الجھن۔ ۔ ۔ احمد ندیم قاسمی

رات آئی، خیر کیلئے ہاتھ اٹھائے گئے اور اس کے بیاہ کا اعلان کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ لال دوپٹے میں سمٹی ہوئی سوچنے لگی کہ اتنا بڑا واقعہ اتنے مختصر عرصے میں کیسے تکمیل تک پہنچا، وہ تو یہ سمجھے بیٹھی تھی کہ جب برات آئے گی تو زمین اور آسمان کے درمیان الف لیلہ والی پریوں کے غول ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، پروں سے ملائے بڑا پیارا سا ناچ ناچیں گے، بکھرے ہوئے تارے ادھر ادھر سے کھسک کر ایک دوسرے سے چمٹ جائیں گے اور ٹمٹماتے ہوئے بادل کی شکل اختیار کر لیں گے، اور پھر یہ بادل ہولے ہولے زمیں پر اترے گا، اس کے سر پر آ کر رک جائے گا اور اس کے حنا آلود انگوٹھے کی پوروں کی لکیریں تک جھلملا اٹںیں گی، دنیا کے کناروں سے تہنیت کے غلغلے اٹھیں گے اور اس کے بالیوں بھرے کانوں کے قریب آ کر منڈ لائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تو یہ سمجھتی تھی کہ یہ دن اور رات کا سلسلہ صرف اس کے بیاہ کے انتظار میں ہے، بس جو نہی اس کا بیاہ ہو گا، پورب پچھم پر ایک مٹیالا سا اجالا چھا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے نہ دن کہا جا سکے گا اور نہ ہی رات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس جھٹپٹے کا سا سماں رہے گا قیامت تک اور جونہی برات اس کے گھر کی دہلیز الانگے گی یہ سارا نظام کھلکھلا کر ہنس دے گا اور تب سب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ آج گوری کا بیاہ ہے۔
لیکن بس برات آئی، لمبی لمبی داڑھیوں والوں نے آنکھیں بند کر کے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے، شکر اور تل تقسیم کئے گئے اور پھر اسے ڈولی میں دھکا دے یا گیا، ڈھول چنگھاڑنے لگے، شہنائیاں بلکنے لگیں، گولے بھونکنے لگے اور وہ کسی ان دیکھے، ان جانے گھر کو روانہ کر دی گئی۔
ڈولی میں سے بہت مشکل سے ایک جھری بنا کر اس نے میراثیوں کی طرف دیکھا، کالے کلوٹے بھتنے، میال ڈھول اور مری ہوئی سنپولیوں کی سی شہنائیوں، نہ بین نہ باجہ نہ تونتنیاں نہ انٹوں کے گھٹنوں پر جھنجناتے ہوئے گھنگرو، نہ گولے نہ شرکنیاں، جیسے کسی کی لاش قبرستان لے جا رہے ہوں۔
ہاں وہ لاش ہی تو تھی اور یہ ڈولی اس کا تابوت تھا، سفید کفن کے بجائے اس نے لال کفن اوڑھ رکھا تھا اور پھر یہ نتھ، بلاق، جھومر، ہار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قبر والے بچھو اور کنکھجورے تھے، جو اسے قدم قدم پر ڈس رہے تھے۔
ڈولی کے قریب بار بار ایک بوڑھے کی کھانسی کی آواز آ رہی تھی، شاید وہ دولہا کا باپ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جس دولھا کا باپ پل پل بھر بعد بلغم کے انتے بڑے بڑے گولے پٹاخ سے زمین پر دے مارتا ہے، وہ خود کیسا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہائے ری۔
وہ رو دی، وہ اس سے پیشتر بھی روئی تھی، جب اس کی ماں نے اسے گلے سے لگایا اور سرگوشی کی۔ ۔ میری لاڈلی گوری۔ ۔ ۔ تیری عزت ہماری عزت ہے، تو اب پرائے گھر جا رہی ہے، بڑے سلیقے سے رہنا ورنہ ناک کٹ جائے گی، ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کی ماں کو اس موقعہ پربھی اپنی ناک کی فکر ہوئی بھٹی میں دانہ اسپند ڈال دیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں کو اس کے دل کی پرواہ نہ تھی، اس وقت دکھاوے کی خاطر وہ روئی بھی، سسکیاں بھی بھری، گلووان کے دوپٹے سے آنسو بھی پونچھے، پر اس نے رونے میں کوئی مزا نہ تھا، یہاں ڈولی میں اس کی آنکھوں میں نمی تیری ہی تھی کہ اس کے روئیں روئیں میں ہزاروں خفتہ بے قراریاں جاگ اٹھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہنائیاں اس کا ساتھ دیتی رہیں، ڈھول پٹتا رہا، جب ڈولی دولھا کے گھر پہنچی تو ایک گولہ چھوٹا جیسے کسی بیمار کو مری مری چھیکٹ آئے، اسے اپنی سہیلی نوری پر بہت غصہ آیا جو بیاہ کے گیت گانے میں تاک سمجھی جاتی تھی اور جس نے ایک بار گوری کو چھیڑنے کیلئے بھرے مجمع میں ایک گیت گایا تھا۔
عطر پھلیل لگا لے ری گوری سیج بلائے توئے
گوری نے ڈولی سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ آنگن سے اس پار تک روئی کی ایک پگڈنڈی سی بچھا دی گئی، اس کی ساس اس سے یوں لپٹ گئی جیسے گوری نے شراب پی رکھی ہوں، اور ساس کو اس کے لڑکھڑانے کا خوف دامن گیر ہے، گوری نرم نرم روئی پر چلی تو اسے یونہی شک گزرا کہ واقعی یہ واقعہ تھا تو بڑا، اس کا اپنا اندازہ غلط تھا، آخر اتنی ملائم روئی صرف اسی لئے تو خاک پر نہیں بھچائی گئی تھی، کہ اس کے مہندی رہے پاؤں میلے نہ ہوں، پر جونہی اس نے اس شبہ کو یقین میں بدلنا چاہا تو اچانک اس کے پاؤں زمیں کی سخت ٹھنڈی سطح سے مس ہوئے اور سراب کی چمک ماند پڑ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روئی ختم ہو چکی تھی۔
اب سے سخت سزا بھگتنا پڑ گئی، اسے ایک کونے میں بیٹھا دیا گیا، اس حالت میں کہ اس کا سر جھک کر اس کے گھٹنوں کو چھو رہا تھا اور اس کے گلے کا ہار آگے لٹ کر اس کی تھوڑی سے لپٹا پڑا تھا، گاؤں والیاں آنے لگیں، اکنی چونی اس کے مردہ ہاتھ میں ٹھونس دی اور گھونگھٹ اٹھا اٹھا کر بٹر بٹر اس چہرے کو گھورا جانے لگا۔ ۔ ۔ ۔ جیسے لاش کے چہرے سے آخری دیدار کی خاطر کفن سرکا دیا جاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔
سارا دن اس کی ناک کے بانسے، اس کی پلکوں کے تناؤ، اس کے ہونٹوں کے خم، اس کے نام اور اس کے رنگ، اس کی اتنی بڑی نتھ اور جھومر اور بالیوں کے متعلق تذکرے کئے گئے، اور جب سورج پچھم کی طرف لٹک گیا تو اس کے آگے چوری کا کٹورا ادھر دیا گیا، اس کی ساس ناک سڑ سٹراتی اس کے پاس آئی اور بولی لے میری رانی کھا لے چوری؟ جیسے نئے نئے طوطے کو پچکارا جاتا ہے، اسے ایک بار خیال آیا کہ کیوں نہ نئے طوطے کی طرح لپک کر اس کی ناک کاٹ لے، مگر اب اس نے ایک اور موضوع پر بولنا شروع کر دیا تھا، کیا کروں بہن عجیب مصیبت ہے، جی آتا نگوڑی ناک کو کاٹ کر پھینکوں، بہ چلی جار رہی ہے، اتنی چھینکیں آتی ہیں، بہن اور اتنی بڑی چھینکیں کہ اللہ قسم انتڑیاں کھنچ جاتی ہیں، ادھر میرے لال کا بھی یہی حال ہے، پڑا چھینکتا ہے پلنگ پر، اور اس کا باپ تو کھانس کھانس کر ادھ موا ہو رہا ہے، ۔
گوری کا جی متلا گیا۔ ۔ ۔ ۔
پرے کونے میں دبکی ہوئی ایک بڑھیا نے اپنے زخم کا تذکرہ چھیڑ دیا، چھینک آتی بھی ہے اور نہیں بھی، بس یوں منہ کھولتی ہوں اور کھولے رکھتی ہوں، اور چھینک پلٹ جاتی ہے اور دماغ میں وہ کھلبلی مچتی ہے کہ چاہتی ہوں چولھے میں دے دوں اپنا سر۔ ۔ ۔
عام شکایت ہے دوسری بولی۔ ۔ ۔
پہلی نے اپنی بینگن جیسی ناک کو صادر تلے چھپا کر کہا، پر میں تو سمجھتی ہوں یہ آفت صرف مجھ پر پڑی ہے، اوروں کو زکام ہوتا ہے کہ دماغ میں کھلبلی ہوئی، چھینک آئی اور جی خوش ہو گیا، یہاں تو یہ حال ہے کہ زکام کی فکر الگ اور چھینک کی الگ۔ ۔ ۔
اور خدا جانے کیا بات ہوئی کہ گوری کو بھی چھینک آ گئی اس کی ساس اور اوسان خطا ہو گئے، تجھے بھی چھینک آ گئ، اے ہے، اب کیا ہو گا، نئی نویلی دلہن کو اللہ کرے کبھی چھینک نہ آئے، بنفشے کا کاڑھا بنا لاؤں ؟ پر اس صدی میں تو بنفشے کا اثر ہی ختم ہو گیا، گرم گرم چنے ٹھیک رہیں گے وہ یہ کہ تیزی سے اٹھی تو چادر پاؤں میں الجھ گئی، ہڑ بڑا کر پرلے کونے میں بڑھیا پر جا گری، وہ بے چاری چھینک کو دماغ سے نوچ پےنی کی کوشش میں تھی کہ یہ نئی آفت ٹوٹی تو اس کہ منہ سے کچھ ایسی آواز نکلی جیسے گیلا گولا پتابھ ہے۔
ہڑبونگ مچی تو گوری سب کے دماغ سے اتر گئی اور جب کچھ سکون ہوا تو بوڑھی نائن کولہوں پر ہاتھ رکھے اندر آئی اور گوری کے پاس بیٹھ کر بولی۔ ۔
اے ہے میری رانی، ابھی تک چوری نہیں کھائی تو نے ؟ نوج ایسے لاج بھی کیا؟
ان دلہوں کو کیا ہو جاتا ہے، دو دو دن ایک کھیل بھی اڑ کر نہیں جاتی پیٹ میں اور منہ مچوڑے بیٹھی ہے۔
جی نہیں چاہتا۔
جی چاہتا ہے اندر سے، پر یہ نگوڑی لاج نیا گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئے لوگ پر گوری رانی میں تو تیری وہی پرانی نائن ہوں، جانے کے بار مینڈھیاں بنائیں، کے بار کنگھی کی، وہ ایک بار تیرا بندا اٹک گیا تھا بالوں میں، تو چلائی تو گھر بھر مچل اٹھا، بڑی بوڑھیوں کا جمگھٹ ہو گیا، کوئی بندے کو مروڑ رہی تھی، کوئی بالوں کی لٹیں کچین رہی تھی اور تو گلاب کا پھول بنی جا رہی تھی۔
دکھ سے، میں آئی بالوں کی ایک لٹ کو ادھر اٹھایا، ایک لٹ کو ادھر کھسکایا اور بندا اپنی جگہ پر آ گیا، یاد ہے نہ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر تو چوری کیوں نہیں کھاتی؟ یہ بھی کوئی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نائن نے گوری کا گھونگھٹ اٹھا کر کٹورا آگے بڑھا دیا۔
گوری کو تو جیسے آگ لگ گئی، چوری کھائی تو ہیٹی ہو سب کہیں چار دن سے بھوکی تھی، بھوکے کے گھر سے آئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہاتھ اٹھا کر کٹورے کو پرے ڈھکیلتی ہے تو چوڑیاں بجتی ہیں، یہ کم بخت بلور کی چوڑیا جن کے چھنا کے میں چھریاں تیز کےہ جانے کی آواز تھی، بڑی بوڑھیاں کہنیوں تک ٹھونس دیتی ہیں چوڑیاں اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہیں کہ آواز نہ آئے زیور کی، لوگ بے شرم کہیں گے۔ ۔ ۔
گوری پہلے تو بت بنی بیٹھی رہی لیکن جب نائن نے کٹورا اتنا آگے بڑھا دیا کہ وہ اس کے چولے کو چھونے لگا تو وہ ضبط نہ کر سکی، سرگوشی سے بھی کہیں مدھم آواز میں بولی، میں نہیں کھاؤں گی، کیوں نہیں کھائے گی؟ نائن نے اب گوری کا گھونگھٹ اٹھا کر اپنے سر پر ڈال لیا تھا، کیوں نہیں کھائے گی؟ میں کھلا کے چھوڑوں گی، تو نہیں کھائے گی تو میں بھی نہیں کھاؤں گی، ہاں پر تو تو ضرور کھائے گی، یہ دیکھ میں کھا رہی ہوں، دیکھ نا گوری دلہن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے چوری مٹھی بھری اور پوپلے میں ٹھونس کر بولی اب کھا بھی لے گوری رانی۔
میں نہیں کھاؤں گی، گوری نے یہ الفاظ کچھ اونچی آواز میں کہے اور گھونگھٹ کھیچ کر دیوار سے لگ گئی، چوڑیاں بجیں تو عورتیں منماںنے لگیں۔
نہی نویلی دلہنوں کو پہلے دن کبھی بولتے نہ سنا تھا۔
اور پھر ایک جگہ جم کر بیٹھی ہی نہیں، تڑپ رہی ہے پارے کی طرح۔
اس صدی کے بیاہ کیا ہوتے ہیں مداری کھیل دکھاتا ہے۔
ہم نے دیکھی ہیں دلہن، ایک ایک مہینہ نہیں بولیں کسی سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک مہینہ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے تو اور کسی کی بات یاد نہیں، یہ سامنے نائن بیٹھی ہے ہماری، دس دن تک منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہی، گیارہویں دن زبان بھی ہلائی تو بس اذان کے بعد کلمہ پڑھا۔
نائن یوں ہنسنے لگی جیسے ٹین کے ڈبے میں کنکر ڈال کر اسے لڑھکا دیا جائے، بولی کسی سے غلط بات سنی تو نے، میں نے تو جیسے ہی نئے گھر میں قدم دھرا اور ساس نے سہارا دیا تو بلبلا اٹھی تھی، کیا لپٹی پڑتی ہے مجھ کو، میں کوئی لنڈوری چڑیا تو تھوڑی ہوں کہ اڑ جاؤں گی پھر سے، یہیں رہنے آئی ہوں یہیں رہوں گی، ساس اپنا سا منہ لے کر رہ گئی اور میں نے اسی روز دن ڈھلے سہیلیوں سے گیٹیاں کھیلی۔
کون گیٹیاں کھیلی، گوری کی ساس دامن میں چنے ڈالے اندر آئی۔ ۔ ۔ ۔ دلہن کے ساتھ گیٹیوں کی باتیں کی جاتی ہیں ؟ اتنی عمر گزر گئی، سینکڑوں بار دایہ بنی پر بات کرنے کا ڈھب نہ آیا تجھے۔ ۔ ۔ بھونے ہوئے چنوں کی خوشبو سے کمرہ مہک گیا، لیکن شادی کے روز سسرال میں پہلے پہل چنوں سے فاقہ توڑنا برا شگون تھا اس لئے گوری اپنے آپ کو اس نئے حملے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے لگی، نائن کا بازو چھوا اور جب وہ اس کے بالکل قریب ہو گئی تو آہستہ سے بولی مجھے نیند آئی ہے۔
گوری کی ساس نے نائن سے پوچھا کیا کہتی ہے ؟
نائن ناک پر انگلی رکھ کر بولی کہتی مجھے نیند آئی ہے ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ٹین کے ڈبے میں کنکر بجنے لگے۔ ۔ ۔ میری رانی نیدن کی بھی ایک ہی کہی تو نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیری نیند۔ ۔ ۔ ۔ دلہن کی نیند۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب میں کیا کہوں ؟ گلے میں پھندا پڑا ہے۔
یہاں گوری کی ساس نے رحمت کے فرشتے کا روپ دھار لیا بولی، اے رہنے بھی دے بات بات پر دانت نکال رہی ہے، نائن ہو تو سلیقے والی ہو یہ بھی کیا ادھر بات ہوئی ادھر منہ پھاڑ کر حلق کا کوا دکھا دیا، اتنا نہیں سوچا کہ دن بھر کی تھکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ سو چا میری گوری رانی۔ ۔ ۔ ۔ پر یہ چنے۔
اونہک گوری ایک طرف جھک گئی اور قریب ہی بیٹھی ہوئی ادھیڑ عمر کی ایک عورت گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بولی۔ بڑی لاڈلی دلہن ہے۔ ۔ ۔
سب عورتیں باہر نکل گئیں مگر گوری کی آنکھوں میں نیند کہاں آج تو نیند کی جگہ کاجل نے لے لی ہے، آنکھیں جھپکاتی رہی اور سوچتی رہی، واہ رے میرے پھوٹے بھاگ یہی بیاہ ہے تو واری جاؤں کنوارے پن پے، کیا زمانہ تھا کون سی بات یاد کروں، کس کس کو یاد کرو، وہ ساون کی چھم چھم میں کڑے نیم کے ٹہنے میں جھولنا، جھولا آگے لپکتا ہے تو ٹھنڈی پھوار دھو ڈالتی ہے، جھولا پیچھا ہٹتا ہے، تو خوشبو میں بسی ہوئی لٹیں چہرے کو پونچھ ڈالتی ہیں، آس پاس کا جھرمٹ بھیگی بھیگی ڈھولک کی میٹھی میٹھی آواز اور نوری کا نرس بھرا گیت۔ ۔ ۔
موہے ساون کی رم جھم بھائے رے۔ ۔
بھیا کے کانوں میں سونے کی مرکی۔ ۔
پھول پہ تتلی آئے رے۔ ۔ ۔ ۔
موہے ساون کی رم جھم بھائے رے۔ ۔
اور پھر اسی شریر نویر کے کھلے آنگن میں چرخے کی گھوں گھوں، گورے گورے ہاتھ پونیاں تھامے اوپر ابھرتے ہیں، تکتے سے باریک تار لپٹتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے تار پونی سے نہیں نکلا، گوری کی ہتھیلی سے نکلا ہے، اور پھر عید کے دن ملنگ سائیں کا میلہ، وہ اتری ڈھیروں پر پروا کے جھونکوں میں لچکتی ہوئی گھاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گونجتے ہوئے دن اور چپ چاپ راتیں اور یہ نئی زندگی جینا اجیرن ہو رہا تھا، ہاتھ پاؤں ہلاؤں تو بے حیا اور لاڈلی ٹھہروں، اجنبی عورتوں کا ہجوم کوئی کھانستی ہے، کوئی چھینکتی ہے، کوئی پڑوسن کا گلہ کرتی ہے، کوئی میرے لونگ کے کناروں کو بھدا بتاتی ہے، نہ ساون کی رم جھم کے گیت، نہ الف لیلہ کی کہانیاں، نہ ہم سنوں کی چہلیں، اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ماں باپ مجھے کسی کگر سے دکھا دے دیتے، یہ سانسوں کی ڈوری ٹوٹ جاتی، چین آ جاتا، کیسے مذاق کرتی تھی مجھ سے نوری، تو بیاہی جائے گی، دلہن بنے گی مہندی رچائے گی، دودھ پئے گی، چوری کھائے گی اور نوری کو اپنے من سے نکال دے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بے چاری بھولی نوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نادان سہیلی۔ ۔ ۔ ۔ تجھے کیا معلوم بیاہ کی رونق صرف دکھاوا ہے، پھوڑے کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر سے گلابی اندر سے پیپ بھرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اف۔ ۔ ۔ ۔
گوری گھبرا کر اٹھی بیٹھی، چوڑیاں بجیں تو ساس اندر دوڑی آئی اس کے بعد ایک عورت۔ ۔ ۔ ۔ دوسری عورت۔ ۔ ۔ ۔ پھر تیسری عورت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی دم گھونٹ دینے والی حرکتیں اور باتیں، گوری نے چاہا نادان بچوں کی طرح مچل جائے بلک بلک کر رونے لگے، بھاگ کر باہر آنگن میں لوٹنے لگے، زیور اتار پھینکے کپڑوں کی دھجیاں اڑا دے اور آنکھوں پر دھول بھرے ہاتھ مل مل کر سسکیاں بھرے اور کہے، میں تو سب سے تھک گئی ہوں، تم الف لیلہ والی دیونیاں ہو، تمہاری کھانس کی ٹھن ٹھن تمہارے قہقہوں کی کرختگی بہت ڈراؤنی بہت گھناؤنی ہے، مجھے اکیلا چھوڑ دو میں ناچنا اور گانا چاہتی ہوں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تب گوری کے دل میں خیال آیا نہ ہوئی نوری اس وقت ورنہ یوں زور ست گلے لگاتی اسے کم بخت کی پسلیاں پٹاخے چھوڑنے لگتیں۔
وہ خدا جانے اور کیا سوچتی مگر ساس اور نائن اور دوسری کم بختیں پھر وہی گھس پٹی باتیں کرنیں لگیں، جہیز کی کیا پوچھتی ہو بہن، سارا گھر دے ڈالا گوری کو، ایسے ایسے کپڑے کہ دیکھے میلے ہوں، وہ وہ زیور کہ آنکھیں چندھیا جائیں، پلنگ کے پانے نہیں دیکھے تم نے ؟ نیچے سے شنگرفی اور اوپر سے اتنے سفید جیسے چاند اتر کر جڑ دئیے ہیں، اصل میں میرا بیٹا ہے ہی قسمت والا۔ ۔
اور نائن بولی کیا سجیلا گبرو ہے۔ آن نائی کہہ رہا ہے میں کپڑے پہنانے دولہا کو گھر آؤں گا شانے پر ہاتھ پھیرا تو جیسے فولاد اور چہرے پر وہ نور کہ تارے بغلیں جھانکیں۔ ۔ ۔ ۔ پر میں ابھی ابھی اسے ڈیوڑھی میں کھڑے دیکھا، اس زکام کا برا ہو، پھول سا چہرہ یوں ہو رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نائن نے اپنی سفید چادر کا پلو سب کے آگے پھیلا دیا۔
گوری کیلئے یہ موضوع بھی دلچسپی سے خالی تھا، نائن جھوٹ بولتی ہیں اکثر، پر وہ سجیلا ہے بھی تو کیا، حالت تو یہ ہے کہ چار پہر سے اس کے گھر میں بیٹھی ہوں اور اس نے شکل تک نہیں دکھائی، وہیں ڈیوڑھی میں پڑا چھینکتا ہے، بے ترس۔
بڑی دیر کے بعد شام آئی، عورتیں چلی گئیں اور اس نے ہاتھ پاؤں پھیلا کر بازو تانے، زیور سے لدے پھندے سر کو دھیرے سے جھٹکایا اور باہر دیکھا، اس کی ساس اور نائن سامنے کے کمرے سے باہر آتی تھیں اور اندر گھس جاتی مرجھائی ہوئی بانہوں میں تانبے کے کنگن اور پتیل کی چوڑیاں جیسے کھانس رہی تھی، جوتیاں چپڑ چپڑ چیخ رہی تھیں اور وہ کل دار گڑیوں کی طرح مٹکتی پھر رہی تھیں۔
کچھ دیر بعد گاؤں والیاں گیت گانے اور سننے آئیں تو ان کے ہمراہ نوری بھی آئی گوری کے قریب بیٹھ گئی اور اس کے کان میں بولی آج تو بات تک نہیں کرتی بہن، اور پھر آنکھیں مٹکا کر گنگننے لگی۔
دلہن کا بولنا گناہ ہے اور پھر گوری تو ان اللہ والیوں کو ذکر بھی سن چکی تھی جنہوں نے ایک ایک ماہ چپ شاہ کا روزہ رکھا، اس لئے اس نے بولنا مناسب نہ سمجھا بس دھیرے سے نوری کے پہلو میں کہنی جڑ دی، اور نوری تڑپ کر بولی، لے کے کلیجہ ہلا دیا میرا، کیوں نہ ہو، بیاہ جو ہو گیا تیرا، ہو لینے دے ہمارا بیاہ، تیرے گھر کے پاس سے گزریں گے تو ناک بھوں چڑھا کر آگے بڑھ جائیں گے غرور سے پلٹ کر دیکھیں گے بھی نہیں، کر لے مان گھڑی کی بات ہے۔
گوری کی زبان میں سوئیاں سی چبھ گئیں، جب تک گیت گائے جاتے رہے وہ نوری کو اور نوری کے نقرئی بندوں کو دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ، کنوارے پنے کے ساتھی، بندے کیسے بھلے لگتے ہیں گلابی کانوں میں، اور ایک میرے کان ہیں کہ کیڑوں ایسی پتلی پتلی بالیوں سے پٹے پڑے ہیں، نوری سر ہلاتی ہے تو یہ بندے تاروں کی طرح ٹمٹماتے ہیں اور جب پلٹ کر ادھر ادھر دیکھتی ہے تو بندے انگوروں کا گچھا بن جاتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوچتے سوچتے اس کا ماتھا دھوپ میں پڑی ہوئی ٹھیکری کی مانند تب گیا اور جب سب ناچنے لگیں اور نوری نے ڈھولک کے ارد گرد گھوم کر ایک گایا۔ ۔ ۔
جاری سہیلی اب جا۔ ۔ ۔ ۔ تو ہے پیا بلاوے۔
چاندی کی جھیلوں کے پار رے
سونے کے ٹیلوں کے پار رے
جاری سہیلی اب جا۔ ۔ ۔ ۔ تو ہے پیا بلاوے
تو گوری نے دیوار سے سر ٹیک کر روکنا چاہا کہ ذرا جی ہلکا ہو جائے تو مگر آج تو آنکھوں میں ہر چیز کی جگہ کاجل نے لے لی تھی، نہ نیند نہ آنسو بس کاجل ہی کاجل اچھا بیاہ ہوا۔ ۔ ۔ یہ بھی خوب رہی۔
جب سب چلی گئیں اور آنگن سونا ہو گیا تو دولہا کا باپ کھانستا ہوا آیا اور ایک طرف سے حقہ اٹھا کر چلتا بنا، نائن ہاتھ ملتی اٹھی اور بولی، آ میری بچی ادھر پلنگ پر آ جا، نیند آ رہی ہو گی تجھے اور پھر گوری کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر نائن نے اسے یوں کھینچا جیسے لاش کو اٹھا رہی ہے، گوری پاؤں گھسٹی کمرے میں آئی، رنگین پائے والے پلنگ پر دھم سے گری اور چھم سے لیٹ گئی، نائن بولی بیٹی زیور تو اتار لے، نتھ وتھ کہیں اٹک گئی تو مشکل بنے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں اٹکتی گوری بولی۔ ۔ ۔ میں خود اتار لوں گی۔ ۔
نائن نے آگے بڑھ کر پھر اس کی بغلوں میں دونوں ہاتھ جما دئیے، نہیں نہیں بیٹی یہ برا شگون ہے، زیور اتارنے ہی پڑتے ہیں، ایک بار ایک دلہن نے تیری طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن نائن اپنی کہانی شروع کرنے ہی پائی تھی کہ گوری زیور نوچنے لگی اور پھر فورا دھڑام سے پلنگ پر گر گئی، ٹین کے ڈبے میں کنکر بج اٹھے نائن بولی یہ بھی خوب رہی نائن چلی گئی اور گوری دانت پیس کر رہ گئی۔
جیسے بہت سے تاگے آپس میں الجھ جائیں تو انہیں سلجھانے کی کوشش اور الجھنیں پیدا کر دیتی ہے بالکل یہی کیفیت تھی گوری کے ذہن کی، بیاہ کا پہلا دن بس بن کر اس کے سینے پر سوار تھا، کہ اچانک چر سے دروازہ کھلا گوری چونک گئی، ارے۔
میں سمجھتی تھی نائن جھوٹ بکتی ہے، اس نے گھونگھٹ کی شکنوں میں سے کنکھیوں سے نو وارد کو دیکھتے ہوئے سوچا، یہ میرا دولہا ہے یا لال بادشاہ۔
بھونچال سا آ گیا اس کی طبعیت میں، چیختی ہوئی آندھیوں، کڑکتے ہوئے بادلوں، لڑھکتی ہوئی چٹانوں اور ٹوٹے ہوئے ٹہنوں میں لپٹا ہوا ذہن یہاں سے وہاں اچھلنے لگا سنبھل کر بیٹھنا چاہا تو پلنگ کے پائے تک کھسک گئے۔
دولھا مسکراتا رہا اور پھر پلنگ پر بیٹھ کر بولا اگر تم کچھ اور پرے کھسکتیں تو پلنگ سے گر جاتی۔
گوری خاموش رہی۔
دولھا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، سنا کچھ۔
اور یکایک آندھیاں تھم گئیں اور بادلوں نے چپ سادھ لی، گوری کے جسم میں جھرجھری سی دوڑ گئی، ذہن یوں صاف ہو گیا جیسے اس نے کڑکتی دھوپ میں لیموں کا یخ شربت غٹ غٹ چڑھا لیا ہو، انگڑائی آئی تو با نہیں نہ تان سکی، بس اندر ہی چٹخ پٹخ کر رہ گئی اور پھر ہاتھ چھڑا کر ذرا پرے کھسکنے کی کوشش کرنے لگی۔
پلنگ سے گر جاؤ گی گوری۔ دولہا بولا۔
آپ کی بلا سے۔ گوری نے جیسے اپنے ذہن کا سارا بوجھ اتار کر پرے جھٹک دیا۔
اگر تم گر گئیں تو تکلیف مجھے ہو گی دولہا بولا۔
گوری شرما گئی اور بے تعلق سا سوال کر بیٹھی، زکام کا کیا حال ہے۔
سرک گیا ہے اس وقت، دولھا مسکرایا اور پھر خاموشی کے ایک طویل وقفے میں گوری کی اٹھتی اور گرتی ہوئی نظروں سے بہت سی باتیں کر لیں اور جب آنگن کے پرلے سرے پر اپنے ڈربے میں ایک مرغی کڑکڑائی تو دولھا نے کہا کوئی بات کرو گوری۔
تم ہی کوئی بات کرو، گوری پہلی مرتبہ مسکرا دی۔
کیا بات کروں ؟
کوئی کہانی وہانی سناؤ، گوری جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہی ہو۔
کہانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیسی کہانی؟دولھا نے پوچھا۔
کوئی پریوں وریوں کی کہانی، گوری کھل کر بولنے کے باوجود سمٹی جا رہی تھی، ۔
مجھے تو صرف لال بادشاہ اور سبز پری کی کہانی آتی ہے، دولھا مسکرایا۔
وہی سہی، گوری نے انگلی میں سنہری انگوٹھی کو گھماتے ہوئے کہا۔
دولھا نے تکئے پر کہنی ٹیک دی۔ تو پھر سنو، پر ذرا قریب ہو کر سننا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یوں۔ ۔ ۔ ۔ جہاں زمین ختم ہو جاتی ہے نا وہیں ایک نگری ہے، جسے لوگ نیند کی نگری کہتے ہیں، اس نگری پر ایک بادشاہ راج کیا کرتا تھا، اس کا نام تھا لال بادشاہ بڑا خوبصورت، بڑا ہنس مکھ بہت بانکا، بہت سجیلا۔
تمہاری طرح، گوری کا بستر کی چادر پر انگلی پھرتے ہوئے یوں بولی جیسے کانسی کے کٹورے سے چھلا مس کر گیا ہو۔
دولھا ہنس دیا اور گوری کی لال لال پوروں کو اپنی دودھ ایسی پوروں سے ٹٹول کر بولا تو کرنا خدا کیا ہوا گوری کہ ایک دن لال بادشاہ شکار کھیلنے ایک جنگل میں جا نکلا اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ابھی کہانی نصف تک پہنچی تھی، ابھی لال بادشاہ نے سبز پری کا ہاتھ اپنے ہاتھ مں ہی لیا تھا کہ دروازے کی جھریوں سے صبح کاذب جھانکی، دولھا چونک کر بولا، ارے صبح ہو گئی۔
نہیں شام ہو گئی، گوری نہ بھولے سے کہا۔
اچھل کر دولھا نے دروازہ کھولا پلٹ کر مسکرایا اور باہر نکل گیا اور گوری نے اتنی لمبی انگڑائی لی جیسے پورب سے انگڑائی لیتی ہوئی صبح کا منہ نوچ لے گی، تکئیے میں سر جما کر کہنے لگی ہائے رے نوری بہن تو کتنی ابھاگن ہے، پڑی ہو گی ٹوٹے کھٹولے پر گھڑلی بن کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہاں تیری گوری شنگرفی پایوں والے پلنگ پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہندی کی خوشبو سے بسے ہوئے کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے بانکے سجیلے دولھا سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اف، کتنی سچی باتیں کہتی تھی تو؟
اس نے مسکرا کر دئیے کی پیلی روشنی میں اپنی لال ہتھیلیاں دیکھیں اور اپنے تپے ہوئے چہرے پر ہاتھ مل کر بولی، کاش اس وقت یہاں نوری ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا کوئی آئینہ ہی ہوتا؟
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے