نثری شاعری کا ماخذ ۔۔ احمد ہمیش

 

 دراصل نثری شاعری کا ماخذ چاروں وید ہیں اور ویدوں کے زمانے کے انتہائی قدیم ہونے کا تعین لوک مانیہ گنگا دھر تلک، وہٹنے اسکاڈر اور جیکوبی جیسے ودوانوں نے کیا ہے، ان کے مطابق ویدوں کا زمانہ چار ہزار پانچ سو مسیح قبل ہے مصر چین اور یونان کے تمدن و تہذیب کی قدامت نسبتاً کم درج کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ کسی تفصیل میں نہ جا کے اگر صرف سنسکرت ناٹک کے قدیم ہونے کی محققانہ صداقت پر ایک نظر کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یونانی ادب، سنسکرت ادب کے مقابلہ میں بہت کم وسیع اور کم نیا ہے۔ زیادہ متاثر کرنے والے سنسکرت ناٹک نے یونانی ناٹک کو متاثر کیا۔

سنسکرت ناٹک کا آغاز مہا کوی بھاس (چوتھی ق۔ م ) کے روپکوں سے ہوا۔ ( روپک کی تعریف شاعری کے روپ میں دکھائے جانے والے منظر عظیم کا راز۔) تاہم یہ راز چاروں ویدوں خاص طور پر گ وید سے حاصل کیا گیا۔ جب مہا کوی بھاس کے ایک روپک کی ایک پنکتی/ سطر کے باطنی لہجہ اور اچارن/ تلفظ کی ادائیگی پہ غور کیجئے۔

 ( کہہ کن شکتور رکچھتن مرتیو کالے رجو چیچھیدے کے گھٹن گھاریا نتے)

مفہوم: ناگہانی موت کے آ جانے پر کون کس کا بچاؤ کرسکتا ہے۔

اس پنکتی /سطر میں اس زمانے کی شاعری اور نثر کا مرکب آہنگ ملتا ہے اور مفہوم کے اعتبار سے کیفیت شعری بھی بھرپور ہے۔

مہا کوی بھاس کے بعد سنسکرت ناٹک کار شودرک ( دوسری تیسری صدی قبل مسیح) کے ناٹک مرکچھ کٹک (مٹی کی گاڑی) میں ایک سن واد/ مکالمہ کی مثال ملاحظہ فرمایئے:

 (ویشیاہ شمشان سمنا ایوورجیناہ )

مفہوم: طوائف مرگھٹ میں کھلے پھول کی طرح ہوتی ہے یعنی طوائف کی اندر کی عورت مر جاتی ہے تو وہ مرد کو لبھانے کے لئے مصنوعی حسین عورت روپ اختیار کر لیتی ہے، جو ایک طرح سے مرد ہوتی ہے جس طرح مرگھٹ میں کھلے ہوئے پھول کو نظر انداز کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے اسی طرح طوائف کی طرف بھی توجہ دیئے بغیر اسے چھوڑ دینا چاہیے۔

شودرک کے بعد کالی داس ( پہلی صدی قبل مسیح) کے ناٹک ابھیان شکنتلا میں مہاتما کڑو کے ایک سن واد مکالمہ کی ادائیگی سے اس زمانے کی شعری اور نثر کے مرکب آہنگ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

 ( سین یاتی شکنتلا پتی گرہن سروے رنو گیاتیام)

مفہوم: آج وہی شکنتلا اپنے شوہر کے گھر رخصت ہو رہی ہے آپ سب لوگ اس موقع پر اسے جانے کی مناسب اجازت عطا کریں۔

مندرجہ بالا سنسکرت روپک اور ناٹکوں کے مکالموں کو ادا کرتے ہوئے اس زمانے کے صوت و آہنگ کے جمالیاتی نظام کا پتہ چلتا ہے۔ جب کہ ان  میں پائی جانے والی بڑی شاعری اور اس کے محاسن سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے اور  ہم ان مکالموں میں شامل نثر پہ ایک نظر کریں تو اندازہ کرسکتے ہیں کہ بول چال کی سنسکرت سے بہت مختلف نہیں تھی، ہر چند گوتم بدھ کے ظہور کے بعد وید…سنسکرت بتدریج عام فہیم ہوتی گئی یا رفتہ رفتہ پراکرتیں مروج ہوتی گئیں۔ تب بھی لسانیات کے ماہرین وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ مشکل سنسکر ت سے عام فہم سنسکرت تک آتے آتے خاص اور عام لب و لہجہ میں کتنے فرق اور تبدیلیوں کا دخل ہوا ہوگا !پھر یہ بھی دیکھنا نا گزیر ہے کہ شاستر یہ سنگیت کے اصول و قوانین کتنے سمے کے تسلسل سے سلطنت 606تا 648ء کے ناٹک ’’ رتناولی ‘‘ کے مکالموں میں نثری شاعری کے ہندی والے امیر خسرو کو اپنا پہلا شاعر تسلیم کرتے ہیں ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ امیر خسرو کے فارسی اور ہندی رنگ کی اصل بنیاد کیا تھی ! اسی طرح یہ بھی جاننا ناگزیر ہے کہ پنگل اور چھند کی بحث سے قطع نظر کبیر داس ، رحیم، جائسی، رسکھان، سورداس، تلسی داس، اور میرا بائی کو اردو شاعری میں تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ عام فہم سنسکرت اور پراکرتوں کی شعری و ادبی اصناف تہذیبی وجود کی معنویت سے محروم رہ گئیں یا درمیان میں ہی عدم تسلسل کا شکار ہو گئیں تاہم ایک بڑا ورثہ تعین قدر سے کیوں عاری رہ گیا! حالاں کہ سنسکرت شعریات کے عالم عنبر بہرائچی کے مصداق سنسکرت میں نثری شاعری ایک بہت ہی توانا صنف رہی ہے۔

یہاں خیال رہے کہ میں نے ویدک سنسکرت سے سنسکرت ناٹک کے مختلف ادوار تک گہری نظر کی پھر بھی اپنی بات کی توثیق کے لئے عنبر بہرائچی سے رابطہ کیا اور اسناد صداقت کے لئے بہ ذریعہ خطوط ان سے رابطہ کیا۔ انہوں نے گھمبیرتا سے کام لیتے ہوئے ایک تسلسل میں شامل کر دیا ہے۔ مثلاً ساتویں صدی عیسوی میں سبندھ کی ’’ واسودتا ‘‘ اس صدی میں بھوبھوت کی ’’ مالتی مادھو ‘‘ اور اس زمانے کے عظیم تخلیق کارواں بھٹ کی ’’کادبھری ‘‘ نثری شاعری کے شہکار ہیں۔

 ( سہ ماہی تشکیل کے لئے احمد ہمیش کے نام مرسلہ خط سے)

ایک بات قابل ذکر ہے کہ بر صغیر کی مختلف زبانوں میں سب سے زیادہ بنگلا زبان پر سنسکرت کے اثرات پڑے۔ خاص طور پر سنسکرت ناٹک نے بنگلا شاعری اور ناٹک کو متاثر کیا۔ کلکتہ میں مہاکالی کے مندر کے آس پاس ناٹک منڈلیاں لمبے عرصہ تک پڑاؤ ڈالے ناٹک کھیلتی رہتی تھیں۔ ان ناٹکوں میں ادا کئے جانے والے مکالموں میں نثری شاعری کا آہنگ پایا جاتا تھا۔ سو جب فرانسیسی شاعر چارلس بودلیئر فرانس سے بنگال آیا تو وہ بنگلا ناری کی رنگت یا آبنوسی سندرتا، بنگلا شاعری اور ناٹک بلکہ بنگلا سنگیت و نرتیہ سے اتنا متاثر ہوا کہ بہت عرصہ تک مہاکالی کے مندر کے آس پاس پڑا رہا۔ میرا جی کی تصنیف ’’ مشرق اور مغرب کے نغمے ‘‘ میں بیان کئے گئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مہاکالی کے مندر کے آس پاس قیام کے دوران چارلس بودلیئر کی سماعت میں بنگلہ ناٹک کے سنسکرت زدہ مکالموں کا آہنگ ضرور پڑا۔ بنگلا سنگیت و نرتیہ کے صوتی اثرات اس کے قلب میں ضرور سرایت کر گئے۔ یہاں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ بنگال سے پیرس واپسی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام میں چارلس بودلیئر نے ’’ بدی کے پھول ‘‘ میں شامل نثری نظمیں لکھیں۔ اس طرح نثری شاعری کے آغاز کا کریڈٹ سنسکرت اور بنگلا زبان کو جاتا ہے نہ کہ اس سے محض سماعت کی حد تک متاثر ہونے والے فرانسیسی شاعر چارلس بودلیئر کو ! یہاں خیال رہے کہ ٹیگور کی ’’ گیتانجلی ‘‘ میں سنسکرت ناٹک کے مکالموں کے زیر اثر نثری شاعری کا آہنگ برتا گیا ہے۔ ٹیگور کی گیتانجلی کے توسط سے ہی انگریزی شاعروں کے ہاں نثری شاعری آئی۔ اب اس بد قسمتی کو کیا کہا جائے کہ علامہ نیاز فتح کی زیر ادارت ایک عرصہ تک ماہنامہ ’’ نگار ‘‘ میں ٹیگور کی شاعری کے جو تراجم نشر لطیف اور انشاء لطیف کی اصطلاح سے شائع ہوتے رہے وہ راست بنگلا سے نہیں بلکہ انگریزی سے اردو میں کئے گئے۔ جب کہ علامہ نیاز فتح پوری بنگلا نہیں جانتے تھے۔ اسی لئے نثر لطیف اور انشاء لطیف ناقص اردو تراجم کے سبب سنسکرت نژاد بنگلا نثری شاعری کے آہنگ کو قبول نہ کرسکے۔ وہ لوگ محض جہل میں متلا ہیں، جو اردو نثری شاعری کے ڈانڈے نثر لطیف اور انشاء لطیف سے ملاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ سجاد ظہیر کے شعری مجموعہ پگھلا نیلم ( مطبوعہ 1964ء ) میں شامل کچھ پروزیک (PROSAIC) منظوم کی گئی سطروں کو نثری شاعری سمجھتے ہیں، وہ نثری شاعری کے آہنگ اور اس میں پائی جانے والی اصل شاعری کی تفہیم نہیں رکھتے۔ جب کہ سجاد ظہیر تو غیر شاعر تھے۔ اب آیئے اس صداقت کی طرف کہ میں نے اردو میں نثری شاعری کا آغاز کیا تو میری بنیاد کیا تھی ! میں کن تہذیبی جڑوں (ROOTS) سے آیا!

ظاہر ہے، آدمی کی ذات اس کے ورثہ سے ہی مرتب ہوتی ہے۔ دراصل میری مادری بولی پوربی ہے۔ میری تعلیم سنسکرت اور ہندی میں ہوئی۔ فارسی اور اردو میرے مطالعہ میں بہت بعد کے حالات میں آئی۔ میں نے جے شنکر پرساد، سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا، واتسائن اگیہ اور سرویشور دیال سکینہ کی شاعری کا مطالعہ 52 تا 58 ء کے دوران کیا۔ جب کہ 59 ء کے دوران لاہور میں میں نے ہندی نثری شاعری کے آہنگ پر ایک گہری نظر کی تو معلوم ہوا کہ ہندی نثری شاعری کا آہنگ سنسکرت ناٹک کے مکالموں اور بنگلا شاعری کے توسط سے سب سے پہلے سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا کے ہاں آیا۔ پھر میں نے واتسائن اگیہ کے شعری مجموعہ تارسپتک (1941) کا مطالعہ کیا تو محسوس کیا گویا نثری شاعری اپنی تہذیبی جڑوں سمیت میرے باطن میں اتر رہی ہے۔ البتہ اس میں زیادہ شدت سرویشور دیال سکینہ کی نثری نظموں کو پڑھتے ہوئے آئی۔ یہاں واتسائن اگیہ اور سرویشور دیال سکینہ کی نثری نظموں کی چند سطریں ملاحظہ فرمایئے!

شبد میں میری سمائی نہیں ہوتی

میں سناٹے کا چھند ہوں

اپنے جیون کے بالو پر

اپنی سانسوں میں لکھا رہ جاؤں گا

میں سناٹے کا چھند ہوں

ایشور آگ ہے ، آگ پہاڑ ہے ، دھدک رہی ہے

 ( واتسائن اگیہ)

چٹانوں پر بھنبھوڑ رہا ہے اپنا شکار

کالا تیندوا

چٹانیں ، چٹانیں، نہیں رہیں

ایک تیندوا

سارے جنگل کو

کالے تیذوے میں بدل رہا ہے

 ( سرویشور دیال سکینہ)

ظاہر ہے میں نے ہندی نثری شاعری کے زیر اثر ہی پہلی بار اردو میں 1960 کے جو نثری نظمیں لکھیں ‘ ان میں سے ایک نظم ’’ اور یہ بھی ایک ڈائری ‘‘ ماہنامہ ’’نصرت ‘‘ لاہور ( 1962) میں شائع ہوئی۔ اس کی کچھ سطریں ملاحظہ فرمایئے!

پربھات میں جب وہی گھنٹیاں بجیں گی جو صدیوں سے کنول توڑنے والے کو ہی سنائی دیتی ہیں۔

توسرسوتی اترے گی

ودیا تیری جے ہو

میں نے 1960 سے اب تک نہ صر ف مسلسل نثری نظمیں لکھیں بلکہ اپنے اسلوب کی مطابقت سے نثری نظم کی موضوعی اور تکنیکی توسیع کی۔ تاہم میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ میرے بعد اور میرے علاوہ اردو نثری نظم کی موضوعی و تکنیکی توسیع نہیں ہوئی! جب کہ غزل معریٰ پابندی اور آزاد نظم کی فارم میں پائے جانے والے بہت سے غیر شاعروں کی طرح نثری نظم کی فارم میں بھی بہت سے غیر شاعروں نے بڑی اجارہ داری کی۔ مگر خلاف اس کے چند شاعروں مثلاً نصیر احمد ناصر، فیاض رفعت، علی محمد فرشی، سلیم شہزاد اور ذیشان ساحل نے اپنے اپنے اسلوب میں اردو نثری شاعری کی موضوعی اور تکنیکی توسیع ضرور کی۔ اور یہاں سارا شگفتہ کو بھی اس لئے بھلایا نہیں جا سکتا کہ اس نے اپنی ذات کی تیز آگ سے اردو نثری نظم کی چتا جلائی اور خود اس میں جل کے راکھ ہو گئی اب اسے کون فہم میں لاسکتا ہے کہ جلتی ہوئی چتا اور ہوا میں اس کی اڑتی ہوئی راکھ میں بھی نثری شاعری کا آہنگ ہوتا ہے۔

٭٭٭ 

One thought on “نثری شاعری کا ماخذ ۔۔ احمد ہمیش

  • احمد ہمیش کمال شخصیت کے حامل تھے۔
    اگر ان کی لائبریری محفوظ ہے۔۔۔تو میرے خطوط بھی وہاں موجود ہونگے۔میں جب ان سے فون پر باتیں کرتا۔۔۔تو نثری نظم کے کرفٹ پر باتیں اکثر بحث کا رنگ اختیار کرلیتی۔ لیکن آخر پہ کہتے۔۔۔۔!
    تم نے جو رنگ اپنایا ہے۔وہ اچھا ہے۔کرافٹ اپنا لائے ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے