احمد ہمیش: کیا لوگ تھے جو راہ جہاں سے گزر گئے ۔۔ غلام شبیر رانا

  پاکستان  میں اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور اپنے دعوے کے مطابق اردو میں نثری نظم کے بانی احمد ہمیش کا  اتوار8۔ ستمبر 2013کی شام انتقال ہو گیا۔ مسجد بابا موڑ نارتھ کراچی  میں ہزاروں افراد اردو زبان و ادب کے اس رجحان ساز ادیب کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور اسے آنسوؤں اور آہوں کا نذرانہ پیش کر کے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا۔ شہر کا شہر اس سانحے پر سو گوار دکھائی دیتا تھا۔ کراچی میں سخی حسن کے شہر خموشاں کی زمین نے اس دبنگ لہجے میں بات کرنے والے آسمان کی سی فکری بلند پروازی سے متمتع  منفرد اسلوب کے حامل اس زیرک تخلیق کار کو ہمیشہ کے لیے  اپنے دامن میں چھپا لیا  اور اردو ادب کا ہنستا بولتا چمن مہیب سناٹوں اور اعصاب شکن خاموشیوں میں گم ہو گیا۔ اتر پردیش (بھارت ) کے ضلع بلیا کا گاؤں بانسپار احمد ہمیش کی جنم بھومی ہے۔ اسی گاؤں میں یکم جولائی 1937کو احمد ہمیش نے دنیا کو پہلی بار دیکھا۔ جس وقت احمد ہمیش کی عمر محض دس سال تھی اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اس کی والدہ نے بڑے ناز سے اس کی پرورش کی تھی۔ اس کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دی۔ اس کی اچانک وفات نے اس نو نہال کی زندگی کی تمام رتوں کو مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ابھی وہ اپنی پیاری ماں کی دائمی مفارقت کے صدمے سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کے  والد نے دوسری شادی کر لی اور جب اس کی سوتیلی ماں نے گھر میں قدم رکھا تو احمد ہمیش پر عرصۂ  حیات تنگ کر دیا۔ احمد ہمیش کے دو بھائی اور ایک بہن سوتیلی ماں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور غیظ و غضب کو برداشت نہ کر سکے اور اس اذیت اور عقوبت سے نجات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔  حالات نے اس قدر تکلیف دہ صورت اختیار کر لی کہ ان چار بچوں کا جینا دشوار کر دیا گیا۔ اس مسموم ماحول سے دل برداشتہ ہو کر احمد ہمیش نے  اٹھارہ سال کی عمر میں گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور  اپنے کچھ عزیزوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور 1955میں لاہور پہنچا۔ اس کی ادبی زندگی کا با قاعدہ آغاز 1958میں ہوا جب اس نے ادبی محافل میں شرکت کا آغاز کیا۔ احمد ہمیش کی تخلیقات میں اس کے ماضی کی تلخ زندگی کے مسموم اثرات کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ ماضی کی متعدد تلخ یادیں اس حساس تخلیق کار کے لیے زندگی بھر سوہان روح بنی رہیں۔ ان مسموم حالات نے ان ذہن پر جو انمٹ  نقوش چھوڑے ان کے تخلیقی عمل پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ کچھ عرصہ لاہور میں قیام کے بعد 1970 میں اس نے کراچی میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔ کراچی پہنچ کر احمد ہمیش نے کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان کراچی میں جز  وقتی ملازم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ احمد ہمیش نے ریڈیو پاکستان کراچی کی ہندی سروس میں کام کیا لیکن جلد ہی یہ پروگرام کراچی سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ ریڈیو پاکستان کی ملازمت کے حصول میں احمد ہمیش کام یاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد معمولی نوعیت کی ملازمتوں ہی پر اس کی گزر اوقات رہی  اور ہر حال میں صبر، استغنا اور قناعت کا بھرم قائم رکھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب وہ طویل عرصہ بستر علالت پر رہا کراچی چھوڑ کر کہیں باہر جانے پر آمادہ نہ ہو ا۔

احمد ہمیش کی زندگی مسلسل تجربات اور تغیرات کی زد میں رہی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں اس نے نت نئے تجربوں اپنے اسلوب کو ندرت، جدت اور تنوع سے آشنا کیا۔ فنی تجربے اس کے مزاج کا ایک اہم حصہ تھے۔ ان کے اعجاز سے اس نے ہمیشہ نئے امکانات کی جستجو کی اور یکسانیت اور جمود کے خاتمے کی سعی کی۔ 1961میں بھارت سے احمد ہمیش کی نظم ’’یہ بھی ایک ڈائری‘‘ شائع ہوئی۔ یہی نظم 1962میں ماہ نامہ نصرت لاہور میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے بارے میں احمد ہمیش کا دعویٰ یہ تھا کہ اردو میں یہ پہلی نثری نظم ہے۔ خود کو اردو میں نثر ی نظم کا بانی قرار دینے کے سلسلے میں احمد ہمیش نے اسی نظم کو اپنے اس دعوے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ احمد ہمیش کی اس نظم کی آخری تین سطور پیش ہیں :

سائباں کے تیسرے کونے میں پہلی دھوپ چمکنے لگی

پہلا کونا دوسرے کونے کا دشمن ہے

 اور چوتھے کونے میں دھندلے خاکے ہیں

  اپنی بیٹی انجیلا سے احمد ہمیش کو بہت محبت تھی۔ اس بیٹی نے اپنے باپ اسلوب اور فن سے گہرے اثرات قبول کیے۔  احمد ہمیش کی بڑھتی ہوئی عمر  میں یہ قلبی وابستگی قربت کی راحت اور دوری کے اندیشوں میں پروان چڑھی۔ اپنی ایک نثری نظم میں احمد ہمیش نے اپنی بیٹی سے مخاطب ہو کر بڑی درد مندی سے اپنے دلی  جذبات کا اظہار کیا ہے۔ احمد ہمیش کو اس بات کا قلق تھا کہ ہماری معاشرتی زندگی کو ہلاکت آفرینیوں  کا سامنا ہے۔ مجبور ، بے بس اور قسمت سے محروم انسانیت کے مسائل جا مد و ساکت مجسموں، سنگلاخ چٹانوں اور چلتے پھرتے ہوئے مردوں کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں۔  معاشرتی زندگی میں فر د کی  چہرگی اور عدم شناخت کے مسئلے نے اب گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے۔  اپنے ماضی کی یادوں کو دہراتے ہوئے احمد ہمیش نے اپنی بیٹی کو اس زمانے کے بارے میں بتایا ہے جب عورت کی زندگی میں راحت اور آسودگی نا پید تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے پہلے یہاں کی تہذیب و ثقافت کی جو کیفیت تھی وہ حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن تھی۔ یاد ایام کے حوالے سے احمد ہمیش نے اپنے تخلیقی عمل میں ماضی سے متعلق یادوں کو بہت اہمیت دی ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران احمد ہمیش نے موضوع اور مواد کے حصول کے لیے متخیلہ ہی پر انحصار کیا ہے۔ اس کے تمام تصورات اور تاثرات کی اساس  ماضی کی یادیں ہی ہیں۔ ان یادوں کو  پیرایۂ  اظہار عطا کرنے میں احمد ہمیش نے جس ریاضت سے کام لیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس نظم میں احمد ہمیش نے اپنی  یادوں  اور دروں بینی کے اعجاز سے خو ب سماں باندھا ہے :

بیٹی انجیلا کے لیے ایک نظم

میری بیٹی! تم نے لالٹینوں  کے ماضی کو نہیں دیکھا

 جن میں ہر رات کوئی نہ کوئی عورت روشن ہوتی اور پھر بجھ جاتی ہے

 اور بجھی ہوئی عورت دوبارہ کبھی روشن نہیں ہوئی

  اگر کوئی بجھی ہوئی عورت دوبارہ روشن ہو جاتی تو محبت اس کے پیڑ اور اس کی پرچھائیوں کو ایک جا کر کے ایک نئی دنیا بنائی جا سکتی تھی

