غزلیں ۔۔۔ اکبر معصوم

 

عشق کے بعد ہنر کیا کرتے

کچھ بھی کر لیتے،مگر کیا کرتے

 

کیا سناتے تجھے اپنا احوال

اب تجھے تیری خبر کیا کرتے

 

ہم کہ خود بیت گئے اوروں پر

ہم بھلا تجھ کو بسر کیا کرتے

 

ہم جو نغمہ تھے نہ نالہ اے دوست

تجھ پہ کرتے تو اثر کیا کرتے

 

ہم نہ گر ڈوبنے والے ہوتے

تیری باتوں کے بھنور کیا کرتے

٭٭٭

 

 

رات ہے اور ماہ تاب ہے اور

آج حیرت سرائے خواب ہے اور

 

رُو بہ رُو ہے اُسی کا مصحفِ  رُخ

پڑھ رہا ہوں جو میں کتاب ہے اور

 

چیزے دیگر ہے پردہ داری ء ذات

اور ہم سے ترا حجاب ہے اور

 

خُوب اہلِ  فراق جانتے ہیں

موجِ  دریا کا پیچ و تاب ہے اور

 

اے مصوّر کہیں دکھائی تو دے

وہ جو تصویر میں گلاب ہے اور

 

ہم ہوّس پیشگاں یہ کیوں نہ کہیں

ہجر میں ہم کو اضطراب ہے اور

٭٭٭

 

 

معاملہ نہیں تجھ سےکوئی بھی تو کوئی ہو

میں چاہتا ہوں کہ تجھ سا ہی ہو بہو کوئی ہو

 

کسی کے ساتھ گذاروں میں ایک ویسی ہی شب

شراب ہو میرے مطلب کی، ہاں سبو کوئی ہو

 

جو کارِ عشق ہو پھر ذات کون پوچھتا ہے

مجھے غرض نہیں اس سے، مرا عدو کوئی ہو

 

میں چپ رہوں بھی مگر میرے چاہنے والے

مجھے شریک سمجھتے ہیں گفتگو کوئی ہو

٭٭٭

 

 

وحشت نہیں اب صرف بتانے کی مری جان

حالت تو ہے اب تم کو دکھانے کی مری جان

 

اک لمحہ بھی اب جاگا نہیں جائے گا مجھ سے

اور نیند تو مجھ کو نہیں آنے کی مری جان

 

جس طرح گذاری ہے وہ بس ہم کو خبر ہے

بس ایک کہانی ہے سنانے کی مری جان

 

جائے گی تو لے کر ہی کہیں جائے گی مجھ کو

ایسے تو مری جاں،نہیں جانے کی مری جان

٭٭٭

 

 

سر اٹھاتا ہوں اسی خاک کی دشواری پر

اب مجھے دیکھ میں آیا ہوں نموداری پر

 

خواب کا رنگ مرے دیدۃء بے رنگ پہ ہے

خوب لایا ہوں شب و روز کو ہمواری پر

 

سر میں سودا ہے مگر ہاتھ میں رکھتا ہوں یہ دل

کیا سبک دست ہوں میں اپنی گراں باری پر

 

اس کو مقصود ہلاکت تھی مری سو اس نے

مجھ کو مامور کیا میری نگہداری پر

 

صرف میرا نہیں اس کا بھی زیاں ہے اس میں

خوش ہوں میں دستِ ہنر مند کی بے کاری پر

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے