غزلیں ۔۔۔ راحیل فاروق

 

فرمائیں تم سے عشق تو نیکی کمائیں کیا؟

دنیا میں مل گئے ہو تو جنت میں جائیں کیا؟

 

ہو جب زمانہ حسن کا، ایمان سے کہو

عاشق مزاج لوگ زمانے سے پائیں کیا؟

 

فرقت کے روز و شب کی کہانی نہ چھیڑیے

یہ لازوال دکھ ہے، سنیں کیا؟ سنائیں کیا؟

 

اچھی ہوئی بری ہوئی، ہونی تو ہو گئی

اب کیا کریں؟ خدا کو کٹہرے میں لائیں کیا؟

 

مرنے کو اِس گلی میں بلایا گیا ہمیں

راحیلؔ اگر بلائے نہ جائیں تو آئیں کیا؟

٭٭٭

 

 

عشق کا حصہ ہیں کھلی آیات

وسوسوں تک ہیں عقل کی برکات

 

بھولتا جا رہا ہوں خود کو میں

کر رہا ہوں تلافئِ مافات

 

سوچتے سوچتے خیال آیا

آپ تک سوچ کی کہاں اوقات

 

ہیں تمھارے فراق کے تحفے

عشق پر ہیں جنون کے اثرات

 

روز بنتی ہے کائنات نئی

روز اترتی ہیں نت نئی آیات

 

مسکرا کر شعور والوں پر

دل نے کر دی بڑے پتے کی بات

 

گئے کس بارگاہ میں راحیلؔ

تم نے خود کو بھی کر دیا خیرات

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے