خورشید احمد جامی، فن اور شخصیت۔ ۔ ۔ ڈاکٹر رؤف خیر

فارسی میں جامی کا مطلب ہوتا ہے مولانا عبدالرحمن جامی اور اردو میں جامی سے مراد ہے خورشید احمد جامی۔ باقی جامیوں کو اپنے سابقوں اور لاحقوں کے بغیر نہیں جانا جا سکتا۔ دکن کی سرزمین نے کئی جیالوں کو جنم دیا ہے جنھوں نے دکن کو بات میں آسماں کر دیا۔ قلی قطب شاہ، ملا وجہی، ولی دکنی، نصیر الدین ہاشمی، ڈاکٹر زور، صفی اورنگ آبادی جیسے تخلیق کار جہاں دکن کی آبرو بنے رہے ہیں وہیں جامی، مخدوم، اریب بھی دکن کی پہچان سمجھے جاتے ہیں۔

جامی کا رنگ بالکل انوکھا، دلچسپ اور چونکا دینے والا ہے۔ شعر یا تو کبھی اپنے معنوی حسن کی وجہ سے اور کبھی لفظیات کے استعمال کے سلیقے سے متاثر کرتا ہے۔ کسی گہر ے فلسفیانہ خیال کو بہت سیدھے سادے الفاظ میں بیان کر دیا جاتا ہے تو کبھی بہت معمولی سی بات کو خوبصورت الفاظ میں پیش کر کے اسے غیر معمولی حسن عطا کیا جاتا ہے۔ خورشید احمد جامی میں یہ دونوں ہی خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ سامنے کے الفاظ میں یہ کہہ کر کہ۔

لے کے پھرتی ہیں آندھیاں جس کو

زندگی ہے وہ برگِ آوارہ

جامی نے بہت کچھ کہہ دیا۔ سوچتے جائیے اور لطف لیتے جائیے اور کبھی یہ کہہ کر کہ۔

یہ اور بات ہے کہ تعارف نہ ہو سکا

ہم زندگی کے ساتھ بہت دور تک گئے

جامی نے زندگی کے چھلا وا پن کو بڑا ہی خوبصورت اظہار بخشا۔ معمولی سی معمولی بات بھی جامی کے منہ سے غیر معمولی لگتی ہے۔

کل ہم وہاں سے آ کے یہی سوچتے رہے

آخر ہر ایک چہرے پہ کتنے نقاب تھے

 

اس طرح پھانسیوں نے پکار ا ہمیں کہ ہم

جیسے کوئی رسول تھے اہل کتاب تھے

جامی ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئے اور۱۹۵۸ء تک وہ روایتی شاعری کرتے رہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’شرارے ‘‘ دیکھئے تو ایسا لگتا ہے کوئی ملت کا ہمدرد مسلم لیگی نوجوان ہے جو انتشار و افتراق میں شیرازہ بندی کی دعوت دے رہا ہے۔ اسی روایتی انداز سخن کا اظہار ان کی دیگر کتابوں میں بھی پایا جاتا تھا جیسے ’’شمع حیات ‘‘، ’’منزل کی طرف ‘‘، ’’نشان راہ ‘‘ وغیرہ۔ ان مجموعوں کا شاعر وہ تھا جسے خود جامی نے رد کر دیا اور اک نئی طرز کی بنیاد رکھی جو قبولیت عام و زندگی دوام حاصل کر گئی۔ گویا وہ جامی جو ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوا تھا وہ ۱۹۵۸ء میں روپ بدل گیا اور ۱۹۵۸ء سے جو شناخت جامی نے بنائی وہ ایسی تھی کہ نئی نسل کے کئی شعراء ان کے آئینے میں آپنے آپ کو بنانے سنوار نے لگے۔ علامہ اقبال کی طرح جامی نے بھی ہمیشہ نونہالوں کو اہمیت دی۔ چنانچہ بچوں کے لئے انہوں نے چھوٹی چھوٹی معنی خیز نظمیں بھی لکھیں جو ’’تاروں کی دنیا ‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ یہ نظمیں پیام تعلیم ’’کھلونا‘‘، ’’ٹافی ‘‘ وغیرہ ماہناموں میں شائع ہو کر مقبول ہوئیں۔ جامی صاحب نے نثر میں بچوں کے لئے ’’ہمارے نہرو‘‘ لکھ کر اپنی نثر کا سکہ بھی بٹھا دیا۔ ویسے جامی ہمیشہ معاوضتاً لکھا کرتے تھے۔ جن رسالوں سے ان کو آمدنی کی توقع ہوتی ان کے لیے وہ کچھ بھی لکھ سکتے تھے حتیٰ کہ بعض رئیس زادے ان کی غزلوں کے منہ مانگے دام دے کر مشاعرے لوٹتے پھرتے تھے چند ٹکوں کی خاطر جامی نے کھرا سونا متشاعروں کے حوالے کر دیا تھا۔ اگر وہ غزلیں جامیؔ کے نام سے شائع ہوتیں تو آج جامیؔ کا نام چمکاتیں جبکہ ان مشاعروں کے ساتھ خود بھی مٹی کے حوالے ہو گئیں۔ شاید آپ کو یہ جان کہ حیرت ہو کہ جامی نے جاسوسی ناول بھی لکھے تھے ابن صفی کے آگے کس کا چراغ جلا ہے جو ان کا جلتا اور پھر ابن صفی کو الہ آباد کے ایک ادارے ’’جاسوسی دنیا ‘‘ کی پشت پناہی حاصل تھی جو باضابطہ ان سے ہر ماہ ناول لکھوایا کرتا تھا جامی کو یہ سہولت حاصل نہ تھی اس لئے ان کی ناولیں چل نہ سکیں۔ جامی چونکہ پیشہ ور شاعر و ادیب تھے اس لیے ہر وہ چیز لکھنے پر آمادہ تھے جن سے انھیں چار پیسے مل سکتے ہوں۔ کبھی اپنے نام سے کبھی کسی اور کے نام سے لکھنے میں بھی انہیں عار نہ تھا۔ اردو ادب میں گھوسٹ رائٹنگ (Ghost Writing)بہت ہے۔ مصحفی ہوں کہ درگا سہائے سرور، نریش کمار شاد ہوں کہ جانثار اختر سبھی حالات کے مارے تھے۔ جامی اگر یہ سب کرتے تھے تو کوئی نئی بات کیا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ پیشہ ور انہ مجبوری کے باوجود جامی نے خود کو اپنے لہجے اور اپنے شعر سے منوایا بھی۔ ہندوستان و پاکستان میں نئی غزل کے اولین معماروں میں جامی کا نام لینا ناگزیر ہے۔ جامی نے غزل کو جو رنگ روپ دیا وہ روایتی اسلوب سے یکسر جدا گانہ ہونے کی وجہ سے پہلی نظر میں لبھاتا ہے اور متوجہ کرتا ہے۔

بہت اداس بہت منفعل نظر آئی

نگاہ چوم کے رخسار شادمانی کو

 

دیار شعر میں جامی قبول کر نہ سکا

مرا مذاق روایت کی حکمرانی کو

 

اے انتظار صبح تمنا یہ کیا ہوا

آتا ہے اب خیال بھی تیرا تھکا ہوا

پہچان بھی سکی نہ مری زندگی مجھے

اتنی رواروی میں کہیں سامنا ہوا

 

ہو کے انجان کچھ اتنے تیرے غم ملتے ہیں

جیسے مفلس سے کبھی اہل کرم ملتے ہیں

 

سنا کہ اب بھی سرشام وہ جلاتے ہیں

اداسیوں کے دیئے منتظر نگاہوں میں

غم حیات نے دامن پکڑ لیا ورنہ

بڑے حسین بلاوے تھے ان نگاہوں میں

کہیں قریب کہیں دور ہو گئے جامی

وہ زندگی کی طرح زندگی کی راہوں میں ؎

جامی صاحب قافیہ و ردیف کو فنکارانہ برت کر نہیں چونکا تے بلکہ مفہوم کی گہرائی اور لفظیات کی حسن کاری سے قاری کا دل موہ لیتے ہیں سامع کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال نہیں کیا ہے کہ جامی مشاعروں کے شاعر کبھی نہیں رہے وہ بڑے سے بڑے مشاعرے میں بھی شریک ہونا پسند نہیں کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ تخلیق صرف کاغذ پر بول اٹھے انھوں نے سیدھی سادی ردیفوں اور عام قوافی میں ایسے نادر اچھوتے خیال دل لبھانے والے انداز میں باندھے ہیں کہ یہ سب چیزیں ان کا سلوب ان کی پہچان بن گئیں

نشاطِ غم بھی نہیں نغمہ وفا بھی نہیں

گزر رہا ہوں کہاں سے مجھے پتہ بھی نہیں

 

جلا ہے کس کا لہو رات بھر چراغوں میں

غرورِ حسنِ سحر اب پہ پوچھتا بھی نہیں

 

پھولوں کے دیئے سانولی شاموں کے دھندلکے

مکتوب چلے آئے ہیں اس جان غزل کے

 

فرصت نہیں بہ خلوت گیسوئے عنبریں

کہہ د و غم حیات سے وہ پھر کبھی ملے

کچھ دور آؤ موت کے ہمراہ بھی چلیں

ممکن ہے راستے میں کہیں زندگی ملے

 

جامی مرے خلوص نے سینے میں رکھ لیے

یارانِ خود فریب سے جو زخم بھی ملے

 

جامی صاحب کا پہلا مجموعہ ’’رخسار سحر‘‘ شائع ہوا تو اردو ادب میں تہلکہ مچ گیا۔ نئی نسل جو ساحر لدھیانوی اور شکیل بدایونی کے اثر سے نکل نہیں پائی تھی اب جامی کے اسلوب کی دیوانی ہو گئی۔ کئی قدیم شاعر چپکے سے اپنا چولا بدلنے لگے۔ جامی کے بعض ہم عمر و ہمعصر شاعر تو جامی کے مصرعے کے مصرعے گلانے لگ گئے توجہ دلائی گئی تو جلالی و جلیلی نگاہ قہر آلود سے دیکھنے لگے کچھ لوگ جامی کی نقل میں حد سے گزر گئے۔ اس طرح جامی ذہنوں پر مسلط ہو جانے والا نام بن گیا۔ ظاہر ہے جامی کے خوشہ چیں اور نقال جامی کا رنگ نہ لا سکے۔ کچھ لوگوں نے ان کے تخلص پر تک ہاتھ ڈالا مگر زندگی بھر جامی کی طرح ایک شعر نہ کہہ سکے :۔

یہ درد و غم کا اداس موسم یہ وقت کے اجنبی قرینے

نہ یاد محبوب کی گھٹا ہے نہ مست و ساغر بہ کف مہینے

نشاط کا دے چکی ہیں دھوکہ کبھی کبھی مئے کدے کی شامیں

کہیں کہیں تشنگی رکی ہے نئی امیدوں کا زہر پینے

نہ جانے کتنے جواں ارادوں کا آئینہ بن گئے ہیں جامی

دیار لوح و قلم میں الفاظ کے یہ ترشے ہوئے نگینے

 

جامی کی مخصوص لفظیات تھیں جن کی وجہ سے جامی پہچانے جاتے تھے جیسے دیوار، صلیب، صبح، شام، غم حیات، صحرا، فیصل، اندھیرا، اجالا، سورج، ریت، تنہائی، دھوپ، چھاؤں، زہر، گردش ایام، وغیرہ وغیرہ۔ جامی نے ان الفاظ کو اس کثرت سے برتا کہ اب یہ الفاظ ترقی پسندوں کی علائم کی طرح بے روح بن کر رہ گئے خود جامی ان الفاظ کے اسیر ہو کر رہ گئے تھے۔

آپ کے شہر میں اب کے تو بڑی رونق تھی

لوگ ہاتھوں میں صلیبوں کو لئے چلتے تھے

 

مری سوچوں کی دیواروں پہ تنہائی کے لمحوں نے

جلی الفاظ میں جیسے تمہارا نام لکھا ہے

اندھیروں میں لہو کے بیج بو کر

اجالو کی نئی فصلیں اگاؤ

 

غم حیات مرے ساتھ ساتھ ہی رہنا

پیمبری سے ترا سلسلہ ملا دوں گا

 

اک عمر ساتھ ساتھ مرے زندگی رہی

لیکن کسی بخیل کی دولت بنی رہی

 

یہ بھی درست ہے کہ تجھے میں بھلا چکا

بہ بھی غلط نہیں کہ مری زندگی ہے تو

 

معیار فن کا قرض چکانے کے واسطے

جامی دیا ہے میں نے شب و روز کا لہو

 

جس طرف مجمع احباب کھڑا تھا جامی

ہم پہ آئے تو اسی سمت سے پتھر آئے

 

عروس سخن کے سوا جامی صاحب نے کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا گوارانہ کیا اور یوں ہی تجر د کی زندگی گزار دی لیکن کسی کے ہجر کا کرب و ہ زندگی بھر جھیلتے رہے ان کے اشعار میں جس درد نے دنیا آباد کر رکھی ہے وہ جامی کا اسلوب ان کا شناس نامہ ہے۔

 

چند جلتے ہوئے خوابوں کے خریدار بنے

ہم بنے بھی تو نئے دور کے فنکار بنے

 

کسی کو آج نہیں کل بتاؤں گا جامی

قلم کی آگ میں خوابوں کی دلکشی کیوں ہے

 

’’رخسار سحر‘‘ ہو کہ ’’برگ آوارہ ‘‘ اور ’’یاد کی خوشبو ‘‘ جامی کا ہر مجموعہ مقبول خاص و عام رہا۔ آخری عمر میں وہ بعض مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔ عوام ان کے اشعار کی جدت اور بیان کی ندرت کے دیوانے ہو گئے تھے۔ جامی کے اشعار تو ’’خواص پسند ‘‘ کب کے ہو چکے تھے۔ جامی چھپنے چھپانے میں زیادہ یقین رکھتے تھے۔ ہند و پاک کے تقریباً سبھی معیار ی سائل میں ان کی غزلیں عزت سے شائع کی جاتی تھیں۔

سلیمان اریب کی طرح خورشید احمد جامی بھی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو کر سن ۱۹۷۰ء میں دار فانی سے کوچ کر گئے اور یاد کی خوشبو سے بھر ا برگ آوارہ چھوڑ گئے جو رخسار سحر کی طرح آج بھی چمکتا رہتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے