بیس برسوں میں جس تخلیق کار نے اپنی تخلیقیت کی بیس سے زیادہ بساطیں بچھا دی ہوں اور جن میں سے بیشتر بساطیں ایسی ہوں جن کے دامن میں سیکڑوں خانے موجود ہوں، اس پر اگر بسیار نویسی کا الزام عائد ہوتا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ باطنی طینت اور ظاہری صورت دونوں اعتبار سے بڑے امام بخاری سے مشابہت رکھنے اور غم خواریِ ملّت میں مانند جرنل پرویز مشرف، جوش و خروش اور غیظ و غضب کا تیور دکھانے والے مصنف پر بسیار نویسی کا لیبل چپکانے والوں کی نگاہیں عام طور پر بساطوں کی تعداد پر مرکوز ہوتی ہیں، بساط بچھانے والے کی زرخیز تخلیقیت انھیں نظر نہیں آتی۔ ان کی آنکھوں کو بساط پر بنے سیکڑوں خانے تو نظر آتے ہیں مگر ان خانوں کی سفیدیوں کا جھوٹ اور سیاہیوں کا سچ دکھائی نہیں دیتا۔ ان خانوں میں سجے مہرے ان کی پتلیوں میں نہیں سماتے۔ انھیں بادشاہ، وزیر، گھوڑے، ہاتھی، کشتی اور پیادے نظر نہیں آتے۔ اس بساط پر چھڑی گھمسان دیدوں میں داخل نہیں ہوتی۔ حیات و کائنات میں ہونے والے شہہ اور مات کا کھیل دکھائی نہیں دیتا۔ بادشاہ کی ثابت قدمی، اسے بچانے کی حکمتِ عملی، وزیر کی چالوں کی چالا کی، گھوڑوں کی چستی و چوکسی، ہاتھیوں کی مست خرامی، کشتیوں کی راست گامی، پیادوں کی سست رفتاری، ان کے پیچھے کھِنچی چہار دیواری، ان کی بے بسی و لاچاری اور پل پل ہوتی موت نظر نہیں آتی۔
بسیار نویسی کی شکایت کرنے والوں کو چاہیے کہ کسی مقام پر ذرا ٹھہر کر کبھی وہ یہ بھی دیکھیں اور سوچیں بھی کہ’’لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘ کے شہسوار مشرف عالم ذوقی کا رخشِ خامہ ہمہ وقت رو میں کیوں رہتا ہے؟ اس ضمن میں یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ قلم صفحۂ قرطاس پر صرف لکیریں نہیں کھینچتا۔ لکیروں سے وہ حرف بناتا ہے۔ حرف میں صوت و صدا بھرتا ہے۔ صوت آمیز حروف سے لفظ گڑھتا ہے۔ لفظوں سے جملے خلق کرتا ہے اور ان جملوں میں معنی سموتا ہے، تجربے پروتا ہے، مشاہدے ٹانکتا ہے، فکر داخل کرتا ہے، رنگِ تخئیل بھرتا ہے، احساس کی شدّت و حدّت شامل کرتا ہے، بصیرت تحلیل کرتا ہے، انھیں تخلیقی حسن عطا کرتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس عمل میں وہ اپنا خونِ جگر صرف کرتا ہے۔
دوسری بات غور کرنے کی یہ ہے کہ جلدی جلدی دکھائی دینے والا عمل یہ ضروری نہیں کہ جلد بازی میں سامنے آیا ہو۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ بظاہر ایک سال میں آنے والی کسی تخلیق کی تکمیل میں برسوں لگ گئے ہوں۔ ہمیں ہر صبح سورج کی آمد تو دکھائی دیتی ہے مگر اس کے وہ چکر نظر نہیں آتے جو وہ گھنٹوں مسلسل کاٹتا رہتا ہے۔ ہمیں تو بس وہ لمحہ دکھائی دیتا ہے جو سامنے آتا ہے، وہ لمحہ جن صدیوں سے گزر کر آتا ہے وہ صدیاں نظر نہیں آتیں۔
ان دونوں باتوں پر غور کر لینے سے پہلے یہ دیکھ لینا بھی ضروری ہے کہ کسی تخلیق کار کے خامے نے جو جملے خلق کیے ہیں ان میں خامے کی وہ خصوصیات داخل ہوئی ہیں یا نہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ اگر نہیں ہیں تو آپ ان جملوں کی خامہ فرسائی کرنے والے کو بسیار گو کیا، بکواس گو کہیے اور بلا جھجھک انھیں کسی کوڑے دان میں ڈال دیجیے لیکن اگر ہیں خواہ کمیت میں کم ہی کیوں نہ ہوں تو آپ کو ایمانداری سے سوچنا پڑے گا اور آپ سچّے نقّاد ہیں تو آپ کو معروضی نقطۂ نظر اختیار کرنا ہو گا، نہیں تو خونِ جگر سے لکھی ہوئی تحریر کا خون ہوا تو وہ خون آپ سے اپنا خوں بہا ضرور مانگے گا۔
اگر ہم ذوقی کے رخش صفت خامے پر نگاہ جمائیں تو دیدوں میں ذوقی کا دل ابھر آئے گا۔ ساتھ ہی دو صورتیں بھی سامنے آ جائیں گی جن کے سینوں میں امڈ تے ہوئے جذبوں کے دھارے جذبۂ ذوقی کے دھاروں سے ملتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ بڑے امام بخاری سے مماثل مشرف عالم ذوقی کی ظاہری صورت سے قطعِ نظر اس کی باطنی سر شت پر غور کریں تو ذوقی کے سینے میں بھی امام والا غم خواریِ ملّت کا ایک بپھرا ہوا دریا نظر آئے گا اور جرنل پرویز مشرف کے دل میں جوش مارنے والا قوم کے درد کا سمندر بھی موجزن دکھائی دے گا۔ مِلّت کے درد کا یہ وہ دریا ہے جو کچّے مسلمان کو بھی غوطے دے کر پکا مسلمان کر دیتا ہے اور کمزور جذبۂ ایمانی میں بھی جوش بھر دیتا ہے۔
جب درد کا دریا بڑا ہو۔ دریا میں پانی زیادہ ہو، پانی میں روانی اور روانی میں طغیانی بہت ہو تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ وہ دریا رُک رُک کر بہے۔ مسلسل آگے نہ بڑھے۔ دوٗر تک نہ جائے۔
آپ نے دیکھا کہ ان تینوں صورتوں کے سینے میں ایک ہی درد ہے اور چوں کہ تینوں کا ہی درد شدید ہے اس لیے ان کے انعکاس میں بھی شد و مد پیدا ہو گئی اور زورِ بیان میں سیلاب کا سا بہاؤ آ گیا۔ البتہ تینوں کے اظہار کا ذریعہ مختلف رہا۔ ایک نے واعظانہ وسیلہ اپنایا۔ دوسرے نے سپاہیانہ طرز اختیار کیا اور تیسرے نے فنکارانہ انداز ڈھونڈ لیا مگر جو خنک جذبہ ہو وہ فن کی بے تابی کیا جانے۔ لہٰذا ذوقی کے فنکارانہ انداز کی بھی گرفت کی گئی۔ کہا گیا: بہت لاؤڈ ہے۔ بہت ڈائریکٹ ہے۔ بہادر کو بہادر ہی لکھتا ہے، شیر نہیں لکھتا۔ محبوب کو محبوب ہی کہتا ہے، پھول نہیں کہتا۔ مسلمان کو مسلمان اور ہندو کو ہندو ہی رہنے دیتا ہے ان پر کوئی پردہ نہیں ڈالتا۔ اسے چھپانا نہیں آتا۔ یہ بات سچ ہے کہ زیادہ تر تحریروں میں ذوقی صاف صاف بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اپنی بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کوئی استعاراتی انداز نہیں اپناتے، علامت کی کوئی پرت نہیں چڑھاتے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ انداز صحیح نہیں ہے؟ کیا یہ غیر فنکارانہ ہے؟ کیا اس سے فن مجروح ہوتا ہے؟ بیان کا جادو کیا اس سے کم ہو جاتا ہے؟ اس سلسلے میں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ ہر فن کار حیات و کائنات کے حالات و واقعات سے اپنے طور پر React کرتا ہے۔ کوئی اپنے ردّ عمل کا اظہار برملا کرتا ہے اور کوئی صبر و ضبط سے کام لیتا ہے۔ کوئی براہِ راست طریقہ اختیار کرتا ہے اور کوئی ناراست طریقے کو اپناتا ہے۔ سبھی اپنے اپنے طریقۂ کار کو درست بلکہ بہتر سمجھتے ہیں اور اس کی وکالت بھی کرتے ہیں۔ ذوقی کی زودحسی اور سیماب مزاجی انھیں مجبور کرتی ہے کہ وہ سچ کو بغیر کسی رکاوٹ کے سامنے لائیں۔ اس پر کسی قسم کا کوئی ملمع نہ چڑھائیں۔ اسے چھپا کر نہ پیش کریں۔ سمعی اور سمعی بصری میڈیاؤں سے ان کی وابستگی جن میں صداؤں کے زور و شور اور تصویروں کے رنگ و نور پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے تاکہ آواز یں بغیر کسی رکاوٹ کے سماعت میں سماجائیں اور تصویریں بنا روک ٹوک کے ذہن کے پردے کے پر چسپاں ہو جائیں، بھی ذوقی کے ذہن پر شعوری اور لا شعوری طور پر دباؤ ڈالتی ہے تاکہ وہ اپنے موضوع و مواد کے خد و خال صاف صاف، شفّاف اور وا شِگاف طریقہ سے واضح کر سکیں۔ اس نوع کی سرشت کے فن کار کی تخلیق میں تہہ داری ڈھونڈنا، علامت کی تہیں تلاش کرنا یا پرت پر پرت دیکھنا مناسب نہیں۔ ہاں یہ ضروری دیکھنا چاہیے کہ اس بالواسطہ شعلہ فشاں اظہار کی حِدّتیں کتنی دیر تک قائم رہتی ہیں اور کس حد تک درد کی بھٹّی کو سُلگائے رکھتی ہیں۔
کچھ شخصیتیں بعض صورتِ حال میں جلد مشتعل ہو جاتی ہیں اور ان کی تقریر اور تحریر دونوں وسیلوں میں اشتعال انگیزی در آتی ہے۔ مشرف عالم ذوقی کی شخصیت ایسے گُڈ کنڈکٹر مٹیریل سے بنی ہے کہ اس سے نکلنے والے کرنٹ کو بیڈ کنڈکٹر بھی نہیں روک سکتا۔ انھیں بہت جلد غصّہ آ جاتا ہے۔ خلاف طبع بات، حالات اور معاملات پر ان کی تقریر اور تحریر دونوں شعلہ ریز ہو جاتی ہیں۔ غصّے میں ذوق لطیف والا ذوقی فوجی جرنیل بن جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ بندوق میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ منہ سے بارود کے گولے چھوٹنے لگتے ہیں۔ آنکھیں آگ برسانے لگتی ہیں۔ اس کی آواز میں میدانِ کارزار والی دھمک سنائی دینے لگتی ہے۔ پھر نگاہیں یہ نہیں دیکھتیں کہ سامنے والا دوست ہے یا دشمن، اپنا ہے یا پرایا، عالی مرتبت ہے یا صاحبِ ثروت، محترم ہے یا غیر محترم، خورد ہے یا کلاں، صنفِ نازک ہے یا صنفِ سخت، ان کی شرر باری کسی کو بھی نہیں چھوڑتی۔ ہر ایک کو جھلس ڈالتی ہے۔
مشرف کو غصّہ صرف اس لیے نہیں آتا کہ وہ نا مساعد حالات سے جلد مشتعل ہو جاتے ہیں اور اپنے مزاج کے خلاف ہونے والی بات سے سلگ اٹھتے ہیں بلکہ انھیں غصّہ اس لیے بھی آتا ہے کہ وہ معاشرے کے جس سلگتے ہوئے مسئلے کو موضوع بناتے ہیں اور جس کے لیے جی کھپاتے ہیں، جان جوکھم میں ڈالتے ہیں، دنیا جہان سے دشمنی مول لیتے ہیں، ایک ایک سے لڑ پڑتے ہیں، اپنے پرایوں کے طعنے سنتے ہیں، طنز کے تیروں سے چھلنی ہوتے ہیں۔ طرح طرح کی صعوبتیں جھیلتے ہیں، درد سہتے ہیں، اپنی آنکھیں جلاتے ہیں، نیند کی پریوں کو پلکوں سے پرے رکھتے ہیں، پتلیوں میں چبھن پیدا کرتے ہیں اور جس مسئلے کی آگ میں تقریباً سبھی اردو والے گھرے ہوئے ہیں، اور جس کی آنچ سے سلگ رہے ہیں، تپ رہے ہیں، اس کے باوجود اردو والے مشرف کی اس کاوش کی داد نہیں دیتے۔ اسے appreciate نہیں کرتے بلکہ بعض حضرات تو عیب بھی نکالتے ہیں۔
ذوقی کے غصّے کا پارہ اس لیے بھی چڑھتا ہے کہ وہ اس مسئلے کے علاوہ بھی بعض ایسے مسئلوں پر قلم اٹھاتے ہیں جو مختلف، منفرد اور اچھوتے ہیں اور کولمبس کی طرح ایسی دنیاؤں کو کھوج لاتے ہیں جو بہتوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہیں۔ اپنی دریافت کی پیش کش میں بھی وہ ایسی سنجیدگی دکھاتے ہیں جو بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ بہت ہی سنجیدہ مطالعہ کرتے ہیں۔ موضوع سے متعلق پرنٹ میڈیا کی ایک ایک تحریر خواہ وہ اردو میں ہو، خواہ ہندی میں یا انگریزی میں، ضرور پڑھتے ہیں۔ بات کی تہہ تک پہنچنے، ایک ایک نکتے کو جاننے اور تمام تر باریکیوں کو سمجھنے کے لیے وہ الیکٹرانک میڈیا سے بھی رجوع کرتے ہیں۔ بالکل تازہ معلومات کے لیے پابندی سے کمپیوٹر کھولتے ہیں۔ ویب کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔ دنیائے طلسمات میں داخل ہوتے ہیں۔ اسکرین پر ابھری تحریروں کو آنکھوں میں بھرتے ہیں، دل میں اتارتے ہیں، رگ و پے میں جذب کرتے ہیں، اپنے خون کا حصّہ بناتے ہیں، اور انھیں اپنے جذبوں کی آنچ سے سلگا کر، احساس کی بھٹّی میں تپا کر اور تخئیل کے رنگ و روغن سے سجا کر ہمارے سامنے کبھی پوکے مان کی دنیا کی شکل میں لاتے ہیں تو کبھی بھوکا ایتھوپیا کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ کبھی ان سے لینڈ اسکیپ کے گھوڑوں کی تصویریں ابھارتے ہیں اور کبھی ’’ایک انجانے خوف کی رہرسل‘‘ دکھاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کچھ لوگوں کے بگڑے ہوئے منہ سے ان کے کان جب یہ سنتے ہیں کہ ذوقی تو ادب بھی صحافت کی طرح کھل کر لکھتا ہے، کھُلا کھُلا لکھتا ہے، کھول کھول کر لکھتا ہے تو ان کا خون کھول اٹھتا ہے۔
٭٭٭