عید سنگت ۔۔۔ سیدہ صائمہ کاظمی

وہ بار بار اسٹیئرنگ پر ہاتھ جماتی، کبھی سڑک پر دور تک کھڑی گاڑیوں کی قطار کو گھورتی، تو کبھی گھڑی کے ہندسوں کو۔ پانچ بج رہے تھے، لیکن ابھی بھی سورج، گویا سوا نیزے پر محسوس ہوتا تھا۔

ٹرن۔۔۔ ٹوں۔۔۔ پوں۔۔۔ پاں۔۔۔۔

عقب سے پھر کچھ گاڑیوں نے شور مچایا تھا۔

بھکاریوں کی نووارد کھیپ نے ایک بار پھر اس کے سامنے ہتھیلیاں پھیلائی تھیں۔

کوفت اور بے کیفی کے عالم میں اس نے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مار کر ہارن پر بھڑاس نکالی تھی۔

انتیسویں روزے کی یہ بھیڑ، غیر یقینی صورتحال اور عوام کے مزاج کی غماز تھی.

پتہ نہیں لوگ پورے رمضان کیا کرتے رہے ہیں ، جو سارا شہر آج ہی سڑکوں پر نکل آیا تھا۔

اس نے جھنجھلا کر سوچا۔۔۔۔

عید کوئی پہلی بار تو نہیں آ رہی، نہ ہی یہ کوئی آخری عید ہے!

جو خریداری آج ہونی ہے ، وہ دو چار ہفتے پہلے بھی تو ہو سکتی تھی۔۔۔ پھر یہ عجلت، یہ افراتفری، یہ جلد بازی۔۔۔

اس نے لوگوں کو پھر کوسا۔

بی بی! تم کہاں تھیں۔ تم نے کیوں ناں یہ عقلمندی کر ڈالی۔

اس کی سوچیں خود سے ہی الجھنے لگیں۔

میری تو مجبوری تھی۔۔۔!

اس نے خود ہی کو ایک بودی دلیل پیش کرنے کی کوشش کی۔

تو بس! بھگتو پھر اپنے جیسے مجبوروں کی مجبوریاں۔۔۔

اندر سے کسی نے اس کا تمسخر اڑایا۔

یا اللہ! کیا کروں۔ کب یہاں سے گلو خلاصی ہو گی۔ اور کب افطاری تیار ہو گی۔

بھرے پرا گھراس کا منتظر تھا۔

وہ کُرلا کر رہ گئی۔

وہ تین بجے سے مارکیٹ میں خوار ہو رہی تھی۔ اپنی خریداری تو وہ رمضان سے پہلے ہی کر چکی تھی۔ راشن بھی اس کے حساب سے پورا ہی تھا، لیکن افطاری میں فرمائشی مینیو نہ صرف بجٹ آؤٹ کرنے کا سبب بنا تھا، بلکہ اسے عین چاند رات کو عید کے لیے یہ خواری اٹھانی پڑی تھی۔

پتہ نہیں زندگی میں یہ مشقت کب تک لکھی ہے؟ اس نے خود سے سوال کیا تھا۔

اور اس سوال کے ساتھ ہی ذہن و دل کے نہاں دریچے وا ہو گئے۔

گذشتہ برس کی چاند رات اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔

حبس زدہ رات کا نزول قہقہوں اور رنگینیوں کے ساتھ برکتیں لیے ہوئے تھا۔ اس کی جیٹھانی افطار کے بعد سے ہی غائب ہو گئی تھیں۔ اور اتنا تو وہ جانتی تھی، آج کی رات خریداری تو محض ایک بہانہ تھی، اصل مقصد تو تفریح تھی۔ دونوں میاں بیوی ساتھ وقت گذارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ باوجود اس کے کہ ان کی شادی کو دس سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا. جبکہ پچھلے چار سالوں میں ہی اس کا شوہر، اس سے اور اپنے بیڈ روم سے بیزار ہو چکا تھا۔

اس کی آنکھیں دیکھ سکتی تھیں ، اسی گھر کے اوپر والے پورشن میں زندگی، احساس کی طرح دوڑتی تھی۔

جبکہ اس کے وجود سے در و دیوار تک ہر شئے یاسیت کی گہری چھاپ میں لپٹی ہوئی تھی.

صفدر! اس کا شریک سفر، شادی کے بعد سے آج تک کوئی ایک عید بھی اس کے ساتھ منانے کا روادار نہیں ہوا تھا۔ اسے گھر گرہستی سے زیادہ اپنی دوستی یاریاں عزیز تھیں۔ پہلی شکایت پر ہی اس نے باور کرا دیا تھا کہ وہ آزاد پنچھی ہے، اپنی مرضی کا مالک!

اپنی ذات کے سوا اس کے لیے کوئی شئے معنی نہیں رکھتی۔ ایک بیوی کی خاطر وہ برسوں کی سنگت قربان نہیں کر سکتا۔

اور ہرسال کی طرح اس سال بھی کاموں کے جنجال میں ٹوٹی کمر لے کر، اس کے حصے میں آئے گی تو فقط۔۔۔ شبِ انتظار، شبِ فراق، شبِ تنہائی!

اور اس کی مجبوری کہ اسے پھر بھی مسکراتے رہنا ہو گا۔

اپنی ذات کا بھرم رکھنے کو.

بھرم، انتظار اور عید!!

ان لفظوں نے اس کے اندر جوالا بھڑکا دی۔

ٹھیک ہے ، صفدر صاحب! تم عید مناؤ اپنی سنگت کے ساتھ!!

آج کی رات میری ہو گی!!

بغیر کسی مجبوری کے، بِنا تنہائی کے۔۔۔۔

اور سڑک کا جائزہ لیا۔

راستہ صاف تھا۔

اس نے اللہ والا چورنگی سے چکر کاٹ کر گاڑی کو مخالف سمت پر ڈال دیا۔

تلاش کرنے پر نئی سنگتیں اور راستے مل ہی جاتے ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے