خطہ کشمیر کے عظیم سپوت۔ ۔ محمود ہاشمی
یعقوب نظامی
آخر محمود ہاشمی بھی اس جہاں سے رخصت ہو گئے۔ ۔ ہاشمی صاحب سے میری رفاقت کوئی بائیس سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ ۔ آج جب میں بیتے دنوں کو یاد کرتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہے جب میں ادبی دنیا میں قدم رکھنے کی خاطر۔ ۔ ادب کا الف۔ ۔ ب۔ ۔ کا قاعدہ بغل میں دبائے دبستان ادب کے دروازے پر پہنچا تو خوش قسمتی سے جس شخصیت سے میری پہلی ملاقات ہوئی وہ محمود ہاشمی تھے۔ ۔ ہاشمی صاحب انتہائی سمارٹ ، خوش لباس ، خوش مزاج ، خوش اخلاق، مناسب قد و کاٹ ، خشخاشی داڑھی ، بائیں طرف نکلی سفید ریشمی بالوں کی مانگ ، روشن آنکھیں جن پر موٹے شیشوں کی عینک، چہرے سے ٹپکتی ذہانت ، عجز و انکساری کا مجسم۔ ۔ اور ایک روشن خیال انسان تھے۔
میری ملاقات سے پچاس سال پہلے انہوں نے اردو کا سب سے خوبصورت رپورتاژ۔ ۔ کشمیر اُداس ہے۔ ۔ لکھا۔ ۔ یہی تخلیق ہاشمی صاحب کی ادبی شہرت کا سبب کچھ اس طرح بنی کہ تخلیق اور تخلیق کار دونوں ایک دوسرے کی پہچان بنے۔ ۔ کشمیر اُداس ہے کی شہرت اور نشہ نے ہاشمی صاحب کو اس طرح اپنی گرفت میں لیا کہ پھر ساٹھ سال تک ان کی کوئی اور کتاب منظر پر نہ آ سکی البتہ کشمیر اُداس کا دوسرا ایڈیشن پچاس سال بعد کچھ اضافوں کے ساتھ شائع ہوا۔ اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ اُن کے ہاں تخلیق کا عمل رک گیا تھا۔ ۔ بلکہ یہ عمل جاری رہا۔ ۔ لیکن۔ ۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ ۔ چنانچہ غم زمانہ سے نبٹنے کی خاطر ہاشمی صاحب نے سات اپریل 1961میں لندن سے ’’مشرق‘‘ کا اجرا کیا۔ ۔ ’’ مشرق ‘‘ نے یکم اپریل کو شائع ہونا تھا لیکن’’ فرسٹ اپریل فول ‘‘کے ڈر سے اسے ایک ہفتہ ملتوی کیا۔ ۔ ’’مشرق‘‘ ہفت روزہ تھا اور اسے برطانیہ کی سرزمیں پر شائع ہونے والے پہلے اردو اخبار کا اعزاز حاصل ہوا۔ ساٹھ کی دہائی میں برصغیر سے مزدور برطانیہ آرہے تھے جن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو لکھ اور پڑھ نہیں سکتے تھے۔ ۔ یہ لوگ برطانیہ آتے اور مختلف شہروں میں آباد ہوتے گئے۔ ۔ ذرائع ابلاغ کی کمی کے پیش نظر ان کے آپس کے رشتے کمزور ہوتے نظر آئے تو ہاشمی صاحب اپنے قلم کو لیکر میدان میں نکلے تو لوگوں کے دیار غیر میں مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے۔ ۔ لوگوں نے اس اخبار کا کھلے دل سے استقبال کیا۔ بقول ہاشمی صاحب۔ ۔ لوگ اس اخبار کا اس شدت سے انتظار کرتے تھے جس طرح وطن عزیز سے آنے والے خط کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ۔ اس اخبار میں جہاں مقامی خبریں شائع ہوتیں وہاں برصغیر کی خبریں ، تبصرے اور تخلیقی کام شائع ہونے لگا۔ ۔ تھوڑے عرصہ میں ’’مشرق‘‘ نے برطانیہ میں اس طرح دھوم مچائی۔ ۔ کہ اخباربلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے لگا۔ یہ مشرق کاہی کمال تھا جس نے لوگوں کے اندر سوئے ہوئے لیڈر، شاعر ، افسانہ نویس کو جگایا۔ ۔ اور پھر مختلف شہروں میں بہت سے ایسے صحافیوں کی کھیپ تیار کی جنہوں نے بعد میں برطانیہ کے مختلف اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ میں بہت ہی نمایاں کام کیے بلکہ اب بھی کر رہے ہیں۔ ۔ محمود ہاشمی نے برطانیہ میں صحافت کا جو پودا لگایا تھا وہ آج توانا ہو چکا ہے۔ ۔ بلکہ آج برطانیہ سے اردو کے دو روزنامے اور کئی ہفت روزے شائع ہو رہے ہیں اسی سبب سے ہاشمی صاحب کو صحافتی دنیا۔ ۔ بابائے صحافت۔ ۔ کے نام سے بھی یاد کرتی ہے۔
مشرق کے زمانے میں ہاشمی صاحب لندن کے ایک جدید علاقے میں رہتے تھے۔ جہاں فالتو وقت میں گلف کھیلتے اور برطانوی اپر کلاس سوسائٹی کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ ان کی طلسماتی شخصیت کا کمال تھا کہ لوگ انہیں ٹھہر کر آنکھ بھر کے دیکھتے اور ان کی شخصیت سے متاثر ہوتے تھے۔ ۔ پھر ہاشمی صاحب دس سال تک مشرق کے عشق میں مبتلا رہنے کے بعد اچانک اس شعبہ سے الگ ہو کر اپنے اندر کے سوئے ہوئے استاد کی تسکین دینے کے کام کا آغاز کیا۔ ۔ بظاہر یہ عجیب نظر آتا ہے کہ ایک آدمی شہرت کی زندگی چھوڑ کر گمنامی اختیار کر لے۔ ۔ لیکن یہ عشق کی بات تھی اور عشق کا بھوت جب سرچڑھ بولے تو پھر انسان کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ۔ اب ہاشمی صاحب نے برطانیہ میں اردو تدریس کے ساتھ عشق کا ڈول ڈالا۔ ۔ تو برطانیہ کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے اردو کے قاعدے لکھنے شروع کیے۔ ۔ یہ قاعدے مروجہ طریقہ سے ہٹ کر کچھ اس انداز میں لکھے کہ اردو پڑھنے اور پڑھانے والوں کی معاونت کے لئے چھ کتابوں پر مشتمل ایک مکمل سیٹ لکھا۔ ۔ جب یہ قاعدے لکھے جا چکے تو اُس زمانے میں بریڈفورڈ کونسل کے شعبہ تعلیم میں محمد اکرم چیمہ چیف انسپکٹر کے عہدہ پر براجمان تھے۔ ۔ جنہوں نے یہ قاعدے بریڈفورڈ سٹی کونسل کے زیر اہتمام شائع کیے۔ ۔ ہاشمی صاحب مجھے بتایا کرتے تھے کہ قاعدے لکھنے کے دوران میں اس کام میں اس قدر محو تھا کہ مجھے کسی اور کام کی سدھ بد نہیں تھی۔ ۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھے مجھے یہی خیالات گھیرے رکھتے تھے کہ قاعدوں کو کس طرح بہتر سے بہتر اور سود مند بنایا جا سکے۔ کشمیر اُداس ہے اور مشرق کی طرح ان قاعدوں نے بھی برطانیہ بلکہ پاکستان میں بھی شہرت پائی۔
جب میری ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوئی تب یہ۔ ۔ ممتاز۔ ۔ کشمیر اُداس ہے۔ ۔ مشرق۔ ۔ اور قاعدوں کے عشق سے نکل کر برطانیہ کے ادبی منظرنامہ کے عشق میں مبتلا ہوچکے تھے۔ اُن دنوں یہ برطانیہ کے شعراء ، افسانہ نویسوں اور ادبیوں کی تخلیقات کا تنقیدی جائزہ لے رہے تھے۔ ان کی ذاتی لائبریری اور لکھنے والی میز پر برطانیہ کے شعرا ء کی تخلیقات ہر طرح بکھری نظر آتی تھیں۔ ۔ چنانچہ ہاشمی صاحب کی معرفت مجھے برطانیہ کے ادبی منظر سے نہ صرف واقفیت ہوئی بلکہ اُن کتابوں اور اُن پر ہاشمی صاحب کے تبصرے سب سے پہلے پڑھنے بلکہ ہاشمی صاحب کی زبانی سننے کا موقع ملا۔ ۔ ان کی نثر انتہائی سادہ، سلیس اور شستہ و رفتہ ہے۔ جس میں چھوٹے چھوٹے فقرے ، جن میں کمال کی بلاغت ، گہرائی ، بلا کی کاٹ اور طنز ہے۔ ۔ تحریر اس قدر سکہ بند اور چست ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف ناممکن ہے۔ ۔ زندگی کے آخری دور میں ہاشمی صاحب نے چند شعر بھی لکھے۔ اُن کا ایک شعر ہے:
چاہتا ہوں اب بلا لے پاس اپنے تو مجھے
میں ندامت سے تجھے دیکھا کروں اور تو مجھے
ایک زمانے میں ہاشمی صاحب۔ ۔ ثریا نامی اپنی ایک بھانجی کے ہاں ایکرنگٹن میں رہتے تھے۔ ۔ چنانچہ میں ہرہفتے ان کے ہاں حاضر ہوتا جہاں پورا پورا دن ان کی تخلیقات اور برطانیہ کے ادبی منظرنامہ پر گفتگو ہوتی۔ ۔ ساتھ ساتھ ہاشمی صاحب ایک مخصوص انداز میں میری اصلاح اور ایک دلنشین انداز میں مجھے سکھاتے بھی رہتے تھے۔ ۔ یوں میرا اور اُن کا ایک استاد اور شاگرد کا رشتہ استوار ہوا۔ ۔ جسے ہم دونوں نے بہت خوبصورتی سے نبھایا۔ ۔ بعض اوقات میں انہیں ساتھ لیکر اپنے گھر بریڈفورڈ لے جاتا جہاں یہ میرے ہاں قیام کرتے اور بریڈفورڈ کے علمی و ادبی دوست و احباب سے ملاقاتیں اور اُن کی دعوتوں میں شریک ہوتے۔ ۔ اپنے ہم عصر احباب سے مل کر اُن کے چہرے پر بڑی تازگی اور مسرت نظر آتی تھی۔ ۔ کبھی یہ مقصود الٰہی شیخ کے ہاں مدعو ہوتے تو کبھی رشید احمد ڈار کے ہاں۔ ۔ کبھی ہمایوں مرزا کے ہاں محفل جمتی تو کبھی اشتیاق میر کے۔ ۔ کبھی ڈاکٹر صفات علوی کے ہاں ساقی فاروقی سے ملاقات ہوتی تو کبھی میرے ہاں ڈاکٹر شوکت واسطی سے۔ ۔ اسطرح مجھے ہاشمی صاحب اور اُن کے دوست و احباب سے بھی ملاقاتوں کا موقع ملتا رہا۔ ۔ مجھے ہاشمی صاحب کی میٹھی رس بھری باتوں کے ساتھ اُن کے ہم عصر ادیبوں اور ممتاز شخصیتوں جن میں۔ ۔ ممتاز مفتی ، قدرت اللہ شہاب ، ابن انشاء، اشفاق احمد، قدسیہ بانو، ممتاز شیریں ، صمد شاہین، احمد ندیم قاسمی ، انور سدید ، آرٹسٹ زوبی ، حفیظ جالندھری، پرنسپل عبدالحکیم ، پرنسپل شیخ محمود، عنایت اللہ، ضیاء محی الدین ، ن۔ م راشد، رشید احمد صدیقی ، بھارت کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین ، شیخ عبداللہ ، سردار ابراہیم اور صدر پاکستان محمد ایوب خان جیسے بڑے لوگوں کے ساتھ محمود ہاشمی کی ملاقاتوں کی تفصیلات اور پھر اُن کے بارے میں وہ باتیں بھی سننے کا موقع ملتا رہا جو باتیں کتابوں میں نہیں لکھی گئیں۔
جب میرے گھر تشریف لاتے تو۔ ۔ اکثر پائپ سلگا کر آتش دان کے پاس کھڑے ہو کر بات کا آغاز کرتے۔ ۔ کبھی کبھار اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی بتایا کرتے تھے کہ میرے والد محمد ہاشم فوج کے شعبہ امور حیوانات سے وابستہ تھے۔ جبکہ میرے دادا قاضی نادر علی علمی و ادبی شخصیت تھے۔ یہ اپنے زمانے کے پنجابی کے معروف شاعر بھی تھے۔ 1920ء میں میرے بڑے بھائی محمد فیروز جو بی ایس سی تھے کی وفات پر دادا قاضی نادر علی نے ایک قطعہ لکھا تھا کہ:
ستے وچ قبراں دیوے کون خبراں
خالی گئے کہ گئے ایمان اندر
نادر علی شافع رسولؐ ہوسن
لیکھا ہوسی حشر میدان اندر
ہاشمی صاحب کے دادا تو شاعر تھے لیکن والد کی دلچسپی شعبہ طب سے تھی جنہوں نے برٹش فوج کی ملازمت چھوڑی تو بلوچستان کی ریاست قلات کے نواب نے انہیں ملازمت کی پیش کش کی تو وہ اپنے آبائی وطن کشمیر سے نقل مکانی کر کے بلوچستان میں جا مقیم ہوئے اور نواب صاحب کے گھوڑوں کی دیکھ بھال، علاج معالجہ کی ذمہ داری سنبھالی تومستونگ میں انہیں سرکار رہائش گاہ ملی۔ ۔ اسی رہائش گاہ میں 20اگست1920ء میں محمود ہاشمی کی پیدائش ہوئی تو والد نے نام سلطان محمود رکھا۔ ۔ پانچ سال کی عمر میں والدہ فوت ہوئیں۔ ۔ ہاشمی صاحب بتایا کرتے تھے کہ ہمارے گھر میں نوکر چاکر تھے لیکن ماں کی خواہش ہوتی تھی کہ میرا بیٹا محمود مجھے پانی پلائے۔ ۔ ماں کی موت کا منظر اب بھی مجھے یاد ہے۔ ۔ ماں کی باتیں کرتے کرتے ہاشمی صاحب کے آنسو نکل آئے۔ ۔ ٹیشو پیپر سے آنسو صاف کر کے سگار کا ایک کش لگایا اور پھر بات کو ٹالنے کی خاطر چائے پینے لگے۔ ۔ چائے پیتے ہم ٹیلی ویژن پر گھوڑے دوڑ کا ایک منظر دیکھنے لگے۔ ۔ تو ہاشمی صاحب کے مرجھائے ہوئے چہرے پر ایک ہلکی سی مسرت نظر آئی اور وہ ماضی میں دوبارہ کھوتے ہوئے بتانے لگے کہ بچپن میں والد صاحب نے اپنے ایک ماتحت فیروز خان چابک سوار کو مامور کیا کہ وہ مجھے گھوڑے سواری سکھائے جس نے مجھے اس انداز سے گھوڑا سواری سیکھائی کہ میں بچپن میں ہی اچھا گھوڑا سوار تسلیم کیے جانے لگا تھا۔ پھر والد نے دوسری شادی کر لی۔ اُس زمانے میں ہمارے پڑوس میں مائی مالن نامی ایک خاتون رہتی تھی جو لکھ پڑھ نہیں سکتی تھی لیکن اسے کہانیاں سننے کا بڑا شوق تھا چنانچہ مائی مالن مجھے ساتھ لیکر مقامی لائبریری جاتی اور وہاں سے کہانیوں کی کتابیں لاتی جو میں پڑھ کر اُسے سنایا کرتا تھا۔ ۔ یوں بچپن سے ہی مجھے ادب سے شناسی ہوئی۔ ۔ کچھ عرصہ کے بعد میری چھوٹی بہن حلیمہ پیدا ہوئی۔ ۔ دس سال کی عمر میں میرے والد اچانک اس جہاں سے رخصت ہوئے تو میں دھاڑے مار مار کر رونے لگا۔ ۔ تب والد صاحب کے ایک دوست ملا حسین ریئس نے مجھے گلے لگایا۔ ۔ آنسو پونچھے اور کہا۔ ۔ مرد رویا نہیں کرتے۔ ۔ یہ سن کر میں نے رونا بند کر دیا اور پھر زندگی بھر جب بھی کوئی اس طرح کا مقام آیا تو میں رویا نہیں۔ ۔ والد کی وفات کے بعد ہمارے خاندان کو قلات بلوچستان چھوڑنا پڑا۔ ۔ ہم واپس اپنے آبائی گاؤں سملوٹھہ جو کشمیر کے ضلع میرپور کی تحصیل ڈدیال کا ایک خوبصورت گاؤں تھا آ کر رہنے لگے۔ ۔ یہ ڈوگرا دور تھا جس میں تعلیمی سہولیات کا فقدان تھا۔ ۔ چنانچہ میرے پھوپھا خلیل صاحب ( جنہیں میں آغا جی کے نام سے پکارتا تھا) گوجرہ میں ٹیچر تھے وہ مجھے گوجرہ لے گئے جہاں انہوں نے اپنی سرپرستی میں مجھے سکول داخل کروایا۔ اسی سکول میں نامور ادیب ممتاز مفتی بھی پڑھاتے تھے یوں میں ممتاز مفتی سے متعارف ہوا۔ ۔ میں میٹرک کا طالب علم تھا جب داخلہ فارم پر اپنا نام محمود ہاشم لکھا۔ ۔ تو ہمارے ایک ٹیچر غلام رسول باجوہ بولے’’ محمود ہاشم‘‘ کوئی مناسب نام نہیں۔ چنانچہ ٹیچر نے ہاشم کے آگے۔ ۔ ی۔ ۔ ڈال کر اسے ہاشمی بنا دیا۔ ۔ اس طرح میں۔ ۔ محمود ہاشمی بنا۔
محمود ہاشمی نے میٹرک گوجرہ سے کرنے کے بعد جموں پرنس آف ویلز کالج سے بی اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں جموں کالج کے میگزین۔ ۔ توی۔ ۔ کے ایڈیٹر رہے۔ پھر علی گڑھ چلے گئے جہاں ایم۔ اے اردو اور ساتھ ایل ایل بی میں داخلہ لیا۔ ۔ علی گڑھ میں انہیں رشید احمد صدیقی کی شاگردی میسر آئی۔ ۔ تعلیم مکمل کی تو پرنس آف ویلز کالج جموں میں اردو کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اب ہوا یہ کہ کالج چھوڑنے کے دو سال بعد یہ تعلیم مکمل کر کے اُسی کالج میں پڑھانے کے لئے آئے تو ان کے زمانے میں ایف اے کے طالب علم اب بی۔ اے میں تھے جن کو پڑھانے پر ہاشمی صاحب مامور ہوئے تو وہ طلباء انہیں اپنا دوست سمجھتے تھے۔ ۔ چنانچہ لڑکوں پر رعب داب ڈالنے کی خاطر محمود ہاشمی نے مونچھیں رکھ کر سگریٹ پینے شروع کیے۔ جس سے وقتی طور پر یہ حالات پر قابو پانے پر کامیاب ہوئے۔ پھر ان کا تبادلہ امرسنگھ کالج سری نگر ہو گیا۔ ۔ سری نگر کا دور ان کی ادبی تخلیق کا عروج تھا۔ موت کا جنم، انار کلی کی واپسی اور پھر کشمیر اُداس ہے کا آغاز بھی سری نگر سے ہوا۔
ہاشمی صاحب نے میری تربیت بڑے خلوص سے کی۔ ۔ جس کے صلے میں اگر میں نے کوئی کام کیا تو بس یہی کہ ہاشمی صاحب کی تمام زیر ترتیب کتابوں کو یکجا کیا اور انہیں۔ ۔ نگارشات محمود ہاشمی۔ ۔ کے نام سے ابھی حال ہی میں الفیصل پبلشرز لاہور سے شائع کروایا۔ اس کتاب میں ہاشمی صاحب کے لکھے ہوئے چار افسانے ، دو ناولٹ ، دو ڈرامے ، مضامین ، کتابوں کے دیباچے، تبصرے اور پھر برطانیہ کے ادبی منظر نامہ کے تحت برطانیہ کے شعرا ء اور افسانہ نویسوں کے بارے میں لکھے گئے تنقیدی مضامین کو شامل کیا۔ کتاب میں ان کے معاصرین کے چند خطوط بھی شامل کیے۔ ۔ ہاشمی صاحب نے زندگی کے آخری سال برمنگھم میں اپنی بھانجی رضیہ تاج کے ہاں گزارے۔ رضیہ اور اُن کے خاوند حاجی تاج کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے طیب تاج نے زندگی کے آخری وقت تک ان کی خدمت کی۔ ۔ یوں پچانوے سال کی بھرپور زندگی بسر کرنے کے بعد جب اس جہاں سے رخصت ہوئے تو اپنے پیچھے ہزاروں اشک بار آنکھوں کو چھوڑا۔ ۔ تو مجھے یاد آیا کہ ممکن ہے فیض احمد فیض نے یہ شعر ہاشمی صاحب کے لئے ہی لکھا ہو کہ:
آیا ہمارے دیس میں ایک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
٭٭٭