فراقؔ و جوشؔ: تضادات اور مماثلتیں ۔۔۔ مظفّرؔ حنفی

تنقید کا ایک دبستان بطور خاص اصرار کرتا ہے کہ فنکاروں کی تخلیقی کاوشوں کا تجزیہ اور ان کی ادبی حیثیتوں کا تعین ان کے ادوار کے تناظر میں کیا جائے۔ بات اپنی جگہ جی کو لگتی ہے اور اکثر و بیشتر اوسط یا کمتر درجہ کی استعداد رکھنے والے فنکاروں کے بارے میں اس پیمانے کے ذریعہ صحیح نتائج تک پہنچنے میں سہولت بھی ہوتی ہے لیکن جہاں معاملہ بلند قامت اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیت رکھنے والے فنکاروں کا آ پڑتا ہے، وہاں ادوار کا پسِ منظر سچی تصویر کو اجاگر کرنے میں زیادہ کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ایک نمایاں مثال میرؔ اور سوداؔ کی ہے۔ دونوں کم و بیش ایک ہی دور کی پیداوار ہیں۔ دونوں نے دہلی کی بار بار تباہی کا کھلی آنکھوں سے سے مشاہدہ کیا اور حالات سے مجبور ہو کر لکھنؤ ہجرت کر گئے، لیکن دونوں کے مزاجِ شعر کی تشخیص میں ان کا دور اور اس عہد کے سیاسی حالات ہمیں مختلف نتائج پر پہنچاتے ہیں حالانکہ یکساں حالات اور ایک ہی دور میں شاعری کرنے والے ان فنکاروں کے یہاں فطری طور پر مماثلت کے زیادہ پہلو ہونے چاہیے تھے۔ کم و بیش یہی صورتِ حال مومنؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے ساتھ ہے۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار کے دورِ حکومت میں رہتے ہوئے ان تینوں فنکاروں نے جو تخلیقی کارنامے پیش کیے وہ اپنے فنی محاسن اور ادبی معیار کے اعتبار سے قطعی جداگانہ نوعیتوں کے حامل ہیں۔ بات یہ ہے کہ عظیم فنکار اکثر اپنے دور کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی ادبی اقدار اور انفرادی امتیازات کا حامل ہوا کرتا ہے جنھیں صرف ماہ و سال کے فریم میں سجا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میرؔ، سوداؔ سے اور غالبؔ اپنے معاصرین ذوقؔ و مومنؔ سے بڑے بھی ہیں اور مختلف بھی۔ ایسی مثالیں بکثرت دی جا سکتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ادوار کو شاعری کی پرکھ میں واجبی واجبی اہمیت ہی حاصل ہے اور اس پر بہت زیادہ اصرار کرنا گمراہ کُن ہو سکتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک ہی خاندان میں پیدا ہونے اور بڑھنے والے بچوں میں سے کوئی ایک فن کار ہوتا ہے اور بقیہ شعر و ادب سے بے گانہ رہتے ہیں یا اگر ایک سے زائد کی دلچسپی شعر و ادب میں ہو تب بھی ان میں سے کوئی کرشن چندر اور کوئی غیاث احمد گدی بنتا ہے اور دوسرے بھائی مہندر ناتھ اور الیاس احمد گدی کی سطح پر رہ جاتے ہیں۔
جوشؔ و فراقؔ کم و بیش ایک ہی دور کی پیداوار ہیں۔ فراقؔ کا سنہ ولادت ۱۸۹۶ء ہے اور جوشؔ کی پیدائش ۱۸۹۸ء کی ہے اور سال وفات دونوں کا ۱۹۸۲ء ہے یعنی دونوں کی عمروں میں ڈیڑھ دو سال سے زیادہ کا فرق نہیں ہے۔ دونوں کے خاندانوں میں شاعری کی روایت چلی آ رہی تھی۔ جوشؔ کے پردادا فقیر محمد گویاؔ، دادا محمد احمد، والد بشیر احمد بشیرؔ اپنی اپنی جگہ صاحبِ دیوان تھے اور فراقؔ کے والد عبرتؔ گورکھ پوری اپنے دور کے منجھے ہوئے شعراء میں شمار کیے جاتے تھے۔ ادوار اور حالات کی اس یکسانیت کا اثر دونوں فنکاروں پر اس حد تک ضرور ہوا کہ دونوں نے اپنی زندگی میں شہرت و مقبولیت کی انتہائی بلندیوں کو چھو لیا اور ایک دوسرے کی عظمت کے معترف بھی رہے۔ مماثلت کا ایک رخ یہ بھی نکلتا ہے کہ دونوں فنکار طویل نظمیں اور لمبی غزلیں کہنے کے لیے مشہور تھے، لیکن ایک ہی دور، ایک ہی سرزمین اور یکساں سیاسی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے ان مختلف المزاج فنکاروں کی شخصیت اور فن کے کچھ دلچسپ تضاد بھی ملاحظہ فرمائیے :

(۱) ہر چند کہ جوشؔ نے شاعری کی ابتداء غزل سے کی لیکن ۱۹۱۴ء کے آس پاس سلیمؔ پانی پتی کے مشورے سے نظم گوئی کی طرف ایسے مائل ہوئے کہ آگے چل کر غزل سے اپنی بیزاری کا علی الاعلان اظہار کرنے لگے ( پانی پت کے میدان میں غزل تہِ تیغ ہوتی آئی ہے جس کی شہادت مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی دے سکتے ہیں ) اس ضمن میں جوشؔ کا وہ لطیفہ خاصا مشہور ہے کہ ایک بزرگ خاتون نے ملاقات کے دوران جب جوشؔ کی خیریت دریافت کی تو موصوف نے کہا:’’ آج راستے میں بھیڑ بہت تھی، آلو کا نرخ گھٹ رہا ہے، رات کو سردی اپنے عروج پر تھی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اور جب ان خاتون نے حیران ہو کر اس بے ربط گفتگو کا مطلب دریافت کیا تو جوشؔ صاحب نے فرمایا کہ وہ غزل کہہ رہے تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ خود جوش کی لمبی لمبی نظمیں، غزل کے اثرات سے یکسر آزاد نہیں رہ سکیں۔ اس کے بر عکس فراقؔ بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر ہیں۔ حالانکہ انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ منھ کا ذائقہ بدلنے والی جیسی چیزیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی اور مغربی ادب پر جوشؔ کی نگاہ واجبی واجبی ہے جب کہ فراقؔ انگریزی اور اس کے توسط سے مغربی ادب کا گہرا مطالعہ کر چکے تھے اور یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات کے استاد بھی تھے۔ اہلِ نظر سے یہ نکتہ پوشیدہ نہیں کہ مغربی شاعری کا مزاج بنیادی طور پر بیانیہ ہے اور نظم کو خوب راس آتا ہے (یقین نہ ہو تو کلیم الدین احمد اور ظ۔ انصاری سے پوچھ لیجیے ) اور یہ بھی تقریباً ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مشرقی مزاج کو رمزیہ اور کنایاتی اسلوب زیادہ موافق آتا ہے۔ کیا پُر لطف بات ہے کہ ان حقیقتوں کا اثر جوشؔ و فراق کے یہاں معکوس نظر آتا ہے یعنی جوشؔ مغربی مزاج کی حامل نظمیہ شاعری کی جانب مائل ہوئے اور انگریزی ادب کے عالم، فراقؔ مشرقی مزاج کو راس آنے والی غزل کے لیے وقف ہو گئے۔

(۲) جوشؔ جیسا کہ ان کی زندگی کے حالات بتاتے ہیں، سیاسی آدمی نہ تھے۔ جاگیردارانہ ماحول میں پرورش پانے والا یہ شاعر حیدر آباد کے دربار سے بھی منسلک رہا۔ کسی سیاسی پارٹی سے اس کا براہ راست تعلق بھی نہ تھا۔ پھر بھی آزادی سے قبل انھوں نے ’ ہٹلر اعظم‘، ’ تلاشی‘، اور ’ ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘ جیسی نظمیں کہیں اور آزادیِ ہند کے بعد ’ ماتمِ آزادی‘ لکھی۔ زندگی میں بھی کم از کم آزادی کے بعد اور ہجرت سے پیشتر وہ ہندوستان میں چوٹی کے سیاسی رہنماؤں کے قریبی دوست سمجھے جاتے رہے۔ اس کے بر عکس فراقؔ ایک زمانے میں کانگریس کے گرم جوش ہمنوا تھے اور براہِ راست سیاست میں اس حد تک شریک رہے کہ ۱۹۲۷ء کے آس پاس انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اور آئی سی ایس کی نامزدگی کو بھی اس سیاسی وابستگی کے باعث ٹھکرانے پر مجبور ہوئے۔ سنتے ہیں کہ اس زمانے میں فراقؔ، گاندھی جی کے بے حد قریب تھے لیکن فراقؔ کی پوری شاعری کا جائزہ لیجیے تو اس میں سیاسی نوعیت کی تخلیقات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔

(۳) زندگی سے متعلق اپنے رویوں میں جوشؔ و فراق میں بُعد المشرقین ہے۔ جوشؔ شاعرِ انقلاب ہونے کے باوجود عام زندگی میں شائستہ مزاج اور اعتدال پسند انسان تھے۔ وہ ایک ذمہ دار شوہر، شفیق باپ اور خاندان کی کفالت کا فرض خوش اسلوبی سے ادا کرنے والے آدمی تھے۔ بیوی کا ذکر خواہ مذاقاً کیا جا رہا ہو، جوش ہمیشہ اپنی نصف بہتر کے لیے توصیفی کلمات زبان پر لاتے تھے۔ فراقؔ کا برتاؤ اپنی شاعری کے برعکس زندگی میں زیادہ باغیانہ ہے۔ اہلیہ کے لیے تعریف و تحسین کے پہلو نکالنا تو کجا، وہ موقعہ بہ موقعہ ان کی مذمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کے تئیں ان کا رویہ انتہائی لا اُبالیانہ بلکہ غیر ذمہ دارانہ رہا۔ شائستہ محفلوں میں وہ ہمیشہ منھ پھٹ سمجھے جاتے رہے۔ شراب پی کر جوشؔ کے بہکنے کی بات کم سنی گئی جب کہ فراقؔ کے ساتھ معاملہ اس کے برعکس تھا۔

مندرجہ بالا مماثلتوں اور تضادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ میرؔ و سوداؔ اور غالبؔ و ذوقؔ کی طرح جوش و فراق کے فن اور شخصیتوں پر ایک ہی دور نے جداگانہ نوعیتوں کے اثرات مرتسم کیے۔ دونوں کی شاعری بھی قطعاً مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔ جوشؔ طنطنے، طمطراق، گھن گرج اور شان و شکوہ کے شاعر ہیں۔ انھیں لفظوں کا جادوگر کہا گیا ہے اور شاعرِ انقلاب بھی۔ ان کے بارے میں ناصرؔ کاظمی کا یہ قول خاصا مشہور ہوا کہ جوشؔ صاحب باجے تاشے کے ساتھ ہاتھی پر توپ لے کر شکار کو جاتے ہیں اور پدّی مار کر لاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ناصرؔ کاظمی کے اس قول میں جوشؔ کی نظموں سے کم لفّاظی نہیں ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بہر حال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نظموں میں جوشؔ گفتگو کو بہت پھیلا کر مختلف زاویوں سے گھوم پھر کر، لفظوں کی کفایت کا لحاظ کیے بغیر بات کرنے کے عادی ہیں۔ فراقؔ کے بارے میں تو مشہور ہی تھا اور اس کی ابتداء خود فراقؔ نے کی تھی کہ وہ رات گزارنے کے لیے غزل کہتے اور ہر ممکن قافیے کو باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی غزل اکثر بیس پچیس اشعار تک پھیل جاتی ہے لیکن جب یہ دونوں فن کار صنفِ رباعی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو چار مصرعوں کے حصار میں اپنی طول پسندی سے آزاد ہو کر بہت بندھی ہوئی، بے حد کسی ہوئی، انتہائی پر مغز اور مختصر لیکن جامع بات کہتے نظر آتے ہیں۔

رباعی بھی اردو کی ایک اہم صنفِ سخن ہے اور دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں کہیں زیادہ اختصار اور ایجاز کی متقاضی ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ جب شاعر اپنے افکار و تجربات کا ذخیرہ مختلف اصنافِ سخن میں صرف کر چکا ہوتا ہے اور اس کے پاس تازہ مشاہدات و تجربات سے متعلق کہنے کو کچھ نہیں رہتا تو وہ اپنی استادی کو قائم رکھنے کے لیے رباعی کا سہارا لیتا ہے اور سابقہ مشقِ سخن کے سہارے اپنی قادر الکلامی کے ثبوت رباعیوں کی شکل میں پیش کرتا ہے لیکن یہ خیال بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ قدماء کا یہ تصور کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو ہوتا ہے۔ چار مصرعوں کے اندر سمندر سمو دینا کوئی آسان کام نہیں اور جب تک فن پر مکمل قدرت حاصل نہ ہو اچھی رباعی تخلیق کرنا ممکن ہی نہیں رباعی کی کم سخن اور مرد افگن صنفِ سخن، موضوع کی رفعت اور لفظوں پر قدرت سے زیادہ خیال کی گہرائی اور چوتھے مصرعے کی قوت پر بات کو سمیٹ کر کہنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ رباعی کے پہلے تین مصرعے در اصل کمان اور چلّے کا کام کرتے ہیں جن پر رکھ کر چوتھے مصرعے کا تیر سامع کے دل میں پیوست کر دیا جاتا ہے۔ اردو رباعیات کے سرمائے پر نگاہ ڈالی جائے تو نظر آتا ہے کہ ہمارے کم و بیش سبھی رباعی گویوں نے موت، بے ثباتیِ دنیا، قناعت، خود داری، انسان دوستی، جبر و قدر اور اسی قسم کے دیگر فلسفیانہ مضامین ہی پر طبع آزمائی کی ہے۔ بہت ہوا تو عمر خیامؔ کے انداز میں خمریہ مضامین کی شراب رباعی کے پیمانے میں بھر دی گئی۔ حسن و عشق کے سچے تجربات جن کی جھلکیاں غزل میں نظر آتی ہیں رباعی کے پیرائے میں بہت کم بیان کیے گئے ہیں۔ جوشؔ و فراقؔ نے بھی جنون و خرد، ذات و کائنات، حیات و ممات اور جبر و قدر جیسے موضوعات پر رباعیاں کہیں۔ جوشؔ نے زیادہ فراقؔ نے نسبتاً کم۔ ملاحظہ ہوں ایک جیسے موضوعات پر دونوں شاعروں کی یہ رباعیاں :

جوش کہتے ہیں :

تا میری کرن سے برف اس کی گھُل جائے
جو رنگ غلط چڑھا ہے دھُل جائے
ہر مدّعیِ عقل سے ملتا ہوں میں
اس پر تا اپنی بے وقوفی کھُل جائے

اس موضوع پر فراقؔ کی ایک رباعی دیکھیے :

منطق کی مدد سے راز پنہاں معلوم
از نفسیّات، رازِ انساں معلوم
ہے عقل کی خورد بین ہر پتّی پر
اس تجزیے سے علمِ گلستاں معلوم

کم و بیش ایسا ہی ایک تاثر جوشؔ کی اس رباعی میں بھی پنہاں ہے :

یہ زہد و ورع، یہ اتقا کچھ بھی نہیں
یہ فضل و ہنر، یہ فلسفہ کچھ بھی نہیں
دے بادہ کہ انتہائے عِلم اے ساقی
اقرارِ جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں

فراقؔ کی کئی رباعیاں ایسے ہی خیالات کی حامل ہیں ان میں سے ایک دیکھیے :

احساس سے ہر پردہ اٹھا دیتا ہے
خود عقل کو وہ اس کا پتہ دیتا ہے
خود ساختہ جال میں پھنس جاتی ہے عقل
وجدان اسے آزاد کرا دیتا ہے

اسی نوع کی بہت سی رباعیاں جوشؔ کے مجموعہ ہائے کلام میں ’ حقائق‘، ’ پیرانِ سالوس‘، ’خمریات‘، ’ متفرقات، وغیرہ عنوانات کے تحت مل جاتی ہیں جن میں بیشتر کو نطشےؔ اور خیامؔ کے نام منسوب کیا گیا ہے، جس سے ان کے مزاج اور پسندیدہ موضوعات کا اندازہ ہوتا ہے۔ رباعیات کے اس ہجوم میں ’ حسن و عشق‘ کے تحت تقریباً بیس پچیس رباعیاں جوشؔ کے یہاں ایسی بھی ہیں جو اردو رباعی کی عام فکری، نیم فلسفیانہ اور متصوفانہ روایات سے الگ ہٹ کر معشوقِ مجازی اور ارضی محبت کے خوبصورت مرقعے اور شگفتہ و شاداب تجربات پیش کرتی ہیں۔ مثلاً:

یکبارگی جھلملائے طاقوں میں دیے
تاروں نے لرز کر اپنے در بند کیے
چٹکی ان کی نقاب الٹنے کو اٹھّی
نکھری ہوئی چاندنی نے پَر تول لیے

………

کس ناز سے گلشن میں ٹہلتی ہوئی آئی
سانچے میں شگفتگی کے ڈھلتی ہوئی آئی
کلیوں کی گرہ کھل گئی، جب وہ دمِ صبح
آنکھوں کو ہتھیلیوں سے ملتی ہوئی آئی

………

اے کعبہ ذوقِ دید و اے دیر نگاہ
اے رہزنِ انجم و غارت گرِ ماہ
کیا تیرہ شبی کا اس مسافر کو ہو خوف
تیرے چہرے کی لَو ہے جس کے ہمراہ

………

زلفوں کو ہٹا کے کنمنایا کوئی
فرشِ مخمل پہ رسمایا کوئی
جیسے کندن پہ چاندنی کی لہریں
یوں چونک کے صبح مسکرایا کوئی

………

کیونکر نہ ہوائیں منھ اندھیرے لپکیں
کس طرح نہ ڈوبتے ستارے بہکیں
گُل رنگ بدن میں رات کے ہار کا رس
اور رات کے ہار میں بدن کی مہکیں

………

الفاظ میں غلطیدہ ہے جادُو گویا
آواز بدل رہی ہے پہلو گویا
لہجے کا ترے درد، عیاذاً باللہ
لفظوں سے ٹپک رہے ہیں آنسو گویا

………

رُخ پر ہے ترے قلبِ تپاں کا پرتو
ماتھے پہ ہے آتشِ نہاں کا پرتو
غلطاں ہے اداسی یہ تری آنکھوں میں
یانہر میں ہے ابرِ خزاں کا پرتو

………

چونکا ہے کوئی نگار، الٰہی توبہ
رس میں ڈوبا خمار، الٰہی توبہ
سکتے میں ہیں بھیرویں کی تانیں گویا
ہونٹوں کا خفیف ابھار، الٰہ توبہ

………

گلشن میں کہاں سے یہ اثر آتا ہے
تخئیل کا ہر نقش ابھر آتا ہے
اوڑھے ہوئے ہلکی سی دلائی کوئی شوخ
خوشبو میں چنبیلی کی نظر آتا ہے

………

اے حسن ٹھہر، آگ بھڑک جائے گی
صہبا تری ساغر سے چھلک جائے گی
مجھ کو تو یہ ڈر ہے کہ دلائی کیسی!
انگڑائی جو لی، جِلد مسک جائے گی

………

فقروں کی یہ تازگی، یہ لہجے کی بہار
قرباں ترے اے نگارِ شیریں گفتار
اللہ رے کھنکتی ہوئی آواز تری
چینی پہ ہو جیسے اشرفی کی جھنکار

………

اللہ رے بدمست جوانی کی نکھار
ہر نقشِ قدم پہ سجدہ کرتی ہے بہار
اس طرح وہ گامزن ہے فرشِ گل پر
پڑتی ہے ہری دوب پہ جس طرح پھوار

………

یہ سلسلۂ لا متناہی ہے کہ زلف
گہوارۂ بادِ صبح گاہی ہے کہ زلف
اے مستِ شباب دوشِ سیمیں پہ ترے
دھُنکی ہوئی رات کی سیاہی ہے کہ زلف

………

گفتار میں کھل رہی ہے بیلے کی کلی
رفتار میں مڑ رہی ہے ساون کی ندی
چہرے پہ سرور و نور، آنکھوں میں غرور
سرکار نے کیا آئینہ دیکھا تھا ابھی

………

سانچے میں گھٹا کے ڈھل رہا ہے کوئی
پانی کے دھوئیں میں جل رہا ہے کوئی
گردوں پہ ادھر جھوم رہے ہیں بادل
سینے میں ادھر مچل رہا ہے کوئی
………

پیش کردہ رباعیات میں آپ نے بھی محسوس کیا ہو گا کہ جوشؔ غیر ضروری لفّاظی کی جگہ سنبھل سنبھل کر ایسے الفاظ کا استعمال کر رہے ہیں جو ان کے جمالیاتی تجربے کو جذبے کی پوری تھرتھراہٹ کے ساتھ سننے والے کے دل و دماغ میں منتقل کر سکیں۔ البتہ تشبیہات کا وہ جادو جو ان کی اکثر نظموں میں طلسمی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ان رباعیوں میں بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
وہ پسِ منظر جس میں محبوب کو چلتا پھرتا، سوتا جاگتا دکھایا گیا ہے، خالصتاً ہندوستانی ہے۔ اس طرح یہ تصویریں ماورائی بھی ہیں اور ارضی بھی۔ غالباً جوشؔ کے علاوہ پوری اردو شاعری میں بہ استثنائے فراقؔ، ایسی رباعیاں کہیں اور کم ہی ملیں گی۔ یہاں یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ رباعیاتِ جوشؔ کے سرمائے میں یہ رباعیاں جزو کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی تعداد بھی ایسی زیادہ نہیں۔ جب کہ فراقؔ کے یہاں ہندوستانی بوباس رکھنے والے محبوب کی سراپا نگاری ان کی تقریباً تین چوتھائی سے زیادہ رباعیات پر حاوی ہے اور ان کے مجموعۂ کلام ’ روپ‘ میں تقریباً سبھی رباعیاں جن کی تعداد کثیر ہے، اسی انداز کی ہیں۔ چند آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :

وہ اک گہرا سکوت، کل رات گئے
طاقوں میں دیے نیند میں ڈوبے ڈوبے
پلکیں جھپکا رہی تھیں جب ٹھنڈی ہوائیں
آنا ترا اک نرم اچانک پن سے

………

مشرق سے جوئے شیر بہنے لگی جب
کافور ہوئی دہر سے تاریکیِ شب
اٹّھا کوئی نیند سے سمیٹے گیسو
اک نرم دمک لیے جبیں کا پورب

………

پیکر ہے کہ چلتی ہوئی پچکاری ہے
فوارۂ انوارِ سحر جاری ہے
پڑتی ہے فضا میں سات رنگوں کی پھوار
کاش نہا اٹھتا ہے، بلہاری ہے

………

سوتے جادُو جگانے والے دن ہیں
عمروں کی حدیں ملانے والے دن ہیں
کنّیا اب کامنی ہے ہونے والی
آنکھوں کو نَین بنانے والے دن ہیں

………

حسن خوابیدہ میں ایسی سج دھج
زنجیر ہو بجلیوں کی جیسے کچھ کج
یہ بسترِ نرم و صاف، یہ جسم کی جوت
تکیوں پہ بادلوں کے جیسے سورج

………

ہے روپ میں وہ کھٹک، وہ رس، وہ جھنکار
کلیوں کے چٹکتے وقت جیسے گلزار
یا نور کی انگلیوں سے دیوی کوئی
جیسے شبِ ماہ میں بجاتی ہو ستار

………

راتوں کی جوانیاں، نشیلی آنکھیں
خنجر کی روانیاں، کٹیلی آنکھیں
سنگیت کی سرحدوں پہ کھلنے والے
پھولوں کی کہانیاں، رسیلی آنکھیں

………

قامت ہے کہ انگڑائیاں لیتی سرگم
ہو رقص میں جیسے رنگ و بو کا عالم
جگمگ جگمگ ہے شبنمستان اِرم
یا قوسِ قزح لچک رہی ہے پیہم

………

جب تاروں بھری رات نے لی انگڑائی
نمناک مناظر نے پلک جھپکائی
جب چھا گئی پر کیف اداسی ہر سمت
سرشار فضاؤں کو تری یاد آئی

………

رخسار پہ زلفوں کی گھٹا چھائی ہوئی
آنسو کی لکیر آنکھوں میں لہرائی ہوئی
وہ دل امڈا ہوا، وہ پریمی سے بگاڑ
آواز غم و غصّہ سے بھرّائی ہوئی

………

یہ نقرئی آواز یہ مترنّم خواب
تاروں پہ پڑ رہی ہو جیسے مضراب
لہجے میں یہ کھنک یہ رس، یہ جھنکار
چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہِ آب

………

جب پچھلے پہر پریم کی دنیا سولی
کلیوں کی گرہ پہلی کرن نے کھولی
جوبن رس چھلکاتی اٹھی چنچل نار
رادھا گوکل میں جیسے کھیلے ہولی

………

سنبل کے تر و تازہ چمن ہیں زلفیں
بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں
خود خضر یہاں راہ بھٹک جاتے ہیں
ظلمات کے بہکے ہوئے بن ہیں زلفیں

………

وہ نکھرے بدن کا مسکرانا ہے ہے
رس کے جوبن کا گنگنانا ہے ہے
کانوں کی لوؤں کا تھرتھرانا کم کم
چہرے کے تِل کا جگمگانا ہے ہے

………

آئینہ در آئینہ ہے شفاف بدن
جلوے کچھ اس انداز سے ہیں عکس فگن
اک خواب جمال ہے کہ بندھتا ہے طلسم
وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن

………

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان رباعیوں میں فراقؔ کا احساس جمال پوری طرح بیدار نظر آتا ہے۔ یہاں گوشت پوست کی ہندوستانی عورت محبوبہ کی شکل میں اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہنستی بولتی، لجاتی اور دل لبھاتی ہوئی دکھائی پڑتی ہے۔ صرف عاشق کے قلب کی واردات اور نفسیاتی کیفیات کے بیان پر ہی قناعت نہیں کر لی گئی ہے، بلکہ محبوب کی باطنی کیفیتیں اور ذہنی و جذباتی صورتِ حال کی تمام نزاکتیں پوری طرح ان رباعیوں میں اجاگر ہوئی ہیں۔ اکّا دکّا مقامات کے علاوہ ’ روپ‘ کی بیشتر رباعیوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تناظر میں صنفِ نازک کی مختلف تصویریں اس طرح پیش کی گئی ہیں کہ ارضیت اور جسمانیت کا حسن اور جنس کا تقدس سمٹ کر چار چار مصرعوں میں مرکوز ہو گیا ہے۔ یہاں بھی جوشؔ کی طرح محبوب کی رات میں آمد پر ٹھنڈی ہوائیں پلکیں جھپکنے لگتی ہیں اور دِیے نیند میں ڈوب جاتے ہیں۔ فضا میں سات رنگوں کی پھوار پڑنے لگتی ہے۔ نرم اور صاف بستر پر حُسن خوابیدہ کے جسم کی جوت سے بجلیوں کی زنجیر سی بندھ جاتی ہے۔ معشوق کی رسیلی آنکھیں سنگیت کی سرحدوں پر کھلنے والے پھولوں کی کہانیاں سناتی ہیں ز اس کی انگڑائی لچکتی ہوئی قوس قزح کا منظر پیش کرتی ہے اور لہجے کی کھنک تہہ آب بجتی ہوئی چاندی کی گھنٹیوں کی یاد دلاتی ہے۔ زلفیں ظلمات کے مہکتے ہوئے جنگل ہیں، بدن مسکراتا ہے اور چہرے کا تِل جگمگاتا ہے۔ ہونٹ سانسوں کی ٹھنڈی لو سے دہکے ہوئے ہیں اور شفاف چمکیلے بدن کے آئینہ میں طلسم سا بندھتا ہے اس حد تک فراقؔ کی رباعیاں، تقریباً رباعیاتِ جوشؔ کے متوازی چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ پھر بھی ان رباعیوں میں ایک ایسی جمالیاتی اور حسّیاتی کیفیت ہے جو اپنا قطعی الگ اور منففرد ذائقہ رکھتی ہے۔
جب فراقؔ کامنی ہوتی ہوئی کنّیا کی آنکھوں کو نَین بناتے ہیں، پیکر کو چلتی ہوئی پچکاری سے تعبیر کرتے ہیں۔ محبوب کو ایک نرم اچانک پن کے ساتھ خلوت کدے میں آتے ہوئے پیش کرتے ہیں، پر کیف اداسی سے سرشار فضاؤں پر اس کی یاد طاری کر دیتے ہیں۔ صبح کی پہلی کرن کے ہاتھوں کلیوں کی گرہ کشائی ہوتی ہے۔ پریمی سے بگاڑ پر مجبوبہ کے رخسار پر بکھری ہوئی لٹوں، آنکھوں میں آنسوؤں کی لکیر اور آواز کے بھرّانے کی بات کرتے ہیں اور روپ کی کھٹک کو شب ماہ میں نور کی انگلیوں سے کسی دیوی کی ستار نوازی سے تعبیر کرتے ہیں تو وہاں فراقؔ منفرد ہیں اور ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ اس موقع پر ہمیں یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایسی رباعیاں فراقؔ کے یہاں محض دو چار درجن نہیں ہیں ان کا شمار کئی سو تک پہنچتا ہے اور ہر رباعی میں کسی نئے زاویے سے جمالیاتی ذوق رکھنے والوں کے لیے فرحت و انبساط کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔
انسان کے حواس خمسہ سے تعلق رکھنے والے سیّال متحرک اورغیر متحرک پیکر، فراقؔ کی رباعیوں میں جس کثرت سے ملتے ہیں اس کی مثالیں اردو رباعی میں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ لطافت، نرمی، دھیما پن، گھلاوٹ، شدّتِ احساس، جسمانیت، ارضیت اور ہندی گیت کا رس جَس، رباعی جیسی جزیل و ثقیل صنف سخن میں تحلیل کر دینا فراقؔ جیسے عظیم فنکار ہی کے بس کی بات ہے۔
اس مقام پر اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرنا چاہوں گا کہ جہاں تک فنی پختگی، تراکیب کی چستی، علوئے فکر، نزاکتِ خیال اور بندشِ الفاظ کا تعلق ہے جوشؔ کی رباعیاں فراق سے آگے ہیں۔ جوشؔ کی رباعی کے اختتام پر ایک خوشگوار حیرت اور استعجاب کا احساس ہوتا ہے لیکن عام طور پر جوشؔ کی رباعی کا بڑا حصہ ذہن کی چھلنی میں الجھا رہ جاتا ہے اور دل تک اس کے چند قطرے ہی چھن پاتے ہیں، اس کے بر عکس فراقؔ کی رباعی غزل کے اچھے شعر کی طرح اکائی بن کر پوری کی پوری سامع کے دل میں پیوست ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے اساتذۂ فن اسے رباعی کی خامی قرار دیں کہ اس کا ہر مصرعہ اپنی جگہ چوتھے مصرعے کی مانند ہموار اور اہم ہو، لیکن یہ خامی فراقؔ کی رباعیوں میں حسن اور قوت بن کر نمودار ہوتی ہے۔ اگر رباعی کے مخصوص وزن و بحر سے الگ ہٹ کر دیکھا جائے تو فراقؔ کی رباعیاں چار مصرعوں والے جدید قطعے کی ہم مزاج اور ہم آہنگ محسوس ہوتی ہیں۔
جوشؔ و فراقؔ کے ہم عصر ہونے کے باوجود دونوں کی شخصیتیں جدا گانہ خمیر رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری بھی مختلف المزاج ہے۔ صرف عشقیہ رباعیوں کے میدان میں ان بڑے فن کاروں کی شاعری کے دائرے ایک دوسرے سے اس احتیاط کے ساتھ ہم آغوش ہوتے ہیں کہ دونوں کا انفرادی رنگ پورے طور پر آمیز نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میں ہماری تنقید کے اس دبستان کو جو ادوار کی روشی میں فن کی پرکھ پر ضرورت سے زیادہ زور دیتا ہے، اپنے اصولوں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی کہ ان عظیم فن کاروں کے لیے یہ سانچہ تنگ پڑتا ہے۔
(کریم سٹی کالج جمشید پور کے جوشؔ و فراقؔ سیمینار میں پڑھا گیا)
٭٭
ماخذ: تنقیدی نگارشات : مظفر حنفی
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے