کون جانتا تھا کہ ذوقی اور تبسم کی یہ باتیں جو آج بیس اور اکیس اپریل 2021 کی درمیانی شب کو میں لکھ رہا ہوں اسے ماضی کے صیغے میں لکھوں گا۔ جہاں ’ہے‘ لکھنا تھا وہاں ’تھا‘ لکھوں گا۔ رہے نام اللہ کا۔
ایک دن کے وقفے سے مشرف عالم ذوقی اور تبسم فاطمہ دونوں عدم کو سدھارے۔ ابھی ذوقی کے ساتھ گزری زندگی کو ہی یاد کر رہا تھا کہ تبسم بھی یاد کے نہاں خانے میں آ بسیں۔ اب ان دونوں کی زندگی کے وہ اوراق کھل گئے جن کے حاشیے پر میں بھی ہوں۔ ذوقی 1986 میں کان میں قلم دبائے دہلی آئے اور گزارے کے لیے کانگریس پارٹی کی نوجوانوں کی تنظیم کے ترجمان ہندی ماہنامہ ‘سیوا دل’ سے وابستہ ہو گئے۔ میں فروری 87 میں ملازمت میں آیا اور آجکل کا سب ایڈیٹر مقرر ہوا۔ ذوقی آجکل کے دفتر آتے رہتے تھے۔ ایڈیٹر راج نرائن راز صاحب انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ میں آیا تو وہ میرے قریب آ گئے۔ تعلقات بڑھے، دوستی ہوئی اور بہت کم وقت میں گہری ہو گئی۔ ادب اور سیاست کی باتوں کے علاوہ ایک بات اور ٹکڑوں ٹکڑوں میں آتی رہتی تھی اور وہ تھی ان کا نامراد عشق جس کی تڑپ ان کے اندر ابھی زندہ و توانا تھی۔ غالباً جون کی ایک گرم شام منڈی ہاؤس کے ایک بس اسٹاپ پر انہوں نے اپنے عشق کی داستان تفصیل سے اور کسی طلسمی کہانی کی طرح سنائی۔ کسک یہ تھی کہ کوئی کچھ کر سکتا۔ وہ ان کی عزیزہ تھی اور کلکتہ کے نواح میں رہتی تھی۔ دھیرے دھیرے کھلا کہ ان کا مدعا یہ کہ میں کلکتہ جا کر اس لڑکی سے کچھ پوچھ کر آؤں۔ میں اپنے دو دوستوں کو ساتھ لے کر اس کے یہاں پہنچا۔ لڑکی کے والد ماجد نے ہماری تواضع تو کی لیکن محترمہ سے ملاقات کا شرف نہیں حاصل ہو سکا۔ مایوسی سی مایوسی۔ پھر ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ نئی دلی اسٹیشن کا ریٹائرنگ روم کہاں ہے مجھے وہاں لے چلو۔ معاملہ کیا ہے؟ وہ کھلے کہ آرہ سے کوئی لڑکی آئی ہے جو ان کے لئے کمزور ہے اور جس کی وہ بھی کچھ قدر ہی کرتے ہیں۔ وہ کہانیاں بھی لکھتی ہے۔ وہ سانولی لڑکی برآمدے ہی میں انتظار کرتی ملی۔ یہ تبسم تھی۔ کچھ دیر میں درمیانِ گفتگو رہا۔ کچھ رسمی باتیں کیں۔ پھر ان دنوں کو آمادگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ محو کلام چھوڑ کر دفتر آ گیا۔ شام کو ذوقی نے بتایا کہ وہ اجمیر جانے کے بہانے کسی راز دار کے ساتھ آئی ہے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد تبسم کچھ تیاری کے ساتھ دوبارہ آئیں اور گویا اپنی کشتی جلا کے آئیں۔ ان دنوں ذوقی اپنے بھائی اور ایک اور عزیز، جو چھوٹے بھائی کی طرح ہی تھے، کے ساتھ ایک دو کمرے کے کوارٹر میں رہتے تھے۔ تبسم ان کے ساتھ ہی رہنے لگیں۔ ادبی ذوق تو تھا ہی۔ خوب شامیں گزرنے لگیں۔ شاہد انور جو پہلے ذوقی کے اور پھر میرے بھی دوست بن گئے تھے، اکثر ہمارے ساتھ ہی شام گزارتے۔ اب تبسم بھی اس کا حصہ ہو گئیں۔ ادب اور زندگی دونوں کا نہایت عمدہ شعور رکھنے والی تبسم۔ خوب ہم گپیں مارتے۔ کھاتے پکاتے پھر رات بارہ ساڑھے بارہ بجے شاہد اپنی بس پکڑتے، میں پیدل اپنے گھر کو نکلتا۔ مجھے بھی آدھا گھنٹہ لگتا انہیں بھی۔ پھر ایک دن ذوقی نے بہت سنجیدگی سے کہا کہ وہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ تو مسئلہ کیا تھا۔ مسئلہ بس یہ تھا کہ بوجوہ دونوں کے گھر والے اس رشتے کے لئے تیار نہ تھے۔ اس لیے دونوں چاہتے تھے کہ نکاح یہاں ہو جائے۔ لیکن کسی اور کو پتہ نہ چلے۔ ساتھ رہنے والے ان دونوں بھائیوں کو بھی نہیں۔ خیر! شاہد ان معاملات میں زیادہ سمجھدار نکلا۔ اس کے منصوبے کے مطابق میں نے ایک دوست سے مولوی کا انتظام کروایا اور شاہد نے اپنے یہاں نکاح کا انتظام کیا۔ لیکن نکاح سے پہلے والی رات کچھ ایسے آثار نظر آئے کہ لگا یہ جگہ کچھ محفوظ نہیں۔ چنانچہ صبح صبح جن دوست نے مولوی صاحب کا انتظام کرایا تھا انہی نے یاوری کی۔ ایک متبادل جگہ کا انتظام کروایا۔ یوں ظہر سے پہلے ‘النکاح من سنتی’ ہو گیا۔ نکاح کے بعد شاہد کے گھر پہنچنے۔ ہندی کے مشہور شاعر آلوک دھنوا نے، جو ان دنوں شاہد کے یہاں مقیم تھے اور اس منصوبے سے باخبر تھے، استقبال کیا اورنو بیاہتا سے مخاطب ہو کر ایک توصیفی خطبہ دیا۔ اس کا لب لباب وہی ہے جو ان کی نظم ‘بھاگی ہوئی لڑکیاں‘ پڑھ کر آپ جان سکتے ہیں۔ پھر تبسم آرہ لوٹ گئیں۔ اور دونوں نے اپنے اپنے گھروں میں اس شادی کا اعلان کر دیا۔ تو طے ہوا کہ اب شادی سماجی طور پر بھی ہو۔ چنانچہ دونوں طرف سے تیاریاں ہوئیں۔ اور با ضابطہ… البتہ نکاح دوبارہ نہیں کرایا گیا۔ میں اس شادی میں شریک نہیں ہو سکا۔ شاہد بھی نہیں۔
پہلا مکان انہوں نے اندر لوک نامی ایک دور افتادہ کالونی میں لیا۔ یہاں ان کے پاس ڈیڑھ کمرے کا ایک فلیٹ تھا۔ پہلے ایک مقابلتاً بڑا سا باورچی خانہ تھا۔ اس کے بعد ایک کمرہ اور کمرہ کو پار کر کے ایک پتلی سی بالکونی۔ بھائی اور وہ عزیز قریب ہی کسی دوسرے فلیٹ میں رہنے لگے تھے۔ میں اکثر شام کو جاتا تھا۔ رات کو کھانا کھا کے بارہ ساڑھے بارہ کی لیٹ نائٹ بس سروس سے اپنے گھر لوٹ آتا۔ ایک روز باتوں کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہونے کو آ رہا تھا۔ مجھے تردد لوٹوں گا کیسے۔ ذوقی نے کہا رک جاؤ، یار کہاں جاؤ گے۔ تبسم نے بھی کہا ہاں رک جایئے۔ ہم سادہ دل لوگ تھے۔ جو کہتے تھے اس کا مطلب بھی وہی ہوتا تھا۔ اگر کہا رک جاؤ۔ تو اس کا مطلب کوئی تکلف نہیں۔ مگر سوؤں گا کہاں۔ کہنے لگے اسی پلنگ پر۔ گھر میں ایک ڈبل بیڈ پلنگ تھا اور بس اتنا چوڑا تھا کہ سمٹ سمٹا کر تین دوست سو سکتے تھے۔ سو گئے۔ دیوار کی طرف تبسم، بیچ میں ذوقی اور دوسرے سرے پر میں۔ ان دنوں ذوقی ایک پرائیوٹ رسالے کو ایڈیٹ کر رہے تھے۔ تنگی سے گزر ہو رہی تھی۔ تبسم فیملی وے میں تھیں۔ لیکن معمول سے کچھ کم صحت سے۔ جونڈس ہو گیا تھا۔ میں بیماری کی پیچیدگیوں سے زیادہ آگاہ نہیں تھا۔ البتہ شاہد، جو اب قریب ہی کی ایک کالونی میں ایک اور دوست کے ساتھ آ کر رہنے لگے تھے وہ جب تب تشویش کا اظہار کرتے کہ اگر اس کا جونڈس ٹھیک نہیں ہو گا تو خرابی ہو گی۔ ذوقی ایسے وقتوں میں دانت سے ناخن تراشنے لگتے۔ ایک شام جب تبسم پورے دنوں کے قریب تھیں، میں آیا تو اسے تکلیف میں پایا۔ میری چھٹی حس کچھ کہہ رہی تھی جو فوری طور پر میں نہیں سمجھ پایا۔ بس اتنا ہوا کہ اس روز بھی میں رک گیا۔ رات زیادہ گہری ہو گئی تو ذوقی نے کہا چلو سو جائیں۔ ہم دونوں بالکونی میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ اور مجھے لگ رہا تھا کہ تبسم بے چین ہے۔ میں نے ذوقی کو باتوں میں لگائے رکھا۔ تا آنکہ تبسم کی کراہیں ہمیں مدد کو بلانے لگیں۔ ڈھائی تین بجے کسی طور انہیں لے کر ہم ایک نرسنگ ہوم میں پہنچے۔ الٹرا ساؤنڈ سے پتہ چلا کہ بچہ حمل میں ہی فوت ہو گیا ہے۔ کوئی پانچ بجے نرس نے ہمیں بتایا کہ پیٹ صاف کر دیا گیا ہے یعنی عافیت ہے۔ صبح دس بجے ذوقی، ایک مقامی ہمدرد اور میں ایک ننھے بے جان کو لے کر قبرستان پہنچے۔ قبر میں رکھنے سے پہلے میں نے دیکھا وہ بچی تھی۔ ذوقی کی طرح خوش رنگ، خوبصورت۔ تقریباً مکمل تھی۔ اس کے اور دنیائے آب و گل کے بیچ بس ایک معمولی مرض اور اس کے علاج بھر کے لئے تھوڑے سے پیسوں کی قلت آ گئی تھی۔ تاج انکلیو (جس کالونی میں وہ اب رہتے تھے) میں وہ 1993 میں آئے۔ شاشا ابھی شیرخوار تھا۔ چند مہینوں کے بعد میں بھی تاج انکلیو شفٹ ہو گیا۔ اور اتفاق سے ہمارے گھر کی بالکونیاں ایک دوسرے کے بالکل سامنے اور ایک ٹینس کورٹ برابر فاصلے پر تھیں۔ وہ ہماری قربت کا سب سے اچھا زمانہ تھا۔ میں ابھی چھڑا تھا۔ ذوقی کا گھر بھرا تھا۔ ذوقی کے والد، بہن، بھانجے بھانجیاں، تبسم کے والدین، ان کی بڑی اماں، چچا، بھائی بہن… کوئی آ رہا ہے کوئی جا رہا ہے۔ گھر ہمیشہ بھرا ہے۔ سامنے میرا خالی گھر۔ مگر وہ بھی زندگی سے لبریز باتوں اور قہقہوں سے گلزار۔ گھر کیا سمجھیے ایک بیٹھک خانہ بن گیا تھا جس میں بے روک ٹوک لوگ آتے تھے اور اکثر دیر رات تک بیٹھے باتیں کرتے تھے۔ ان دنوں کے ایک ساتھی ناصر عزیز صاحب نے (جو اب بھی ہمارے قریب ترین ساتھیوں میں ہیں اور سفر آخر تک دونوں کا ساتھ نبھایا ہے) اس کا جذباتی احوال قدرے تفصیل سے چند ماہ پہلے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے۔ فکر معاش اور اس کے سارے معاملات تبسم نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے۔ دور درشن کے لیے فلمیں اور ڈاکیومنٹری وغیرہ بنانے کا کام تھا۔ ذوقی لکھنے کا کام دیکھتے اور تبسم اس کا کمرشیل پہلو دیکھتیں۔ یہ کام وہ پچھلے کئی برس سے کر رہے تھے جس سے گزارہ ہو رہا تھا۔
مگر اب ان کا کام بہتر ہو چلا تھا۔ پروگرام مسلسل ملنے لگے تھے۔ ذوقی لکھاڑ آدمی۔ اپنے پروڈکشن ہاؤس کے علاوہ دوسرے پروڈیوسروں کے لیے بھی لکھتے تھے۔ اس سے بھی اچھی یافت ہو جاتی تھی۔ زندگی کی گاڑی ہموار رستے پر آ گئی تھی۔ ترقی کی راہیں کھلنے لگی تھیں۔ پروڈیوسر، ڈائریکٹر، سرکاری افسر، اسٹوڈیو، ہر ایک سے ملنا ملانا، جگہ جگہ آنا جانا ہوتا تھا۔ کاروباری معاملات تبسم دیکھتی تھیں تو ملنا جلنا آنا جانا بھی انہی کا زیادہ ہوتا تھا۔ اب راہ میں بمپر آنے لگے تھے۔ ہموار سفر میں کھنڈت ڈالنے والا کوئی ’وہ‘ درمیان میں آ ہی جاتا ہے۔ سو آ گیا۔ لو، ہو گیا شروع بدگمانی کا سلسلہ۔ دونوں اپنے اپنے موقف پر ڈٹ گئے کہ وہ کچھ غلط نہیں کر رہے ہیں۔ جھگڑے ہونے لگے۔ میں بیچ بچاؤ کرتا رہا۔ مجھے یقین تھا کہ غلط کوئی نہیں ہے۔ کسی حاسد نے کان بھرے ہیں اور غلط فہمی پھیلائی ہے۔ میرے بیچ بچاؤ سے معاملات دو چار دن کو ٹھیک ہوتے پھر وہیں۔ جب دلوں میں بال آ جائے تو کسی اور کے سمجھائے کیا ہو اور کسی طرح کی حیل و حجت بھلا کیا کام آئے۔ یہاں تک کہ میں بھی تھک گیا۔ اور کنارے بیٹھ گیا۔ کہ ایک دن ان کا وہ عزیز جو اب بھی ان کے ساتھ رہتا تھا، میرے پاس آیا اور زور زور سے روتے ہوئے مجھ سے بس اتنا کہا: خورشید بھائی، اس میرج کو بچا لیجیے۔
ان زخم خوردہ دنوں کی ایک ایک نشانی دونوں کے پاس ہے۔ ذوقی کے پاس ان کی کہانی ’ٹیلی فون’ ہے۔ اور تبسم کے پاس ‘جرم’۔ جب ذوقی نے مجھے ٹیلی فون سنائی تو اس کے بعد میری اس سے بہت طویل گفتگو ہوئی۔ جرم میں تبسم سے میں نے کچھ تبدیلیاں کرائیں۔ عجب نہیں کہ ان کہانیوں نے دونوں کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد کی ہو۔ کہانی ہماری بات کو دوسروں تک زیادہ اچھی طرح پہنچا سکتی ہے۔ ہم اسے اپنا سفیر، اپنا ثالث بنا سکتے ہیں۔ سوچ سکتا ہوں کہ کہانی نے یہ کام کیا۔ اور اس کا اندازہ مجھے یوں ہوا کہ میری توقع کے برخلاف ذوقی نے تبسم کی کہانی کی خوب پذیرائی کی۔ اسے ہندی میں نقل کر کے ہنس میں چھپوایا۔ بہت غیر محسوس طریقے سے ان کی زندگی کی گاڑی گویا دوبارہ ہموار راہ پر آ گئی۔ تبسم ذوقی کے ہر شوق کی آبیاری کرتی تھی۔ وہ ذوقی سے عشق کرتی تھی اور اپنے اس عشق کو پانے کے لیے اس نے بڑے جتن کیے تھے۔ یہ اس کی ہمت تھی کہ وہ ذوقی کے ساتھ بیچلر ڈین میں آ کر رہی اور جب میں نے بے لاگ لپیٹ اس کے ذوقی کے ساتھ رہنے کی بات لکھی تو عجب نہیں کہ بہت سے ذہن کسی اندھیارے میں بھٹک گئے ہوں گے۔ لیکن وہ انسان تھے کوئی جیو جناور نہیں تھے اور انسان نے تہذیب کا لمبا سفر طے کیا ہے تب کہیں جا کے اس کا کیریکٹر بنا ہے۔ سچی محبت آلائشوں سے پاک رکھنے میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ رہنے والے بھائی رشتوں کی حرمت کو سمجھتے تھے اور شاہد اور میں دوستی اور محبت کے پاسدار تھے۔ ان کی شادی کروا کے ہم نے بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا لیکن ہم مطمئن تھے کہ سر سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا۔ درمیان کے کوئی دس سال ذوقی سے میرے تعلقات منقطع رہے۔ مگر مجھے اس کے بارے میں باتیں معلوم ہوتی رہیں۔ ذوقی کی خوش لباسی اور ٹھاٹ باٹ میں اضافہ ہوا تھا۔ اور میرا اندازہ ہے کہ اس کی آن بان کو بنائے رکھنے میں بڑا حصہ تبسم کا رہا ہو گا۔ وہ ہر طرح سے ذوقی کی دلبری کرتی تھی۔ انہوں نے اپنا فلیٹ لے لیا تھا۔ گاڑی ڈرائیور سب کچھ تھا۔ ذوقی کی ادبی شہرت اور مقبولیت ہندوستان پاکستان اور دنیا بھر میں جانے کہاں کہاں پھیل گئی تھی۔ سن دو ہزار کے بعد اردو میں جو فین فولوئنگ ذوقی کو نصیب ہوئی وہ کسی اور کو نہیں۔ اس جیسا لکھاڑ اگلے زمانے میں ایک کرشن چندر تھا۔ اس زمانے میں تو کوئی نہیں تھا۔ اب سے کوئی پانچ سات سال پہلے تبسم کو لیور کے عارضے نے آ گھیرا۔ اور یہ حال کیا… کہ ایک بار ریڈیو اسٹیشن کے باہر وہ مجھے ملی تو اسے دیکھ کر میرا دل کٹ کے رہ گیا۔ وہ جو بڑے سلیقے کے کپڑے پہنتی تھی اور سر تا پا بہت با وقار لگتی تھی اس کا سارا آب جیسے اتر گیا تھا۔ لیکن جیسا کہ مجھے معلوم ہوا جب سے تبسم بیمار ہوئی تھی ذوقی نے اس کے لیے اپنی محبت، جو پہلے بھی غیر مشروط تھی، اب اور بڑھا دی تھی۔ گھر بار کی ذمہ داری اب بھی تبسم ہی کے ہاتھ میں تھی اور ذوقی کو اپنی مرضی کی زندگی جینے کے سارے وسائل میسر تھے۔ ذوقی کو دو ہی چیزیں مطلوب تھیں۔ ایک اس کے لکھنے کے لئے آزادی اور وسائل کی فراہمی اور دوسری آسائش بھری زندگی جس میں اچھا کھانا اور خوش لباسی سر فہرست تھے۔ اور یہ سب چیزیں اسے میسر تھیں۔ اور وہ اپنی بیمار بیوی کے گلے میں اپنی محبت کا پھول کبھی باسی نہیں ہونے دیتے تھے۔ تبسم کبھی کبھی شدید بیمار ہو جاتیں، حافظہ گم ہو جاتا لیکن ذوقی اس کی تیمار داری میں کمی نہ کرتے۔ لکھتے لکھتے جب ذرا انگلیوں کو راحت دینا ہوتا تو تبسم کی دلبری کرتے تھے۔ ذوقی میں زندگی کی گرمی معمول سے قدرے زیادہ تھی، جس نے اسی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں معمولی نہیں ہونے دیا۔ وہ ایک غیر معمولی پن کے ساتھ ہمیشہ جیتا رہا۔ اور تبسم سخت جان تھی۔ اس سے بات کرنے والے کسی شخص کو گمان بھی نہ ہوتا کہ بیماری نے اس کا کیا حال بنا رکھا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں اس نے جو نظمیں لکھی ہیں وہ کم از کم میرے لیے حد درجہ حیران کن ہیں۔ ذہانت ار ذکاوت اور حساسیت کی جس سطح پر جا کر اس کی نظموں نے اظہار پایا ہے وہ میرے گمان سے بھی باہر ہے۔ جسم ڈھہ رہا تھا لیکن ذہانت کی چمک چوندھیا دیتی تھی۔ کون جانتا تھا کہ ذوقی اور تبسم کی یہ باتیں جو آج بیس اور اکیس اپریل 2021 کی درمیانی شب کو میں لکھ رہا ہوں اسے ماضی کے صیغے میں لکھوں گا۔ جہاں ’ہے‘ لکھنا تھا وہاں ’تھا‘ لکھوں گا۔ رہے نام اللہ کا۔
بشکریہ دی وائر
٭٭٭