شمشاد لکھنوی

دیکھئے دل کی کشش سے وہ ادھر آتے ہیں آج

یا ہمیں گھبرا کے اس جانب چلے جاتے ہیں آج

جان دے کراب لحد میں کیوں نہ پچھتانا پڑے

حشر پر موقوف اٹھنا اور وہ آتے ہیں آج

کیا کسی کی آتش فرقت بجھانی ہے انھیں

سردئی اپنا دوپٹہ کیوں وہ رنگواتے ہیں آج

چھین کر آدم سے جنت کیا ملا تھا کل انھیں

اپنے کوچے سے جو ہم کو بھی نکلواتے ہیں آج

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے