سوچو کچھ ہوتا کچھ ہے
کچھ نہیں یہ سب یا کچھ ہے
سب کچھ اچھا ہے لیکن
اس سے بھی اچھا کچھ ہے
لوگ سمجھتے ہیں کچھ اور
دنیا میں ہوتا کچھ ہے
آؤ بدل لیں آپس میں
میرا کچھ تیرا کچھ ہے
کاش دکھا سکتے سب کو
آنکھوں نے دیکھا کچھ ہے
کون نظاروں کو بدلے
رہنے دو جیسا کچھ ہے
٭٭٭
گلاب کھل نہیں سکتے اگر صبا نہ چلے
دعا کرو کہ مخالف کوئی ہوا نہ چلے
خود اپنے گھر میں رہیں مطمئن تو کیا کہنا
پرائے گھر پہ چلے اختیار یا نہ چلے
وہی نگاہ جو دم بھر میں فیصلہ کر دے
وہ گفتگو ہی نہیں جس کا سلسلہ نہ چلے
ہم اپنی راہ قدم ناپ کر نہیں چلتے
ہمارے ساتھ کوئی فاصلہ نما نہ چلے
سجاتے رہتے ہیں ہم اپنے شعر کو مدحت
یہی ہے فکر کہ یہ کھیل بے مزہ نہ چلے
٭٭٭
یقیں کا حاصل مطلب گماں بھی ہوتا ہے
مگر یہ نکتۂ نازک نہاں بھی ہوتا ہے
اسے تلاش کروں وہ اگر اجازت دے
کہ دل میں گوشۂ امن و اماں بھی ہوتا ہے
ہم اپنی ذات میں رہتے تو ہیں اسیر مگر
ہمارے سر پہ کھلا آسماں بھی ہوتا ہے
بھٹک کے آ تو گئے ہیں ترے دیار میں ہم
یہ دیکھنا ہے کوئی مہرباں بھی ہوتا ہے
تم اپنے گھر میں رہو شوق سے مگر مدحت
رہے خیال کہ گھر میں مکاں بھی ہوتا ہے
٭٭٭
موت سب سے بڑا سوال ہے کیوں
زندگی کے لیے وبال ہے کیوں
وقت کو موت کیوں نہیں آتی
عمر پابند ماہ و سال ہے کیوں
جب جدائی ہی زندگی ٹھہری
دل میں پھر خواہش وصال ہے کیوں
بات کرنا سبھی کو آتا ہے
منحصر ہم پہ عرض حال ہے کیوں
برف جیسی یہ زندگی مدحت
ایک جلتا ہوا سوال ہے کیوں
٭٭٭
دو چار روز میں نظر آئے گا جو بھی ہو
الزام پھر ہمارے سر آئے گا جو بھی ہو
دل بیچ کر خرید ہی لائے ہیں جان ہم
آتے ہی آتے کچھ صبر آئے گا جو بھی ہو
دشمن کو قتل تم کرو یا وہ کرے تمھیں
اس سانحے پہ دل تو بھر آئے گا جو بھی ہو
آرام کی ہی لت ہے دلِ نابکار کو
رستے میں موت کا شجر آئے گا جو بھی ہو
تم نے جو کہہ دیا ہے کہ مر جاؤ عشق میں
یہ کام وہ ضرور کر آئے گا جو بھی ہو
پیدا ہوا ہے جو وہ فنا ہو گا ایک دن
اس وسوسے میں ہر بشر آئے گا جو بھی ہو
میں نے اسے جو دعوت شب دی ہے دیکھنا
ضد میں مری دمِ سحر آئے گا جو بھی ہو
ہے آج قیدِ سنگ میں بے حس پڑا ہوا
کل رقص میں یہی شرر آئے گا جو بھی ہو
جانا نہ تھا اسے مری ضد میں چلا گیا
آنا نہیں اسے مگر آئے گا جو بھی ہو
٭٭٭
مدحت الاختر کی مزید شاعری کے لئے دیکھئے ان کا نیا مجموعہ ’ارتباط‘