سید محمد ضامن کنتوری … مختصر تعارف ۔۔ اشرف رفیع

سید محمد ضامن کنتوری … مختصر تعارف

               پروفیسر اشرف رفیع

سید محمد ضامن کنتور کے ضلع بارہ بنکی میں ۲۵ جنوری ۱۸۷۵ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد کاظم حبیب کنتوری خود بھی شاعر تھے۔ ناسخ کے شاگرد میر لطف اللہ قدرؔ سے تلمذ حاصل رہا۔ ان کے بعد آغا سید عتیق شاگرد ناسخ سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ ان کے کئی شاگرد تھے۔ حیدرآباد میں جن شاگردوں نے نام کمایا ان میں غلام دستگیر ابر،۔ سر مد دکن احمد حسین امجد حیدرآبادی، صاحبزادہ میر معین الدین علی خاں شاب، محمد عبداللہ خاں فروغ، میر عبدالرؤف شوق صاحبزادہ میر اشرف علی خاں مدہوش کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ سید محمد ضامن نے بھی اپنے والد ہی سے درس سخن لیا۔ ضامن تیرہ سال کے تھے۔ اپنے والد حبیب کنتوری کے ساتھ ۱۸۸۳ میں حیدرآباد آئے۔ اس لحاظ سے ضامن کنتوری کی تصویر کے نیچے لکھی گئی تاریخ پیدائش جو اوپر نوٹ کی گئی ہے غلط معلوم ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا تاریخ ِ پیدائش خود ضامن کے خود نوشت سے نقل کی گئی مگر ’’حیدرآباد کے شاعر‘‘ جلد دوم میں سید محمد ضامن کی تاریخ ِ پیدائش ۶۔ ذالحجہ ۱۲۹۰ہجری دی گئی ہے۔ (مرتبہ سلیمان اریب ساہتیہ اکیڈمی آندھراپردیش مارچ ۱۹۶۲) جو صحیح معلوم ہوتی ہے اور ضامن کا یہ کہنا کہ وہ ’’تیرہ سال کی عمر میں ۱۸۸۳ میں حیدرآباد آئے‘‘ سے مطابقت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ حیدرآباد آنے کے بعد مدرسہ اسلامیہ سکندرآباد سے اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ وہاں حسرت موہانی ان کے ہم درس تھے۔ شاعری تو ورثے میں ملی ہی تھی علی گڑھ کی علمی و ادبی محفلوں اور خصوصیت سے حسرت موہانی کی صحبتوں سے لکھنے لکھانے اور شاعری کے ذوق کو جلا ملی۔ انٹرنس وہیں سے پاس کیا۔ حسرت نے صحافت کی طرف راغب کیا تو ۱۹۰۲ میں رسالہ لسان العصر نکالا۔ حیدرآباد آنے کے بعد ۱۹۲۳ء سے ایک ماہ نامہ لسان الملک جاری کیا جو زیادہ نہ چل سکا۔ اس سے قبل رائے بریلی سے ۱۹۱۰ء میں ایک ماہ نامہ استبصار جاری کیا تھا۔ یہ رسالہ بھی زیادہ چل نہ سکا۔ صحافت کا میدان انھیں راس نہ آیا۔ انگریزی میں بڑی اچھی استعداد تھی۔ ریاست ِ حیدرآباد میں آصف سابع کے بگی خانہ میں وہ انگریزی کے مترجم رہے۔ انگریزی ادب کا مطالعہ بھی خاص وسیع تھا۔ ان کا شعری مجموعہ ’’ارمغانِ فرنگ‘‘ انگریزی کے مشہور شعرا کی نظمموں کا ترجمہ ہے جس میں شاعروں کے مختصر حالاتِ زندگی بھی درج ہیں۔ کتاب کے آخر میں ضامن کی بھی کچھ نظمیں شامل ہیں۔ یہ مطبع شمسی حیدرآباد دکن سے بہ اہتمام محمد ابراہیم خاں اکبرآبادی شائع ہوا۔ اپنے دیباچے میں ضامن کنتوری نے اپنی کتاب کے بارے میں ’’اپنے رنگ کی پہلی تصنیف‘‘ لکھا ہے۔ ان نظموں کے علاوہ ٹینی سن کی ایک نظم کا ترجمہ ’’شہید ِ وفا‘‘ کے نام سے نوسو سے زیادہ اشعار میں کیا ہے اور گولڈ اسمتھ کی نظم ٹراولر کا ترجمہ ’’آوارۂ وطن‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی و فارسیادبیات کا بھی مطالعہ گہرا تھا۔ شعر فہمی اور سخن سنجی بچپن کا مشغلہ تھا۔ شاعری کے ساتھ ساتھ علم عروض و قوافی میں والد کی رہنمائی حاصل تھی۔ اردو کے علاوہ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ نیرنگ مقال (کلیاتِ اردو)، ارتنگ خیال (دیوانِ فارسی)، بالک پھلواری (بچوں کی نظمیں ) ہفت اختر (تہنیتی ہفت ہند، آصف سادس کے جشن سیمیں کے موقع پر ۱۹۳۶ء میں پیش کیا گیا) ۷۲ بند کے ایک مرثیہ کے علاوہ نثر میں عبرت کدہ سندھ (تاریخ) طریق سعادت، قواعد کنتوری (دو جلدوں میں ) انساب سلاطین مغلیہ وغیرہ ان کا وسیع سرمایہ ٔ فکر و فن ہے۔

ضامن کنتوری کی شرحِ دیوان غالب سے قبل مندرجہ ذیل شرحیں وجود میں آ چکی تھیں :

وثوق صراحت از عبد العلی والہ ۱۸۹۳، حل کلیات اردو مرزا غالب دہلوی از ابو ادریس احمد حسین، شوکت میرٹھی ۱۸۹۹، شرحِ دیوانِ غالب از علی حیدر نظم طباطبائی، وجدانِ تحقیق از محمد عبد الواجد ۱۹۰۲ مکمل شرحِ دیوانِ غالب از عبدالباری آسی ۱۹۳۱ء وغیرہ۔ متذکرہ بالا شرحوں سے صرف عبدالباری آسی نے نسخہ ٔ حمیدیہ کو شامل کرتے ہوئے جو مکمل شرحِ کلامِ غالب ۱۹۳۱ء میں لکھی وہ مکمل نہیں ہے۔ مگر ضامن کنتوری کی یہ شرح جو ۲۵ دسمبر ۱۹۳۴ء کو مکمل ہوئی ستہتر سل گزرنے کے باوجود ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ اس شرح کا تعارف سب سے پہلے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین شکیب نے ۱۹۶۹ میں اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’’غالب اور حیدرآباد‘‘ میں کروایا تھا۔ ضامن کے ایک مضمون ’’غالب اور بیدل‘‘ سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ مذکورہ مضمون انھوں نے نسخہ ٔ حمیدیہ کی اشاعت سے پہلے لکھا تھا اور جب یہ مضمون ختم ہوا تو طویل حاشیوں کا اضافہ کیا۔

ضامن کنتوری نے تفہیم و تشریح کا بارِ گراں خود اٹھایا ہے۔ اکثر اشعار کی تشریح کئی صفحات پر محیط ہے۔ مختلف زاویوں سے مطالب شعری کی گرہیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ پھر اپنی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ بعض اشعار کی شرح میں سخن فہمی کا بوجھ قاری پر ڈال دیا ہے۔ مثلاً:

زلف ِ سیہ افعی نظر بد قلمی ہے

ہر چند خط سبز و زمرد رقمی ہے

کی شرح میں لکھتے ہیں ’’اس شعر کے الفاظ نہایت قیمتی اور چمک دار ہیں لیکن ان میں باہم کیا ربط ہے اور معنی شعر کے کیا ہیں اسے سمجھنے والے ہی سمجھیں گے۔ ‘‘ کئی  مقامات پر شرح کرنے کے ساتھ ساتھ مشروحہ شعر کے ہم معنی اشعار فارسی کے معروف شاعروں کے کلام سے نقل کیے ہیں تاکہ شعر کی تفہیم میں آسانی ہو اور فارسی کا ذہن وسعت پا سکے۔ ان شاعروں میں نظیری، عرفی، خاقانی  قاآنی، بلخی، سعدی، حافظ اور مولانا روم و بیدل سے استفادہ کیا ہے جہاں بہ طور دلیل مثال یا برائے مزید فارسی اشعار لائے ہیں۔ بیش تر مقامات پر ان کا ترجمہ بھی کردیا ہے۔ بعض مقامات پر صرف اشعار ہی لکھ دیئے ہیں ، ترجمہ نہیں کیا ہے۔

فارسی میں شرح نویسی کی جو طاقت ور روایت کارفرما رہ چکی ہے وہ کثیر الجہات تھی۔ یعنی شرح لکھنے والا شعر کا مفہوم لکھنے کے ساتھ اس شعر سے متعلق ضروری نکات بھی لکھتا جاتا تھا۔ یہی انداز اس شرح کا بھی ہے۔ اشعار کی شرح کے ذیل میں زبان و بیان محاورۂ دلی و لکھنو بلاغت و فصاحت، عروض و قافیہ فلسفہ و منطق کے بہت سے مسائل بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً اس شعر میں :

بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں گزر نہ کر

ہر ذرے کی نقاب میں دل بے قرار ہے

’’نقاب‘‘ کی تذکیر و تانیث میں لکھنو اور دلی کے فرق کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’نقاب‘‘ کو چاہئے مونث پڑھیے یا مذکر اس لیے کہ لکھنو میں تانیث اور دہلی میں اب بھی بہ تذکیر بولتے ہیں۔ آگے چل کر شرح کے ختم پر کہتے ہیں ’’بے پردہ کا لفظ اس شعر میں محض نقاب کی رعایت سے استعمال ہوا ہے لیکن بے محل ہے ‘‘مآل اچھا ہے، سال اچھا ہے والی غزل کے ایک شعر میں تنافر لفظی کی شکایت اس طرح کی ہے:

ہم سخن تیشہ نے فرہاد کو شیریں سے کیا

جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے

شرح میں لکھتے ہیں ’’صاف شعر ہے، مصرع ثانی میں تین کاف  کا   کہ    کسی   یکجا ہو گئے ہیں۔ نظم نے تو پہلے مصرع کو گنجلک قرار دیا ہے اور دوسرے میں تنافر کی نشان دہی کی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ دونوں مصرعوں میں لفظ بھی خوب نہیں اور مضمون بھی کچھ نہیں۔ ‘‘

ضامن کنوری نے اس کی پوری کوشش کی ہے کہ ہر شعر کو زندگی کی تجربہ گاہ میں میں لا کے دیکھیں۔ مبالغہ آمیز اور پیش پا افتادہ تجربات، لایعنی اشعار پر انھوں نے صاف اعتراض کر دیا ہے۔ غالب کے اس مشہور شعر پر انھوں نے بڑی سخت تنقید کی ہے:

پلا دے اوک سے ساقی جو مجھ سے نفرت ہے

پیالا گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

’بہرحال یہ شعر کہنے کا نہیں تھا اور نہ اسے شعر کہہ سکتے ہیں ہاں نظم واقعہ ہے۔ ایک اور شعر میں جس کی شرح میں وہ غالب پر اعتراض کرتے ہیں۔ شعر ہے:

نہ پوچھ حال، شب و روز ہجر کا غالبؔ

خیال زلف و رخ دوست صبح و شام رہا

شرح میں لکھتے ہیں : ’’زلف و رخ کو شب و روز سے تشبیہ دینا مقصود ہے‘ آگے اعتراضاً کہتے ہیں ’’اور یہ تشبیہ درجہ ابتذال کو پہنچ گئی ہے یعنی تشبیہ کے اس گئے گزرے معیار کی وہ غالب سے توقع نہیں رکھتے۔ اس لیے اس کی مزید تشریح کی زحمت بھی نہیں کی۔ اس کے برخلاف ضامن نے غالب ؔ کے ایسے اشعار کو ابتذل نہیں کہا ہے جن کو دیگر شارحین نے ابتذال ٹھہرایا ہے۔

ضامن کنواری کی یہ شرح پانچ نوٹ بکس کے ۱۶۸۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ صفحہ ٔ اول پر ’’پیش حرف‘‘ ہے۔ پیش حرف ختم ہونے کے بعد آخری سطر کے سیدھی جانب حاشیہ میں (۱۳۵۳ہجری) نہایت ہی خفی قلم سے لکھا گیا ہے۔ اس کے بعد ۹ صفحات سادہ ہیں۔ دسویں صفحے سے شرحِ دیوان غالب کا آغاز ہوتا ہے۔ یہیں سے صفحہ اندازی بھی کی گئی ہے۔ صفحہ نمبر ایک جہاں سے شروع ہوتا ہے اس کی جبیں پر ’’بنام ایزد‘‘ لکھا ہے۔ پہلی جلد میں جملہ ۳۶۸ صفحات ہیں۔ یہ جلد ردیف ’ت‘ کی غزل رہا گر کوئی تا قیامت سلامت‘‘ کے مقطع:

رہے غالب خستہ مغلوب گردوں

یہ کیا بے نیازی ہے حضرت سلامت

اس کے بعد ایک فرد :

مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب

 کی تشریح پر یہ جلد اختتام کو پہنچتی ہے۔ دوسری جلد ۳۷۶ صفحات کی ہے جو ۷۴۶ صفحات پر ختم ہے۔

٭٭٭

معاصر ’منصف‘ حیدر آباد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے