غزلیں
جلیل حیدر لاشاری
بند کر بیٹھے ہو گھر ردِ بلا کی خاطر؟
ایک کھڑکی تو کھُلی رکھتے ہوا کی خاطر!
بھینٹ چڑھتے رہے ہر دور میں اِنساں کتنے
فردِ واحد کی فقط جھوٹی انا کی خاطر
ہر زَبردست کا ہر ظُلم سہا ہے میں نے
زندگی محض تیری حِرصِ بقا کی خاطر
ڈر جہنم کا نہ جنت کی ہوس ہے مُجھ کو
سَر جھکایا ہے فقط تیری رضا کی خاطر
میں سیہ بخت جسے مار کے اپنوں نے جلیل
غیر کو دوش دیا خون بہا کی خاطر
٭٭٭
خواب مرتے نہ کوئی یاس کا پہلو ہوتا
رہتا دشوار، مسخر نہ کبھی تُو ہوتا !
وہ تو پانی تھا جو آنکھوں سے ہے چھلکا یونہی
درد بن کر نہ ٹھہر جاتا جو آنسو ہوتا ؟
اتنے سورج تھے کہ کھو بیٹھا ہوں بینائی بھی
اس سے بہتر تھا کہ رہبر میرا جگنو ہوتا !!
اب تو قاتل کو بھی دعویٰ ہے مسیحائی کا
کاش سینے میں مرے دل نہ کبھی تُو ہوتا
اِک دیا گھر کے بھی باہر تُو جلا لیتا اگر
نہ اندھیرا یونہی پھیلا ہوا ہر سُو ہوتا
٭٭٭
میں پھول جنگلوں کا کبھی کھل نہ پاؤں گھر
جاں کی امان پاؤں تو میں لوٹ جاؤں گھر
دریا کو بیر تھا میرے کچے مکان سے
مجھ کو بھی تھی یہ ضد لبِ دریا بناؤں گھر
میں بھی عجب ہوں شخص کہ گھر بھی میرا لٹے
اور میں ہی احتجاج میں اپنا جلاؤں گھر
اجڑا ہوا ہے کب سے یہ گھر بھی مری طرح
تو آئے جو کبھی تو میں اپنا سجاؤں گھر
اب جبکہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں
اور تم بھی کہہ رہے ہو کہ میں لو ٹ جاؤں گھر
کچے مکان اور نہ جنگل کہیں رہے
چڑیا یہ پوچھتی کہاں لے کے جاؤں گھر؟
٭٭٭