غزل
عالم خورشید
حضور! خوب ہیں یہ عجز و انکسار کے رنگ
چڑھے نہیں ہیں ابھی ان پہ اختیار کے رنگ
چلیں ! اب آپ کے بھی رنگ دیکھ لیتے ہیں
اگر چہ دیکھے بہت ہم نے اقتدار کے رنگ
کبھی خیال بھی آیا جناب جیسوں کو
جو بے قرار ہیں ان کو ملیں قرار کے رنگ
ہوا یہ کس نے چلائی کوئی بتائے گا
کہ زرد زرد ہوئے سارے شاخسار کے رنگ
دکھائی دیتے ہیں کیا آپ کو ہماری طرح
کلی کلی میں دمکتے ہوئے شرار کے رنگ
ہماری سادہ دلی کو دعائیں دو صاحب!
کہ ہم خزاں سے طلب کرتے ہیں بہار کے رنگ
خدا کرے کہ حقیقت میں بھی نظر آئیں
قرارداد میں شامل سبھی قرار کے رنگ
٭٭٭