جنت کا باغ ۔۔۔ ناہید وحید قریشی

گلی کا موڑ مڑ کر وہ ان آوازوں تک پہنچنا چاہتی تھی جہاں سے ہنسی کا شور بلند ہو کر فضا میں مسکراہٹیں بکھیر رہا تھا۔ اچانک ہی اٹھنے والے بچوں کے قہقہے اس کو بھی ہنسنے پر مجبور کر دیتے تھے اس کے تیز اٹھتے قدم لمحہ بھر کو رکتے، وہ اس شور کی طرف کان لگاتی اور مسکرا دیتی۔ موڑ کاٹتے ہی بچوں کا پارک تھا جہاں ہر عمر کے بچے کھیلنے کودنے میں مصروف تھے۔ ان کی مائیں ایک طرف شاد بیٹھی، بے فکری سے خوش گپیوں میں مصروف تھیں اور بچوں کے کھیل تماشوں سے محظوظ ہو رہی تھیں۔ وہ گاہے بگاہے اپنے کھیلتے بچے کی سمت دیکھتیں، کوئی ہدایت جاری کرتی یا مطمئن ہو کر بیٹھ جاتی تھیں۔ یہ یہاں روز کا منظر تھا۔ یہ خوبصورت منظر دیکھ کر وہ اپنا بچپن یاد کرتی تھی وہ ان میں سے کسی بچی میں اپنا بچپن ڈھونڈنے لگتی۔ کوئی تو کہیں اس کے بچپن سے ملتی جلتی بچی ہو گی۔۔۔۔ اس نے سوچتے سوچتے پارک کے اندر نظر ڈالی۔

وہ گڑیا سی۔۔ جو اپنی گڑیا کا ایک ہاتھ پکڑے اس کو لٹکا کر بھاگتی پھر رہی تھی۔ شاید وہ اپنی دانست میں گڑیا کے ساتھ دوڑ لگا رہی تھی۔ وہ بچی مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس نے اس گڑیا سی بچی کی طرف ہاتھ ہلا دیا۔ ایک گبلو ببلو سا بچہ اسے بہت بھایا لمحے بھر کو وہ سب بھول کر اسے دلچسپی سے دوڑ لگاتے دیکھنے لگی تھی۔ وہ گبلو ببلو بھاگتے بھاگتے اپنے پیچھے دوڑ لگانے والے بچے کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کرتا پھر جھک کر اپنا ڈھیلا موزہ کھینچ کر چڑھاتا اور نظر بچا کر بغیر اشارہ دیئے چپکے سے دوڑ لگا دیتا تھا۔۔ یا کہیں چھپ جاتا تھا۔ اس کے پیچھے دوڑنے والا بچہ لمحے بھر گھبرا کر اسے آواز دیتا تو وہ چپکے سے نکل کر بھاگتا اور دوڑ پھر شروع ہوتی تھی۔ ارے وہ پھولدار فراک والی۔۔۔

وہ خود سے کہتی۔

اسے روز کوئی نہ کوئی ایسی بچی نظر آ جاتی جو کھینچ کر اسے اس کے بچپن میں لے جاتی تھی۔۔

یہ تو بالکل میرا بچپن ہے۔۔ ۔

وہ بے اختیار مسکرا کر خود سے کہتی۔

ارے ہاں وہ۔۔۔

جو جھولے پر بیٹھی ہے۔۔۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو فوارے سی چوٹی پر وہ زور سے کھکھلا کر ہنسی پڑی۔ اس کے ہاتھ بے اختیار اپنے سر کی طرف اٹھ گئے، کہیں اس کے سر پہ یہ دو پونی ٹیل پھر نہ اگ آئے ہوں تو اب وہ بہت مضحکہ خیز دکھائی دے گی لیکن وہ بچی کتنی پیاری لگ رہی تھی۔ عمر کا ہر بہترین دور، بچپن کی اس بے فکری کے آگے ہیچ معلوم ہوتا تھا۔ وہ بھی بچپن میں اتنی ہی معصوم اور پیاری ہو گی۔

وہ دل ہی دل میں اپنی اس شوخی پر مسکرائی۔

بچپن کی یاد کی لطافت بہت پر کیف تھی۔

پورا باغ ایسے ہی پیاری پیاری معصومانہ شرارتوں سے لدا پھندا کسی پھول دار درخت کی مانند ہوا میں مست مسحور جھولتا نظر آتا تھا۔ اسی لئے وہ اسے جنت کا باغ کہتی تھی جہاں ننھے منے فرشتے کھیلتے پھرتے تھے۔ یہاں وہ لمحے بھر کو اپنے بچپن میں لوٹ آتی تھی۔ اب وہ جوان تھی اسے دنیا کی سمجھ بوجھ آ چکی تھی۔ اسی لئے وہ بچے بچیوں کی بے فکری، ارد گرد سے بے نیازی اور فرشتوں جیسی معصومیت کو محسوس کر کے دنیا کو جان جانے کی عفریت بھلا کرخوش ہو جاتی تھی۔ کچھ شیرخوار اپنی بچوں والی گاڑی میں لیٹے آسمان تک رہے تھے۔ ان میں سے ایک اپنے پیر کا انگوٹھا منہ میں لینے کی کوششوں میں مصروف تھا وہ کسی تیز آواز پر چونک کر لمحے بھر کو ساکت ہو جاتا اور پھر انگوٹھا پکڑنے کی کوشش میں لگ جاتا۔۔ ۔

افف یہ باغ نہیں بچوں کی جنت ہے۔۔

اس نے سوچا اور اپنے بیگ سے رنگین پینسلوں کی ڈبیا نکالی۔ آج وہ یہ منظر کسی طرح اتار ہی لے گی۔ اس نے اطمینان کے ساتھ ڈبیا کھولی۔ ڈبیا میں قوس و قزح کے سارے رنگ پنسلوں کی شکل میں موجود تھے۔ سارے دھنک رنگ اس نے اپنے ہاتھ میں بھر کر بچوں کے باغ کے سامنے کئے تو تمام دھنک رنگ ماند پڑ گئے۔ بچے بچیوں کے رنگ برنگے لباس نے، ان کے کھلکھلاتے قہقہوں نے پنسل کا ہر رنگ پھیکا کر دیا تھا۔۔

اتنے پھیکے رنگ۔

کچھ سوچ کر اس نے پھر نظریں بیگ کے اندرونی حصے میں گاڑ دیں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ اچانک پھیلنے والی گہری خاموشی نے اس کا سکون منتشر کر ڈالا۔ وہ باغ کی سمت گھبرا کر دیکھنے لگی۔۔

یہ بچے کہاں گئے؟

اس نے نظریں گاڑتے خود سے سوال کیا

جنت کے باغ کو کیا ہوا؟

لیکن جواب میں،  باغ میں ہر طرف سے خاموشی چیخنے لگی۔۔

یا خدا!

اس کا دل بیٹھ گیا باغ کی ویرانی، وحشت ناک معلوم ہو رہی تھی اور وہ وحشت زدہ تھی۔۔

یہ ہنستے کھیلتے بچے گئے تو کہاں گئے؟

باغ۔۔ یہ جنت کا باغ ویران کیسے ہو گیا؟۔

اسے کوئی جواب نہ مل سکا۔ ہر آنے والا لمحہ اس کی وحشت بڑھا رہا تھا۔ وہ پرنم غمزدہ باغ کے گرد چکر لگاتی، آنکھیں مسلتی، باغ کے کونے کونے پر نظریں گاڑتی، بچوں کو آوازیں دیتی رہی۔ بہت چیخی چلائی لیکن سب بے سود۔

یہ اس کا وہم ہے۔۔

ہاں میرا وہم ہے۔۔

اس نے اپنے وہم کو للکارا۔۔

میرے وہم دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔

لیکن منظر نہیں بدلا۔

اس نے بے دھیانی سے آنسو پونچھنے چاہے تو ہاتھ میں پکڑی پنسل کی نوکیں اس کے چہرے پر چبھ گئیں۔۔

آہ۔۔

وہ کراہی۔ یہ کراہنا اس وحشت اور دکھ کے پاسن بھی نہ تھا جس نے اس کو آدھ موا کر دیا تھا۔

یہ دھنک رنگ پنسلیں۔۔

جن کے رنگ اب بھی ویسے تھے۔ اس نے پھر ایک بار آنکھیں بند کیں۔ ہمت کر کے دھنک رنگ پنسلوں کو باغ کے مقابل کیا اس امید سے شاید کہ وہ رنگین، زندگی سے بھرپور مناظر پھر لوٹ آئیں، جو کھو چکے تھے۔

وہ کلکاریاں مارتا منظر جس نے قوس و قزح کے رنگ گہنائے تھے شاید واپس آ جائے۔ لیکن نہیں۔ باغ ویسا ہی بھیانک ویران تھا۔ بچوں کو جیسے زمین نگل گئی تھی ان کی ماووں کو آسمان کھا گیا تھا۔ اسے باغ پر وحشت و ویرانی کے کالے سائے کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آیا۔

وہ آہ و زاری کرتے پارک کی باڑھ سے پیٹھ لگا کر زمین پر ہی بیٹھ گئی۔ اس کے سامنے والا منظر اور بھی بھیانک تھا۔ ان بچوں کی مائیں کالے لباسوں میں گٹھڑیوں کی صورت زمیں بوس ساکت بیٹھی تھی۔ سر تا پیر سیاہ لباس میں بے حس و حرکت ساکت۔۔

نہ وہ شاد تھیں نہ آباد تھیں۔

اس کا کلیجہ منہ کو آ گیا۔

ان ماووں کے چہرے چاند کی مانند روشن تھے لیکن کیسی وحشت تھی ان کی آنکھوں میں۔۔

اس سے یہ وحشت برداشت نہ ہوئی، پنسلوں کی رنگ برنگی ساری نو کیں اس نے کھردری زمین پر رگڑ ڈالیں۔

 

اسے اب اپنے اوپر غصہ آ رہا تھا وہ کیوں بچوں کے باغ تک آئی تھی جو اسے جنت کا باغ لگتا تھا۔ عفریت کا یہ بھیانک منظر ناگ بنا اس کے ہر پچھلے لطیف احساس کو جو اس کے بچپن سے جڑا تھا، بچوں سے جڑا تھا، اس جنت کے باغ سے جڑا تھا، نگل رہا تھا۔۔

وہ اپنی دھنک رنگ پنسلیں زمین پر گاڑتی رہی۔

انسانوں کے جنگل میں کون سی عفریت ان بچوں کو نگل گئی تھی۔ انسان۔۔ نہیں نہیں

یہ انسان کیونکر کر سکتا ہے۔

وہ سوچتی رہی۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ بے اختیار بچوں پر پیار آتا ہے۔ انسان محبت کا دوسرا نام ہے۔

پھر کس نے ان بچوں کو اس باغ سے محروم کیا ہے۔۔ کس نے یہ باغ اجاڑا ہے ویران کیا ہے؟

انسان کی معراج انسانیت ہے۔

اسی انسانیت پر ہر انسان اپنی جنت یا دوزخ خود تعمیر کرتا ہے۔۔ انسان اپنی جنت و دوزخ خود تعمیر کرے گا۔

لیکن بچے تو پھول ہوتے ہیں۔۔

باغ کے پھول۔۔ کسی کے گلشن کے پھول۔۔ جنت کے پھول۔۔

وہ اپنے لئے جنت و دوزخ کی تعمیر سے بھی مستثنیٰ ہیں۔۔

کل عالم میں

روز اول سے روز آخر تک۔۔ ۔

پھول ہی پھول۔۔۔

کہیں کوئی انسانی عفریت ان کو نگل تو نہیں گئی۔۔ اس کا دل بیٹھ گیا۔۔

جانے کتنی گھڑیاں کتنے پل گزرے۔۔ ۔

گھڑر رڑ۔۔ ۔۔ شوںں۔۔ ۔ گھڑر رڑ۔۔ ۔

کڑکتی بجلیوں کی مانند، بادلوں کی خوفناک گڑگڑاہٹ کے ساتھ باغ سے شعلے نمودار ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی بچوں کے قہقہے اٹھے۔ ایک شور بلند ہوا۔۔ لیکن جنت کے باغ سے مختلف۔ جیسے بہت سے سور، بھیڑیے، گیدڑ سخت تکلیف میں جان کنی کے عالم میں دھونکنی میں جھونکے جا ریے ہوں وہ بھیانک انداز سے چلا رہے تھے۔۔

خیں۔۔ خیں۔۔ اووو۔۔ ۔ اوو۔۔ غف۔۔

یہ شور بچوں کے باغ سے اٹھ رہا تھا دل ہلا دینے والی آوازوں کے ساتھ۔ بچوں کے گونجتے قہقہوں کے ساتھ۔ عورتوں کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔۔ وقفے وقفے سے یہ آوازیں ترتیب کے ساتھ ابھرتیں اور تالیوں کی گونج پر ختم ہو جاتی۔۔

اس نے اپنے پیچھے باغ کے منظر پر نظر ڈالی۔

اس کے قدم پھر اسی سمت اٹھ گئے۔ وہ لڑکھڑا تی ٹوٹی پنسلوں کو ہاتھ میں دبوچے باغ کے اندر جا پہنچی تاکہ قریب سے یہ منظر دیکھ سکے۔۔ ۔

گزر رر۔۔ ۔

گزرر کی ہولناک آواز کے ساتھ ہوا میں آگ کے کوڑے لہرا رہے تھے۔۔ ۔ وہ بچے جو باغ میں کھیل رہے تھے سارے یہیں موجود تھے۔ ان ننھے منے بچوں کے سامنے مسخ شکلوں والے لحیم شحیم انسان آگ کا کوڑا لگنے سے ڈھیر ہو کر زمین بوس ہو رہے تھے۔ بچے چابک دستی سے کوڑا لہرا لہرا کر ان سور کے منہ اور پھولے ہوئے جسموں والے بھیانک آدمیوں کو مار رہے تھے اور وہ عفریت پرست سور نما انسان چیختے چلاتے، روتے گڑگڑاتے گھٹنوں کے بل چلتے بچوں کے آگے رحم کی بھیک مانگ رہے تھے معافی مانگ رہے تھے۔ فریاد کر رہے تھے۔ کچھ بچے اپنے سے کئی گنا بڑی جسامت والے پر کئی میل لمبا اگ اور لوہے سے بنا گزر کسی رسی کی طرح ہوا میں لہرا کر، اس سور کے منہ اور پھولی ہوئی جسامت والے کے گرد لپیٹ کر دہکتے لوہے سے باندھ رہے تھے۔ تالیاں گونج رہی تھیں۔ پھر بچے ان پر آگ کے گزر چلاتے۔۔ ۔ کوڑے برساتے تھے۔ ان کی مائیں ایک طرف بیٹھی اس تماشے سے محظوظ ہو رہی تھیں۔ تالیاں بجا رہی تھیں وہ بھی بچوں کے قہقہوں سے محظوظ ہونے لگی۔ مائیں شدت جذبات سے چلاتی تھیں۔ بھیانک انسان!! ہوس کے ناسور یہ لے۔۔ یہ سنبھال میرے بچے کا وار۔۔۔

عفریت پسند لے اور لے۔

ان کی نفرت دیدنی تھی۔

یہ وہی تھے جنھوں نے جنت کا باغ اجاڑا تھا۔ بچوں سے ان کا بچپن چھینا تھا۔ ان کے معصوم جسموں سے اپنے بدبو دار جسم کی ہوس مٹائی تھی ان کی جان لی تھی۔ پھول سے جسم بھنبھوڑے تھے۔

ہاں تمھارے بچے پھول ہیں یہ معصوم فرشتے ہیں۔

وہ بھی چلائی۔

دیکھو وہ اب بھی کھیل رہے ہیں اپنے جنت کے باغ میں۔

اس باغ میں جہاں ان انسان نما عفریتوں نے اپنے لئے مستقل جہنم تعمیر کر لی تھی۔

اس کی وحشت بھی کچھ کم ہوئی تھی۔

عفریت زدہ انسان گڑگڑانے لگے مائیں اور ان کے بچے قہقہے لگانے لگے۔۔ ہاتھی کی جسامت والے کیسے ننھے ننھے بچوں کے قدموں کو پکڑ کر معافی مانگ رہے تھے۔ کہاں گئی ان کی طاقت۔۔ چچ چچ اتنی بے بسی۔ اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔

ساری مائیں خوشی سے سرشار اپنے بچوں کی ہمت بندھا رہی تھیں۔

اپنی ماووں کی آوازیں سن کر بچوں کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ ان کے گزر آگ سے اور کڑکڑانے لگے۔

تیزی سے برسنے لگے انسان نما عفریتوں کے جسم ریزہ ریزہ چنگاریوں کی مانند ہوا میں بکھرنے لگے۔

اس نے بھی ٹوٹی ہوئی نوکیں کاغذ پہ گاڑیں اور اطمینان سے عفریتوں کے چنگاری جیسے اڑتے بھیانک وجود کاغذ پر اتارنے لگی۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے