محبت کی داستان ۔۔۔ انور سجاد

آسمان کی طرف جاتی سیڑھیاں، لاتعداد سیڑھیاں جن کے آخر میں عالیشان محل چمکتے سورج میں کلچرڈ موتی ہے

وہ کہ جس کے پھیپھڑے بانجھ، شہر کے دھوئیں، سرطانی کھیتوں کی دھول سے ضیق النفس، جس کی زبان اور آنکھوں میں کتابوں کے چاٹے ہوئے کانٹے، وہ کہ جس کے جسم کی کھال اس کا لباس ہے، سیڑھی پر پیر رکھ کر لمحہ بھر کے لئے موتی محل سے منعکس کرنوں کو دیکھتا ہے۔ کرنوں کے پردے وا ہو تے ہیں، ایک مرمریں ہاتھا سے بلاتا ہے، وہ سیڑھیوں کو دو دوچار کر کے پھلانگتا چڑھتا چلا جاتا ہے۔ لیکن وہ محل کی طرف بڑھتا جتنا فاصلہ طے کرتا ہے محل، موتی کی طرح، وقت کی گرفت سے پھسل کر اتنا ہی دور ہو جاتا ہے۔

وہ پسینے میں گُچ ہانپتا لرزتا لڑکھڑاتا گرنے ہی لگتا ہے کہ ساری کائنات اس کی نظروں میں جامد ہو جاتی ہے۔ وہ تیسری سیڑھی پر کھڑی ہے۔ مسکرا کے کہتی ہے

کیا ہوا خیر تو ہے؟

وہ چونک کر دیکھتا ہے

اس نے موتی کے چھلکے کا کفتان پہنا ہے۔ اس کا جسم چمکتے سورج میں یوں لشکتا ہے جیسے کلچرڈ موتی۔ زمین سے برآمدے کی سطح تیسری سیڑھی ہے جہاں وہ کھڑی ہے۔

وہ اپنی گردن میں اٹھتے درد کی لہر کو دانت بھیچ کر کچل دیتا ہے۔

کچھ نہیں۔

تو آؤ سوچ کیا رہے ہو؟

پیٹ کا سارا تیزاب اس کے حلق میں آکے اٹک جاتا ہے۔ وہ اس کا ہاتھ تھامنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ لڑکی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس کی گردن کی ہڈی میں درد کی لہر پھر اٹھتی، اس مرتبہ اس کے سر پر محیط ہو جاتی ہے جسے وہ کوشش کے باوجود دانتوں میں کچل نہیں پاتا۔

دونوں اس کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں سورج کی سترنگی کرنیں یکجا ہو کر کلچرڈ موتی کا روپ دھارتی ہیں۔

کمرے کی ہر چیز موتیوں سے بنی ہے، سفید ٹھٹھری ہوئی، اس بلی کے سوا جس کا رنگ سیاہ ہے، جس کی گردن میں موتیوں کے ہار ہیں۔

کمرے کی ہر چیز موتیوں سے بنی ہے۔ سفید ٹھٹھری ہوئی۔

بلی سفید مخملیں صوفے پر بڑی تمکنت سے بیٹھی انہیں کمرے میں داخل ہوتا دیکھتی ہے

اور مینٹل پیس پر پڑا عورت کا وہ بت جس کا کوئی رنگ نہیں، کہ اس کے جسم پر کوئی پردہ نہیں، ساتوں پردے اس کے پیروں پر پڑے ہیں، ایک ہاتھ رقص کے انداز میں لہراتا فضا میں جامد ہو گیا ہے اور دوسرے ہاتھ نے مرد کے کٹے سر کو الجھے الجھے لمبے لمبے بالوں سے پکڑ رکھا ہے اور بڑی نخوت سے تمسخر بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر لیے سر کو دیکھتی ہے۔

اس کی گردن کا درد جو ابھی چند لمحے پہلے اس کے سر کے گرد کلبوت بن گیا تھا۔ مینٹل پیس پر اس جگہ نظریں پڑتے ہی غائب ہو جاتا ہے جہاں وہ بت بڑا ہے جو اسے نظر نہیں آتا کہ اس بت کا کوئی رنگ نہیں۔

وہ لڑکی کو بے حد محبت بھری نظروں سے دیکھتا ہے لڑکی آنکھوں میں اتھاہ پیار لئے مسکراتی ہے۔ وہ وارفتگی سے اس کو سینے سے لگانے کے لئے اسے بازوؤں میں لینے کے لئے بڑھتا ہے۔ وہ اس کی باہوں میں آتی آتی یوں پھسل جاتی ہے جیسے وقت کی گرفت سے کلچرڈ موتی۔

صوفے پر بیٹھی سیاہ بلی بڑی تمکنت سے ایک ہلکی غررر کر کے پہلو بدل لیتی ہے۔

وہ ایک بار پھر پیٹ سے ابلتے تیزاب کو حلق میں دبا کے اپنی گردن سے ابھرتے درد کو دانتوں میں کچکچا دیتا ہے۔ اور ہانپتا، لرزتا لڑکھڑا تا کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ لکھنے والی میز پر کہنیاں ٹکا کے سر ہاتھوں میں تھام لیتا ہے۔ لڑکی ہستی ہوئی اس کے سامنے بیٹھ جاتی ہے۔

میز پر انتہائی خوبصورت کلچرڈ موتیوں کے چھلکے سے بنے کاغذ کا رائٹنگ پیڈ ہے کلچرڈ موتیوں سے بنے کاغذ کاٹنے کا چاقو، قلم دان جس کی دوا توں میں سرخ اور سیاہ روشنائی ہے۔ لڑکی اس کو یوں ہاتھوں میں سر تھامے میں دیکھ کر کاغذ کاٹنے والا چاقو اٹھا کر اس سے کھیلنے لگتی ہے۔

سیاہ بلی آنکھیں موند لیتی ہے۔

تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے؟

وہ اسی طرح سر تھامے اس سے پوچھتا ہے۔

ہے ہی۔ بہت ہے۔

تو۔۔۔ تو پھر تم۔۔۔ تم کیوں؟

وہ اپنے ہاتھوں کے پیالے سے سر اٹھاتا ہے۔ اس کی نظریں مرمریں ہاتھوں میں تیز دھار چاقو پر پڑتی ہیں۔ وہ ایکدم ہاتھ بڑھا کر چاقو چھین لیتا ہے۔ انگوٹھے سے چاقو کی دھار کو پرکھتا ہے اور پھر ماہر سرجن کی طرح اپنے سینے پر اس جگہ چاک دیتا ہے جہاں اس کا دل ہے۔

اسی لمحے سیاہ بلی بہت احتیاط سے جیسے موتیوں کے ہاروں کو سنبھالتی صوفے سے اترتی ہے اور ان کی میز کے گرد ایک بار چکر لگا کر لڑکی کے پاس فرش پر بیٹھ جاتی ہے۔

وہ سینے کے چاک کو واکر کے خلا میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اپنا دل نکال کر کلچرڈ موتی سے بنی میز کی سطح پر رکھ دیتا ہے۔

یہ لو۔

لڑکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ جاتا ہے۔

سیہ بلی وہیں لڑکی کے قدموں میں بیٹھی جیسے کسی خواب سے چونکتی ہے۔

وہ موتی کے چھلکوں سے بنے کاغذوں کے پیڈ کو لڑکی کے سامنے سرکا دیتا ہے قلمدان سے قلم اٹھاتا ہے اور لڑکی کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔

یہ تمہارے موتیوں سے بنے قلمدان کا قلم ہے اور یہ ہے میرا دل۔ موتی کے چھلکے پر اس کی شبیہ بناؤ۔ رنگ کا انتخاب تم پر چھوڑتا ہوں۔

لڑکی حیران پریشان میز پر پڑے سرخ سرخ دھڑکتے دل کو غور سے دیکھتی ہے پھر کانپتے ہاتھوں سے قلم تھام کر سیاہی میں ڈبو کر موتی کے چھلکے کاغذ پر اس کے دل کی شبیہ بنانے لگتی ہے۔

چند لمحوں بعد کاغذ پر لڑکی کا قلم بڑی تیزی سے چلنے لگتا ہے اور اس کی زبان پیاسے جانور کی طرح لٹکنے لگتی ہے۔ وہ اس لڑکی کے پیروں میں بیٹھی سیاہ بلی کو دیکھتا ہے، بڑے محبت بھرے لہجے میں لڑکی سے کہتا ہے۔

اتنی جلدی کی ضرورت نہیں۔ اطمینان سے بناؤ۔ میں جاؤں گا نہیں۔

جانے کتنے لمحے، کتنی صدیاں بیت جاتی ہیں۔

بالآخر لڑکی دل کی شبیہ مکمل کر لیتی ہے، ہو بہو اس کا دل لیکن سرخ کی بجائے سیاہ۔

وہ کلچرڈ موتی کے چھلکے پر بنا سیاہ دل اٹھا لیتا ہے اور اسے دل ہی کی شکل دے کر سینے کے اندر خلا میں اس جگہ رکھ لیتا ہے جہاں سے اس نے اپنا دل نکالا تھا۔

لڑکی میز کے دراز سے سٹیپلر نکالتی ہے۔ بڑی محبت سے اس کے سینے کے چاک کے کناروں کو جوڑتی ہے اور اتنی مہارت سے سٹیپلر کی پنیں لگاتی ہے کہ زخم مندمل ہونے پر کوئی نہیں جان سکتا کہ یہاں چاک تھا۔

اسٹیپلر واپس دراز میں رکھتے ہوئے اس لڑکی کی نظریں میز پر پڑے دل پر پڑتی ہیں جو جانے کتنے لمحے کتنی صدیاں اس کا ماڈل بنا رہا ہے۔ دل سے نگاہیں اٹھا کر وہ اسے سوالیہ نظروں سے پوچھتی ہے، اسے کیا کرنا ہے؟

اسے بلی کے لئے رہنے دو۔

تب وہ لڑکی اٹھ کر بے حد محبت سے اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ وہ اس کی نگاہوں سے مسحوراٹھتا ہے۔ وہ اس کی گردن میں بازو حمائل کر دیتی ہے جہاں یوں لگتا ہے جیسے کبھی درد نہ تھا۔

وہ اسی طرح، جیسے نیند میں ہو، اس کے ساتھ چل دیتا ہے وہ اسے اپنی خوابگاہ میں لے جاتی ہے جہان نرم نرم جھاگ کا بستر حجلہ عروسی بنا ہے۔

خواب گاہ کو جاتے ہوئے اس کی مسحور نظریں سیاہ بلی کو نہیں دیکھتیں جس نے اب تمکنت کا چولا اتار پھینکا ہے اور میز پر چڑھی خونخوار درندے کی طرح میز پر پڑے دل کو اپنے پنجوں میں لیے بہت بے دردی کے ساتھ اپنے تیز دانتوں سے نوچتی ہے اور نہ ہی اس کی مسحور آنکھیں اس عورت کے بت کو دیکھتی ہیں جس کے جسم کے ساتوں پردے اس کے پیروں میں پڑے ہیں۔ جس کا ایک ہاتھ رقص کے انداز میں لہراتا فضا میں جامد ہو گیا ہے اورجس کے دوسرے ہاتھ نے مرد کے کٹے ہوئے سر کو الجھے ہوئے لمبے لمبے بالوں سے تھام رکھا ہے۔

چمکتے سورج میں کلچرڈ موتی کی طرح لشکتے عالیشان محل سے زمین کی طرف اترتی سیڑھیوں، لا تعداد سیڑھیوں کے آخر میں کروڑ ہا لوگوں کا ہجوم، جن کے پھیپھڑے بانجھ شہر کے دھوئیں، سرطانی کھیتوں کی دھول سے ضیق النفس، جن کی زبانوں، آنکھوں اور کانوں میں کتابوں سے چاٹے گئے لفظوں کے کانٹے، جن کی کھالیں، جن کا لباس ہیں، اپنے اپنے سروں کو اپنے اپنے ہاتھوں کی طشتریوں میں اٹھائے اس کے حوالے سے اپنے نئے جسم کے منتظر ہیں کہ جس کے دھڑکتے دل کو کلچرڈ موتی محل میں سیاہ بلی کھا چکی ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے