انٹرویو: نیلم احمد بشیر، سوالات: سید نصرت بخاری

نیلم احمد بشیر معروف ادیب احمد بشیر کی بیٹی ہیں۔ 17۔ جنوری 1950 کو ملتان میں پیدا ہوئیں۔ کراچی ہی میں پلی بڑھی ہیں۔ لاہور کالج سے بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ پنجاب یونی ورسٹی نے ایم۔ اے نفسیات کی ڈگری حاصل کی۔ لاہور میں ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ طالب علمی کے زمانے سے لکھنے کا آغاز کیا لیکن ادیب کی حیثیت سے شادی کے بعد منظر عام پر آئیں۔
2018 میں ماہ نامہ ’’بیاض‘‘ لاہور نے انھیں ’’بہترین ناول نگار‘‘ کا ایوارڈ دیا۔ پانچ افسانوی مجموعے، ایک ناول، دو سفر نامے، ایک خاکوں کی کتاب اور ایک پنجابی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔

سوال نصرت بخاری: ایک قلم کار خاتون کو معاشرے میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
جواب نیلم احمد بشیر: مشرقی معاشرے میں خواتین کو ادب ہی نہیں ہر میدان میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ انھیں، ان کی قابلیت کو، ان کے آرٹ کوسنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یوں بھی عورت کی اپنی روایتی سماجی ذمہ داریاں اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوتی ہیں۔ اگر وہ قرۃ العین حیدر کی طرح شادی نہ کرے تو اور بات ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی خواتین کے لیے بہت مشکلات ہیں، لیکن ان مشکلات کے باوجود جو عورت لکھنا جانتی ہے اسے اپنی اس خدا داد صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیے۔ مجھے بھی دیر سے لکھنے کا موقع ملا، یوں سمجھیے میں نے یہ موقع حاصل کیا۔ ان مسائل کو عبور کر کے اگر کوئی عورت کوئی فن پارہ تخلیق بھی کر لے تو عام تاثر یہی جا تا ہے کہ اسے کوئی مرد لکھ کر دے رہا ہے، یہ بہ ذات خود ایک مسئلہ ہے۔
سوال: بعض خواتین کے شعر یا افسانے میں مرد بیزاری بہت نمایاں ہے۔ کیا یہ رویہ درست ہے۔ مرد بیزاری کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں؟
جواب: جسے آپ مرد بیزاری کہتے ہیں، میں اسے مرد سے شکایت کہوں گی۔ عورت کا جب استحصال ہوتا ہے تو وہ احتجاج تو کرتی ہے۔ عورت لکھنا چاہتی ہے، مرد اسے لکھنے سے منع کرتا ہے، ڈاکٹری کر کے بھی ڈاکٹر نہیں بن سکتی۔ چونکہ اسے ہر وقت استحصال اور کنٹرول کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ اس انداز میں اپنا احتجاج پیش کرتی ہیں۔
سوال: بعض ناقدین کا خیال ہے کہ امرتا پریتم، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، پروین شاکر، کشور ناہید وغیرہ جیسی خواتین کی شہرت خواتین ہونے کی وجہ سے ہے۔
جواب: مجھے نہیں معلوم کہ کون لوگ ان خواتین کے بارے میں ایسی رائے رکھتے ہیں۔ میں تو ان کے بارے میں یہی کہوں گی کہ یہی عورتیں ہمارے لیے مثال ہیں کہ عورت کسی معاملے میں مرد سے کم نہیں۔ کوئی مرد ان خواتین جیسا لکھ کر تو دکھائے۔ اگر ان خواتین نے شہرت حاصل کر لی تو انھیں ان کے کام کا کریڈٹ دیناچاہیے۔ کریڈٹ دیتے ہوئے کنجوسی کیوں کرتے ہیں، ان عورتوں کی خدمات کو تسلیم کرنے سے ڈرتے کیوں ہیں۔ مان جائیے کہ یہ خواتین اپنی محنت، اپنے خیالات، اپنے ہنر اور سوچ کی وجہ سے کامیاب عورتیں ہیں۔ خاص طور پر قرۃ العین حیدر کی طرح کوئی لکھ ہی نہیں سکتا۔ جیسا ان کے پاس نالج ہے، ایسا کس کے پاس ہے۔ مرد اور عورت میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ دونوں انسان ہیں، انھیں انسان ہی کی حیثیت سے برابری کی سطح پر دیکھنا چاہیے۔ بلکہ میں کہتی ہوں کہ ہمارے مسائل بھرے معاشرے میں اگر کوئی عورت لکھتی ہے اسے سپورٹ بھی کریں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی۔ آپ نہیں جانتے وہ کتنے سخت مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچتی ہے۔
سوال: بناؤ سنگھار کی روایت عورت کی ذات سے مخصوص ہے۔ مزاج کا حصہ ہونے کی وجہ سے کیا خواتین کے شعر و افسانہ وغیرہ میں خواتین کا یہ ہنر یا ذوق بھی کار فرما ہوتا ہے؟
جواب: ہر انسان میں جمالیات ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، عورت کے ساتھ ساتھ مرد میں بھی جمالیاتی حس ہونی چاہیے۔ متانت اور سنجیدگی کے ساتھ اسے بھی اپنی آرائش اور حسن و جمال کا خیال کرنا چاہیے۔ فطری بات ہے جو چیز انسان کو اچھی لگتی ہے، اس کے پاس بیٹھنے کو، اس پر توجہ دینے کو دل کرتا ہے۔ اب اگر کسی آدمی نے کپڑے اچھے نہیں پہن رکھے، اس سے پسینے کی بو آ رہی ہے تو ایسے آدمی پر کون توجہ دے گا۔ اسی طرح اگر عورت اپنی آرائش اور حسن و جمال کا خیال رکھے گی تو وہ بھی پسندیدہ نظروں سے دیکھی جائے گی، اس کے مقابلے میں بدصورت عورت یا وہ عورت جو اپنی نفاست کا خیال نہیں رکھے گی، اسے کون دیکھے گا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ حسن سے ہی دل کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ آرائش و جمال کا ہر مرد و زن کو خیال رکھنا چاہیے، اس سے اسے ان لوگوں سے زیادہ نمبر ملتے ہیں جو اپنا، اپنے لباس کا خیال نہیں رکھتے۔
سوال: شعر و ادب میں بعض مرد وں کے ہاں خالص زنانہ مسائل اورجذبات کا اظہار بھی دکھائی دیتا ہے، کیا مرد عورت کے جذبات کی مکمل عکاسی کر سکتا ہے؟
جواب: مرد عورت کے جذبات کی عکاسی کرنے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن اسے عورت کی جذباتی شخصیت کا مکمل ادراک نہیں ہوتا۔ عورت کے اندر اپنے جذبات کے حوالے سے جو گہرائی ہے، اسے مرد نہیں سمجھ سکتا۔ مرد عورت کے معاملات کو سطح سے دیکھتا ہے، وہ گہرائی میں جا ہی نہیں سکتا، وہ عورت کے عورت پن کو مردانہ انداز سے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس بات سے انکاری ہوں کہ مرد عورت کے مسائل اور جذبات نہیں سمجھ سکتا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہر مرد عورت کے حوالے سے نہیں لکھ سکتا، البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھوں نے عورت کی ذات اور شخصیت پر خوب لکھا ہے مثلاً سعادت حسن منٹو ہی کو دیکھ لیجیے۔
سوال: تعلیمی نصاب میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے مثلاً اگر چودہ اسباق ہیں تو تیرہ مردوں کے اور ایک عورت کا لکھا ہوا، یہی حال منظومات میں بھی ہے۔ کیا عورت کی حق تلفی ہے یا خواتین کا ادب میں کردار اسی تناسب سے ہے؟
جواب: آپ ادب کی اور نصاب کی بات کرتے ہیں، عورت کو اپنا خاندان حصہ نہیں دیتا یا بہت کم دیا جاتا ہے۔ عورت نظر انداز ہو رہی ہے تو یہ نصاب بنانے والوں کی کوتاہی ہے، اس میں عورت کا کیا قصور ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ عورت کسی معاملے میں مرد سے پیچھے یا کم نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ عورت کو عورت ہونے کے ناتے پذیرائی نہیں ملتی، اگر ملتی تو نصاب میں بھی ملتی۔ چونکہ تعلیمی نصاب مرد بناتے ہیں اور یہ مردوں کا معاشرہ ہے، اس لیے عورت کی نمائندگی کم ہے۔
سوال: آزادیِ نسواں جیسی تنظیمیں بنائی گئیں، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ وغیرہ جیسے نعرے بھی سر عام دیکھے سنے، اس موضوع پر بالخصوص روشن خیال خواتین نے افسانے لکھے، شعر کہے لیکن خواتین کا ایک بڑا طبقہ اس بے باکی کے خلاف بھی ہے، لیکن مخالفت کے باوجود اس بے باکی کے خلاف قابل ذکر ادب نہیں لکھا گیا۔ اس کی وجہ؟
ابھی یہ موضوع یہاں نیا ہے۔ اس پر بھی لکھا جائے گا اور لکھا جا رہا ہے۔ لاہور کی ایک افسانہ نگار صبا ممتاز ہیں، انھوں نے اس موضوع پر افسانے لکھے ہیں۔ ویسے یہ تحریک تو مغرب سے یہاں لائی گئی ہے۔ وہاں Anti Abortion تحریک کی خواتین نے یہ نعرہ لگایا کہ Pregnant ہو جانے کی صورت میں ان کی مرضی ہے، وہ پیٹ میں رکھیں یا اسے ضایع کر دیں، لیکن پاکستان میں اسے غلط سمجھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عورت شخصی آزادی کی طالب ہے۔ ایسا تو نہیں ہونا چاہیے کہ جس کی مرضی اسے ریپ کرے، اسے مارے کُوٹے۔ عورت کے جسم پر اس کی اپنی مرضی کوئی بری بات نہیں لیکن یہاں لوگ اسے سمجھ ہی نہیں سکے۔ آپ اسے بے باکی کہتے ہیں لیکن میں اسے بے باکی نہیں سمجھتی۔ بے باک تو مرد ہوتا ہے۔ وہ جسے چاہے گھورے، جسے چاہے ہاتھ لگائے، جب چاہے بچیوں کو کمرے میں گھسا کر ریپ کیا۔ مرد بے شرم، بے حیا، بد لحاظ، بے باک اور ظالم ہے۔ ان دنوں ایک وڈیو چل رہی ہے جس میں ایک معروف مولوی کا بیٹا تیرہ سال کی بچی کو نوچ رہا ہے، کیا یہ بے باکی نہیں ہے، کیا اس بچی کا اپنے جسم پر کوئی اختیار نہیں ہے، یہ بے باکی ہے جو مرد کا خاصہ ہے بلکہ ایسا مرد بے شرم اور بے حیا ہے۔ عورت ایسی حرکات نہیں کرتی۔ مردوں کو خدا کا خوف کرنا چاہیے۔
سوال: خواتین کے ہاں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے اس میں گھر کی سلطنت سے فرار اور بغاوت نمایاں ہے، کیا یہ رویہ درست ہے؟ عورت کو آفس کی ذمہ داری سونپی جائے تو اسے اعزاز سمجھتی ہے لیکن گھر کی ذمہ داری کو غلامی سمجھا جانے لگا ہے۔ کیا واقعی آفس کی اہمیت اور وقار گھر سے زیادہ ہے؟
جواب: عورت گھر کی ذمہ داری کو غلامی نہیں سمجھتی۔ عورت ذمہ دار شخصیت ہے۔ مرد نے عورت کو سمجھا ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورت بچے پیدا کرنے کی مشینیں ہیں اور گھر میں نوکرانیاں ہیں۔ میں آپ کو ایک بات بتاؤں کہ عورت بڑے کمال کی چیز ہے، وہ گھر بھی نبھاتی ہے، سسرال، بچے اور خاوند بھی نبھاتی ہے اور اگر جاب ہے تو جاب بھی نبھاتی ہے۔ میری پروفیسر عورتیں دوست ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی پروفیسر ہیں لیکن گھر آ کر وہ کچن میں گھس جاتی ہیں اور خاوند ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے بیٹھا ہوتا ہے اور حکم لگاتا رہتا ہے کہ یہ لاؤ، وہ لاؤ۔ یہ تو حقیقت ہے کہ مرد عورت کی پروا نہیں کرتا چاہے دونوں کما رہے ہوں۔ وہ کبھی عورت کے ساتھ برتن نہیں دھوئے گا، وہ کبھی عورت کے لیے روٹی نہیں پکائے گا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ عورت کی بجائے مرد اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ رہا ہے۔ مرد کو عورت کے دفتر جانے سے خوف آتا ہے، اس کا خیال ہوتا ہے کہ دفتر جائے گی تو خراب ہو جائے گی لیکن مرد بھی تو دفتر جاتا ہے۔ آپ سائنس کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ مرد کی نسبت عورت زیادہ باصلاحیت ہے۔ اللہ نے اسے زیادہ طاقت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد جلدی مر جاتے ہیں اور عورت لمبی زندگی جیتی رہتی ہے۔ آدمی تھوڑا سا چلے تو ہائے ہائے کرنے لگتا ہے لیکن عورت پیٹ میں بچہ رکھ کر چلتی رہتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ وہ مرد سے زیادہ طاقت ور ہے
سوال: بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کی عورت کی ذہنی وسعت محدود ہونے کی وجہ اس کی معاشرتی زندگی کا محدود ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر خواتین بڑا ادب تخلیق کرنے سے قاصر ہیں۔ آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: آج کل کے ماحول میں جہاں ٹی وی، میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال ہر گھر میں ہو رہا ہے، البتہ یہ بات تسلیم کرتی ہوں کہ وہ بڑا ادب تسلیم نہیں کر سکی، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو مواقع کم ملتے ہیں۔ سوسائٹی انھیں دباتی ہے۔ میں اپنی مثال دوں مجھے بھی شوہر کی طرف سے کئی سال لکھنے کی اجازت نہیں تھی لیکن ایک وقت آتا ہے کہ چشمہ خود بہ خود پھوٹ پڑتا ہے۔ اس لیے میں نے بھی لکھا۔ یہ الگ بات کہ اسے قبول نہیں کیا گیا۔
سوال: قومی سطح کی ادبی تنظیموں کے سربراہ عموماً مرد ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عورت بہت پیچھے ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ یہ تو ذاتی ذمے داری اور شوق کی بات ہے، مرد کا اس میں کیا قصور؟
جواب: میں نہیں جانتی کہ کون سی ادبی تنظیمیں قومی سطح کی ہیں، پھر بھی چونکہ مرد تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں تو ان کے سربراہ بھی مرد ہی ہوں گے۔ ویسے بھی عورت کے پاس کہاں اتنا وقت ہے کہ وہ تنظیم کی سربراہی کرتی پھرے، اس کے علاوہ اس کی گھریلو ذمہ داریاں اور Family Obligations ہوتی ہیں۔ ادبی تنظیمیں ایسی ضروری چیز بھی نہیں ہے کہ گھر بار چھوڑ کر اجلاس کرتی رہے۔ عورت جب لکھتی ہے تو بس خاموشی سے لکھتی ہے۔
سوال: ادبی گروہ بندیوں میں جکڑے ادبی معاشرے میں عورت الگ تھلگ کھڑی ہے، اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
جواب: الگ تھلگ کہاں کھڑی ہے۔ جتنی معاشرہ اور معاشرے کے لوگ اسے گنجائش اور اجازت دیتے ہیں، اتنا کردار تو ادا کرتی ہے۔ اس کو سوسائٹی کے حوالے سے مجبوریوں کا سامنا ہے۔ اگر اس سلسلے میں لڑے گی تو اپنی زندگی ہی برباد کرے گی۔
سوال: ایک خاتون کے ناتے کیا آپ ادبی تقریبات میں مرد ادیبوں کے رویے سے مطمئن ہیں؟
جواب: پتا نہیں آپ نے یہ سوال کیوں کیا، لیکن میں اتنا کہوں گی کہ مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ ادیب جب آپس میں ملتے ہیں تو ور مرد یا عورت نہیں ہوتے بلکہ ادیب ہوتے ہیں۔ ہاں اگر آپ کا اشارہ کسی مرد کی گھٹیا سوچ کی طرف ہے تو اس سوچ کے حامل افراد تو ہر طبقے میں موجود ہیں۔
سوال: بعض ادیبوں نے زنانہ نام سے لکھا ہے، فوری طور پر مینا ناز کا نام یاد آ رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟
سوال: بیوی، بیٹی اور ماں کے شاعر ادیب ہونے سے ان کی گھریلو زندگی متاثر ہو سکتی ہے؟
جواب: یہ بات تو درست ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں اگر عورت اپنے خیالات و احساسات کا تحریری اظہار کرنا چاہے تو ریزسٹ کرنے والے اس کے خاندان کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ کہ ٹیلنٹڈ خواتین اپنی صلاحیت کا گلا دبا کر گھر میں بیٹھ جاتی ہیں، وہ اس خوف سے بھی نہیں لکھ پاتیں کہ گھر والے نہ جانے اس سے کیا مطلب اخذ کریں۔ میری ایک سہیلی نے مجھے بتایا کہ میں اپنا لکھا ہوا اس وقت تک پوسٹ نہیں کر سکتی جب تک میرے میاں اسے تنقیدی نظروں سے پڑھ نہ لیں۔ میں اس طرزِ عمل کو مرد کی کمزوری سمجھتی ہوں، اسے اس بات کا خوف رہتا ہے کہ کہیں بیوی اس کی ماتحتی سے نکل ہی نہ جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ عورت اس کے انڈر، اس کے زیر ہو کرکام کرے۔ مختصر یہ ہے کہ پاکستانی مرد، چاہے وہ بھائی ہو، باپ ہو، بیٹا ہو یا شوہر ہو، وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے۔ عورت جب ماں بن جاتی ہے تو اس کو پھر ماں ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کے بھی احساسات و جذبات ہوں گے، نہیں بالکل نہیں۔ اسے بریکٹ کر دیا جاتا ہے، ایک ڈبے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اس کو ہر طریقے سے دبایا جاتا ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
سوال: حقوق نسواں کے لیے کوئی ادبی تحریک چلائی گئی؟ یا چلا جا سکتی ہے؟ کون سی خاتون لیڈر کا کردار ادا کر سکتی ہے؟
سوال: کشور ناہید اور ان جیسی خواتین کے بارے میں ناقابل بیان روایات ادیبوں کی محفل میں بہ طور لطیفہ یا چٹکلہ سننے کو ملتی ہیں۔ ان روایات کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے میں خواتین کا کتنا قصور ہے، مرد حضرات کے اس طرز عمل پر بھی کچھ فرمائیں۔
جواب: چونکہ میں شاعرہ نہیں ہوں اور تقریبات میں بھی بہت کم جاتی ہوں، اس لیے مجھے اس قسم کی باتوں کا علم نہیں ہے۔ مردوں کے چٹکلوں کے ڈانڈے بھی اسی احساس سے جڑے ہوئے ہیں کہ عورت کا راستہ روکا جائے، اسے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہیں۔ شہرت کے لیے مردوں کا سہارا نہ لیں۔ خاص طور پر میں نوجوان شاعرات سے کہوں گی کہ مانگے تانگے کی شاعری سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ بدنامی ہوتی ہے، اس لیے اس رجحان سے دور رہیں، اور اگر کسی کی وقتی طور پر واہ واہ بھی ہو جائے تو اس سے کرافٹ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا، یہ واہ واہ وقتی ہوتی ہے اور یہ بات سب جانتے ہیں۔
سوال: کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر انڈین افسانہ نگار شموئیل احمد کے افسانے ’’لنگی‘‘ پر بحث ہوتی رہی۔ افسانے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کی لڑکیوں کو مختلف طریقوں سے بلیک میل کر کے ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ایسا ہونا ممکن ہے؟ جب کہ طالبات نے کبھی اس قسم کی شکایت نہیں کی۔
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ یونی ورسٹیوں، کالجوں میں عورت کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ جس طرح مدارس میں جنسی تشدد کی خبریں آئے دن نکلتی ہیں، اسی طرح یونی ورسٹیوں میں بھی ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں لڑکیاں شکایت نہیں کرتیں۔ کیوں نہیں کرتیں، لڑکیاں شکایت کرتی ہیں۔ کراچی کا ایک پروفیسر ہے سحر اس کی شکایت ہے، گومل یونی کا پروفیسر صلاح الدین ہے اس کے خلاف شکایات کی گئیں۔ کون کہتا ہے کہ لڑکیاں شکایت نہیں کرتیں، وہ شکایت کرتی ہیں۔ ایک دفعہ بہاول نگر کے ایک پروفیسر نے مجھ سے بھی اسی قسم کی بات کی تو میں نے اس سے کہا کہ میں اتنی بڑی عمر کی ہوں، آپ مجھ سے یہ بات کر رہے ہیں، تو آپ ان لڑکیوں کے ساتھ کیا نہیں کرتے ہوں گے، جو آپ کے پاس پڑھنے کے لیے آتی ہیں۔ لڑکیاں ایسے لوگوں کے خلاف شکایات کرتی رہتی ہیں لیکن ان کا جنسی استحصال پھر بھی ہوتا رہتا ہے۔
سوال: اکثر مرد حضرات کی وفات کے بعد ان کا کلام، یا افسانے وغیرہ ان کی اولاد چھاپ کر منظر عام پر لے آتی ہے، خواتین ادیب کے ساتھ ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔ اس پر کچھ گفتگو پسند فرمائیں گی؟ کہیں پس ماندگان اس عمل کو باعثِ ندامت تو نہیں سمجھتے؟ اگر آپ کی بیٹی ادب کی طرف آئے تو آپ اس کی حوصلہ افزائی کریں گی؟
جواب: یہ کام کوشش سے تو ہوتا نہیں، یہ صلاحیت کی بات ہے۔ لیکن میری بیٹی میں صلاحیت ہوئی تو میں ان کے راستے کی دیوار نہیں بنوں گی۔ وہ ادیب بنے، ایکٹر بنے، فیشن ڈیزائنر بنے۔ آئی۔ ٹی انجینئر بنے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ میری دونوں بچیاں کام کرتی ہیں۔ میری ایک بیٹی ہسپتال میں بچوں میں کام کرتی ہے، یونی ورسٹی میں Adult Education پڑھاتی ہے، دوسری بیٹی ایک بہت اچھی کمپنی میں کام کرتی ہے، مجھے کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ میں تو چاہتی ہوں وہ لکھیں لیکن انھیں لکھنے کا شوق نہیں ہے۔
نصرت نخاری: نیلم صاحبہ! آپ نے اعصاب شکن وبائی ماحول میں میرے سوالات کے جواب دیے۔ ممنون ہوں۔
نیلم احمد بشیر: شکریہ۔ اپنے موضوع پر ہم دونوں کے مابین بہت اچھا مکالمہ ہو گیا۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے