد کنارا

درد سہارا

چُٹکی چُٹکی گراتی

دیمک

ایک پُرانی چوکھٹ

تیز ہوا سے گرتے دیکھیں دونوں پَٹ

کھڑکی ٹُوٹی

بوچھاروں میں بدلا

کالا بادل

ایک تار پر

برسی بارش

آتش آتش

پہناوے میں

ذائقہ ذائقہ

ہونٹ اپنے

رُت کاٹتی ہے

لَٹ ماتھے پر آیا پسینہ

چاٹتی ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے