غزلیں ۔۔۔ تابش صدیقی

اِلٰہی عَفو و عطا کا تِرے اَحَق ہوں میں

خطاؤں پر ہوں میں نادم، عَرَق عَرَق ہوں میں

 

کسی نے فیض اٹھایا ہے زندگی سے مری

کتابِ زیست کا موڑا ہوا وَرَق ہوں میں

 

یہ تار تار سا دامن، یہ آبلہ پائی

بتا رہے ہیں کہ راہی بہ راہِ حق ہوں میں

 

زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے مجھ سے خلوص

کہ اپنی قوم کا بھولا ہوا سبق ہوں میں

 

جو ذرّے ذرّے کو روشن کرے، وہ تابشِؔ صبح

افق پہ شام کو پھیلی ہوئی شفق ہوں میں

٭٭٭​

 

 

 

بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے

اشک جو بہنے نہیں تھے بہہ گئے

 

راہِ حق ہر گام ہے دشوار تر

کامراں ہیں وہ جو ہنس کر سہہ گئے

 

زندگی میں زندگی باقی نہیں

جستجو اور شوق پیچھے رہ گئے

 

سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو

ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے

 

اے خدا! دل کی زمیں زرخیز کر

ابرِ رحمت تو برس کر بہہ گئے

 

شاد رہنا ہے جو تابشؔ، شاد رکھ

بات یہ آباء ہمارے کہہ گئے

٭٭٭​

 

 

 

 

زعم رہتا تھا پارسائی کا

ہو گیا شوق خود نمائی کا

 

چھین لیتا ہے تابِ گویائی

ڈر زمانے میں جگ ہنسائی کا

 

ناؤ طوفاں سے جب گزر نہ سکے

ہیچ دعویٰ ہے ناخدائی کا

 

خوش نہ ہو، اے ستم گرو! کہ حساب

وقت لیتا ہے پائی پائی کا

 

بادشاہی کا وہ کہاں رتبہ

ہے جو اس در پہ جبہ سائی کا

 

نیّتِ حاضری تو کر تابشؔ

غم نہ کر اپنی نارسائی کا

٭٭٭​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے