غزل۔۔ ۔ عبید الرحمٰن نیازی

 

مکیں کی آس میں وہ ایک گھر کھلا رہتا

کبھی تو بھول سے ہی کوئی اس میں آ رہتا

 

گزرنے والے اندھیرے میں بھی گزر جاتے

سڑک کنارے لگا قمقمہ بجھا رہتا

 

ہوا تو سامنے سے ناچتی گزر جاتی

اور اک زمیں سے بندھا پیڑ دیکھتا رہتا

 

میں روز اپنے گلے چاند سے کیا کرتا

مگر ہمیشہ وہ انجان سا بنا رہتا

 

میں بیچ شب میں اسے روز ڈھونڈتا تھا مگر

وہ میرا مہر کہیں اور ہی جلا رہتا

 

تمام رات میں ماضی کی فلم دیکھتا تھا

بس اپنے کمرے کی دیوار تاکتا رہتا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے