غزل۔ ۔ ۔ محمد حفیظ الرحمٰن

جنگل میں بس ایک ہی رستہ جس پر بیٹھا کالا ناگ

پاؤں تو ہو گئے من من بھر کے، چھیڑو بین پہ کوئی راگ

 

جن کو ملی ہیں دل کی مرادیں، اُن کی قسمت اُن کا نصیب

میں نے اگر کچھ بھی نہ پایا، میری قسمت میرے بھاگ

 

کوئی ہے ناخوش محل میں رہ کے، گھی کے نوالے کھا کر بھی

میں تو خوش ہوں گرچہ ملی ہے سوکھی روٹی، باسی ساگ

 

چہرے پر نہ جاؤ کسی کے، کلجگ ہے، ہشیار رہو

جن کو سمجھیں سیدھے سادھے، نکلیں وہ اتنے ہی گھاگ

 

چین نہیں ہے مجھ کو کسی کل، جاگ سکوں نہ سو ہی سکوں

کاش کوئی سمجھائے مجھ کو، تن میں بھری ہے کیسی آگ

 

دور رہے ساحل سے جتنی، اُتنی ہی منہ زور رہے

موج جو ساحل پر آ جائے، کچھ بھی نہیں پھر، جھاگ ہی جھاگ

 

وقت کے سر پٹ گھوڑے پر ہم بیٹھے کتنے بے بس ہیں

نہ ہی گھوڑا اپنے بس میں، نہ ہی ہاتھ میں اُس کی باگ

 

صبح کے ہیں آثار ہویدا، ڈوب چلے ہیں تارے بھی

کھوٹی ہو جائے نہ منزل، جاگ مسافر اب تو جاگ

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے