امیدِ وصل کا پودا ۔۔۔ شبانہ اسلم

اس نے کچھ عرصے پہلے ہی تو دل کے اس باغیچے میں بے شمار پودے لگائے تھے اور پھر کچھ وقت فراموشی میں ہی گزر گیا۔ وہ خزاں رسیدہ وجود یہ تو بھول ہی چکا تھا کہ چلتی سانسوں کی روانی تبھی ممکن ہے، جب وقت بے وقت ان کی خبر گیری کی جائے۔ وقت کے مقفل کواڑ نہ کھولے جائیں تو یادوں کو زنگ لگ جایا کرتا ہے اور زنگ آلود یادیں مردہ ہو جائیں تو زندگی اپنا سفر تمام نہیں کر پاتی۔ اس نے حتمی فیصلہ لیا اور پھر سے ان بیتے لمحوں کی کسک کو بیدار کرنے کا ارادہ کر ہی لیا۔ اسی رو میں بہتے ہوئے بالآخر اس نے یادوں کے غالیچے پہ اپنے پژمردہ قدم دھرے۔ ایک بے کل سی فضا نے اس کا بوجھل سا استقبال کیا، جیسے بڑی شدومد سے وہ اسی لمحے کا تو انتظار کر رہی تھی۔۔۔ اور انتظار تو اسے بھی تھا، تبھی تو وہ اس بے بس پودے کے روبرو جا کھڑی ہوئی، جسے اس نے پہلی بار یہاں لگایا تھا۔۔۔ وہ تھا اس باغیچے کا پہلا پودا۔۔۔ ہاں انتظار کا پودا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا، لیکن ابھی تک ہرا بھرا نہ ہو سکا تھا۔

وہ وہاں سے دل شکستہ سی اٹھ کر بے چارگی کا چلم لیے، حسرت و یاس کے پودے کے پاس جا بیٹھی۔ اس نیم جان پودے کی پتیاں بکھر بکھر سی گئی تھیں۔

’’تیرا مکمل ہونا نا ممکن ہے۔‘‘

اس نے زرد ہتھیلی میں پتیاں لے کر بے چارگی کے چلم میں مسل کر ڈال دی۔ اس کی نگاہ دفعتاً آرزو کے بے رس پودے پہ پڑی، وہ کافی قد آور ہو چکا تھا، مگر اتنا ہی مرجھایا ہوا اور ٹنڈ منڈ سا بھی دکھائی دے رہا تھا۔ نہ انتظار بار آور رہا، نہ حسرت و یاس پوری ہوئی اور تو اور بے نام آرزو بھی خانماں خراب رہی۔ وہ دھپ سے مایوسی کے پودے کے سامنے بیٹھ گئی۔

’’کہاں ہے صبر کا میٹھا پھل!!! وہ پھل جس کے لیے اتنی خواری اٹھائی؟‘‘ وہ زور سے چلائی۔

چشمِ فلک سے اشکوں کا سیلِ رواں پھوٹ پڑا اور ہر طرف جل تھل کا سماں ہو گیا۔ یکایک ایک مانوس سی آواز پر اس کی سماعتیں جی جان سے متوجہ ہوئیں۔ اس نے قدرے جھکا ہوا سر اوپر اٹھا کر دیکھا اور ششدر رہ گئی، دو قدم کی دوری پہ امید کا ہرا بھرا پودا، تناور درخت بن چکا تھا اور گلابِ وصل پاس کھڑا تمکنت سے مسکرا رہا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے