اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں جن ناول نگاروں نے اپنے فن کی بدولت شہرت پائی ان میں سے ایک اہم ناول نگار مشرف عالم ذوقی ہیں۔ ذوقی صاحب کا اعجاز یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں میں زندگی کے حقیقی رخ سے پردہ ہٹا کر نئی جہتوں کو متعارف کرایا ہے۔ اردو ناول کے قارئین اس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہیں کہ بے شمار ناول نگار زندہ، مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے محض تصورات میں کھو کر نئی اور پرانی نسل کو گمراہ کرنے کی لاحاصل سعی میں لگے ہوئے ہیں۔ ادب ذہنی عیاشی نہیں کہ جب جی چاہے اس میں مشغول ہو کر لطف اٹھایا جائے۔ ادب کی جملہ اصناف میں تجربات ہوتے آئے ہیں اور یہ کوئی عیب نہیں کہ اس سے ڈرا جائے، البتہ دیکھنا یہ ہے کہ تجربہ، فی الواقع مفید ہے کہ نہیں۔ شاعری اور نثر کے اپنے اپنے اسالیب ہیں اور جب تک کوئی فن کار صاحبِ اسلوب نہ ہو، اپنی راہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ مشرف عالم ذوقی ان صاحبِ اسلوب لوگوں میں سے ہیں کہ جن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ نالہ شب گیر، پوکے مان کی دنیا اور بیان، کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مشرف عالم ذوقی کی رسائی بہت وسیع ہے، ذوقی صاحب اپنے فن کی بنیاد اپنی دھرتی پر رکھ کر عالی شان محل تعمیر کر کے صاحبان ذوق کے حوالے کر دیتے ہیں، ذوقی صاحب زندگی کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہوئے اس سے مسائل کا استنباط کرتے اور عام کرداروں کو علامت بنا کر نئے تخلیق کاروں کے لیے راہیں ہموار کرتے ہیں، دور دراز تشبیہات اور استعاروں کے بجائے عام فہم الفاظ میں دور حاضر کی سفاکیت کو نمایاں کرنا آگ میں کودنے کے برابر ہے مگر ذوقی اس منزل سے بھی شاداں و فرحاں گزرتے ہیں۔ مشرف عالم کی علامتیں واضح طور محسوس ہوتی ہیں اور دیکھی بھالی ہیں، فرقہ پرستوں کے لیے وضع کی گئی اصطلاح اور علامتیں اس کا ثبوت ہیں کہ مشرف عالم جرات سے آراستہ و پیراستہ ہیں ورنہ جس ماحول میں ہمارا یہ عظیم فن کار کام کر رہا ہے وہاں تو ’جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں‘ کہنے کی بھی اجازت نہیں۔
٭٭٭