غزل نامہ۔۔ شبر ناقد

                   طویل غزل

 

 

کسی کی بھی حاصل حمایت نہیں ہے

ہمیں پھر بھی کوئی شکایت نہیں ہے

ہے نعمت بڑی شادمانی دلوں کی

وہ کیا زیست جس میں مسرت نہیں ہے

ہوں میں تو محبت کا اک استعارہ

مجھے تو کسی سے بھی نفرت نہیں ہے

سمجھ لو کہ ویران ہے دل کی دھرتی

فراواں جو اس میں محبت نہیں ہے

یہ سب ماہ جبیں ہیں وفاؤں سے عاری

کسی کی میرے دل میں حسرت نہیں ہے

کروں ماہ رُخوں سے بھلا کیوں محبت

جو اِن میں محبت کی عادت نہیں ہے

مجھے ہر طریقے سے کچلا گیا ہے

یہ کیا میری خاطر قیامت نہیں ہے

جفاؤں کے بدلے وفائیں ہی کی ہے

کہو خود ہی کیا یہ شرافت نہیں ہے

جفاؤں کا بدلہ جفاؤں میں دیں وہ

یہ اہلِ وفا کی روایت نہیں ہے

سدا سچ کی کرتا رہا پاسداری

مجھے جھوٹ سے کوئی نسبت نہیں ہے

کروں گا میں نفرت کا اظہار کیسے

کوئی مجھ میں ایسی جبلت نہیں ہے

ہمیشہ میں رسیا رہا ہوں غموں کا

خوشی سے مجھے کوئی رغبت نہیں ہے

اگر بخش دے وہ گناہگار سارے

تو محدود کچھ اُس کی رحمت نہیں ہے

کسی کو بھلا کیسے ناراض کر دوں

کہ ایسی تو میری طبیعت نہیں ہے

کسی پر کیا ہو ستم اہل دل نے

سُنی کوئی ایسی حکایت نہیں ہے

سدا زندگی میں جسے یاد رکھوں

کوئی مجھ پہ ایسی عنایت نہیں ہے

لکھوں کیوں نہ حمد و تشکر کے کلمے

یہ ہستی بھی کیا رب کی نعمت نہیں ہے

مجھے جاذبیت نظر آئے جس میں

تصور میں اک ایسی صورت نہیں ہے

ہوئے ہاتھ میرے قلم لکھتے لکھتے

میری بات میں کیا صداقت نہیں ہے

صنائع بدائع رقم سب کیے ہیں

کوئی کم سخن میں بھی ندرت نہیں ہے

نہیں چیز کوئی بھی معدوم اس میں

حسیں کون سی اس میں صنعت نہیں ہے

جو سچ ہے اُسے دہر میں عام کر دوں

بھلا مجھ میں ایسی جسارت نہیں ہے

نہیں روندا کس کس طرح سے جہاں نے

رہی مجھ سے کیا کیا حقارت نہیں ہے

رہا ہوں میں غمخوار نِت غمزدوں کا

کوئی اور میری عبادت نہیں ہے

لکھے ہیں سدا میں نے الفت کے نغمے

کوئی اور اپنی ریاضت نہیں ہے

وفا کے چمن کو سنوارا ہے میں نے

یہی امر وجہِ شفاعت نہیں ہے

کیا سامنا ہنس کے دشواریوں کا

یہ کیا ہے اگر یہ شجاعت نہیں ہے

مصائب میرے ساتھ پیہم رہے ہیں

رہی ان سے کوئی کدورت نہیں ہے

بھلا شعر کیسے امر اُن کے ٹھہریں

وہ جذبات میں جن کے شدت نہیں ہے

مصر زندہ رہنے پہ ہے کیوں زمانہ

یہ جیون کوئی عیش و عشرت نہیں ہے

سدا سوزِ ہجراں میں سوزاں رہا ہوں

مقدر میں اپنے تو راحت نہیں ہے

خدا جانے کیوں اُس پہ میں مر مٹا ہوں

اگر اُس میں حسن و صباحت نہیں ہے

گریزاں ہو تم کیوں میری قربتوں سے

میں ناداں سہی مجھ میں وحشت نہیں ہے

گزارا ہے فٹ پاتھ پہ میں نے جیون

میری کوئی جائے سکونت نہیں ہے

ہمارا ہے معبود سب سے نرالا

وہ پتھر کی بے جان مورت نہیں ہے

کروں کیسے تقلید میں دوسروں کی

حسیں کیا محمدؐ کی سیرت نہیں ہے؟

گزارا ہے کرب مسلسل میں جیون

کہو کیا خدا کی مشیت نہیں ہے

رہوں زندگی سے بھلا کیوں گریزاں

اگر زندگی اک حقیقت نہیں ہے

مجھے کیوں رہے خوف بے راہروی کا

میرے ساتھ پیرِ طریقت نہیں ہے

میں کیوں چھوڑ دوں مہرو الفت کے نغمے

بظاہر کوئی اس کی علت نہیں ہے

مجھے جانئے انکساری کا پیکر

ذرا مجھ میں فخر و رعونت نہیں ہے

اگرچہ ہمیشہ وفائیں ہی کی ہیں

وفا کی یہاں قدر و قیمت نہیں ہے

ہو اخلاقِ عالی سے محروم یکسر

ذرا تم کو پاسِ شریعت نہیں ہے

ہوا نفرتوں کا چلن عام ایسا

کسی دل میں بالکل مودَّت نہیں ہے

جو ایماں کی دولت سے عاری رہا ہے

میسر اُسے اصل دولت نہیں ہے

کیا میں نے اعراض جس دن سے تجھ سے

اُسی روز سے پاس فرحت نہیں ہے

وہ مومن ہے پابندِ احکام جو ہے

تساہل نہیں اُس میں غفلت نہیں ہے

خرد سے عبارت ہیں اعمال میرے

سو اپنے کیے پر ندامت نہیں ہے

ہوا آج انساں پہ شیطان غالب

کسی کو بھی فکرِ ملامت نہیں ہے

خلوص و وفا بھی ہے صدق و صفا بھی

ہوا کیا اگر مال و ثروت نہیں ہے

عتاب و عذابِ خدا سے بچے ہیں

ہے یہ امرِ رحمت کہ لعنت نہیں ہے

بہت جلد کرتے ہو تم سچ کا سودا

کہ ایماں کی تم میں حرارت نہیں ہے

میرے رابطے منقطع ہو گئے ہیں

میری اُن سے خط و کتابت نہیں ہے

ستم میں نے دنیا میں بے حد سہے ہیں

مجھے پھر بھی خوفِ عقوبت نہیں ہے

کروں میں بھلا کیسے اعمالِ صالح

میری ذات میں اس کی طاقت نہیں ہے

رہی ہے گرانی ہی میرا مقدر

کہ پل بھر خوشی کی رفاقت نہیں ہے

شرافت سے میں نے گزارا ہے جیون

مگر کی زمانے نے عزت نہیں ہے

گزاری ہے گو پیار میں زندگانی

ہوئی طے وفا کی مسافت نہیں ہے

مناسب سبھی میں نے الفاظ برتے

میری شاعری میں غرابت نہیں ہے

قرینہ اگر آئے جینے کا یارو

تو ہستی میں کوئی اذیت نہیں ہے

مصائب سے بوجھل ہوئی زندگانی

کہ کردار میں استقامت نہیں ہے

حیاتِ گریزاں سے کترا رہا ہوں

کہ اب زندہ رہنے میں لذت نہیں ہے

فقط چار دن کی ہے آباد کاری

بہم زندگی کو طوالت نہیں ہے

کرے دستگیری سدا بے کسوں کی

کسی شخص کو اتنی فرصت نہیں ہے

کرے برملا کیسے حق بات کوئی

زمانے میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے

ہوئے ایسے بے حس تیرے اہلِ دنیا

کہ حاصل اُنھیں کوئی عبرت نہیں ہے

عدو اس لیے ہم کو للکارے پیہم

سمجھتا ہے ملت میں غیرت نہیں ہے

محبت نوازے سدا دوسرں کو

تمہیں پر یہ جذبہ ودیعت نہیں ہے

نہیں کارگر کوئی کاوش میری جاں

اگر اُس میں شامل نفاست نہیں ہے

پریشاں کرے جو غریبوں کو ہر دم

وہ مردم کشی ہے حکومت نہیں ہے

نہ ہو یاوری بے سہاروں کی جس میں

وہ غارت گری ہے سیاست نہیں ہے

حفاظت کرے جو سدا دوسروں کی

کسی شخص میں ایسی قوت نہیں ہے

ملے چین جس سے میری آتما کو

میرے بھاگ میں وہ سعادت نہیں ہے

نہیں تیرے سینے میں ایمان باقی

اگر تجھ میں پاسِ امانت نہیں ہے

بنے زخمِ انسانیت کا جو مرہم

وہ شفاف ذوقِ صحافت نہیں ہے

جہاں میں کرے عام آدرش میرا

سخن میں میرے کیا بلاغت نہیں ہے؟

سخن میں میرے وجہِ دشواری ٹھہرے

زباں میں میری وہ فصاحت نہیں ہے

پذیرائی ہو عندلیبوں کی جس میں

چمن میں میرے وہ قیادت نہیں ہے

بگاڑے میرے کام سارے کے سارے

کوئی مجھ میں ایسی نحوست نہیں ہے

مداوا کرے جو میری وحشتوں کا

کوئی ایسا کیا نیک طینت نہیں ہے؟

غم و سوز نے مار ڈالا ہے مجھ کو

یہ کیا جیتے جی میری رحلت نہیں ہے

بھلا کیا دلوں کو وہ گرما سکے گی

اگر شاعری میں تمازت نہیں ہے

ہماری نظر کیسے عقبیٰ کو سمجھے

ہمیں اتنی حاصل بصیرت نہیں ہے

کوئی کام مشکل نظر آئے مجھ کو

میرے جسم میں وہ نقاہت نہیں ہے

فقط بے حسی ہے میرے چاروں جانب

میرے واسطے کیا یہ ظلمت نہیں ہے؟

نئی باتیں ساری نئے طور سارے

بھلا اور کیا ہے جو جدت نہیں ہے

بہت مختصر وقت ہے زندگی کا

کوئی لمبی چوڑی یہ مدت نہیں ہے

وہ انسان شیطان کا ہے حواری

اگر جذبہ و شوقِ طاعت نہیں ہے

سکوں سے میں ایام کیسے گزاروں

میرے پاس راحت کی نعمت نہیں ہے

جو انسان ہے رب کے احکام مانے

یہی کیا اصولِ نیابت نہیں ہے

ملے شادمانی مجھے کیسے جاناں

جو حاصل مجھے تیری قربت نہیں ہے

میں جو چاہتا ہوں وہ ملتا ہے مجھ کو

نہیں تو فقط ایک عزلت نہیں ہے

نیا ولولہ ایک ہے میرے دل میں

بدن میں میرے اب علالت نہیں ہے

بھلا کیا سکوں ہو میسر جہاں میں

یہ دنیا ہے یہ کوئی جنت نہیں ہے

سمجھ کیا سکیں گے مجھ اہل دنیا

ذرا ان میں فہم و فراست نہیں ہے

بخیلی کا انداز ہے عام ان میں

کسی میں بھی خوئے سخاوت نہیں ہے

رسولِ مکرم کو ہم بھول بیٹھے

ہمیں پاس عہد رِسالت نہیں ہے

کرے سرد جذبات کو پھر سے تازہ

کسی کے سخن میں وہ حدت نہیں ہے

نہیں نکلا میں من کی دنیا سے باہر

کہو کیا یہی داخلیت نہیں ہے؟

زمانے کی کوئی نہیں بات چھوڑی

ہے دعویٰ کہ یہ خارجیت نہیں ہے

مجھے راہِ الفت میں پچھتاوا کیسا

محبت ہے کوئی شرارت نہیں ہے

جو دیوانہ کر دے جو مدہوش کر دے

بدن میں تیرے وہ ملاحت نہیں ہے

نبوت ہی توحید کا ہے تعارف

وہ کیا دین جس میں نبوت نہیں ہے

ہے تفریق فتنہ صفیں منتشر ہیں

کوئی باشریعت امامت نہیں ہے

ہزاروں ہی اشعار میں نے لکھے ہیں

سو دیوان کی کم ضخامت نہیں ہے

نہیں ہے جہاں میں کسی کا بھروسہ

کوئی معتبر اب ضمانت نہیں ہے

مجھے تو تفکر نے بخشی ہے عظمت

کسی کی بھی اس میں اعانت نہیں ہے

تڑپنے پہ اک فرد کے قوم تڑپے

زمانے میں ایسی اخوت نہیں ہے

بنے جو مروت کا مرکز ہمیشہ

کوئی ایسی مضبوط ملت نہیں ہے

جو پھیلائے نیکی بدی کو مٹائے

یہاں ایسی کوئی جماعت نہیں ہے

نہ لکھے ہوں اشعار توصیف جس پہ

تیری کوئی ایسی نزاکت نہیں ہے

سنور جائے جیون میرا جس کے باعث

میسر وہ دلکش رفاقت نہیں ہے

لگایا بھلا دل میں دنیا سے کیسے

کہ جگ میں ذرا جاذبیت نہیں ہے

کرے دور الفت کو جو میرے من سے

میرے دل میں ایسی کثافت نہیں ہے

بشر سلب جیون کرے اپنے ہاتھوں

کہو خود کشی کیا ہلاکت نہیں ہے؟

سدا کی قلم سے حقیقت نگاری

یہ سچے سخن کی دلالت نہیں ہے

پذیرائی دنیا میں کیا پائے گی وہ

اگر فکر میں کچھ نفاست نہیں ہے

کوئی خوف کھائے تو کیوں کھائے مجھ سے

طبیعت میں میری جلالت نہیں ہے

ہوا ہے اُسے سامنا ذلتوں کا

وہ انسان جس میں بسالت نہیں ہے

میں دھوتا رہا دل کو آنسو بہا کر

میرے من میں کوئی نجاست نہیں ہے

میں جس کا سزاوار تھا زندگی سے

میرے پاس وہ شان و شوکت نہیں ہے

کیا ہے ہمیں دنیا داری نے غافل

وہ صوم و صلوٰۃ و اقامت نہیں ہے

میں بگڑا ہوا روپ ہوں زندگی کا

میری کوئی بھی جاہ و حشمت نہیں ہے

نیا دور ہے اور باتیں نئی ہیں

کسی میں بھی رنگِ قدامت نہیں ہے

نہیں انت کوئی بھی حرص و ہوس کا

کسی کو ودیعت قناعت نہیں ہے

سدا کامیابی نے چومے ہیں پاؤں

میری زندگی میں ہزیمت نہیں ہے

یہی اب ہے میرا جوازِ تشکر

کہ کیا سانس لینا غنیمت نہیں ہے

الم سے عبارت میری زندگی ہے

خوشی سے مجھے کوئی نسبت نہیں ہے

یہ ہر بار مر مر کے پھر جی اُٹھا ہے

تجھے اپنے ناقد پہ حیرت نہیں ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے