اک ماندگی کا وقفہ ۔ ۔ ۔ مشرف عالم ذوقیؔ

’’موت اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر

—میر تقی میرؔ

 

میں اس پار دیکھی رہی ہوں … گہری دھند ہے — مگر صرف دھند کہاں ہے …؟ برف پوش وادیاں ہیں … لاتعداد گلیشیرس ہیں … جو مسلسل تپش اور موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پگھلتے جا رہے ہیں … حد نظر روئیدگی سے بھرپور حسین ترین وادیاں … اور ایک لمحے میں منظر تبدیل ہو جاتا ہے —قدرت کا قہر نازل ہوتا ہے … قیامت خیز لہریں شور کرتی ہیں … شہر کے شہر پانیوں میں ڈوب جاتے ہیں — الیوشا، تم نے سنا… یقینا تم سن رہے ہو لیوشا… لوگ ایسے بھی گم ہو جاتے ہیں کہ کچھ دن، کچھ مہینے اور کچھ سال بعد تاریخ سے دریافت کرو تو تاریخ کا ’’ٹھٹھا‘ گونجتا ہے کہ کون لوگ…؟ کیا کبھی یہ لوگ تھے …؟ کبھی یہ نام… جسموں میں بھی آباد تھے ؟ کبھی یہ نام تمہاری طرح یعنی زندہ آدمیوں، بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی شاہراہوں پر گھومتے ہوئے بھی نظر آتے تھے —؟ محبت کرتے ہوئے … یا انسانی تقاضوں کی رسم کو پورا کرتے ہوئے … الیوشا… کچھ دن کے بعد یہ چہرے تو کہیں محفوظ بھی نہیں رہتے … کوئی ایک آتش فشاں، کوئی ایک برقی لہر، کوئی ایک زلزلے کا جھٹکا… کوئی قدرتی عتاب یا پھر ایک قدرتی حادثہ یا موت… الیوشا— اس وسیع کائنات، اس بر اعظم سے زندہ انسانی چہروں کا کھوجانا… نہیں الیوشا— میری طرف ایسے مت دیکھو اور یقین کرو… میں بالکل ٹھیک ہوں …

الیوشا کون…؟

میرا بیٹا……اور اس وقت اس فلیٹ کی ویران آرام گاہ‘ میں ہم دونوں کا ہی بسیرا ہے … ایک کھڑکی کھولتی ہوں — باہر کی طرف دیکھتی ہوں … دور تک دھند کی چادر بچھی ہوئی… اطراف کے درخت اس دھند میں کھوگئے ہیں — دھند میں راستے بنتے ہیں …اور کھو جاتے ہیں — پھر راستے بنتے ہیں اور کھو جاتے ہیں … چھپن چھپیا کا یہ کھیل چلتا رہا ہے —لیکن یہ کھیل ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں لاتا— اور کہنا چاہئے … میں اندر سے خالی ہوں یا بجھ گئی ہوں — یا صرف کتابیں رہ گئی ہیں جو تھکے ہوئے وجود کے لئے بھی تسکین کا سامان کرنے سے قاصر ہیں — اور ان کتابوں سے ہو کر ارنیسٹ ہیمنگوے، سمندر کا بوڑھا آدمی میرے سامنے نکل کر کھڑا ہو جاتا ہے … الیوشا… تم سن رہے ہو مجھے … اور یقین کے ساتھ یہ میرا وہم نہیں ہے … وہ میرے ساتھ ساتھ اس دھند کا حصہ بن گیا ہے — پھر میری طرف دیکھتا ہے … ’مٹی کا ایک ٹکڑا بھی سمندر بہا کر لے جائے تو زمین کم ہو جاتی ہے … ایک بھی آدمی… ایک بھی آدمی کم ہوتا ہے تو…؟

نہیں، اب مجھے ہنسی آ رہی ہے — اور ان سارے واقعات کو سمیٹنا میرے لئے آسان نہیں — مثال کے لئے … یہ میرے سامنے تاحد نظر دھندکی چادر بچھی ہوئی ہے … اور ایک لمحہ ایسا بھی آئے گا کہ یہ دھند کی چادر تو ہو گی لیکن یہ جسم نہیں ہو گا— یا اسے یوں کہیں کہ وہ روح نہیں ہو گی… جو اس وقت اس جسم کا حصہ ہے — باہر سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہو گا… بندر کا تماشہ… شور… بازار کی رونقیں — تیز رفتاری سے بھاگتی ہوئی گاڑیاں — محبت کرتے ہوئے لوگ… بارش کے قطروں کو ہتھیلیوں پہ لے کر روشن، چمکنے والی آنکھوں کے گیت… اخبار… ٹی وی… حادثے … سب کچھ… پھر دیکھنے والے کون ہوں گے …؟ دوسرے لوگ… اور الیوشا— تمہاری زندگی سے وابستہ بھی دوسرے لوگ ہوں گے … ہے نا…؟ یوں چونک کر میری طرف مت دیکھو— اور اس بات کو رہنے دو کہ اس وقت میری دماغی کیفیت ٹھیک نہیں … میں بالکل ٹھیک ہوں الیوشا— اور میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ ایک ایسے معمولی سے سوال پر تم اس طرح چونک کر میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو— جب سے دنیا قائم ہوئی ہے، کیا یہ سوال کرنے والی میں پہلی عورت ہوں … یا یہ سوال پہلے بھی قائم کیے گئے — یوں حیران مت ہو… اور سنو غور سے میری بات سنو— یہاں ایک حادثہ ہوا ہے — ایک بڑا حادثہ— کچھ لوگ گم ہو گئے ہیں — اور مجھے پولس میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانی ہے … کون چلے گا میرے ساتھ؟ تم چلو گے الیوشا— تم بڑے ہو گئے ہو… اور یقینا تم کوچلنا بھی چاہئے ان میں سے ایک وہ بھی تھا— جس کے ساتھ تمہارا قریبی رشتہ رہا ہے —

٭٭

’’ہم ایک دن ملیں گے — ایک دن اسی دھند میں ملیں گے — ممکن ہے ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں …ممکن ہے، گفتگو کرنے کی بھی خواہش ہو— مگر یہ بھی ممکن ہے کہ شاید ہم ایک دوسرے سے بات نہ کر پائیں —کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کی موجودگی محسوس کی جا رہی ہو… مگر… کیا اتنا کافی نہیں — کہ ہم ملیں گے — اور ایک دن اسی دھند میں ملیں گے اور پھر دھند سے بھی اوجھل ہو جائیں گے …‘

دھواں دھواں ہوتی ہوئی یادوں میں اس کے یہ مکالمے اب بھی بسے ہوئے ہیں — میں سامنے ہوتی تو وہ بانہیں پھیلا کر میری طرف محبت سے دیکھتا… دور اشارہ کرتا، جہاں … تاحد نظر نیلگوں آسمان کی چادر بچھی ہوتی اور میں خاموشی سے مجسم سوال بنی اُس کی طرف دیکھ رہی ہوتی… پھر وہ مسکرا دیتا— اور کہتا— ایک دن اسی نیلی دھند میں ہم ہوں گے … ہم اسی طرح کھو جاتے ہیں — یا اس وادیِ طلسمات میں ہم اسی طرح کھونے کے لئے پیدا ہوئے ہیں …

کیا وہ سچ مچ کھو گیا ہے …؟

ممکن ہے باہر گیا ہو… ابھی لوٹ کر آ جائے گا— کبھی کبھی وہ جان بوجھ کر دیر سے آتا ہے … مجھے غصہ دلانے کے لئے —

میں نے آنکھیں بند کیں — پھر آنکھیں کھول دیں — الیوشا کی طرف دیکھا…

’وہ پہلے دو تھے …‘

’ہاں —‘

’اور اس کے بعد بھی دو تھے …؟‘

ہاں …

اور ان چاروں سے الگ بھی ایک تھا…

’ہاں —‘

’وہ باپ تھا تمہارا—‘

میں نے ٹھڈی پر ہاتھ رکھتے ہوئے گہری آنکھوں سے بیٹے الیوشا کو دیکھا، جو ناپسندیدگی کی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا— عام طور پر وہ اس طرح کی گفتگو کے حق میں کبھی نہیں تھا— مگر یہ الیوشا کی مجبوری تھی کہ میں اس کا ہاتھ تھام کر اس کے کمرے سے اُسے لے کر اس کمرے میں آ گئی تھی، جہاں ہمارا بیڈ روم تھا— اور یقینا الیوشا کو یہ بات بری لگی تھی— اور اسے بُری لگنی بھی چاہئے تھی— کیونکہ ہمیشہ کی طرح وہ اپنے کمرے میں اپنے لیپ ٹاپ پر جھکا ہوا تھا— اُس کے سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے، یہ بال درمیان سے اٹھے ہوئے آسمان کی جانب تھے — ایک زمانے میں الیوشا کے باپ کو یہ بال سخت ناپسند ہوا کرتے تھے — مگر ایلوشا کی ہر بار یہ مضبوط دلیل ہوتی کہ وقت کے ساتھ فیشن بدل جاتے ہیں —جیسے افریقیوں کی طرح اٹھے ہوئے بال اور، ہپّیوں کی طرح پھٹی ہوئی جینس، جو اس وقت وہ پہنے ہوا تھا اور جینس سے میچ کرتا ہوا ٹی شرٹ… اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محض بالوں کی وجہ سے اس کا پرکشش چہرہ یوروپ کے کسی ایک ایسے، جپسی بچے کا تصور پیدا کرر ہا تھا جو مجھے کسی بھی صورت میں متاثر نہیں کر سکتا تھا۔ اورالیوشا کی دلیل ہوتی کہ آپ لوگ پرانے زمانے کے ہیں — اور اس وقت الیوشا کا ہاتھ تھامنے والی وہی پرانے زمانے عورت تھی جو بدقسمتی سے اس کی ماں بھی تھی— اور بھی حقیقت ہے کہ الیوشا کے لئے، یا ان نئے بچوں کے لئے یہ ماں ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا— میں الیوشا کو لے کر کمرے میں آ گئی—  اور اس فریم کی طرف اشارہ کیا جو دیوار پر ایستادہ تھا—

’ اس تصویر کو پہچانتے ہونا…‘

’ہاں …‘

اور تمہارے لئے یہ معنی نہیں رکھتا کہ …‘ میں نے ٹھہر کر الیوشا کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی… کہ اس کائنات سے ایک بھی آدمی کم ہو جائے … ہاں ایک بھی آدمی…‘

میں الیوشا کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اور اس وقت الیوشا کی حالت یہ تھی کہ وہ مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا— اس کی آنکھیں بغور میرا جائزہ لے رہی تھیں اور ممکن ہے، اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اس وقت میری دماغی حالت کیا ہے ؟

آؤ میرے ساتھ—‘

میں الیوشا کو لے کر اس کمرے میں آئی، جو اس کا ناپسندیدہ کمرہ تھا۔ اس وقت یہ کمرہ بے رونق بھی تھا اور ویران بھی— پہلے یہ کمرہ اس قدر ویران نہیں ہوتا تھا — جب کہ باپ اس کمرے میں عام طور پر کم بولا کرتے تھے —اور اس کمرے میں چاروں طرف المیرا میں ان کی کتابوں کی حکومت تھی— اور ایک بڑی سی ریوالورلنگ چیئر تھی، جس پر سر رکھے یا تو وہ کسی سوچ میں گم رہتے تھے — یا پھر سگریٹ کا دھواں چھوڑے ہوئے لکھنے میں گم ہو جاتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا جب میں کمرے میں اندر آتی تو سگریٹ کی مہک سے پریشان ہو کر زور سے چیخ پڑتی—

خدا کے لئے … خدا کے لئے اسموکنگ بند کرو—

’ بند کر دوں گا—‘

’نہیں خدا کے لئے — اور تم سن رہے ہو— اس کمرے سے سگریٹ کی مہک کبھی جاتی بھی نہیں — اور خدا کے لئے الیوشا کے بارے میں سوچو…‘

وہ ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے ایش ٹرے میں سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر دوبارہ لکھنے میں گم ہو جاتا…

یادوں کی پرچھائیوں سے باہرنکل کر میں نے دیکھا… ریوالنگ چیئر خالی تھی۔ اور المیرا سے جھانکتی کتابوں کے شور اس وقت مجھے پریشان نہیں کرر ہے تھے … کتابوں کے شور—‘ میں جب بھی اس کمرے میں داخل ہوتی، ایسا احساس ہوتا کہ اچانک المیرا کی بند کتابوں میں زندگی کی رمق پیدا ہو گئی ہو… پھر ایسا لگتا جیسے کتابیں بولنے لگی ہوں … پھر ایسا ہوتا کہ میں ان کتابوں کی چیخ کی زد میں ہوتی… اور کئی بار ایسا ہوا جب میں نے دونوں ہاتھ سے اپنے کان بند کر لئے — اور سراسیمہ انداز میں اس کی طرف دیکھ کر گویا ہوتی— خدا کے لئے … خدا کے لئے ان کتابوں کا کوئی اور انتظام کرو—

’ لیکن کیا؟‘

’کچھ بھی—‘

’مشکل یہ ہے کہ کتابیں جلائی بھی نہیں جا سکتیں —‘

’جانتے ہو— الیوشا بھی تمہارے کمرے میں آتے ہوئے گھبراتا ہے — اور کہتا ہے، مجھے ان کتابوں سے نفرت ہے — سن رہے ہوتم…‘

حالانکہ ایسی باتیں سن کر عام طور پر وہ مسکرا کر خاموش ہو جاتا تھا— مگر مجھے یاد ہے … وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہا تھا…

’سمندر میں خزانے چھپے ہیں …‘

ہاں —

’ اور اس کے لئے سمندر کے اندر جانا ہوتا ہے … گہرائی تک…‘

’ہاں —‘

’ایک دن وہ اس گہرائی کو سمجھ لے گا… تب اس کے ہاتھ بیش قیمت موتیوں سے بھرے ہوں گے … اور ابھی ان باتوں کا اندازہ لگانے کے لئے تمہاری عمر بہت کم ہے — تم الیو شا سے زیادہ بڑی نہیں ہو…‘

وہ پھر سے کتابوں کی دنیا میں گم تھا اور مجھے یاد ہے، میں زور زور سے چیخ رہی تھی’… تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو … میں چھوٹی ہوں … دماغی طور پر میری عمر وہی ہے —جو الیوشا کی ہے … تم یہی کہنا چاہتے ہونا… حالانکہ وہ اپنی کتابوں میں الجھا ہوا تھا  مگر مجھے احساس تھا کہ وہ مسکرا رہا ہے — اور یہ مسکراہٹ مجھے کس قدر گراں گزرتی ہے — یہ میں ہی جانتی تھی—

میں نے یادوں کے جھروکے سے باہر نکل کر الیوشا کی طرف دیکھا— اُس کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں — چہرہ سپاٹ—الیوشا کبھی بھی اپنے چہرے سے اپنے جذبات کو عیاں نہیں ہونے دیتا تھا—الیوشا ناگواری کے انداز میں اُس کی طرف دیکھ رہا تھا—

’مجھے کیوں لائی ہو یہاں —؟‘

’وہ یہاں بیٹھتا تھا— اس ریوالنگ چیئر پر— اور دیکھو تو… یہاں میزپر اُس کی کتابیں، کاپیاں، ڈائری ہوا کرتی تھیں — وہ کہاں گئیں …؟ اُس کی ہر چیز وہیں ہونی چاہئے — جہاں وہ رہتا تھا—تم سن رہے ہو نا الیوشا— وہ آئے گا— اور چیخنا شروع کر دے گا…‘ مجھے ہنسی آ رہی تھی… کوئی چیز نہیں ملے گی تو اُس کا پارہ ساتویں آسمان پر ہو گا— اور دیکھو… لکھتے لکھتے وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر اس طرف آتا تھا— یہ کھڑکی باہر کی طرف کھلتی ہے … باہر جامن کے پیڑ بھی ہیں — ہرے ہرے سبز سخت پتے … وہ مجھے چڑھایا کرتا تھا— یہ تمہاری ہتھیلیاں ہیں — اب پہلے کی طرح ملا ئم نہیں رہیں … قدرت کے سحر میں کھو جانا اسے پسند تھا اور اسی لئے وہ لکھتے ہوئے تھک جاتا تو کھڑکی کھول کر دیر تک باہر کے مناظر میں گم رہتا—‘ میں نے مسکرا کر الیوشا کی طرف دیکھا—

’باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے …‘

’ہاں …‘

’دیکھو… جامن بھی پیڑوں سے گر رہے ہیں … کبھی کبھی مجھے لگتا تھا— قدرت میں اُس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے … مگر محبت… میں ایک لمحے کو ٹھہری— انسان میں محبت کا یہ تخم قدرت ہی ڈالتا ہے … اور اس طرف: یہاں … اُس کی کرسی پر بیٹھ کر دیکھو…‘

الیوشا نے برا سا منہ بنا کر اُس کی طرف دیکھا— ’نہیں —‘

’کیوں —؟‘

مجھے نہیں بیٹھنا— اور سنو ماں … تم اس کی جگہ بیٹھ جاؤ— اور اس کے بعد پہلے تمام معاملات پر نئے سرے سے غور کر لو— تم تو سمجھ رہی ہونا… میں کیا کہہ رہا ہوں …

’ہاں …‘

’ اور جیسا کہ تم نے کہا، وہ پانچ تھے — اور اچانک ایک صبح…‘

’ موسم خراب تھا— پیلی آندھی چلی تھی… تمہیں یاد ہے الیوشا— موسم نے اچانک رنگ بدل دیا تھا— باپ تم کو تلاش کرتے ہوئے کمرے میں آئے تھے … ان کا لہجہ ذرا سا اکھڑا ہوا تھا… یاد ہے ؟ مجھے ان کے لفظ اب بھی یاد ہیں — پالیوشن… یہ انسانی تحفہ قدرت نے ہمیں واپس کر دیا— بہتر ہے الیوشا آج گھر میں ہی رہے — اُسے باہر مت نکلنے دینا… یاد ہے تمہیں …؟‘

’ ہاں …‘

میں کچھ دیر تک بکھر ی ہوئی کتابوں والی المیرا کو دیکھتی رہی— پھر میرے ہاتھوں نے آگے بڑھ کر ریوالونگ چیئر کے ہینڈل پر لرزتا ہوا ہاتھ رکھ دیا… ایک سہرن وجود میں اترتی چلی گئی— لمس یوں بھی بے جان اشیاء میں جاگتے رہتے ہیں، مجھے پتہ ہی نہیں تھا— کرسی خالی تھی… میں کچھ دیر تک ساکت و جامد کھڑی رہی— پھر کرسی پر بیٹھ گئی— الیوشا واپس اپنے کمرے میں لوٹ چکا تھا— اور جیسا الیوشا نے کہا مجھے تمام واقعات کو نئے سرے سے سمجھنا تھا اور اس کے بعد گمشدہ ہستیوں کی تلاش میں باہر نکلنا تھا—

میں کرسی پر بیٹھ گئی— سر کو پیچھے کیا— آنکھیں بند کر لیں — اب میرے لئے واقعات کی سرنگ میں اترنا آسان تھا اور شاید میں ایسا کر سکتی تھی—‘

٭٭

 

آئندہ صفحات میں موت کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہو گا— مگر اس بات کا اشارہ ضروری ہے کہ موت مجھے ڈراتی ہے اور موت کا احساس مجھے پاگل کرتا ہے — حالانکہ وہ زندہ تھا تو موت کو لے کر اُس کے خیالات مختلف تھے — وہ اکثر کہتا تھا— زندگی ’کن‘ ہے — ہم ایک سفر پورا کرنے کے بعد’ فیکون‘ میں چلے جاتے ہیں — یہ جو ’کن فیکون‘ ہے — اسے ایک گول دائرہ یا بچوں کی، بائیسکل کی چین سمجھ لو— ہم اس یونیورس میں قرنوں، صدیوں سے بڑھتے اور پھیلتے جا رہے ہیں — ہم اس کائنات میں کس جگہ ہوں گے نہیں معلوم— لیکن یاد رکھو— کوئی بھی — اُس نے زور دے کر کہا، کوئی بھی جو ہماری آپ کی اس دنیا سے جا رہا ہے — وہ واپس نہیں لوٹے گا— ممکن ہے وہ دو مہینے کا بچہ ہو یا سو سال کا— اور یہ حقیقت ہے کہ آپ اُسے نہیں دیکھیں گی— اور ذرا غور کرو کہ ایک شخص سانس لیتا ہے، گوشت پوست کا انسان جو اپنی خواہشوں کے محل تعمیر کرتا ہے … اپنی آسائش کے لئے مکانات اور بنگلے بناتا ہے — ڈسکو جاتا ہے — موسیقی سے لطف اٹھاتا ہے — اور گھر کے افراد کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا ہوا کھانا بھی نوش فرماتا ہے اورگپیں بھی ہانکتا ہے — اور ایک دن اچانک وہ کائنات کے کسی بلیک ہول میں پھینک دیا جاتا ہے — اور ذرا غور کرو تو انجمن…( کبھی کبھی اچانک وہ میرے نام کو مسکرا کر لیا کرتا تھا— اور اتنے پیار سے کہ مجھے اپنے نام سے محبت ہو گئی تھی…) انجمن… اس نے دوبار اس لفظ کو دہرایا… اور ذرا غورتو کرو … حلانکہ اب وہ ایک انجان سیارے، کہکشاں یا بلیک ہیول کا حصہ ہے — مگر آپ اُسے تلاش کر رہے ہیں — اُسے تلاش کرتے ہوئے ڈرائنگ روم سے کچن اور بیڈ روم تک آتے ہیں — ڈائننگ میز پر بھی آپ آنکھیں پھیلا کر اُس کرسی کو بار بار دیکھتے ہیں، جہاں وہ ہوا کرتا تھا— مطلب بیٹھا ہوتا تھا اور اب وہ کرسی خالی ہے … ذرا غور تو کرو انجمن… اور کتنی عجیب بات، بلکہ میں کہتا ہوں، اداس کرنے کی بات کہ ایسے ہزاروں لوگ، کبھی جن کے دم سے یہ ہماری بزم آباد ہوا کرتی تھی— اور ہم یہ سوچنے سے قاصر تھے کہ آیا ایک دن یہ نہیں ہوں گے — اور نہیں ہوں گے تو ان کے نہ ہونے سے ہماری زیست کے طریقوں میں کیا فرق آئے گا… مگر انجمن—‘ وہ ہنسا تھا— اب ان لوگوں کی کہانیوں کو بھولے ہوئے بھی زمانہ ہو گیا… لیکن دیکھو تو… ہم زندہ ہیں اور مسکرا بھی رہے ہیں — ہم ان کے بغیر بھی زندہ ہیں، ایک زمانے میں جن کے گم ہونے کا تصور بھی محال تھا— مگر دیکھو تو… آج ہم زندہ ہیں کہ نہیں …؟‘

حالانکہ اس طرح کے موضوعات پر گفتگو کی گنجائش کم ہی پیدا ہوتی تھی مگر میں جانتی تھی، گمشدگی کا کوئی بھی واقعہ اُسے پریشان کر جاتا ہے —سیلاب میں کسی شہر یا گاؤں کا گم ہونا… یا مثال کے لئے پرانی عمارتوں کی جگہ نئی عمارتوں کا بننا، یا مثال کے لئے جب اُس کے پرانے گھر کا بٹوارہ ہوا… تو وہ نئی عمارت کے بن جانے تک بہت دنوں تک اداس رہا— وہ اشارہ کرتا تھا— وہاں ہم کھیلا کرتے تھے — اور اُس جگہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا— وہ وہاں پڑھائی کرتا تھا— اور دیکھو— وہ بالائی منزل پر دائیں طرف والا کمرہ— وہاں ایک زمانے تک دادا حضور اور ابا حضور کی کتابیں ہوا کرتی تھیں — اب یہ جگہ بھائیوں کے حصے میں چلی گئیں … اور مثال کے لئے وہ مسکرانے کی کوشش میں کہا کرتا کہ ایک دن اُسے علاء الدین کا چراغ ملے گا… اور دیکھنا تمام پرانی چیزیں اصل حالت میں لوٹ آئیں گی… وہ مسکرا کر کہتا… ایف آئی آر درج کراتے ہیں — میں پوچھتی— ایف آئی آر میں کیا لکھواؤ گے — اُس کی آنکھوں میں بچپن کا عکس لہراتا— وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوتا… کچھ بھی لکھوا دوں گا… ایک پرانا شیونگ کٹس، میری بائیسکل، جسے میں چھوٹی عمر میں چلایا کرتا تھا— اور میرے بڑے ہونے کے بعد بھی اسٹور روم میں محفوظ تھی— ایک لکڑی کا بلّا، جسے کچھ دنوں تک میں نے کرکٹ کے طور پر استعمال کیا… اور تمہارے ہونے کا مکمل احساس جو وہیں رہ گیا ہے … تمہیں یاد ہے انجمن… جب پہلی بار شادی کر کے تم گھر آئی تھی… تمہیں یاد ہے …

’تو وہ مکمل احساس اب تمہارا حصہ نہیں —‘

اُس کی آنکھوں میں اچانکہ بہاروں کی جگہ خزاں لرزتی ہوئی نظر آئی… وہ گلزار کے لفظوں میں آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا… آدھا بھیگا پن وہیں رہ گیا… آدھا میں اپنے ساتھ لے آیا— آدھے، بیقرار رت جگوں کے شکار ے وہیں رہ گئے — آدھے میرے ساتھ آ گئے … آدھی انجمن وہیں رہ گئی… وہ دبلی پتلی سی— دوڑ کر میری پیٹھ پر سوارہو جانے والی… اور یاد ہے انجمن… وہاں بڑی بڑی سیڑھیاں تھیں — اور میں تمہیں گود میں اٹھا کر سیڑھیوں سے ہوتا ہوا چھت پر لے جاتا تھا… میرا بھی آدھا سرمایہ وہیں رہ گیا— آدھا میں اپنے ساتھ لے آیا…‘

دھند بڑھ گئی ہے … الیوشا نہیں ہے۔ چاروں طرف کتابوں کے درمیان صرف ایک اداس موسیقی کی گونج رہ گئی ہے۔ میں اچانک چونک گئی ہوں … وہ وہیں ہے … اپنی کرسی پر موجود… میں اسے دیکھ سکتی ہوں … اس کے ہاتھوں میں ابھی بھی سگریٹ کا آدھا ٹکڑا ہے … وہ شاید کچھ سوچ رہا ہے … ممکن ہے، کچھ لکھنا چاہتا ہو… کیا وہ سچ مچ ہے یا میرا وہم… کیا میں آگے بڑھ کر اسے پہلے کی طرح چھو سکتی ہوں … وہ ہے … یا وہ نہیں ہے … ہونے اور نہ ہونے کے درمیان میں اس دھند کا احساس کرسکتی ہوں جو تیزی سے کمرے میں پھیل رہی ہے … پہلے کتابیں غائب ہوئیں … پھر وہ کرسی بھی… میں دھند اور تاریکی کے درمیان معلق ہوں … میں الیوشا کو آواز دینا چاہتی ہوں … مگر میں ٹھہر گئی ہوں … یہ وہ لمحہ ہے جہاں میں دھند میں تیر رہی ہوں … یا رقص کر رہی ہوں …

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق

تابگویم شرحِ دردِ اشتیاق

وصال کے اس ٹھہرے ہوئے لمحے میں، میں ہونے اور نہ ہونے کی منزلوں سے دور نکل آئی ہوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے