اسد قریشی

محبتوں میں تمھارا شعار تابندہ

وفائیں اپنی کریں گے شمار آئندہ

بقا کی منزلیں قائم فنا کے دار پہ ہیں

کہ ریزہ ریزہ نصیب از شکیب یابندہ

خشوع قلب ہے لازم کہ جستجو ہی نہیں

ہما شما کے خدا راز ایں نہ بخشندہ

رکھی ہے میری جبلت میں جب خطا بھی ضرور

یہی سبب کہ رہا شرمسار و شرمندہ

کیا ہے خود کو بڑی مشکلوں سے یکجائی

لگی جو ٹھیس بکھر جاؤں گا میں آئندہ

یہ آیتیں تری ہر جا دکھی ہیں تو بھی تو دکھ

اسد رہا ہے ہمیشہ ترا ہی جوئندہ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے