مثنوی خواب و خیال ۔۔۔ میر تقی میرؔ

 

خوشا حال اس کا جو معدوم ہے

کہ احوال اپنا تو معلوم ہے

 

رہیں جان غم ناک کو کاہشیں

گئیں دل سے نومید سو خواہشیں

 

زمانے نے رکھا مجھے متصل

پراگندہ روزی پراگندہ دل

 

گئی کب پریشانی روزگار

رہا میں تو ہم طالع زلفِ یار

 

وطن میں نہ اک صبح میں شام کی

نہ پہنچی خبر مجھ کو آرام کی

 

اٹھاتے ہیں سر یہ پڑا اتفاق

کہ دشمن ہوئے سارے اہل وفاق

 

جلاتے تھے مجھ پر جو اپنا دماغ

دکھانے لگے داغ بالائے داغ

 

زمانے نے آوارہ چاہا مجھے

مری بے کسی نے نباہا مجھے

 

رفیقوں سے دیکھی بہت کوتہی

غریبوں نے ایک عمر کی ہمسری

 

مجھے یہ زمانہ جدھر لے گیا

غریبانہ چندے بسر لے گیا

 

بندھا اس طرح آہ بار سفر

کہ نے زاد رہ کچھ نہ یار سفر

 

دل اک یار سو بے قرار بتاں

غبار سر رہ گذار بتاں

 

گرفتار رنج و مصیبت رہا

غریب دیار محبت رہا

 

چلا اکبر آباد سے جس گھڑی

در و بام پر چشم حسرت پڑی

 

کہ ترک وطن پہلے کیوں کر کروں

مگر ہر قدم دل کو پتھر کروں

 

دل مضطرب اشک حسرت ہوا

جگر رخصتانے میں رخصت ہوا

 

کھچا ساری رہ دامن چاک دل

رہا بر قفا روئے غم ناک دل

 

پس از قطع رہ لائے دلی میں بخت

بہت کھینچے یاں میں نے آزار سخت

 

جگر جور گردوں سے خوں ہو گیا

مجھے رکتے رکتے جنوں ہو گیا

 

ہوا ضبط سے مجھ کو ربط تمام

لگی رہنے وحشت مجھے صبح و شام

 

کبھو کف بلب مست رہنے لگا

کبھو سنگ در دست رہنے لگا

 

کبھو غرق بحر تحیر رہوں

کبھو سر بجیب تفکر رہوں

 

یہ وہم غلط کاریاں تک کھنچا

کہ کار جنوں آسماں تک کھنچا

 

نظر رات کو چاند پر گر پڑی

تو گویا کہ بجلی سی دل پر پڑی

 

مہ چار دہ کار آتش کرے

ڈروں یاں تلک میں کہ جی غش کرے

 

توہم کا بیٹھا جو نقش درست

لگی ہونے وسواس سے جان سست

 

نظر آئی اک شکل مہتاب میں

کمی آئی جس سے خورد خواب میں

 

اگر چند پر توسے مہ کے ڈروں

ولیکن نظر مو طرف ہی کروں

 

ڈروں دیکھ مائل اسے اس طرف

بحدے کہ آ جائیں ہونٹوں پہ کف

 

پڑی فکر جاں میرے احباب کو

اڑا دیویں سب گھر کے اسباب کو

 

کوئی پاس کوئی تفاوت سے ہو

سراسیمہ کوئی محبت سے ہو

 

کوئی فرط اندوہ سے گریہ ناک

گریباں کسو کا مرے غم سے چاک

 

جو دیکھو تو آنکھوں سے لو ہو بہے

نہ دیکھو تو جی پر قیامت رہے

 

کہے چشم و بندی کو ہر یار و غیر

ولے منزل دل میں اس مہ کی سیر

 

وہی جلوہ ہر آن کے ساتھ تھا

تصور مری جان کے ساتھ تھا

 

اگر ہوش میں ہوں وگر بے خبر

وہ صورت رہے میرے پیش نظر

 

اسے دیکھوں جیدھر کروں میں نگہ

وہی ایک صورت ہزاروں جگہ

 

نگہ گردش چشم سے فتنہ ساز

مژہ آفتِ روزگارِ دراز

 

عجب رنگ پر سطح رخسار کا

مگر تھا وہ آئینہ گلزار کا

 

جو آنکھ اس کی بینی سے جا کر لڑے

دم تیغ پر راہ چلنی پڑے

 

دہن دیکھ کر کچھ نہ کہئے کہ آہ

سخن کی نکلتی تھی مشکل سے راہ

 

گل تازہ شرمندہ اس رو سے ہو

خجل مشک ناب اس کے گیسو سے ہو

 

سراپا میں جس جا نظر کیجئے

وہیں عمر اپنی بسر کیجئے

 

کہیں مہ کا آئینہ در دست ہے

کہیں گرم رفتار دیکھا اسے

 

کبھو صورت دلکش اپنی دکھائے

کبھو اپنے بالوں میں منھ کو چھپائے

 

کبھو گرم کینہ کبھی مہرباں

کبھو دوست نکلے کبھی خصم جاں

 

کبھو یک بیک یار ہو جائے وہ

کبھو دست بردار ہو جائے وہ

 

جو میں ہات ڈالوں تو واں کچھ نہیں

بجز شکل وہمی عیاں کچھ نہیں

 

ہر اک رات چندے یہ صورت رہی

اسی شکل وہمی سے صحبت رہی

 

دم صبح ہو گرم رہ سوئے ماہ

کہ درپیش آوے یہ روز سیاہ

 

کہ جھوما کروں بید مجنوں کی طرز

رہے یاد اس سرو موزوں کی طرز

 

رہوں زرد میں گاہ بیمار سا

پریشان سخن گہہ پریدار سا

 

پری خواں کو لا کوئی افسوں پڑھائے

کسو سے کوئی جا کے تعویذ لائے

 

طبیبوں کو آخر دکھایا مجھے

نہ پینا جو کچھ تھا پلایا مجھے

 

دوا جو لکھی سو خلاف مزاج

کھچا اس خرابی سے کارِ علاج

 

کہ سر رشتہ تدبیر کا گم ہوا

دل اوپر ہجوم توہم ہوا

 

دروں خود بخود بے حواسی رہی

پریشاں دلی اور اداسی رہی

 

کروں بے گلی جاؤں باہر کہیں

نہ گھر میں لگے جی نہ باہر کہیں

 

قیامت جنوں کار ہے سر میں شور

کھچا جائے دل کوہ و صحرا کی اور

 

جنوں آہ درپے ہوا جان کے

مجوز ہوئے یار زندان کے

 

کیا بند اک کوٹھری میں مجھے

کہ آتش جنوں کی مگر واں بجھے

 

لب نان اک بار دینے لگے

دم آب دشوار دینے لگے

 

نہ آوے کوئی ڈر سے میرے کنے

کہ کیا جانیے کیسی صحبت بنے

 

وہ حجرہ جو تھا گور سے تنگ تر

در اس کا نہ کھلتا تھا دو دوپہر

 

جو اس میں کبھو میں سنبھل بیٹھتا

تو باہر بھی اک دم نکل بیٹھتا

 

سر شام بیٹھا تھا میں ایک روز

رفاقت نہ آئی تھی مجھ کو ہنوز

 

کہ یاروں نے برجستہ تدبیر کی

مرے خوں میں کچھ نہ تقصیر کی

 

اگر چند کہنے کو خوں کم کیا

لیا لوہو اتنا کہ بے دم کیا

 

بڑی دیر تک خون جاری رہا

میں بے ہوش وہ رات ساری رہا

 

جگیا سحر مجھ کو اک شور سے

کھلی آنکھ میری بڑی زور سے

 

وہی دستِ فصاد میں نیشتر

وہی رنگ صحبت کا پیشِ نظر

 

وہی لوہو لینے کا ہنگامہ پھر

وہی تر بتر لوہو میں جامہ پھر

 

لگے نشتر ایسے کہ لگتے نہیں

چبھی جیسے مژگاں کسو کے تئیں

 

ہوا خون سے دامن و جیب تر

رگ جاں تلک زخم پہنچا مگر

 

ٹپکتا رہا دیر تک خون ناب

مجھے لے گئی بے خودی کی شراب

 

سخن ضعف سے سخت دشوار تھا

پلک کا اٹھانا بھی اک بار تھا

 

کئی روز بالیں پہ یہ سر رہا

خمار ایک مدت تلک پھر رہا

 

کھڑا ہوں اگر پاؤں لغزاں رہے

بدن بید کی طرح لرزاں رہے

 

چلا جائے سر پاؤں تھر تھر کرے

نسیم سحر کارِ صر صر کرے

 

جفا ضعف سے مجھ کو کیا کیا نہ تھی

افاقت گئی یوں کہ گویا نہ تھی

 

پس از چند آنکھیں ٹھہرنے لگیں

نگاہیں بھی کچھ کام کرنے لگیں

 

بندھا ناتوانی کا رخت سفر

کیا طاقت رفتہ نے منھ ادھر

 

کسے تھا مری زندگانی کا دھیان

و لیکن نہایت تھا میں سخت جان

 

لگی جان سی آنے اعضا کے بیچ

کوئی روز رہنا تھا دنیا کے بیچ

 

پھرا ناتواں میں بہت دور سے

کہ نزدیک تھا عالم گور سے

 

غلط کاری وہم کچھ کم ہوئی

وہ صحبت جو رہتی تھی برہم ہوئی

 

وہ صورت کا وہم ایسی دیوانگی

لگی کرنے در پردہ بے گانگی

 

پس از دیر آنکھوں میں آنے لگی

نہ دو دو پہر منھ لگانے لگی

 

نہ دیکھے مری اور اس پیار سے

غریبانہ سر مارے دیوار سے

 

کہیں ٹک تسلی کہیں بے قرار

کہیں شوق سے میرے بے اختیار

 

کہیں واسطے میرے روتی ہے خوں

کہیں دست زیر زنخ ہے ستوں

 

کہیں دل کو اپنے دکھاوے مجھے

مری بے وفائی جتاوے مجھے

 

کہیں دست بر دل وہ رشکِ قمر

کہیں آتش شوق سے جاں گداز

 

کہیں چشم گریاں سے دامان چاک

کہیں سو جگہ سے گریباں چاک

 

کہیں کام دل کی شکایت سے ہے

کہیں نقشِ دیوار حیرت سے ہے

 

کہیں مجھ سے کہتی ہے رخصت مجھے

کہ مطلق نہیں غم کی طاقت مجھے

 

کہیں لب پہ وہ شکوہ خونچکاں

کہ ٹپکا کرے جس سے آزار جاں

 

کہیں وہ نگہ جس سے یہ پائیے

کہ یہ درد دل ہے تو مر جائیے

 

کہیں وہ روش جس سے نکلے عتاب

کہیں وہ طرح جس سے رہئے خراب

 

کہیں وہ سخن جو جگر خوں کرے

کہیں طرز ایسی کہ مفتوں کرے

 

کہیں وضع ایسی کہ بے گانہ ہے

کہیں آشنا ہے تو دیوانہ ہے

 

کسو جا ہے جلوے میں اس آن سے

کہے تو کہ بیزار ہے جان سے

 

کسو وقت اس کا یہ اسلوب ہے

کہ شرم محبت سے محجوب ہے

 

کبھو بے قراری ہے اس رنگ سے

کہ پھرتی ہے سر مارتی سنگ سے

 

کبھو بے ادائی و دشنام ہے

کبھو باد کے ہاتھ پیغام ہے

 

کہ اے بے وفا! آہ دل نرم کر

محبت کی بھی منھ سے کچھ شرم کر

 

کبھو وہ تبختر کہ پروا نہیں

کبھو کیونکہ کہئے کہ سودا نہیں

 

کبھو یہ سخن جس سے ہو مستفاد

کہ اے بے وفا حرف من باد یاد

 

کہ ظاہر میں میرؔ اب تو آنا گیا

کہ وہ دوستی کا زمانا گیا

 

غرض نا امیدانہ کر اک نگاہ

وہ نقش توہم گیا سوئے ماہ

 

نہ آیا کبھو پھر نظر اس طرح

نہ دیکھا اسے جلوہ گر اس طرح

 

مگر گاہ سایہ سا مہتاب میں

کبھو وہم سا عالم خواب میں

 

دل خو پذیر وصال دوام

رہے خواب میں روز و شب، صبح و شام

 

اگر وصل خواب فراموش تھا

و لیکن وہی خواب کا جوش تھا

 

پلک سے پلک آشنا ہے وہی

زخود رفتگی کی ادا ہے وہی

 

کھڑا ہوں تو سوتا ہوں اک ذوق میں

رگ خواب دل ہے کف شوق میں

 

جو بیٹھا ہوں خواب گراں ہے مجھے

وہ غفلت جہاں در جہاں ہے مجھے

 

خیال اس کا آوے کہ سن ہو رہوں

تلے سر کے پتھر رکھوں سو رہوں

 

مجھے آپ کو یوں ہی کھوتے گئی

جوانی تمام اپنی سوتے گئی

 

دکھایا نہ اس مہ نے رو خواب میں

نہ دیکھا پھر اس کو کبھو خواب میں

 

بہت بے خود و بے خبر ہو چکا

ہم آغوش طالع بہت سو چکا

 

نہ دیکھا کبھو میرؔ پھر وہ جمال

وہ صحبت تھی گویا کہ خواب و خیال

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے