سیلِ آب ۔۔۔ اقتدار جاوید

 

رات میری آنکھ جب کھلی

تو کھاٹ میری ہل رہی تھی

ہل رہی تھی ناؤ

سیلِ آب کے مقامِ اصل پر

ستارے جھڑ رہے تھے آسمان سے

خلا بذاتِ خود سیاہ ہول تھا بنا ہوا

پہاڑ سے نکل رہی تھی

تیز دھار کی طرح ہوا

اُبل رہا تھا پانی

جیسے سیلِ آب کے مقام سے

اندھیرا آبِ سرد کو لپیٹتا

نگل رہا تھا روشنی کی زرد سی لکیر کو

اُلٹ رہی تھی کائنات

اک طرف

کسی کا دستِ نازنیں

جبین پر رُکا

شفق سے سُرخ ہونٹ

خشک ہونٹوں سے ملے

میں جی اٹھا

میں مسکرا کے جاگ اٹھا

اُفق کے دشت میں

طلسمِ احمریں چہار سمت تھا

اسی طرح

معاًسفید دن نکل پڑا

نظامِ کائنات پھر سے چل پڑا ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے