قدیم دکنی ادب میں تانیثیت ۔۔۔ ڈاکٹر غلام شبیر رانا

خواتین کے لب و لہجے میں تخلیق ادب کی روایت خاصی قدیم ہے۔ ہر زبان کے ادب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ نوخیز بچے کی پہلی تربیت اور اخلاقیات کا گہوارہ آغوش مادر ہی ہوتی ہے۔ اچھی مائیں قوم کو معیار اور وقار کی رفعت میں ہمدوش ثریا کر دیتی ہیں۔ انہی کے دم سے امیدوں کی فصل ہمیشہ شاداب رہتی ہے۔ یہ دانہ دانہ جمع کر کے خرمن بنانے پر قادر ہیں تاکہ آنے والی نسلیں فروغ گلشن اور صوت ہزار کا موسم دیکھ سکیں۔ صبر و رضا، قناعت اور استغنا ان کا امتیازی وصف ہے۔ لوئیس بوگان نے کہا ہے
Women have no wilderness in them
They are provident instead
Content in the tight hot cell of their hearts
To eat dusty bread (1)
فنون لطیفہ اور ادب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین نے اپنی کامرانیوں کا پرچم بلند نہ کیا ہو۔ آج تو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی بے پناہ استعداد کار کا لوہا منوایا ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خواتین نے فنون لطیفہ اور معاشرے میں ارتباط کے حوالے سے ایک پل کا کردار ادا کیا۔ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت نے آج گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔ ان اعصاب شکن حالات میں بھی خواتین نے اس جانب متوجہ کیا کہ فرد کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے۔ مسلسل شکست دل کے باعث مظلوم طبقہ محرومیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے۔ ظالم و سفاک، موذی ومکار استحصالی عناصرکے مکر کی چالوں کے باعث رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، زندگیاں پرخطر اور آہیں بے اثرہو کر رہ گئی ہیں۔ خواتین نے ہر عہد میں جبر کی مزاحمت کی، ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایا اور انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حریت ضمیر سے جینے کا راستہ اختیار کیا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارا معاشرہ بالعموم مردوں کی بالادستی کے تصور کو تسلیم کر چکا ہے۔ اس قسم کے ماحول میں جب کہ خواتین کو اپنے وجود کے اثبات اور مسابقت کے لیے انتھک جد و جہد کرنا پڑے، خواتین کے لیے ترقی کے یکساں مواقع تخیل کی شادابی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ خواتین کی فکری کاوشیں سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر کے مانند ہیں۔ انھوں نے کٹھن حالات میں بھی حوصلے اور امید کا دامن تھام کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کا جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گرش لیل و نہار بھی قرار دیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شعبۂ زندگی میں خواتین بھرپور اور اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ عالمی ادبیات مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سماجی زندگی کے جملہ موضوعات پر خواتین کے اشہب قلم نے جو بے مثال جو لا نیاں دکھائی ہیں ان کے اعجاز سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
تانیثیت ایک ایسی مثبت سوچ، مدبرانہ تجیزیہ اور دانشورانہ اسلوب کی جانب متوجہ کرتی ہے جس کے اہداف میں خواتین کے لیے معاشرے میں ترقی کے منصفانہ اور یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کا واضح لائحہ عمل متعین کیا گیا ہو۔ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ خواتین کسی خوف و ہراس کے بغیر کاروان ہستی کے تیزگام قافلے میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔ روشنی کے اس سفر میں انھیں استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے خبردار کرنا تانیثیت کا اہم موضوع رہا ہے۔ ایک فلاحی معاشرے میں اس بات کا خیال رکھا جا تا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو ہر قسم کا معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ تانیثیت نے حق و انصاف کی بالا دستی، حریت فکر، آزادی ء اظہار اور معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے پاک کرنے پر اصرار کیا۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ فکری کجی کے باعث تانیثیت اور جنسیت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالانکہ تانیثیت اورجنسیت میں ایک واضح حد فاصل ہے بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ تانیثیت اپنے مقاصد کے اعتبار سے جنسیت کی ضد ہے۔ تانیثیت کے امتیازی پہلو یہ ہیں کہ اس میں زندگی کی سماجی، ثقافتی، معاشرتی، سیاسی، عمرانی اور ہر قسم کی تخلیقی اقدار و روایات کو صیقل کرنے اور انھیں مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ اس میں خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے فراواں مواقع کی جستجو پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔
یورپ میں تانیثت کا غلغلہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھا۔ اس میں مد و جزر کی کیفیت سامنے آتی رہی۔ یہ ٹھہرے پانی میں ایک پتھر کے مانند تھی اس کی دوسری لہر 1960 میں اٹھی جب کہ تیسری لہر کے گرداب 1980 میں دیکھے گئے۔ ان تمام حالات اور لہروں کا یہ موہوم مد و جزر اور جوار بھاٹا جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑ گیا اس کا لب لباب یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے اور ہر قسم کی عصبیت سے گلو خلاصی حاصل کر لی جائے تو یہ بات ایک مسلمہ صداقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے خواتین کو جس عزت، تکریم اور بلند مقام سے نوازا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر خلافت راشدہ کے زمانے تک اسلامی معاشرے میں خواتین کے مقام اور کردار کا حقیقی انداز میں تعین کیا جا چکا تھا۔ اس عہد میں مسلم خواتین ہر شعبہ زندگی میں فعال کردار ادا کر رہی تھیں۔ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع اور منصفانہ ماحول میں زندگی بسر کرنے کی ضمانت دی۔ آج بھی اگر وہی جذبہ بیدار ہو جائے تو آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔
جدید دور میں تانیثیت کے حوالے سے تنقیدی مباحث روز افزوں ہیں۔ آج خواتین تیشۂ حرف سے فصیل جبر منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کر تی نظر آتی ہیں۔ ایسے تمام تار عنکبوت جو کہ خواتین کی خوشحالی اور ترقی کے افق کو گہنا رہے ہیں انھیں نیست و نابود کرنے کا عزم لیے خواتین اپنے ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دینے کی صلاحیت سے متمتع ہیں۔ ان کا نصب العین یہ ہے کہ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والے اجلاف و ارزال اور سفہا کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھائی جائے اور ایسے ننگ انسانیت وحشیوں کے قبیح کردارسے اہل درد کو آگاہ کیا جائے۔ تانیثیت نے تمام خفاش منش عناصر کو آئینہ دکھا یا ہے اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔ تانیثیت کا دائرہ کار تاریخ، علم بشریات، عمرانیات، معاشیات، ادب، فلسفہ، جغرافیہ اور نفسیات جیسے اہم شعبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ تانیثیت میں تحلیل نفسی کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ تانیثیت کے مطابق معاشرے میں مرد اور عورت کو برابری کی سطح پر مسائل زیست کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ یہ اپنے وجود کا خود اثبات کرتی ہے۔ تانیثیت نے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی جنون اور ہیجان کی مسموم فضا کا قلع قمع کرنے اور اخلاقی بے راہ روی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ اور درخشاں روایات کے قصر عالی شان کی بقا کی خاطر تانیثیت نے ایک قابل عمل معیار وضع کیا جو کہ خواتین کو حوصلے اور اعتماد سے آگے بڑھنے کا ولولہ عطا کرتا ہے۔ اخلاقی اوصاف کے بیان میں بھی تانیثیت نے گہری دلچسپی لی۔ قدرت کا ملہ نے ان اوصاف حمیدہ سے خواتین کو نہایت فیاضی سے متمتع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قدرتی عنایات کا دل نشیں انداز میں بیان بھی اس کا امتیازی وصف ہے۔ ان فنی تجربات کے ذریعے جدید اور متنوع موضوعات سامنے آئے اور نئے امکانات تک رسائی کو یقینی بنانے کی مساعی کا سلسلہ چل نکلا۔
قدرت کے اس وسیع نظام میں جمود اور سکون بہت محال ہے۔ زندگی حرکت اور حرارت سے عبارت ہے۔ کسی بھی عہد میں یکسانیت کو پسند نہیں کیا گیا اس کا سبب یہ ہے کہ یکسانیت سے ایک مشینی سی صورت حال کا گمان گزرتا ہے۔ اس عالم آب و گل میں سلسلۂ روز و شب ہی کچھ ایسا ہے کہ مرد اور عورت کی مساوی حیثیت کے بارے میں بالعموم تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے تانیثیت نے اس اہم موضوع پر توجہ مرکوز کر کے بلا شبہ اہم خدمت انجام دی۔ تانیثیت پر مبنی نظریے (Feminist Theory) نے خواتین کو مژدۂ جاں فزا سنایا کہ قید حیات اور بند غم سے دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ زندگی تو جوئے شیر، تیشہ اور سنگ گراں کا نام ہے۔ عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا، زندگی کی حیات آفریں اقدار کو پروان چڑھانا، خوب سے خوب تر کی جستجو کرنا، ارتقا کی جانب گامزن رہنا، کامرانی اور مسرت کی جستجو کرنا، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا، حریت فکر اور آزادیِ اظہار کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا، فن کار کی انا کا بھرم بر قرار رکھنا اور اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرنا ان کا اہم ترین منصب ہے۔ تانیثیت نے افراد، معاشرے، علوم اور جنس کے حوالے سے ایک موزوں ارتباط کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن (Terry Eagleton) نے لکھا ہے:

"Feminist theory provided that precious link between academia and society as well as between problems of identity and those of political organization ,which was in general harder and harder to come by in an increasingly conservative age.”(2)

تانیثیت کو ادبی حلقوں میں ایک نوعیت کی تنقید سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنھیں معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے اور انھیں تخلیقی اظہار کے فراواں مواقع فراہم کیے جائیں۔ مغرب میں اسے 1970 میں پذیرائی ملی۔ یورپی دانشوروں نے اس کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی۔ اس طرح رفتہ رفتہ لسانیات اور ادبیات میں تانیثیت کو ایک غالب اور عصری آگہی کے مظہر نظریے کے طور پر علمی اور ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔ 1980 کے بعد سے تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا گیا۔ اس طرح ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی صورت تلاش کی گئی جس میں خواتین کے لیے سازگار فضا میں کام کرنے کے بہترین مواقع ادستیاب ہوں۔ تانیثیت کی علم بردار خواتین نے ادب کے وسیلے سے زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں میں اضافہ کرنے کی راہ دکھائی۔ ان کا نصب العین یہ تھا کہ جذبات، تخیلات اور احساسات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اظہار کی پاکیزگی اور اسلوب کی ندرت کے معجز نما اثر سے خواتین کو قوت ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور اس طرح انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اہداف تک رسائی کی صورت پیدا ہو سکے۔ اس عرصے میں تانیثیت کی باز گشت پورید نیا میں سنائی دینے لگی۔ خاص طور پر فرانس، برطانیہ، شمالی امریکہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں اس پر قابل قدر کام ہوا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیثیت کی شکل میں بولنے اور سننے والوں کے مشترکہ مفادات پر مبنی ایک ایسا ڈسکورس منصۂ شہود پر آیاجس نے خواتین کے منفرد اسلوب کا اعتراف کیا گیا۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ نسائی جذبات میں انانیت نمایاں رہتی ہے مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے جذبات میں خلوص، ایثار، مروت، محبت اور شگفتگی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ تانیثیت نے انسانی وجود کی ایسی عطر بیزی اور عنبر فشانی کا سراغ لگایاجو کہ عطیۂ خداوندی ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات میں تمام مظاہر فطرت کے عمیق مشاہدے سے یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل ہے اسی طرح خواتین بھی اپنے روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت بے لوث محبت کو شعار بناتی ہیں۔ خواتین نے تخلیق ادب کے ساتھ جو بے تکلفی برتی ہے اس کی بدولت ادب میں زندگی کی حیات آفریں اقدار کو نمو ملی ہے۔ موضوعات، مواد، اسلوب، لہجہ اور پیرایۂ اظہار کی ندرت اور انفرادیت نے ابلاغ کو یقینی بنا نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ تانیثیت کا اس امر پر اصرار رہا ہے کہ جذبات، احساسات اور خیالات کا اظہار اس خلوص اور دردمندی سے کیا جائے کہ ان کے دل پر گزرنے والی ہر بات بر محل، فی الفور اور بلا واسطہ انداز میں پیش کر دی جائے۔ اس نوعیت کی لفظی مرقع نگاری کے نمونے سامنے آتے ہیں کہ قاری چشم تصورسے تمام حالات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔
حیدر آباد دکن سے اُردو کی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا چندا (1768-1824) نے اورنگ آباد (مہاراشٹر) میں جنم لیا۔ اس کی تاریخ پیدائش 7۔ اپریل 1768ء ہے۔ اس کی ماں راج کنور کا تعلق راجپوتانہ سے تھا اور وہ اپنے عہد کی مقبول رقاصہ اور مغنیہ تھی۔ ماہ لقا بائی چند کا باپ ’بہادر خان‘ محمد شاہ کے عہد میں منصب دار تھا۔ ماہ لقا بائی چندا کا دیوان ’’گلزارِ ماہ لقا‘‘ اس کی وفات کے بعد سال 1798 میں منظر عام پر آیا۔ یہ دیوان اُنتالیس غزلوں پر مشتمل ہے اور ہر غزل کے پانچ اشعار ہیں۔ مہ لقا بائی چندا فن موسیقی میں کامل دسترس رکھتی تھی اور اُس عہد کے کہنہ مشق شاعر شیر محمد ایمانؔ کی شاگرد تھی۔ برٹش میوزیم میں محفوظ ’دیوان چندا‘ میں 125 غزلیں ہیں جو سال 1798ء میں زیب قرطاس کیا گیا۔ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنانے والی اس شاعرہ نے غیروں سے کبھی وفا کی توقع نہ رکھی:
بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب
جس وقت ماہ لقا بائی چندا نے دکن میں شاعری شروع کی اس وقت شمالی ہند میں میر تقی میر، مرزا محمد رفیع سودا اور خواجہ میر درد کی شاعری کی دھوم مچی تھی۔ ماہ لقا بائی چند نے صرف پینسٹھ غزلیں لکھیں اور ہر غزل کے پانچ شعر ہیں۔ ماہ لقا بائی چندا نے صرف دکنی غزل میں طبع آزمائی کی۔ ماہ لقا بائی چند اقصر شاہی کی طوائف تھی اور موضع ’اڈیکیٹ‘ کی جاگیر کے کاغذات اُسے قصر شاہی سے عطا کیے گئے تھے۔ اس عیاش طوائف کی خرچی کی دولت، ثروت اور مقام کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پاس صرف پہرہ کے لیے پانچ سو سپاہی ملازم تھے۔ اپنے عہد کی یہ شمع محفل جس کے مسحور کن رقص اور کانوں میں رس گھولنے والے گیتوں کی محفل میں بڑے بڑے امرا، وزرا، عمائدین اور منصب دار کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے، حیدر آباد کے نواح میں واقع ’کوہ مولا‘ کے جس کنج تنہائی میں ردائے خاک اوڑھے پڑی ہے، وہاں دِن کے وقت بھی شب تاریک کی ظلمتوں اور مہیب سناٹوں کا راج ہے۔ ماہ لقا بائی چندا کا نمونہ کلام درج ذیل ہے
کب تک رہوں حجاب میں محروم وصل سے
جی میں ہے کیجیے پیار سے بوس و کنار خوب
ساقی دے مجھ کو جام مے ارغوان پھِر
افسردہ دِل میں آئے جو شعلہ سی جان پھِر
وفا کے ہاتھ سے اپنے کمال عاجز ہیں
جفا تو اُس کی تھی معلوم پیشتر ہم کو
چشمِ کافر بھی ہے اور غمزۂ خونخوار بھی ہے
قتل کو پاس سپاہی کے یہ تلوار بھی ہے
جب لطف النسا امتیازؔ (پیدائش: 1761)ؔ ایک سال کی تھی تو اُس کی ماں چل بسی۔ اِس کے باپ نے بھی کم سِن بچی کی تربیت میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ ایک بے اولاد، متمول اور خداترس خاندان نے اس بے سہارا بچی کو گودلے لیا اور اِس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری قبول کر لی۔ لطف النسا امتیازؔ کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا:
لڑکپن سے ہی شوق دِل نے کیا
یہ کچھ شعر و اشعار کا مشغلہ
لیا خط تو کیا شعر کہنے کی تھی
ہوس یوں ہی چُپ کہنے سُننے کی تھی
اس زمانے کے رواج کے مطابق لطف النسا امتیاز کی شادی کم عمری ہی میں اسد علی خان تمنا سے کر دی گئی۔ باہمی اعتماد اور خلوص کی بنا پر یہ شادی چھتیس سال تک کامیاب رہی۔ لطف النسا امتیاز اپنے مرشد شاہ عطا اللہ سے گہری عقیدت رکھتی تھی۔ اپنے مرشد کی نگاہ کرم کے اعجاز سے اُس کا مذہب کی طرف رجحان بڑھنے لگا اور اُس نے حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کی۔ اپنی دکنی زبان کی شاعری میں اُس نے اِس عقیدت کا برملا اظہار کیا ہے۔ مثنوی میں لطف النسا امتیاز نے اپنے منفرد اسلوب سے حقیقت اور معرفت کی دنیا میں مقام پیدا کیا ہے:
تُو عشقِ حقیقی سے مد ہوش ہے
شرابِ محبت سے بے ہوش ہے
عطا کیے وہ معرفت کا کلام
عطا اللہ سچا میرے مرشد کا نام
امین الدین اعلیٰ جو ہیں اِن کے جد
وہ علمِ حقیقی کے ہیں مجتہد
جہاں تک زمیں ہے وہاں تک امیں
ہیں سب اولیا میں وہ مثلِ نگیں
یہ قصے کو میرے تُو مقبول کر
پڑھے اور سُنے کوئی اہلِ ہنر
جو اِس وہم میں دِل نپٹ کٹ گیا
جو اِک بی بی نے یہی مُجھ سے کہا
جو لطف النسا سچ ہے تیرا ہی نام
تیرے شہر کا شہرہ تا رُوم و شام

دکن میں تانیثیت کے حوالے سے یہ امر قابل غور ہے کہ اس کا دیوان ماہ لقا چندا سے ایک سال پہلے 1797 میں منظر عام پر آیا۔ اس لیے تاریخی حقائق اور شواہد کے پیش نظر ماہِ لقا چندا کے بجائے لطف النسا امتیازؔکو اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ سمجھنا چاہیے۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے لطف النسا امتیاز کو عین عالم شباب میں بیو گی کی چادر اوڑھا دی اوراردو زبان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ لطف النسا امتیازؔ کا دیوان اس کے شوہر اسد علی خان تمنا کے انتقال کے بعد چھپا۔ اسد علی خان تمنا خود بھی شاعر تھے اور اپنی اہلیہ کے کلام کی اصلاح بھی کرتے تھے۔ لطف النسا امتیازکی مثنوی ’گلشن شعرا‘ آٹھ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اسد علی تمنا خود بھی ادیب تھا اور اس کا تذکرہ ’گل عجائب‘ اس عہد کے شعرا کے بارے میں ایک اہم بنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ اپنے عہد کے ممتاز شعرا تمنا، تجلی، شوق، احسان اور شاداں کی معاصر لطف النسا امتیاز کی زندگی کے حالات ابلق ایام کے سُموں کر گَرد میں اوجھل ہو چُکے ہیں۔ دکن سے تعلق رکھنے والی لطف النسا امتیازؔکی شاعری میں نسائی جذبات نمایاں ہیں۔
آنکھوں میں ترے حُسن کی اَب جلوہ گری ہے
دیدار کے وعدے کی بھی کیا وعدہ گری ہے
ہے یہی اِنصاف اَب تمھارے دور میں
ہم سسکتے ہی پڑے ہیں اور سب پی کر اُٹھیں
لطف النسا امتیازؔ نے جن اصناف شاعری میں طبع آزمائی کی اُن میں مثنوی، قصیدہ، غزل، قطعہ، رباعی اور مخمس شامل ہیں۔ معاشرتی زندگی کے ہر موضوع پر لطف النسا امتیازؔ نے شعر کہے ہیں۔ اُس کے اسلوب میں جو وسعت، تنوع اور نُدرت ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ دکنی غزلوں میں اس کی تخلیقی فعالیت کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے۔ لطف النسا امتیاز کے دیوان میں ایک سو چوراسی غزلیں، پانچ قطعات، پندرہ رباعیات اور کچھ مخمس شامل ہیں۔ گردشِ حالات نے لطف النسا امتیاز کو شاعری کی طرف مائل کیا ورنہ شعر و ادب کی تخلیق اُسے میراث میں نہیں ملی تھی۔۔ اپنی شاعری میں آنے والے دور کی ڈھُندلی سی اِک تصویر دکھا دی ہے۔
سینہ تیری جفا سے معمور ہو رہا تھا
ہر زخم دِل میں ظالم ناسُور ہو رہا تھا
عمر کا شیشہ بہت نازک ہے یہ سنگِ اجل
جب کرے گا چُور ہی توہم عزیزاں پھِر کہاں
ساقیا محفل میں تیری کوئی دن مہمان ہیں
دیکھ لیں یہ گریۂ مینا جام خنداں پھر کہاں
تو عشق حقیقی سے مد ہوش ہے
شرابِ محبت سے بے ہوش ہے
ترا جو تخلص ہے اب امتیازؔ
ہے سب اہل ہنروں میں تُو شاہ باز
اب اہلِ کمالوں سے ہے التماس
ہے اصلاح کی دِل کو جو میرے پاس
تُو کر ختم یہ قصہ اب امتیازؔ
کر عاشقی کو اب عشق سے سرفراز
اپنی مثنوی ’’گلشنِ شعرا‘‘ میں لطف النسا امتیازؔ نے اپنے عہد کی معاشرتی زندگی کی لفظی مرقع نگاری کی ہے۔ بادشاہ فیروز بخت کی زندگی کے پُر اسرار واقعات کے گرد گھومنے والی یہ مثنوی زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ وزیروں کے طر زِعمل، مافوق الفطرت عناصر کی وارداتوں، طلسمِ ہوش رُبا، جِن، بھُوت، پری زاد، چڑیلیں اور آدم خور سب اس مثنوی میں جلوہ گر ہیں۔ اپنے منفرد شعری اسلوب سے لطف النسا امتیازؔ نے جو سماں باندھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے:
دِکھلائی کِس مزے سے اَب کے بہار ہولی
کھیلے ہیں سب جمع ہو کر گُل عذار ہولی
ساری پری رُخاں مِل کیسی مچائیں موجیں
رنگ زرد سُرخ لے کر کھیلیں نگار ہولی
سونے کی تھالیوں میں رکھ کر عبیر و ابرک
اُوپر سے قم قموں کے ہے مار مار ہولی
سارے طوائفوں نے ناچے ہیں کیا مزے سے
اِندر کا ہے سبھا دیکھ ہے بے قرار ہولی
جب راگ کا سماع کر گاویں ہیں کِس اَدا سے
نکلے ہے منھ سے اون کی بے اختیار ہولی
دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کے تحفظ کی مقدور بھر کوشش کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں ادب، فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت لوگوں کے دِلوں میںر چ بس گئی تھی اور یہ ان کے جبلی انعکاس کی صورت میں منصۂ شہود پر آ رہی تھی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں اس عہد کے تخلیق کاروں نے قلبی، روحانی اور ذہنی سکون اور مقبولیت کی جستجو میں خونِ بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی کی۔ لطف النسا امتیاز نے اپنے دِل کی بات لبوں پر لانے میں کوئی تامل نہیں کیا:
آنسو کی جگہ لہو برسے ہے یہ آنکھوں سے
ڈرتا ہوں کہ اِن سے ہی طوفان نکلتے ہیں
سینے سے جب آہوں کے مہمان نکلتے ہیں
آنکھوں سے مری آنسو ہر آن نکلتے ہیں
دکن میں خواتین نے پرورشِ لوح و قلم میں نہایت انہماک کا مظاہرہ کیا۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں:
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والی انیسہ بیگم شروانی (۱۹۱۰۔ ۱۹۶۴) نے نظم، حمد، نعت اور غزل میں نام پیدا کیا۔
جدھر دیکھئے فتنہ سامانیاں ہیں
ہوا و ہوس کی فراوانیاں ہیں
اپنے عہد میں حیدر آباد ہی کی ایک شاعرہ رحمت بیگم اسیرؔ کی غزل گوئی کے بہت چرچے تھے:
فکرِ فردا ہے نہ اَب ہم کو خیالِ دوش ہے
ایک ہم ہی کیا ہیں ساری بزم ہی مد ہوش ہے
بشیر النسا بیگم بشیرؔ کا تعلق بھی حیدر آباد سے تھا۔ خواتین کے حقوق اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر اُنھوں نے مقدور بھر سعی کی:
گردِشِ چرخ کہہ رہی ہے بشیرؔ
جذبِ کامِل سے کیا نہیں ہوتا
مسز ڈی برکت رائے نے بچوں کے لیے بہت دلچسپ نظمیں لکھیں۔ بچوں کے لیے اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’بتاشے‘‘ کے نام سے شائع ہوا جس کو بہت پذیرائی ملی۔
کالے کالے بادل آئے
پانی دیکھو بھر کر لائے
خوشی سے پودے جھُوم رہے ہیں
قدم ہوا کے چُوم رہے ہیں
صفیہ بیگم قمرؔ نے حیدر آباد میں خواتین میں آگہی پیدا کرنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ صفیہ بیگم قمرؔ کی نظم ’’عورت‘‘ کو خواتین نے بہت پسند کیا۔ بچوں کے لیے صفیہ بیگم قمرؔ نے جو نظمیں لکھیں وہ بچوں میں بہت مقبول ہوئیں۔ مثال کے طور پر اُن کی نظم ’’تاروں کا مدرسہ‘‘ بچوں کے لیے پیغام عمل ہے۔
لطف النسا بیگم لطیفؔ نے اپنی شاعری میں خواتین کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونے اور سعیِ پیہم کو شعار بنانے کاپیغام دیا۔
اس کے علاوہ نوشابہ خاتوں نوشابہ نے حیدر آباد میں خواتین کی تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی لی۔ اُن کی شاعری میں نسائی جذبات کی فراوانی ہے۔ حیدر آباد میں اپنے قیام کے عرصے میں وحیدہ خاتون نسیمؔ نے بچوں کے لیے ’’طفلستان‘‘ کے نام سے ایک شعری مجموعہ لکھا۔
تخلیق فن کی یہ لگن افکارِ معیشت کے جھنجھٹ سے نجات اور پرورشِ لوح و قلم کے ارفع معائر تک رسائی کی تمنا قابلِ ادراک صورتوں میں ان کے اسلوب میں جلوہ گر دکھائی دیتی ہے۔ حالات و واقعات کی مرقع نگاری میں تخیل کی تونگری اور اظہار و ابلاغ کے لیے منتخب اسالیب کے شعور میں پنہاں وفورِ شوق کی ثروت ان کا امتیازی وصف ہے۔ دکن کی جن خواتین نے فروغ، علم و ادب میں حصہ لیا اُن میں رفیعہ سلطانہ، منیرہ بانو، زینت ساجدہ، خدیجہ بیگم، صغرا بیگم، پادشاہ بیگم صوفی، رابعہ بیگم، جہاں بانو بیگم اور شانتی بائی شامل ہیں۔ لطف النسا امتیازؔنے اپنے دِل کی بات بیان کرنے کے لیے ہر وہ التزام کیا جو اِس مقصد کے لیے نا گزیر تھا۔ اس شاعرہ کا یہ دعویٰ قابلِ غور ہے:
جو لطف النسا سچا ہے تیرا نام
ترے شعر کا شہرہ تا روم و شام
٭٭

مآخذ
1. David Lodge: Modern Criticism and Theory, Pearson Education Singapore 2004, Page 308
2. Terry Eagleton: Literary Theory, Minnesota, 1998, London Page. 194
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے