غزل ۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ

سپنے تو کجا، پوچھ کہ ہم سو بھی سکیں گے؟

مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟

ڈر تھا کہ وہ بچھڑا تو تبسم سے گئے ہم

کیا جانئے اِس ہجر میں اب رو بھی سکیں گے؟

کم مائیگیِ حرفِ تشکر مجھے بتلا

یہ قرض محبت کے ادا ہو بھی سکیں گے؟

اک بار کا اظہار، جو صد خونِ انا تھا

اُس داغِ تمنا کو کبھی دھو بھی سکیں گے؟

حاصل کی ہوا پالنے والے کبھی سوچیں

ایسی ہی سہولت سے اسے کھو بھی سکیں گے؟

جڑ سے تو اکھاڑیں گے چلو، بوڑھے شجر کو

ننھا سا نہال اس کی جگہ بو بھی سکیں گے؟

٭٭٭

4 thoughts on “غزل ۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ

  • غلطی پر غلطی ہو رہی ہے۔ اس پر بہت معذرت۔

    سپنے تو کجا، دیکھئے کیا سو بھی سکیں گے؟
    مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟

    ۔۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ ۔۔۔ آخری غزل ہے

  • میں بھی غلط نقل کر گیا

    معذرت ۔ درست متن یوں ہے۔

    سپنے تو کجا، دیکھئے کا سو بھی سکیں گے؟

    مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟

    ۔۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘ ۔۔۔ آخری غزل ہے۔

  • بہت آداب ۔۔ ایک درستی فرما لیجئے۔ مطلع یوں ہے ۔۔۔

    سپنے تو کجا، پوچھ کہ ہم سو بھی سکیں گے؟

    مانوس جدائی سے تری ہو بھی سکیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے