شمیم حنفی: ایک ادبی اور تہذیبی بصیرت کا شخص ۔۔۔ سرور الہدیٰ

 

1996 میں جے این یو میں میرا داخلہ ہوا اور ایک طالبِ علم کے طور پر میں نے شمیم حنفی کو پڑھنا شروع کیا۔ ایم اے کے دوران ان کی بعض تحریریں پڑھ تو گیا مگر ان سے کوئی بامعنی رشتہ قائم نہیں ہو سکا۔ میں نے ان کی پہلی تحریر ’آجکل‘ میں پڑھی تھی جس کا عنوان تھا ’شبلی کی شخصیت‘ اس وقت میں بی اے میں تھا۔ مضمون کا ایک جملہ آج بھی یاد ہے کہ ’اس وقت یہ فکر سب سے زیادہ شبلی کو تھی کہ قوم کہیں بے چہرہ نہ ہو جائے۔‘ کئی مہینے تو انھیں خاموشی کے ساتھ دیکھتے اور سنتے گزر گئے۔ مجھے خود نہیں معلوم تھا کہ جس شخصیت کو میں اتنی خاموشی کے ساتھ دیکھ اور سن رہا ہوں وہ آنے والے دنوں میں میرے لیے اس قدر اہم ہو جائے گی۔ شمیم حنفی کو میں نے جے این یو میں زیادہ تر صدیق الرحمن قدوائی، اسلم پرویز اور شارب ردولوی صاحب کے ساتھ آتے جاتے اور گفتگو کرتے ہوئے دیکھا، جب وہ زبانی امتحان کے لیے آتے تو وہ موقع بڑی خوشی کا ہوتا تھا۔ ان کو سننا اور دیکھنا اچھا لگتا تھا۔ ایک عجیب سا جادو ان کی آواز میں تھا۔ اس وقت انھیں سمجھنے سے زیادہ دیکھنا اور سننا اہم تھا۔ طالب علموں سے ہمیشہ انھیں خندہ پیشانی سے ملتے ہوئے دیکھا۔ زبانی امتحان کو کبھی انھوں نے اپنے علم سے مشکل نہیں بنایا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ زبانی امتحان ختم ہونے کے بعد اس موضوع سے متعلق کچھ اور بنیادی باتوں اور کتابوں کی طرف اشارہ کرنے لگتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہتے کہ آپ کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے تھی۔ تحقیقی مقالے کے معیار کا بنیادی تعلق تو تحقیق کرنے والے سے ہے، اس کی سنجیدگی اور دیانت داری ہی مقالے کو معیاری بنا سکتی ہے۔ نگراں بھی بہت اہم ہوتا ہے لیکن ریسرچ اسکالر نے کہیں اسے ہوبہو نقل کر کے اگر اپنے نام سے مقالے میں پیش کر دیا ہے تو نگراں کہاں تک اس کی نشان دہی کرے گا۔ شمیم حنفی کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ ان کی نظر سے اس طرح کی چوری اور سینہ زوری چھُپ نہیں سکتی۔

شمیم حنفی کو جے این یو کے ہندستانی زبانوں کے مرکز میں آتے جاتے ہوئے دیکھا تھا، وہ آج بھی میری نظر کے سامنے ہے۔ ایک شخص خاموشی کے ساتھ نگاہ نیچی کیے ہوئے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہے، نہ اس کی چال اور رفتار میں کوئی ادا کاری ہے اور نہ وہ اپنی رفتار سے بہت جلد فاصلے کو طے کرنا چاہتا ہے۔ ایک بشاش اور روشن چہرے پر کبھی فکر کی کوئی لکیر نظر آ جاتی۔ میں آج جب پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ جے این یو کے تعلیمی زمانے کے چند نہایت خوب صورت اور بامعنی لمحات وہ ہیں جو شمیم حنفی کو سننے اور پڑھنے میں گزرے ہیں۔ میں ایک طالبِ علم کے طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہاں کے ذہین، حساس اور محنتی طالبِ علم نے جس قدر شمیم حنفی سے اثر قبول کیا شاید باہر کے کسی اور پروفیسر سے نہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جے این یو کا ماحول ترقی پسند فکر سے قریب تھا اور شمیم حنفی اس طرح ترقی پسند نہیں تھے۔ شمیم حنفی کا موسم کے لحاظ سے لباس کا انتخاب بہت اچھا تھا۔ کبھی لباس اور کپڑے کی طرف سے انھیں بے پرواہ نہیں دیکھا۔ بعض اوقات یہ بھی محسوس ہوتا کہ اتنا خوش لباس آدمی واقعی ترقی پسند نہیں ہو سکتا۔ ایم فل میں میرے مقالے کا موضوع ’1960 کے بعد اردو غزل میں تجربات کی نوعیت‘ تھا۔ پھر کیا تھا شمیم حنفی کی کتاب ’غزل کا نیا منظرنامہ‘ کا ایک ایک لفظ پڑھ گیا اور اس طرح پڑھا کہ اس کے بہت سے جملے یاد ہو گئے جو آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں جس سے خوشگوار مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ میں نے ریسرچ اسکالر سمینار میں اپنا پہلا مقالہ ان کی صدارت میں پڑھا تھا۔ اشرف علی خاں فغاں کا دیوان میں نے مرتب کیا تو اس کی رو نمائی کے لیے میری درخواست پر وہ جے این یو تشریف لائے، اس جلسے کی صدارت پروفیسر نثار احمد فاروقی نے کی تھی۔ وقت گزرتا رہا اور میری پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع صدیق الرحمٰن نے طے کیا تھا اور اس کے ضمنی عنوانات کے تعین میں شمیم حنفی کے مشورے شامل تھے۔ شمیم حنفی تو ابتدا ہی سے میرے لیے فکر مند تھے، انھوں نے مجھے کلاس روم میں پڑھایا نہیں مگر میری تعمیر و تشکیل میں ان کی فکر مندی پوری طرح شامل رہی ہے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ کسی اچھی جگہ میرا تقرر ہو جائے اس خواہش کا زبانی ہی نہیں بلکہ عملی اظہار بھی انھوں نے کیا۔ جامعہ آنے کے بعد ان سے ملاقاتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا میں اب اس شعبے کا حصہ ہوں جس کی علمی، ادبی روایت کو وقار بخشنے میں شمیم حنفی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ یہاں پروفیسر ایمریٹس رہے ہیں۔ جامعہ کے شعبے میں انھیں اسی طرح دھیرے دھیرے نگاہ نیچی کیے ہوئے آتے دیکھا جیسا کہ جے این یو میں دیکھا تھا۔ یہاں بھی گفتگو کا وہی انداز نظر آیا کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ اس شعبے سے اپنی طویل وابستگی کا کوئی رعب ڈالنا چاہتے ہوں۔ ایک موقعے پر تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ مجھے جہاں کہیں جس طالب علم میں چمک نظر آئی اسے جامعہ لانے کی کوشش کی۔ بعض موقعوں پر انھیں بالکل اجنبی سا پایا۔ یہ وہی کیفیت ہے جو فکر کی ایک لکیر کے طور پر کبھی کبھی جے این یو میں ان کی پیشانی پر نظر آ جاتی۔ انھیں بہت حیرت سے لوگوں کو دیکھتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اس حیرت میں مجھے بے بسی بھی نظر آئی اور اجنبیت کا احساس بھی۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کا تعلق علمی و ادبی شغف سے ہے۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پڑھنے کے معاملے میں انتخابی ہونا چاہیے، انھیں یہ بات اچھی لگی کہ مختلف میلانات کے قلم کار میرے مطالعے کا حصہ ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اختصاصی ہونے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ ایک خاص عمر تک مختلف میلانات و نظریات کی دنیا میں بھٹکنا ایک خوبصورت عمل ہے۔ میں نے نہ صرف اردو کی بلکہ دنیا کے ادب کی چند اچھی کتابیں شمیم حنفی کے مشورے اور تحریک پر پڑھی ہیں۔ انھوں نے کبھی اپنے اوپر مضمون لکھنے یا لکھوانے کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ ایک موقعے پر میرے سامنے رسالے کے مدیر نے ان پر نمبر نکالنے کی گزارش کی تو سختی سے منع کر دیا۔ گزشتہ چند برسوں میں جو ادب کا منظرنامہ میں نے یا آپ نے دیکھا ہے اس میں شمیم حنفی کی شخصیت سب سے مختلف نظر آتی ہے۔ اپنے تعلق سے اتنی بے پروائی اور بے نیازی کسی نقاد کے یہاں نظر نہیں آتی۔ عالم تو یہ ہے کہ لوگ رسالے اور کتاب کا ایک ایک ورق دیکھتے ہیں کہ ان کی تعریف اور تضحیک میں کس نے کیا لکھا ہے۔ شمیم حنفی نے اپنی تحریروں سے جو ایک فاصلہ قائم کیا ہے وہ عصرِ حاضر کا اہم واقعہ ہے۔ عمر میمن نے آصف فرخی سے فکشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شمیم حنفی کا علم زیادہ ہے۔ یہاں اس کا حوالہ مجھے اس لیے دینا پڑا کہ بعض اوقات کسی شخص کی فطری خاموشی کو اس کی علمی کمزوری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ شمیم حنفی نے اپنی تمام تر علمیت اور ذہانت کے باوجود کبھی چیخ پکار سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے بہت صبر و ضبط کے ساتھ ان لوگوں کو برداشت کیا ہے جو اندر سے خالی اور کھوکھلے ہیں۔ پبلسٹی اور تعلقات کی بنیاد پر ادب کی دنیا میں جو جگہ بنتی ہے اس کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ شمیم حنفی کو جہاں گرجنا اور برسنا چاہیے وہاں بھی ان کا لہجہ دھیما رہتا ہے۔ وہ جب مائیک پر آتے ہیں تو مجمع ہمہ تن گوش ہو جاتا ہے۔ مقالوں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ وہ خیالات بھی ہم تک پہنچتے ہیں جو مقالہ نگاروں کی گرفت میں نہیں آ سکے۔ میں ان کی تنقید کی طرف رک کر آؤں گا۔ ذرا اس بات پر غور کرتے ہیں کہ شمیم حنفی کی ادبی زندگی کے کیا معنی ہیں اور کن لوگوں کے لیے یہ بامعنی ہیں۔ شمیم حنفی عمر کی اس آخری منزل پر پہنچ کر کیا سوچتے تھے، یہ بھی بنیادی سوال ہے۔ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ دنیا کے کسی بھی ادیب یا قلم کار کے بارے میں سب کی رائے ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ مگر انسان اگر انسان ہے تو ایک کام کر سکتا ہے یعنی سچائی اور حقیقت کا اعتراف۔ کوئی باضمیر شخص کب تک کسی کے بہکاوے یا معمولی لالچ کے لیے کسی کی علمی اور شخصی عظمت کا منکر رہے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر شمیم حنفی سے سوال کیا جاتا کہ آپ اپنے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ دیکھیے کوئی بڑا کام نہیں کیا، لکھتے پڑھتے رہے، کچھ اچھی شخصیتیں اور کچھ اچھی کتابیں رفیقِ زندگی رہیں اور بس۔ یہ کوئی اداکاری کی باتیں نہیں ہیں، شمیم حنفی نے اپنے معاصر لکھنے والوں پر جتنا لکھا ہے کسی اور نے نہیں لکھا۔ میں یہاں نام گنواؤں اور ان کی تفصیلات میں جاؤں تو گفتگو طویل ہو جائے گی۔ ان تحریروں سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ شمیم حنفی نے اپنے معاصرین کو کن بنیادوں اور سطحوں پر دریافت کیا۔ آخر وہ کون سا داخلی جبر تھا جس نے انھیں محمود ایاز، باقر مہدی، وحید اختر، خلیل الرحمن اعظمی، شہر یار، منموہن تلخ، بلراج مینرا، دیویندر ستیار تھی، عابد سہیل، عرفان صدیقی وغیرہ پر لکھوایا۔ گزشتہ نصف صدی کا علمی و ادبی ماحول شمیم حنفی کی کتاب ’دکانِ شیشہ گراں‘ اور دیگر تحریروں میں سمٹ آیا ہے۔ میں اسے ایک ادبی اور تہذیبی دستاویز کا نام دیتا ہوں۔ اس میں شعر و ادب کے وہ تمام رنگ روپ موجود ہیں جن سے گزشتہ نصف صدی پہچانی جاتی ہے۔ اس پہچان اور دریافت کا عمل شمیم حنفی کے لیے محض علمی مشغلہ نہیں رہا ہے، ان کے لفظوں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سارا دل لہو کرنے جیسا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور وہ تمام علمی و ادبی وقار اور شخصی یادیں ان جانے والوں نے جس جس طرح شمیم حنفی کے حوالے کیا ہے اس معاملے میں وہ تنہا دکھائی دیتے ہیں، ان امانتوں کا بوجھ انھیں بعض اوقات حد درجہ گمبھیر اور افسردہ بنا دیتا تھا۔ اس کی وجہ ادبی منظر نامے میں ان امانتوں کی بے حرمتی ہے۔ لیکن میں اسے اس طرح بھی دیکھتا ہوں کہ جب بے حرمتی کرنے والوں کو یہ امانتیں ملی ہی نہیں تو پھر شکایت کیسی۔ شمیم حنفی نے اپنی کئی تحریروں میں اس رنج کا اظہار کیا ہے کہ ادب کی دنیا میں کاروباری ذہن زیادہ پھل پھول رہا ہے۔ صلاحیت اور ذہانت کی قدر افزائی کم ہوتی جا رہی ہے، لیکن کیا کیا جائے کوئی نئی دنیا تو بنائی نہیں جا سکتی اس لیے ہم اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ شمیم حنفی ادبی محفلوں میں شریک ہوں اور ہمیں فکر و احساس کی اس سطح تک لے جائیں جہاں سے اچھے اور خراب ادب کی پہچان ہو سکے۔ شمیم حنفی کے بارے میں چاہے کوئی بھی کچھ کہے لیکن ان کی ترجیحات ہمیشہ علمی و ادبی رہی ہیں۔ انھوں نے باتیں اور ملاقاتیں تو بہت کی ہیں مگر دھج برقرار رکھی۔ اس دھج سے بہت لوگ شاکی اور پریشان رہے ہیں۔ بات یہاں تک ہو تو بھی ٹھیک ہے لیکن جب اپنی کم علمی اور ذہنی قلاشی کا حساب اس دھج سے مانگا جائے تو صورتِ حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔ شمیم حنفی نے بہت موقعوں پر خاموشی اختیار کر لی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے پاس کچھ بولنے کے لیے نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ شمیم حنفی ادب کے کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جب وسعتِ نظر کا ثبوت دیتے ہیں تو اس کو دیکھنے اور سننے کا یارا ہم میں نہیں ہے۔ حافظہ بھی بلا کا ہے۔ جو پڑھا اس کا بیشتر حصہ ذہن میں محفوظ ہے۔ زمانی ترتیب میں کبھی ان کے یہاں مغالطہ یا دھوکا نہیں ہو سکتا۔ آپ نے ایک بات کہی تو پھر آپ کو اس تعلق سے کئی باتیں سننے کا حوصلہ بھی رکھنا چاہیے، یہی وہ اختصاص ہے جو بیشتر لوگوں کی پریشانی کا سبب ہے۔ ایک موقعے پر تقریر کرتے ہوئے وہ ہندی کے شعرا کا حوالہ دینے لگے، وہاب اشرفی نے میرے سامنے کہا تھا کہ آپ تو ہندی کے پروفیسر معلوم ہوتے ہیں۔ یوں بھی شمیم حنفی نے ہندی کے تمام اہم ادیبوں اور نقادوں کو توجہ سے پڑھا اور ہندی کے اسکالر کی طرح وہ ان سب پر گفتگو کر سکتے تھے۔ ہندی کے کئی اہم رسالے ان کے یہاں آتے ہیں۔ نرمل ورما تو ان کے بہت پسندیدہ قلم کار ہیں۔ اب ہندی والوں سے آپ شمیم حنفی کے تعلق سے کچھ پوچھیے تو وہ انھیں ہندی کا ادیب نہ سہی مگر وہ اپنا پاٹھک ضرور مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نقاد سے زیادہ قاری کو پسند کرتے ہیں۔ جب وہ کسی سے خوش ہوتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ فلاں صاحب پڑھتے بہت ہیں۔ تو مجھ جیسے ادب کے ایک طالب علم کے لیے شمیم حنفی اس لیے اہم ہیں کہ ان کی گفتگو سے پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شمیم حنفی ایک تخلیقی زبان کے ساتھ دوسری تخلیق کی طرف ہمیں راغب کر رہے ہیں۔ شمیم حنفی کے علم و فن کا دائرہ خالص شعر و ادب یا ہندستانی ادب تک محدود نہیں، وہ اردو کے پہلے ادیب اور نقاد رہے جنھوں نے بلیک لٹریچر پر مکالمہ قائم کیا۔ یہ شمیم حنفی ہی تھے جنھوں نے جدیدیت کی فلسفیانہ اساس جیسی کتاب لکھ کر اردو معاشرے کی الجھنوں میں اضافہ کیا اور یہ احساس دلایا کہ بغیر پڑھے ہوئے علم و ادب کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ یہ شمیم حنفی ہی تھے جن کی کتاب نئی شعری روایت کے ذریعے نئی نظم کے امتیازات سامنے آئے اور جدید اور جدیدیت کے فرق کو واضح کرتے ہوئے مختلف ادوار کی جدیدیت کو اس کے اصل سیاق میں دیکھا۔ شمیم حنفی نے پہلے پہل ’نئی تنقید ایک اخلاقیات کی ضرورت‘ لکھ کر تنقید کو اس کے اخلاقی منصب کی یاد دلائی۔ شمیم حنفی نے اہمال کی منطق جیسا مشکل مضمون لکھا۔ شمیم حنفی نے یگانہؔ پر لکھنؤ میں ایک ایسا مضمون لکھا جو اہلِ لکھنؤ کی پریشانی کا سبب بن گیا۔ مضمون یگانہؔ کی تخلیقی توانائی اور انفرادیت کے اعتراف میں تھا۔ شمیم حنفی ہی نے ادیب کی ’ہماری شاعری‘ کا تجزیہ مختلف انداز میں کیا۔ یہ شمیم حنفی ہی تھے جنھوں نے محمد حسین آزاد کے تاریخی مضمون ’نظم کلام موزوں کے باب میں‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے بعض نئے نکات کی جانب اشارے کیے۔ شمیم حنفی ہی نے بلراج مینرا کے فن کو صحیح معنوں میں اردو میں متعارف کرایا۔ قرۃ العین حیدر پر انھوں نے جتنے مضامین قلم بند کیے ان سے متعلق شمس الرحمن فاروقی نے لکھا کہ شمیم حنفی قرۃ العین حیدر پر سب سے زیادہ معتبر ہیں۔ یہ باتیں ان کے لیے ہیں جو پڑھنا چاہتے ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ تنقید صرف تجزیاتی مطالعے کا نام نہیں ہے۔ تنقید کا کام بصیرت میں اگر اضافہ کرنا ہے تو یہ کام شمیم حنفی کی تنقید بہتر طور پر انجام دیتی رہی ہے۔ شمیم حنفی نے اپنی تنقید میں جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس میں کہیں کہیں قصے کا در آنا فطری ہے لیکن یہ قصہ گوئی ہر جگہ ہے بھی نہیں۔ لوگ پڑھتے کم ہیں اور شور زیادہ مچاتے ہیں۔ قصہ گوئی کا مطلب کیا ہے۔ اسے اگر کوئی گپ کرنا کہتا ہے تو یہ اس کی اپنی طبیعت کا تقاضا ہے۔ شمیم حنفی کے یہاں چوں کہ ایک کھلی ہوئی فضا ہے اور کسی طرح کا جبر نہیں لہٰذا اس میں ارتکاز ہمیشہ پیدا نہیں ہوتا۔ درمیان میں تاریخی، تہذیبی، شخصی حوالے آ جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متن کہیں غائب سا ہو گیا ہے، لیکن بہ غور دیکھیے تو متن سے حاصل ہونے والی بصیرت اس میں موجود ہے۔ یہ انداز تو ہمیں محمد حسن عسکری کے یہاں بھی ملتا ہے، اس لیے تنقیدی مطالعے میں گفتگو کا انداز اختیار کرنا تنقید کے منصب کو نقصان پہنچاتا ہے تو یہ رائے سب کی نہیں ہو سکتی۔ شمیم حنفی کی تنقیدی زبان کے سلسلے میں جو غیر ذمہ دارانہ رائے دی جاتی ہے اس میں ایک سیاست شامل ہے۔ جو لوگ اس طرح فکر انگیز تحریر لکھ نہیں سکتے یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ تنقید کی زبان اسے کہتے ہیں اور اسے نہیں کہتے۔ اس میں شک نہیں کہ شمیم حنفی کی زبان میں ایک چاشنی اور دل آسائی ہے اس پر تخلیقی نثر کا گمان ہوتا ہے لیکن اس میں جو بصیرت ہے وہ کتنے لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ ہم ایک قاری کے طور پر بصیرت ہی کے متلاشی ہیں، چاہے تنقید کی زبان تخلیقی نثر کا نمونہ ہی کیوں نہ ہو۔ خود شمیم حنفی نے اپنے ایک مضمون ’تنقید کی زبان‘ میں لکھا ہے کہ تنقید کی زبان سائنسی نہیں ہو سکتی، وہ لکھتے ہیں: ”ادب کے انحطاط کو روکنے کا سب سے طاقت ور اور موثر وسیلہ ادب کے قارئین فراہم کرتے ہیں اور نقاد کو بھی اس معاملے میں ایک لحاظ سے برابر کا حصہ دار ہونا چاہیے۔ ایسا ہونا اسی وقت ممکن ہو گا جب ادبی تجربے کی تنقید اور ادب کے قارئین کی بنیادیں مشترک ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اشتراک انسانی سروکاروں کے ادراک کے بغیر ممکن نہیں اور یہ ادراک کبھی بھی علمی اور صرف سائنسی نہیں ہو سکتا“۔ اس اقتباس کے آئینے میں ہمارے عہد کے زیادہ تر جوشیلے نقادوں کا چہرہ شرمندہ ہوتا ہے۔ اس وقت تو بعض سنجیدہ نقادوں کا حال یہ ہے کہ کتاب کو پڑھے بغیر بتصرہ کر دیتے ہیں اور فلیپ پر اپنی رائے درج کرا دیتے ہیں اور کسی ادیب یا تخلیق کار کی کسی ایک چیز پر قناعت کر لیتے ہیں۔ سیاق اور تناظر کی بات تو ہم کرتے ہیں مگر خود کلوز اسٹڈی کے نام پر یک رُخا اور سہل پسند ہو جاتے ہیں۔ شمیم حنفی نے دوسری اہم بات اشتراکِ انسانی اور انسانی سروکاروں کی ہے۔ یہ پورا جملہ در اصل ان کی تنقیدی فکر کا نمائندہ بھی ہے۔ ان ہی سروکاروں کے سبب شمیم حنفی کے یہاں ایک کھلی فضا اور کہیں کہیں گفتگو کا انداز در آیا ہے۔ ان کی شخصی اور ذاتی پسند بھی اکثر اوقات انسانی سروکاروں سے قریب ہو جاتی ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی انسانی سرکاروں سے دورجاتے یا ان کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھا ہے جن کا ادبی سفر انھی سروکاروں کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ معلوم نہیں کن مجبوریوں کے تحت وہ شمیم حنفی کے ان سروکاروں کی مخالفت کرنے لگے۔ شمیم حنفی کے یہاں اگر کسی تکرار کا احساس ہوتا ہے تو اس کی وجہ ان ہی انسانی سروکاروں کی تلاش ہے۔ ان سروکاروں سے ذہنی، علمی اور حسّی رشتہ استوار کرنے کے لیے شمیم حنفی نے جو جتن کیے ہیں وہ بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے شاعری بھی کی، ڈرامے بھی لکھے، ترجمے بھی کیے اور ان میں صرف ادبی تحریریں ہی نہیں بلکہ دیگر موضوعات بھی شامل ہیں۔ کالمز لکھے۔ رنگوں اور لکیروں کو پڑھنے اور ان سے معنی دریافت کرنے کے معاملے میں شمیم حنفی نے جیسا ذہن پایا ہے اردو والوں میں اس کی مثال کم ملے گی۔ بلراج مینرا نے ’شعور‘ کے لیے شمیم حنفی سے جو کچھ لکھوایا وہ ایک ذہین مدیر کی ذہانت ہی تو ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ شمیم حنفی خالص ادب کے ساتھ علوم و فنون کے مختلف شعبوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ’شعور‘ میں شمیم حنفی کی چھوٹی بڑی جتنی تحریریں شائع ہوئیں ان کا ہر لفظ اس عہد کی تخلیقی سرگرمی کی تاریخ بن گیا ہے۔ مینرا کو کوئی دوسرا شمیم حنفی نہیں مل سکتا تھا۔ اردو میں پہلی بار زوال پرستی کے سوال پر ’ایک مذاکرہ‘ کے عنوان سے ایک اہم دستاویز پیش کیا جس کے شرکا سارتر، ارسنٹ فشر، ایڈورڈ گولڈ اسٹکر، ملان کندیرا تھے اور اس کے علاوہ بھی کئی ایسی تحریریں جنھیں شمیم حنفی نے پہلی مرتبہ اردو میں منتقل کیا اور مینرا کے ’شعور‘ نے ہم تک پہنچایا۔ اس کا نتیجہ شمیم حنفی کی کتاب ’رات، شہر اور زندگی‘ ہے، اس میں آدھی سے زیادہ تحریریں دوسروں کی ہیں لیکن ان کی ترتیب و تشکیل میں شمیم حنفی کا تخلیقی ذہن کار فرما ہے اور یہ کام کسی اور سے ممکن ہی نہیں تھا۔ متن کا تجزیاتی مطالعہ کرنے والے ’رات، شہر اور زندگی‘ کو اس نظر سے دیکھ نہیں سکتے، یہ نظر انسانی زندگی کو ایک عام انسان کی نظر سے دیکھنے کے بعد پیدا ہوئی ہے جس میں علمیت اور ذہانت تو ہے مگر اس میں غرور شامل نہیں۔ شمیم حنفی نے تنقید کی تمام روایات کو پڑھنے اور پڑھانے کے بعد اپنے لیے جس روایت کا انتخاب کیا وہ وہی ہے جسے ہم تخلیقی روایت کا نام دے سکتے ہیں۔ اصل میں بعض لفظ یا ترکیب کا استعمال مجبوری ہوتی ہے مگر اس کا مطلب غلط نکالا جاتا ہے، اب تخلیقی روایت یا تنقید کی زبان میں تخلیقی شان ہی کو دیکھیے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ شمیم حنفی گویا تنقید کے نام پر ایک اور تخلیقی نمونہ پیش کرتے ہیں گویا تنقید کو بھی تخلیقی فن پارے کی طرح پڑھیے۔ اسی ضمن میں بات تنقید کے منصب تک پہنچتی ہے کہ یہ تنقیدی زبان نہیں اس میں معروضیت نہیں، وضاحت نہیں وغیرہ، ان الفاظ کی بڑی اہمیت ہے لیکن رٹے ہوئے الفاظ دہرانے والوں سے خوف آتا ہے اس لیے کہ ایسے لوگوں کا ذہن ایک خاص مرحلے کے بعد رک سا جاتا ہے۔ اور ایک خاص مرحلے پر رُک جانے والے سے خوف آتا ہے۔ شمیم حنفی کی تنقید کی نصف صدی در اصل بصیرت کا پچاس سالہ سفر ہے۔ اس میں اتنی رنگا رنگی اور وسعت ہے کہ شعر و ادب کی کوئی دھارا، روایت اور حوالہ شاید ہی چھوٹ گیا ہو۔ ان سب کے درمیان ایک وحدت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ مختلف اصناف اور موضوعات کے بنیادی امتیازات پر نگاہ رکھنے کے باوجود شمیم حنفی نے ادب کو ایک وحدت کے طور پر بھی دیکھا ہے۔ اس زاویے کو پیدا کرنے میں انسانی سروکاروں کا بڑا دخل ہے۔ شمیم حنفی کو جب وہاب اشرفی نے اپنی کتاب ’جدیدیت مضمرات اور ممکنات‘ میں مابعد جدید نقاد بتایا تو لوگوں کو حیرت ہوئی۔ وہاب اشرفی نے ان کی ایک ایسی تحریر کو بنیاد بنا کر مابعد جدید بتایا تھا جس میں اپنی شعری روایت کو ایک سلسلے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ اگر ان کی نگاہ میں شمیم حنفی کی کتاب ’تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ‘ ہوتی تو دل چسپ اور حیران کن نتائج سامنے آتے۔ گزشتہ چند برسوں میں جس ثقافتی مطالعے اور تہذیبی عمل کا بڑا شہرہ رہا ہے شمیم حنفی نے اسے خاموشی کے ساتھ دیکھا اور پڑھا ہے۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مابعد جدید تنقید کا مطالعہ انھوں نے جن حوالوں سے کیا ہے وہ حوالے دیگر شخصیات کے یہاں بھی مل جاتے ہیں مگر ان سے شمیم حنفی نے کسی اور طرح سے مکالمہ قائم کیا۔ غیر ضروری طور پر وہ نہ اصطلاحوں کو استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی مفکرین کے نام لکھ کر خود کو جدید تر منظر نامے میں باخبر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی تحریروں پر اس کے اثرات تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے بعض سنجیدہ افراد بھی چمک دمک میں گم ہو جاتے ہیں اور نہ تو کبھی خود کو محاسبے کے عمل سے گزارتے ہیں اور نہ انھیں چمک دمک کے پیچھے اندھیرے کا سراغ ملتا ہے۔ شمیم حنفی کی تنقید گزشتہ تین دہائیوں سے جس طرح تاریخی اور تہذیبی عمل کو ادب کی تعمیر و تشکیل میں اہم بتاتی اور ثابت کرتی رہی ہے اس کو اگر ہم دیکھنا نہ چاہیں تو اس کا کیا علاج ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھروندے بناکر ہم خوش ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ شمیم حنفی کی تنقید کی ایک بڑی طاقت اس کی زبان ہے، قاری کو یہ زبان اس لیے اچھی لگتی ہے کہ اس میں تخلیقی شان تو ہے مگر وہ کسی ادبی متن یا ادبی شخصیت سے ہٹا کر قاری کو اپنے آپ میں گم نہیں کرتی۔ وہ فکر و احساس کی جس سطح پر ہمیں لے جاتی ہے اسے معروضیت، وضاحت اور قطعیت کے ذریعہ سمجھا نہیں جا سکتا۔ شمیم حنفی کے یہاں ادب کی قرأت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر تحریر کو اعلا ثابت کیا جائے۔ اور ہر کس و ناکس کو بڑا شاعر، بڑا نقاد، بڑا افسانہ نگار بتایا جائے۔ وہ تحسینی کلمات کے سلسلے میں بہت حساس رہے ہیں اور ہمارا معاشرہ جس طرح اپنی تحسین چاہتا ہے وہ تقاضا شمیم حنفی سے پورا نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے شمیم حنفی کے یہاں کچھ لوگوں کو منفی سوچ کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ عصرِ حاضر میں ادبی مطالعات کے سلسلے میں جتنے با معنی اور جامع جملے شمیم حنفی نے خلق کیے وہ بہ طور خاص توجہ طلب ہیں۔ ان میں جو ادبی اور تہذیبی بصیرت ہے اس کا رشتہ اگر کوئی محمد حسین آزاد، فراق گورکھپوری اور محمد حسن عسکری سے قائم کرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ ہمیں تو دل چسپی اس بات میں ہے کہ شمیم حنفی نے ادبی متون کو فکر و احساس کی کس سطح پر دیکھا ہے اور اس عمل میں قاری کو کس طرح شامل کیا ہے۔ انھوں نے قاری سے مکالمہ کا عنوان اپنی کتاب کے لیے یوں ہی قائم نہیں کیا تھا…..!!

(بہ شکریہ دی وائر اردو)

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے