غزلیں ۔۔۔ عبید الرحمٰن نیازی

جو میری روح کی گہرائیوں میں اترا تھا

وہ ایک نرم ملائم ہوا کا جھونکا تھا

 

اس ایک لمس کے بارے میں کیا بتاؤں تمھیں

ٹھٹھرتی سردیوں کی تیز دھوپ جیسا تھا

 

میں اک زمین بنا گھومتا تھا جس کے سبب

وہ ایک گل تھا، مرے چاند پر جو کھلتا تھا

 

وہ ایک باغ تھا جس میں تھیں دو حسیں جھیلیں

میں ان کو دیکھتے ہی ڈوب ڈوب جاتا تھا

 

اس ایک قصر کو اندر سے جھانکنے کی طلب!

مری نظر نے بڑا سخت وقت کاٹا تھا

 

میں عمر بھر کے لئے خود کو بھول بیٹھا تھا

کوئی پکار نہیں تھی وہ ایک نشّہ تھا

 

میں روشنی سے ملا تھا بس اتنا یاد رہا

پھر اس کے بعد سے چاروں طرف اندھیرا تھا

 

یہ اور بات کہ وہ میرا ہو نہیں پایا

خدا نے اس کو مرے واسطے ہی بھیجا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

دشت کے بیچ میں تالاب نظر آتے  ہیں

ہم غریبوں کو فقط خواب نظر آتے ہیں

 

چاندنی کھل کے جو برسے کبھی صحراؤں میں

ریت کے ذرّے بھی مہتاب نظر آتے ہیں

 

جھونپڑے والے تو سوتے ہی نہیں ساون میں

سوئیں تو خواب میں سیلاب نظر آتے ہیں

 

دل تڑپ اُٹھتا ہے جب چاند ستارے مجھ کو

کالے تالاب میں غرقاب نظر آتے ہیں

 

چند راحت بھرے لمحات کی خواہش میں عبید

شہر والے سبھی بے تاب نظر آتے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے