رات ۔۔۔ قیصر شہزاد ساقیؔ

ماں!

وہ کالی رات

جس کے بعد سویرا نہ ہوا۔۔ ۔۔

جس کے نقش

یادوں کے پارہ پارہ وجود سے

آج تک نہ مٹ پائے

اس رات

تقدیر تاریکی کے پیراہن میں

تیرے سرہانے کھڑی تھی

میں خاموش تماشائی

مصلحت کی عینک سے

ان ہاتھوں کو جنھوں نے ہزاروں خواہشوں

لاکھوں آرزوؤں پر مٹی ڈالی تھی

تیری اور بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا

(بے بس، ڈرپوک دہن ساکت جیسے خواب میں موت کو سامنے دیکھ کے لب نہ ہلیں آواز کہیں سینے سے بھی نیچے دب جائے قدم اٹھنے سے انکار کر دیں اور بازو نیم مردہ ہو کے لڑھک جائیں)

میری ماں!

اس رات کتنا سکوت تھا

جیسے ہم ٹھہری ڈوریوں پہ سہمے پتلے

اور

موت تماشائی۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے