غزلیں ۔۔۔ بشارت گیلانی

غزلیں

               بشارت گیلانی

مشکل ہی کیا تھی جو کہتے سارا جھوٹ

تھوڑا تھوڑا سچ کہتے ہیں تھوڑا جھوٹ

کافر ہی ہے جو ایمان نہ لے آئے

یہ سادہ سا لہجہ اتنا پیارا جھوٹ

میخانے سے جاتے وقت اٹھا لینا

اپنا اپنا سچ اور اپنا اپنا جھوٹ

سچائی کا پیمانہ بن جاتا ہے

منبر کی رفعت سے آنے والا جھوٹ

جانے کتنی سچائیاں کھا جائے گا

دروازہ جو کھول گیا ہے پہلا جھوٹ

ترکِ تعلق کا بھی ایک سلیقہ ہے

بہتر تھا کہتے جاتے اچھا سا جھوٹ

٭٭٭

بشارت گیلانی

               بشارت گیلانی

    شکوہ تو کوئی کیا ہی کب تھا

    بس حال کا پوچھنا غضب تھا

    کچھ ہم بھی نئے تھے میکدے میں

    کچھ وہ بھی مزاج کا عجب تھا

    واعظ کے خطاب سے یہ جانا

    بے جا تھا ذرا بھی جو ادب تھا

    فرصت جو نہ تھی وہاں کسی کو

    یاں کون سا کوئی جاں بلب تھا

    اک یاد تھی مثلِ ماہِ کامل

    اور عرصۂ عمر مثلِ شب تھا

    واں اور نصاب تھا وفا کا

    اپنا ہی ملال بے سبب تھا

٭٭٭

جھیل آنکھوں میں شفق اتارے ملنا

شام ڈھلے پھر جام کنارے ملنا

طول گرفتہ لگتا ہے افسانہ

رات کسی کا زلف سنوارے ملنا

دنیا داری تو رکھنی پڑتی ہے

سب ملتے ہیں ، تم بھی بارے ملنا

ویسا خوش منظر گر مل بھی جائے

مشکل ہیں وہ عنصر سارے ملنا

شکووں کے سائے میں ہی سستا لیں

جانے پھر کب کس کو پیارے ملنا

اب تعبیر گزیدہ آنکھوں میں کیوں

دن میں خواب اور رات کو تارے ملنا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے