نعت ۔۔۔ نور ایمان

 

 

نگاہ اُن کو ڈھونڈتی ہے کس لیے گَھڑی گھَڑی

جو یاد بن کے دل کے پاس ہیں وہ، اب مِلیں کبھی

 

شہِ عَرب کی خُوشبوؤں سے بام و در مہک اُٹھے

کہ شہر دل سے جیسے وہ گزر گئے ابھی ابھی

 

غمِ جدائی میں یہ دل کا ماجرا تو دیکھیے

فس نَفس میں، مَیں جمالِ یار دیکھنے لَگی

 

یہی ہے نالہ دل کا اور جستجو کا دائرہ

نوں تو گفتَگوئے مصطفیٰ کو میں کبھی کبھی

 

درونِ دل کا ساز اس اصول پر ہے کاربند

نگاہ التَفات کام تو بنا گئی سبھی

 

رَسائی کاش میری وادیِ حِرا تلک جو ہو

طلوعِ آفتاب کا نَظارہ دیکھوں کَبھی

 

کَرم کا سلسلہ چَلا، چَراغ بن کے دل جَلا

کہ اس منار نور سے دئے کو روشنی ملی

 

لکھوں جو نعت، آئیں میرے خواب میں شہ امم

یہی ہے بس، دعائے نیم شب ہے میری بس یہی

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے