مزارِ بے مردہ ۔۔ رؤف خیرؔ

        بشیر بھائی بہت زندہ دل آدمی تھے۔ ہمیشہ رکوع میں دکھائی دیتے تھے۔ کمر نے جواب دے دیا تھا۔ وہ زیادہ تر اپنے گھر کے دروازے کے قریب بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھے آنے جانے والوں سے سلام و دعا بھی کر لیتے تھے اور بے تکلف ہم سِن دوستوں سے گالیوں کا تبادلہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے کوئی گائے بھینس گوبر کر دیتی تو بشیر بھائی کہتے تھے ’’ یہ گائے بھینس کے بٹوے کو بھی یہیں کھلنا تھا !‘‘

        ایک دن وہ ہم سے اپنے بچوں کے بار ے میں کہہ رہے تھے کہ ’’ سالے بڑے نا خلف ہیں ‘‘ کبھی بہت زیادہ خفا ہوتے تو انھیں ’’ سالا ‘‘ کہہ دیا کرتے تھے۔ دراصل بشیر بھائی محکمہ پولیس سے وابستہ تھے مگر سب انسپکٹر بننے سے پہلے ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔ شاید گالیاں ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں۔آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہی ہو گا کہ اپنے حلیئے سے شریف دکھائی دینے والے ایک مولانا پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے گئے۔انٹرویو لینے والے انسپکٹر نے ان کی صورت دیکھ کر کہا کہ مولانا آپ کہاں آ گئے یہ محکمہ آپ جیسے لوگوں کے لیے نامناسب ہے۔ یہاں دن رات گالی بکنی ہوتی ہے۔ بغیر گالی کے کام ہی نہیں چلتا۔پھر اس نے ان سے پوچھا آپ کو گالی دینا آتا ہے ؟ موصوف نے کہا ہاں۔ تو انسپکٹر نے کہا اچھا دوچار گالیاں دے کر دکھائیے تو سہی اب مولانا شروع ہو گئے تیری ماں کی۔۔۔ تیری بہن کی۔۔۔ انسپکٹر نے حیران ہو کر کہا بس بس۔۔۔ مولانا نے کہا بس بول رہا ہے ماں کے۔۔۔ چنانچہ ان کا تقرر ہو گیا۔

 بشیر بھائی بھی اسی عادت سے مجبور تھے گھر اور باہر میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے وہ اکثر کہتے تھے کہ ان کی اولاد نا خلف ہے ان کی بات سنتی ہی نہیں۔زندگی ہی میں یہ حال ہے تو مرنے کے بعد کیا یاد رکھیں گے۔اس پر ہم نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بچوں کو ان کی بزرگی کا لحاظ کرنا چاہئیے۔ پھر ہم نے انھیں ایک نیک مشورہ دیا کہ ’’ زندگی ہی میں آپ اپنا چہلم کر دیں ‘‘ بولے کیا جیتے جی چہلم ؟ ہم نے کہا اس میں حرج ہی کیا ہے۔ دیکھتے نہیں گنبدانِ شاہی! بادشاہوں نے جیتے جی ہی تو تعمیر کروا لئیے تھے۔ اور ہم نے انھیں یقین دلایا کہ انشاء اللہ ہم ایک دردناک تعزیتی نظم کہیں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کے آخری مصرعے سے تاریخ وفات بھی بر آمد ہو۔اگراس سال وہ تاریخ وفات غلط ثابت ہو جائے تو اگلے سال اس میں ایک الف کا اضافہ کر دیں گے اور تب بھی وہ تاریخ ٹل جائے تو کوئی فکر کی بات نہیں ہمیں نئی تاریخ کہنے میں کوئی دشواری نہ ہو گی جیتے جی چہلم کر لینے کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ کون آپ کا سچا دوست ہے اور کون بے فا، منہ دیکھے کی بات کرنے والا۔اپنے احباب کو آزمانے کا یہ بہانہ ہو گا۔

        ہم نے ان کی تسلی کے لیے ایک شاعر کا واقعہ بھی سنا یا جس نے بصد شوق اپنے لیے دو گز زمین اپنی پسندیدہ جگہ یعنی درگاہ شریفین‘‘ میں مہنگے داموں خرید رکھی ہے۔ وہ ہر ہفتہ وہاں جایا کرتے ہیں۔سجادہ نشین نے ان کی مسلسل حاضری سے خوش ہو کر بازار کے دام سے کم یعنی صرف پچاس ہزار روپے میں انھیں دو گز زمین، مزار مبارک کے بالکل سامنے دے دی۔جس کے شمال میں داغ دہلوی تو جنوب میں امیر مینائی اور مشرق میں شاذ تمکنت آسودۂ خاک ہیں اور مغرب میں صاحبِ مزار ہی ہیں۔ شاعر موصوف نے اس زمین پر اپنی آخری آرا م گاہ تیار بھی کروا لی ہے۔ اس پر پھولوں کی ڈالی بھی لگا رکھی ہے۔ گذشتہ کئی سال سے وہ ہر ہفتہ بڑے شوق سے اپنے ہی مزار پر فاتحہ بھی پڑھ لیا کرتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے عزیز و اقارب سے کوئی توقع نہیں کہ انھیں سال چھے مہینے میں سہی کبھی یاد کر لیا کریں گے۔ معاصرین شعرائے کرام سے بھی وہ بالکل مایوس ہیں معاصرانہ چشمک کی وجہ سے وہ ان کی کوئی یاد گار قائم کرنے والے تو ہیں نہیں۔

        قبرستان میں شاعر موصوف نے ایک خوب صورت کتبہ لگا رکھا ہے جس پر لکھا ہے:

     دکن کے شہرہ آفاق شاعر ذوق حیدرآبادی ولد فوق اورنگ آبادی‘‘۔اور نیچے گزارش بھی ہے:

        ابھی مزار  پہ احباب  فاتحہ  پڑھ لیں

        پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے

        ہم نے خود اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ اپنی لحد پر آنکھ بند کیئے ہوئے اور ہاتھ اٹھائے اپنی مغفرت کی دعا کر رہے ہیں۔ پھر جیب سے پھولوں کی پڑیا نکال کر تعویذ پر ڈال دیتے ہیں۔ جب وہ پیٹھ پھیر کر مکروہاتِ دنیا کی طرف لوٹنے لگتے ہیں تو قبرِ شریف انھیں حسرت سے تکتی رہتی ہے اور زبانِ ز حال سے گویا کہہ رہی ہو

کون سی رات آن ملیئے گا

دن بہت انتظار میں گزرے

        وہ زندگی تو کرائے کے سرائے یا کسی چھاؤنی میں مسافرانہ و مہاجرانہ گزار رہے ہیں مگر پچاس ہزار روپے میں یہ دو گز زمین کا پلاٹ اس نیت سے خرید رکھا ہے کہ مرشد کے زیر سایہ نجات مل جائے گی، منکر نکیر رعایت کریں گے اور امید ہے کہ عاقبت سنور جائے گی حساب کتاب کا چکر نہ ہو گا۔

        انہوں نے یہ دو گز کا پلاٹ اس زمانے میں خرید لیا تھا جب اسی قیمت میں ایک سفالی مکان کسی نواح میں آسانی سے مل سکتا تھا اور وہ یہ کہنے کے موقوف میں آ جاتے۔بقول خیرؔ۔

کسی طرح تو کرائے کی عِلّتوں سے بچے

نواحِ  شہر  میں اک گھر تو  خیر ؔ  ذاتی ہے

        مگر انہوں نے دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دی۔شاعر صاحب بتا رہے تھے کہ یہ دو گز کا پلاٹ بھی آخری پلاٹ رہ گیا تھا۔ اب تو پورے احاطے میں کہیں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ مگر بشیر بھائی آپ فکر نہ کریں۔ اپنے محلے میں جگہ کی کوئی قلت نہیں ہے اور نہ مہنگائی اتنی بڑھی ہے اور پھر یہاں رعایت سبسڈی (SUBSIDY) مل رہی ہے اور پھر آپ سے کیا عرض کریں بشیر بھائی کچھ دن پہلے اس ذوق حیدرآبادی کے ’’مزارِ بے مردہ ‘‘ پر ہمارا گزر ہوا۔ اس پر کسی اور نام کی تختی لگی ہوئی دیکھی یعنی کتبہ بدل گیا تھا۔    ہم نے فوراً ذوق صاحب سے فون پر رابطہ پیدا کیا۔ گھنٹی بہت دیر بجتی رہی۔ بڑی دیر بعد انہوں نے فون کا جواب دیا۔ ہم نے بعد سلام عرض کیا کہ حضور آپ کے مزارِ مبارک پر ناجائز قبضہ ہو گیا ہے۔ آج ہمارا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے نام کی جگہ کسی اور کا نام وہاں کندہ ہے۔ حصار بندی بھی ہو گئی ہے  بولے ہاں مجھے معلوم ہے۔ ریٹ RATE  اچھا مِل گیا تو مزار میں نے ہی نکال دیا۔

٭٭٭