غزل
ظہور احمد فاتح
انوکھی سی شرارت ہو گئی ہے
ہمیں تم سے محبت ہو گئی ہے
نہ جانے کیا کرامت ہو گئی ہے
انہیں ہم سے اُلفت ہو گئی ہے
ستم گر ہو اگر تم تو ہمیں بھی
ستم سہنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑا ہے تجربہ دُکھ جھیلنے کا
مصائب کی ریاضت ہو گئی ہے
میرے غمخوار مجھ سے مل کے روئے
نماز با جماعت ہو گئی ہے
تمہارا حُسن ہے مثلِ قیامت
جوانی اور آفت ہو گئی ہے
زباں پہ حرفِ مطلب آ گیا ہے
عجب ہم سے حماقت ہو گئی ہے
ہنسیں بھی تو چھلک پڑتے ہیں آنسو
ہماری اب یہ حالت ہو گئی ہے
یہ آنسو ہیں خلافِ راز داری
یہ لگتا ہے خیانت ہو گئی ہے
سجے بزمِ ادب امروز فاتح
بہم تھوڑی سی فرصت ہو گئی ہے
٭٭٭