  میری بیٹی !ہر ندی کا انتظار کرتے ہوئے سمندر میں اتر جا

  سمندر میرا دل ہے اس دل میں  اس دل میں کچھ گھڑی رک کے ذرا دیکھو

کہ تجھ میں اب تک کتنا میں زندہ ہوں

اس سے پہلے کہ میں تیرے دیکھتے دیکھتے مر جاؤں

  سمندر میں اتر جا

 احمد ہمیش نے اپنی شاعری میں عالمی کلاسیک اور پاکستانی زبانوں کی کلاسیکی شاعری  کے معتبر حوالوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس کی ادبی فعالیت میں اس کا وسیع مطالعہ کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ کتابیں ہی اس کا چمن تھیں جن کی معطر فضاؤں میں اس نے زندگی بسر کی۔ اس نے اپنے دل کو سمندر قرار دے کر زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا ہے۔ اس وقت مجھے  حضرت سلطان باہو یاد آ گئے جنھوں نے اپنی صوفیانہ شاعری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ حضرت سلطان باہو نے کہا تھا :

دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو

وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ موہانے ہو

 ترجمہ

  دل کے دریا تو سمندر سے بھی گہرے ہیں کسے معلوم کہ دل کی کیا کیفیت ہے

 اسی میں کشتیاں ہیں اسی میں جھگڑے ہیں اسی میں چپو ہیں اسی میں ملاح ہیں

 پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات میں احمد ہمیش کی تخلیقات مسلسل شائع ہوتی رہیں۔  لاہور میں مبارک احمد اور اس کے ممتاز رفقائے کار نے احمد ہمیش کے نثری نظم کے بانی ہونے کے دعوے کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔ دونوں طرف سے اپنے اپنے موقف کی تائید میں دلائل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا اور ادب کے عام قاری کے لیے حقائق کی تہہ تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔ رام ریاض نے کہا تھا :

کس نے پہلا پتھر کاٹا پتھر کی بنیا د رکھی

عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے

اردو ادب کے بعض محققین کی رائے میں نثری نظم کو  فرانسیسی  ادیب بو دیلیر نے جب اظہار کا وسیلہ بنایا تو اس کے اثر سے اردو میں بھی یہ مروج و مقبول ہوئی۔ فرانس کے نامور علامت نگار ادیبوں نے اس صنف ادب کی پذیرائی کی۔ بودئیلر کا خیال تھا کہ عروضی جکڑ بندیاں ایک زیرک تخلیق کار کے اشہب قلم کی جولانیوں کی راہ میں حائل ہو کر آزادیِ اظہار کی راہیں مسدود کر دیتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اردو میں نثری نظم کے سوتے انگریزی  ادب سے پھوٹتے ہیں لیکن احمد ہمیش کا اصرار تھا کہ نثر ی نظم کے ابتدائی نقوش کی تلاش کے سلسلے میں سنسکرت ناٹک اور مقدس ویدوں پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (NAPA) کے لیے سنسکرت ناٹکوں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کے سلسلے میں احمد ہمیش کی خدمات کو فنون لطیفہ سے وابستہ حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ سنسکرت سے دلچسپی رکھنے والے محققین کا خیال ہے کہ نثری نظم کا خمیر سنسکرت  ہی سے اٹھا۔ اپنی عملی زندگی میں ناٹک اور ڈرامے سے احمد ہمیش کی دلچسپی اس کے  ذاتی عشق کی صورت اختیار کر گئی۔ اس  کی تخلیقات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے  سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جہاں تک مواد کا تعلق ہے اسے تو ایک اجتماعی شان کا حامل سمجھا جا سکتا ہے جسے معاشرتی زندگی کے مجموعی نشیب و فراز سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احمد ہمیش کے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے اسلوب کو ایک انفرادی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ احمد ہمیش کی شخصیت کے اہم پہلو اس کے اسلوب میں صاف دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے اسلوب کی اہم بات یہ ہے کہ اس کی  تخلیقات میں غیر ترقی پسند سوچ کا غلبہ ہے۔ اردو ادب میں 1936میں سامنے آنے والی ترقی پسند تحریک سے اس نے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اس عالم آب و گل کی زندگی اور اس کے نشیب  و فراز کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھا اور اپنے تجربات کو افسانوں اور ڈراموں میں اس مہارت سے پیرایۂ اظہار عطا کیا کہ قارئین ادب  زندگی کا یہ حیران کن تماشا دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ احمد ہمیش کی شخصیت کے متعدد روپ تھے لیکن ہر جگہ زندگی کو ایک تماشائی کی حیثیت ہی سے دیکھنا اس کا معمول تھا۔ طارق محمود میاں نے اپنے ایک اخباری کالم میں احمد ہمیش کی زندگی کے بدلتے رنگ، ڈرامہ نگاری  اور اس کی گل افشانیِ گفتار کے بارے میں لکھا ہے :

 ’’ ہم نے سنا ہے اسے عام زندگی میں بھی ڈرامہ کرنے کا شوق تھا۔ بے ضرر سے ڈرامے۔ فراق گورکھ پوری کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا اور سریندر پرکاش بھارت کے مشہور افسانہ نگار۔ وہ ضیا الحق کا دور تھا۔ کسی نے بتایا کہ قمر جمیل رمضان میں رگھو پتی سہائے اور احمد ہمیش سریندر پر کاش بن کر ہندوؤں کے ہو ٹل میں دو پہر کا کھانا کھاتے ہیں۔ ‘‘ (1)

 احمد ہمیش نے اپنی شاعری اور افسانہ نگاری کو جدید فکری اساس پر استوار کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کے اسلوب میں تجریدیت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ ان حالات میں ایک بے ترتیبی کی سی کیفیت ہے۔ اس کے علاوہ ایک ڈرامائی کیفیت بھی اسلوب میں جلوہ گر ہے جو قاری کے لیے مسرت اور استعجاب کا باعث ہیں۔ احمد ہمیش کے افسانوں کی تجریدیت اور ڈرامائی کیفیت قاری کو وادیِ  خیال میں مستانہ وار گھومنے والے اس تخلیق  کار کی زندگی کے کئی گوشوں کے بارے میں آگہی عطا کرتی ہے۔ احمد ہمیش کے اسلوب میں ہیئت، مواد اور تکنیک کا تنوع قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ ثابت ہو تا ہے۔ اس کے افسانے اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس کو خود نوشت سوانح عمری کے ایک باب کی شکل میں قاری کے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتے چلے جاتے ہیں۔ خود نوشت، افسانہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کے امتزاج سے احمد ہمیش اپنے اسلوب کو دھنک رنگ منظر نامہ میں بدل دیتا ہے۔

  ایک ادبی نشست میں سامعین اور نقادوں نے نثری نظم اور افسانے کی تجریدیت کو ہدف تنقید بنایا اور اسے سخت نا پسند کرتے ہوئے اس صنف اور اس  کے تخلیق کاروں کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے۔ اکثریت کی یہ رائے تھی کہ نثری نظم اور افسانے کی تجریدیت میں کوئی حسن دکھائی نہیں دیتا بل کہ ان کی بد وضع کیفیت  انھیں ادب سے بھی خارج کر دیتی ہے۔ احمد ہمیش نے نہایت تحمل سے یہ سب تنقید سنی۔ جب اسے اظہار خیال کا موقع ملا تو اس نے ناقدین سے مخاطب ہو کر کہا:

 ’’میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے کرائسٹ کی ایک تمثیل سنانا چاہتا ہوں۔ جیسس کرائسٹ کسی جنگل میں سے گزر رہے تھے تو انھوں نے کسی کتے کو مرا ہوا پایا۔ بڑا تعفن تھا۔ ایک حواری نے کہا اس کی کھال تو بالکل ادھڑ گئی ہے۔ دوسرے نے کہا اس کی آنکھیں ابل پڑ رہی ہیں۔ تیسرے حواری نے کہا اس میں تو کیڑے پڑ گئے ہیں لیکن کرائسٹ نے صرف ایک جملہ کہا : تم یہ تو دیکھو اس کے دانت چمک رہے ہیں۔ تو پہلے آپ وہ آنکھ پیدا کیجئے جو کرائسٹ کی آنکھ تھی۔ ‘‘ ( 2 )

  اپنی زندگی میں انسانیت کے وقار اورسر بلندی کو احمد ہمیش نے بہت اہمیت دی۔ اپنے کئی افسانوں میں احمد ہمیش نے اپنے منفرد تجربات سے اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا۔ اپنے تجربات، مشاہدات اور جذبات و احساسات کو تجریدی تکنیک  سے علامتی تکنیک  تک لے جانے کے سفر میں اس کی محنت قابل توجہ ہے وہ زندگی بھر پرورش لو ح و قلم میں مصروف رہا اور کبھی ستائش اور صلے کی تمنا نہ کی۔ اس نے جہاں بھی تجریدیت پر انحصار کیا ہے وہاں ترتیب عنقا ہوتی چلی گئی ہے اور ایک انوکھی کیفیت سامنے آتی ہے جس میں بکھرے ہوئے مظاہر اپنا ایک الگ اور منفر رنگ پیش کرتے ہیں۔ احمد ہمیش نے لفظ کی حرمت کو بہت اہمیت دی اور حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی۔ کسی سے مرعوب ہونا اس کے مزاج کے خلاف تھا۔ اس نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے لیے جد جہد کو اپنا شعار بنایا۔ اس نے لفظوں کو تمام رویوں اور تعلقات کا ایک معتبر حوالہ قرار دیا۔ اس کے قلب و روح، فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت کے ارتقا ئی مدارج کو سمجھنے کے لیے اسلوب اور الفاظ کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔  احمد ہمیش کی تصانیف درج ذیل ہیں :

 (1) مکھی (افسانوں کا پہلا مجموعہ ) یہ 1968 میں بھارت سے شائع ہوا۔ (2) کہانی مجھے لکھتی ہے (افسانوں کا دوسرا مجموعہ ) سال اشاعت، 1988، ہمیش نظمیں، سال اشاعت، 2005

 تخلیق فن کے لمحوں میں احمد ہمیش کی دلی تمنا یہ تھی کہ اس کے اسلوب میں چونکا دینے والا عنصر نمایاں رہے۔ اس کی خطر پسند طبیعت نے کبھی آسانیوں کی جستجونہ کی بل کہ  انتہائی کٹھن حالات میں بھی صبر و استقامت کا دامن تھام کر روشنی کا سفر جاری رکھا۔ اس کے آبائی گاؤں میں ہندی اور سنسکرت کی تعلیم پر کافی  توجہ دی جاتی تھی لیکن اردو کی تدریس کا خاطر خواہ انتظام نہ تھا۔ اس لیے اردو زبان میں مہارت حاصل کرنے کے سلسلے میں اسے بہت محنت کرنا پڑی۔ ہندی اور سنسکرت سے اس کی دلچسپی بچپن کی تعلیم کا ثمر ہے۔

 تجرید ی اسلوب میں تخلیق کار کی تاب نظارہ کو کلید ی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ احمد ہمیش نے نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں، بے ہنگم کیفیات اور تضادات کا تجزیہ کیا ہے۔ اس کے تجربات اور مشاہدات ہی اس کے فکر و فن کی اساس سمجھے جا سکتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو ہوس زر نے شدید ضعف پہنچایا ہے۔ مسلسل شکست دل کے باعث وہ بے حسی ہے کہ انسانیت کو درپیش مصائب و آلام پر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ احمد ہمیش کے افسانے ’’مکھی ‘‘میں تخلیق کار کی تاب نظارہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ معاشرے میں پائی جانے والی غلاظت  جہاں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اٹھ رہے ہوتے ہیں وہاں  جس طرح مکھی پلک جھپکتے میں پہنچ جاتی ہے، بالکل اسی طرح  ایک زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار سماجی اور معاشرتی قباحتوں اور غلاظتوں تک پہنچنے میں کوئی تامل نہیں کرتا۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی غلاظتوں کو احمد ہمیش نے جس انداز میں دیکھا ہے اسے فنی مہارت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے۔ تخلیق کار کی تاب نظارہ کی قوت اپنی جگہ درست لیکن اس افسانے میں مصنف نے رجائیت کو بارہ پتھر کر کے اسلوب کو  قنوطیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اس افسانے میں کہیں بھی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف گندگی اور غلاظت ہی غلاظت دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سماجی گندگی، معاشرتی گندگی ، سیاسی گندگی، شخصی، اجتماعی گندگی اور سب سے بڑھ کر ذہنی گندگی  شامل ہے۔ ان سب غلاظتوں اور گندگیوں کی عفونت کے باعث سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ تخلیق کار ایک مکھی کے مانند ان سب غلاظتوں تک پہنچ کر ان کی عفونت سے خبر دار کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک اجتماعی روئیے کو نمو پذیر کرنے کی سعی کرتا ہے جس سے اصلاح کی ایک موہوم سی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ احمد ہمیش کے افسانوں میں علامت کو ایک نفسیاتی کل کے روپ میں دیکھنا چاہیے۔ اس نے ان علامات کے ذریعے قاری کے لا شعور کی جملہ حرکت و حرارت کو متشکل کرنے کی سعی کی ہے۔ اس نے اپنی کہانیوں میں علامتی تکنیک کو رو بہ عمل لانے کی پوری کوشش کی ہے، مثال کے طور پر ’’کہانی مجھے لکھتی ہے ‘‘اور ’’پش اینڈ پل ‘‘ ایسی کہانیاں ہیں جن میں تخلیقی عمل کے دوران  علامتی تکنیک کو پورے سلیقے سے استعمال کیا گیا ہے۔ احمد ہمیش کا فن اس کے قلب اور روح کی کیفیات کو اس قدر مو ثر انداز میں زیب قرطاس کرتا ہے کہ قاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے اس نے قاری کو غور و فکر کرنے اور تحلیل و تجزیہ کو شعار بنانے کی  راہ دکھائی۔ اس نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت شعورو آگہی بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے مزاج کی شدت پر قابو نہ پا سکا اور خود کو جزیرۂ  جہلا میں گھر امحسوس کرنے لگا اس کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں کیوں کہ چاروں جانب ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقۂ صد کام نہنگ  موجود ہے۔ اس نے تہذیبی بقا کے لیے ادب کو اہم وسیلہ قرار دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ادب ہی تہذیبی اور ثقافتی  اقدار کا امین ہوتا ہے۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑے اقوام و ملل کے اقتدار اور با اثر افراد کے جاہ و جلال کو تو بہا لے جاتے  ہیں لیکن تہذیب کو دوام حاصل ہے۔ احمد ہمیش نے پاکستان کی نئی نسل کو تہذیبی میراث کی منتقلی کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔

 احمد ہمیش نے 1990میں ادبی مجلے ’’تشکیل ‘‘کی اشاعت کا آغاز کیا۔ کراچی سے شائع ہونے والے اس ادبی مجلے کو علمی و ادبی حلقوں میں بالعموم  متنازع سمجھا جاتا رہا۔ اس کے سرورق پر جو حروف درج ہوتے تھے وہ اس مجلے کی مجلس ادارت کے اصولوں کے آئینہ دار تھے۔ یہ الفاظ قاری کو چونکا دیتے تھے۔ تشکیل کی پیشانی پر درج یہ الفاظ ’’ اردو ادب کا شاک انگیز استعارہ ‘‘ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ اس مجلے کے اداریے اور بیش تر مضامین شاک انگیز ثابت ہوتے تھے۔  ان دنوں احمد ہمیش کی بیٹی انجیلا ہمیش ان کی معاونت پر مامور ہیں۔ مجلس ادارت نے جو تنقیدی معائر اپنائے ان کے بارے میں بھی تحفظات پائے جاتے تھے۔ ادبی مجلہ ’’  تشکیل‘‘ میں ادب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے اسلوب، افراد معاشرہ، رسوم و رواج  اور اداروں  پر تنقید کرتے ہوئے توازن و اعتدال کے بجائے شدت کے ساتھ ان شخصیات پر تنقید کی جاتی۔ احمد ہمیش نے اپنے مجلے کے اصولوں اور صحافتی انداز پر کی جانے والی کڑی تنقید اور شدید رد عمل کی کبھی پروا نہ کی۔ جس بات کو حق سمجھا اسے احاطۂ تحریر میں لانے سے کبھی گریز نہ کیا۔ احمد ہمیش کا خیال تھا کہ راہ راست سے بھٹک  جانے والے اور اقدار و روایات کو پامال کرنے والوں کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ تنقید محض تنقید نہ رہتی بل کہ ذاتیات پر شدید حملے کی صورت اختیار کر لیتی۔ مجلہ تشکیل اپنے حیران کن اسلوب، چونکا دینے والی تحریروں اور کڑی تنقید کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس کے پس پردہ احمد ہمیش کا دبنگ لہجہ قاری کے لیے اجنبی نہ تھا۔ ادبی مجلہ تشکیل کا یہ انداز ادب کے سنجیدہ  قارئین کے ذوق سلیم پر گراں گزرتا اور وہ اس ادبی کھٹ پٹ سے بچنے کی جھٹ پٹ  فکر کرتے۔

احمد ہمیش کی شخصیت، فنی تجربات، فکری منہاج، صحافتی معائر، اسلوب اور تخلیقی فعالیت زندگی بھرا اختلافات کے گرداب میں رہی۔ اسلوب ہو یا تخلیق ، شخصیت ہو یا رویہ ہر صورت میں احمد ہمیش کی زندگی میں سخت مقامات آتے رہے لیکن وہ پنے موقف پر قائم رہا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا  یہاں تک کہ احمد ہمیش بھی زینۂ  ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ اب احمد ہمیش کی شخصیت سے وابستہ تمام اختلافات ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اب مستقبل کا ادبی مورخ ان فکری اختلافات کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرے گا۔ احمد ہمیش کے ادبی منصب کا تعین اب مستقبل کے ادبی مورخ اور ادب کے طلبا کو کرنا ہے۔ ہم اپنے رفتگاں کو یاد کر کے اپنے دلوں کو ان کی حسین یادوں سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس راہ پر کمر باندھے ہم سب تیار بیٹھے ہیں۔  ہماری زندگی تو ریگ ساحل پہ لکھی وقت کی تحریر کے مانند ہے سیل زماں کی موجوں کے  ایک تند و تیز تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد زندگی کے سب سلسلے عنقا ہو جاتے ہیں۔ بہ قول مجروح سلطان پوری :

بے تیشۂ نظر نہ چلو راہ رفتگاں

ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح

٭٭

مآخذ

 (1) طارق محمود میاں : کالم ’’ اسرار  جاں  ‘‘، ’’ایک ٹیڑھا مگر میٹھا آدمی ‘‘روزنامہ ایکسپریس، لاہور، 12ستمبر 2013، صٖفحہ13۔

 ( 2)  ایضاً

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے