اقبال کے تضادات ۔۔۔ ڈاکٹر رؤف خیر

 

فکر و فن میں تبدیلی کے ساتھ فن کار کا فکری گراف بھی اونچ نیچ کا شکار ہو تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں قرآن وسنت سے تو ثابت ہے کہ ایمان بھی گھٹتا بڑھتا رہتا ہے نیکو کاروں کی صحبت میں مومن کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور اگر بدکاروں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو ایمان خطّ صفر Zero Level پر آ جاتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے تو وہ در اصل اربابِ خطّ سفر Zero Level والے ہیں علم و فن میں اضافے کے ساتھ ساتھ تدبر و تفکر کے نتائج میں خیالات بدل جاتے ہیں۔ ہر ذہین آدمی پر مدلل اجتہاد کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ اقبال پر بھی یہ دروازے بند نہیں کیے جا سکتے۔ البتہ ان ذہنی تبدیلیوں کا علمی جائزہ لینے کا اختیار بھی قاری کو ملنا چاہئیے۔

ابتدائی زمانے میں اقبال نے ’’نیا شوالہ‘‘ جیسی نظم بھی لکھی تھی جو قومی یک جہتی کا نمونہ تھی۔

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے

تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے

اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا

جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے

تنگ آکے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا

واعظ کا وعظ چھوڑا۔ چھوڑے ترے فسانے

پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے

خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہّ دیوتا ہے

1905 میں لکھی ہوئی اس نظم سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال اس وقت تک سیکولر نظریات رکھتے تھے پھر اس نظریئے میں تبدیلی آئی۔ خاک وطن کے ہر ذرے کو دیوتا سمجھنے والے اقبال کہنے لگے۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کا کفن ہے

ایک دور وہ بھی تھا کہ اقبال اپنے ’’ترانۂ ہندی‘‘ (اگست 1904ء) میں فرماتے ہیں:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

پھر وہ دن بھی آئے کہ اقبال کے نظریئے میں تبدیلی آئی اور وہ ’’ترانۂ ملی‘‘ گانے لگے

چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے

آساں نہیں مٹانا۔ نام و نشاں ہمارا

خواجہ حافظ شیرازی کے تعلق سے اقبال کی فکر نے کروٹ بدلی۔ ’’اسرار خودی‘‘ میں ابتداءً اقبال اُس کے تعلق سے اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ حافظؔ کے فکر و فن سے قوم کو دور رکھنا چاہتے تھے چنانچہ اقبال فرماتے ہیں:

ہوشیار از حافظ صہبا گسار

جامش از زہر اجل سرمایہ دار

رہنِ ساقی خرقۂ پر ہیز او

مئے علاج ہول رستاخیز او

مسلم و ایمان او زُنّار دار

رخنہ اندر دینش از مژگان یار

آں فقیر ملتِ مئے خوارگاں

آں امام امت بے چارگاں

محفل او درخور ابرار نیست

ساغر او درخور احرار نیست

میکش و مئے خوار حافظؔ سے قوم و ملت کو ہوشیار کرتے ہوئے اس کے جام میں زہریلی شراب کی نشان دہی کرتے ہیں اسے شرابیوں کا پیشوا اور ناکاروں کا امام قرار دیتے ہوئے متنبہ کرتے ہیں کہ اس کی محفل شرفا و نیکو کاروں کے لیے نہیں ہے اور اس کا جام حریت پسندوں کے کام کا نہیں ہے۔ حالانکہ خود اقبال پہلے حافظ ؔ سے بے حد متاثر تھے۔ اپنی دوست عطیہ فیضی سے فرماتے ہیں:

’’جب میرا ذوق جوش پر آتا ہے تو حافظ کی روح مجھ میں حلول کرجاتی ہے اورمیں خود حافظ بن جاتا ہوں۔‘‘

’’خد و خال اقبال‘‘ میں امین زبیری نے انکشاف کیا تھا کہ ’’1914 میں مجلہ عثمانیہ کے لیے لکھی ہوئی اپنی نظم میں اقبال کہتے ہیں:

عجب مدار زسر مستیم کہ پیر مغاں

قبائے رندیِ حافظ بقامت من دوخت

صبا بہ مولدِ حافظ سلامِ ما برساں

کہ چشم نکتہ وراں خاک آں دیار افروخت

(ہماری سر مستی کا وہ عالم ہے کہ پیر مغاں حافظ کی رندی کی قبا ہمارے قامت زیبا کے مطابق سلاتا ہے۔ ہمارا سلام اے صبا حافظ کے مولد تک پہنچا کہ نکتہ وروں کی آنکھ کے لیے وہاں کی خاک سرمۂ بصیرت بنی ہوئی ہے۔ اقبال اِسے خاکِ نجف کا درجہ دیتے لگتے ہیں۔)

اسلم جے راج پوری نے خواجہ حافظؔ پر ایک جامع کتاب مرتب کی ہے۔ اقبال ان کے نام ایک خط (۱۵؍مئی 1919ء) میں فرماتے ہیں:

’’خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے ہیں ان کا مقصد ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شحصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا مگر عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔

اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حُسن حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں یا مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں۔ بہ ہر حال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے اور ان کی جگہ اس لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔ لیکن اس مقابلے سے میں خود مطمئن نہ تھا اور یہ ایک ضرور وجہ اشعار صدر کو حذف کرنے کی تھی۔‘‘ (بحوالہ ’’خد و خالِ اقبال‘‘ امین زبیری صفحہ 301)

اس سلسلے میں خواجہ حسن نظامی نے اقبال کا بہت پیچھا کیا تھا۔ اقبال جواب الجواب کے چکر میں پڑ کر لا یعنی بحث کو طول دینا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے مصلحت اختیار کر لی۔

اقبال کی خود داری کے بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ علالت و کس مپرسی کے زمانے میں بھی جب اقبال کی امداد کے لیے بھوپال کے نواب صاحب نے اپنی جیبِ خاص سے ماہانہ پانچ سو روپیہ دینا چاہا تو اقبال نے قبول کر لیا مگر ایک ہزار روپے کا ایک چیک حیدر آباد کے سر اکبر حیدری کو لوٹا دیا اور جواباً تین اشعار کا ایک قطعہ بھی لکھ بھیجا:

تھا یہ فرمان الٰہی کہ شکوہِ پرویز

دو قلندر گو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات

مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر

حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات

غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول

جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات

علامہ اقبال کی خود داری کے سلسلے میں یہ اشعار بھی پیش کیے جا سکتے ہیں:

در جہاں جز درد دل درماں مخواہ

نعمت از حق خواہ از سلطاں مخواہ

از غم ہستی مئے گل فام گیر

نقد خود از کیسۂ ایام گیر

فطرتے کو بر فلک بندد نظر

پست می گردد ز احسان دگر

مشت خاکِ خویش را از ہم مپاش

مثل مہ رزق خود از پہلو تراش

کار مردان ست تسلیم و رضا

بر ضعیفاں راست ناید ایں قبا

(دنیا میں درد دل کا درماں نہ مانگ اور اگر علاج درد دل چاہتا ہی ہے تو اللہ تعالیٰ سے چاہ نہ کہ کسی بادشاہ سے۔ کسی کا احسان اسے اپنی ہی نظر میں گرا دیتا ہے۔ غم ہی کو بادۂ گل فام بنا لے اور خود کو زمانے کی جھولی میں اہم ثابت کر۔ مردوں کو شیوۂ تسلیم و رضا ہی اختیار کرنا بہتر ہے کہ یہ قبا کم زوروں کے لیے نہیں ہے۔)

مگر اقبال بھی انسان ہی تھے۔ انھوں نے مہاراجا کشن پرشاد کے قصیدے لکھے، ہائی کورٹ کی ججی کی امید واری میں سر علی امام کی بھی مدح کر ڈالی اس توقع میں کہ وہ نظام کی سلطنت کے صدر اعظم بن کر ہائی کورٹ کے جج کے تقرر کا اختیار رکھنے والے ہیں۔ نظام کے تعلق سے عطیہ فیضی کے نام خط میں یہ لکھنے کے باوجود کہ ’’کسی ہندوستانی والیِ ریاست کی قدر دانی کی مجھے کیا پروا ہو سکتی ہے جب کہ کوئی اطالوی حسینہ مجھ سے میری نظمیں انگریزی ترجمے کے ساتھ طلب کر رہی ہے۔‘‘

اس کے باوجود یہی اقبال نظام دکن میر عثمان علی خاں کی شان میں قصیدہ بھی پیش کرتے ہیں جو ’’رموز بے خودی‘‘ کی زینت ہے جس میں نظام کو آسماں پر چڑھاتے ہیں:

اے مقامت برتر از چرخِ بریں

از تو باقی سطوت دین مبیں

جلوۂ صدیق از سیمائے تو

حافظِ ما تیغ جوشن خائے تو

از تو مارا صبح خنداں شام ہند

آستانت مرکز اسلام ہند

دوشِ ملت زندہ از امروز تو

تاب ایں برق کہن از سوزِ تو

بندگا نستیم ما۔ تو خواجۂ

از پئے فردائے ما دیباچۂ

گوہرم را شوخی اش بیباک کرد

تا گریبان صدف را چاک کرد

پیش سلطاں ایں گہر آوردہ ام

قطرۂ خون جگر آوردہ ام

وہ کسی درباری قصیدہ گو کی طرح نظام کی تعریف میں رطب اللسان ہیں کہ اے بادشاہ تیرا مقام تو آسمان سے زیادہ بلند ہے۔ تری وجہ سے دین مبیں کی شان و شوکت قائم ہے۔ تیری پیشانی سے صدیق اکبر کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ تیری تلوار و زرہ بکتر ہماری محافظ ہے۔ ہند کی شام تیری وجہ سے ہمارے لیے خوش گوار صبح بنی ہوئی ہے۔ تیرا آستانہ مرکز اسلام ہے۔ ملت کا مستقبل تیرے حال سے سلامت ہے کہ ملت میں تب و تاب تیرے سوز سے عبارت ہے۔ ہم تیرے غلام اور تو ہمارا سردار ہے۔ ہمارے مستقبل کا عنوان تو ہے۔ میرا گوہر تیری شوخی کا مرہون منت ہے جس طرح صدف کا سینہ چاک کر کے موتی بر آمد ہوتا ہے اسی طرح میں نے اپنے کمال کا موتی تیری خدمت میں پیش کر دیا ہے جو میرا قطرۂ خون جگر ہے۔

اقبال نے قدرے تضاد سے کام لیا ہے تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ ضرورتاً یا مصلحتاً بڑی بڑی شخصیتوں نے یہ روِش اپنائی ہے۔ جیسے سر سید احمد خان نے اسباب بغاوت ہند یا سرکشی بجنور مسلمانوں کو انگریزوں کی نگاہوں میں بے قصور ٹھیرانے کے لیے لکھی تھی۔ غالب نے اپنے وظیفے کی بحالی کی خاطر، دل پر جبر کر کے سہی، انگریزوں کے قصیدے لکھے تھے۔

بعض وقت عقیدت کی بنیاد پر غلو سے کام لیتے ہوئے اپنی ممدوح ہستی کا رتبہ کسی دوسری ہستی سے بڑھا دیا جاتا ہے۔ توحید کا دم بھرنے والے اور رسول اللہ سے عشق کا دعویٰ کرنے والے علامہ اقبال کبھی یہ کہتے ہیں:

عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیٰ

عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

شوق مری لے میں ہے، شوق مری نے میں ہے

نغمۂ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے

وہی اقبال انگلستان جاتے ہوئے (سر کاری ملازمت سے) معطل شدہ اپنے بھائی کا خیال رکھنے کے لیے دہلی کے نظام الدین اولیا کو سونپ جاتے ہیں یہ کہتے ہوئے:

فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا

بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا

تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی

مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا

بزرگان دین کے ساتھ ساتھ اقبال کو حضرت علیؓ، حسنینؓ، حضرت فاطمہؓ سے بھی گہری عقیدت رہی ہے۔ ہم سب مسلمانوں کو اہلِ بیت سے عقیدت ہے ان کی شان میں گستاخی ایمان سے نکل جانے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض پیغمبروں کو بعض پر فضیلت ضرور دی ہے یہ اللہ کی مرضی لیکن ہمیں اجازت نہیں کہ کسی پیغمبر کا رتبہ گھٹائیں۔ اسی طرح صحابہ کا معاملہ ہے۔ سارے صحابہ و صحابیات ہمارے لیے محترم ہیں۔ ان کے اپنے اعمال کے سبب ان کے درجات کا تعین کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہماری اوقات ہی کیا ہے کہ ہم انھیں ایک دوسرے پر فوقیت دیں۔ اگر کسی صحابی یا صحابیہ کی فوقیت دکھائی گئی ہے تو یہ تو اللہ اور رسول اللہ نے بتائی ہے۔ ہمیں تقابل کرنے کی اجازت نہیں۔

اپنے فارسی مجموعۂ کلام ’’رموز بے خودی‘‘ میں ایک نظم بہ عنوان ’’در معنی ایں کہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا اسوۂ کاملہ ایست برائے نساء اسلام‘‘ میں اقبال نے حضرت فاطمہؓ کا حضرت مریم علیہا السلام سے تقابل کر کے ان کی تین فضیلتیں دکھائی ہیں۔ چند بنیادی اشعار پیش ہیں۔

مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز

از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز

نور چشم رحمۃ اللعالمین

آں امام اولین و آخرین

بانوے آں تاج دارِ ھل اَتیَ

مرتضیٰ مشکل کُشا شیر خدا

بادشاہِ کلبۂ ایوانِ او

یک حسام و یک زرہ سامان او

مادرِ آں مرکز پرکار عشق

مادرِ آں کارواں سالار عشق

پہلی فضیلت یہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ رسول اللہﷺ آخری نبی کی صاحب زادی ہیں جو رحمۃ اللعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گئے تھے۔ بقول اقبال جو ہمارے پہلے اور آخری امام ہیں اور ان سے ہٹ کر کسی کی اقتدا جائز نہیں۔ یہ تو ہمارے ایسے امام ہیں جو امام الانبیا بھی ہیں۔

دوسری فضیلت یہ ہے کہ یہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی شریک حیات ہیں جو ایسے بادشاہ تھے جس کے گھر میں ایک تلوار اور زرہ بکتر کے سامان کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

تیسری فضیلت یہ ہے کہ وہ پرکار و سالار عشق (حضرت حسنؓ) اور نیکوکاروں اور حریت پسندوں کے سردار (حضرت حسینؓ) کی والدہ محترمہ ہیں۔

جنت میں عورتوں کی سرداری کی حامل حضرت محمدﷺ کی چہیتی صاحب زادی، کسی لونڈی یا غلام کی خدمات کے بغیر روکھی سوکھی کھا کر بھی شکر بجا لانے والی انتہائی وفا دار بیوی حضرت فاطمہؓ کی جتنی تعریف و فضیلت بیان کی جائے کم ہے مگر حضرت مریم علیہا السلام سے تقابل کی اقبال کو پتہ نہیں کیوں سوجھی۔ تعریف بغیر کسی تقابل کے بھی کی جا سکتی تھی۔

جہاں تک مریم علیہا السلام کے شرف کا معاملہ ہے کلام مجید گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری ایک سورۃ مریم علیہا السلام کے نام پر قرآن میں نازل فرمائی۔

دوسری بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معجزہ دکھانے کے لیے انھیں چن لیا کہ انھیں بغیر مرد کی قربت کے ماں بننے کا انوکھا اعجاز بخشا۔

تیسری فضیلت یہ کہ وہ پیدائشی پیغمبر حضرت مسیح کی ماں ثابت ہوئیں۔

چوتھی فضیلت یہ کہ جھولے میں سے شیر خوار نے اپنی ماں مریم کی پاک دامنی کی شہادت دی جو دنیا کی بے مثال گواہی ہے۔

پانچویں فضیلت یہ ہے کہ ان کی کوکھ سے ایسے فرزند نے جنم لیا جو پیدائشی اندھوں کو آنکھیں، لاعلاج کوڑھیوں کو بھلا چنگا کر دیتا تھا۔ یہاں تک کہ مردوں کو قُم باذن اللہ کہہ کر جِلا دیتا تھا۔ مٹی سے بنے پرندوں میں جان ڈال کر اُڑا دیا کرتا تھا۔

چھٹی فضیلت یہ کہ دوران حمل حضرت مریم کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے موسم کے پھل بھیجے جاتے تھے۔

ساتویں فضیلت یہ کہ بے موسم پھل مریم کے حجرے میں دیکھ کر نوے برس کے بوڑھے پیغمبر زکریاؑ نے اولاد کے یے دعا کی تو دعا قبول ہوئی اور اللہ نے انھیں یحییٰؑ سے سرفراز فرمایا گویا مریم علیہا السلام ہی یحییٰؑ کے عالم وجود میں آنے کا ذریعہ ثابت ہوئیں۔

آٹھویں فضیلت یہ ہے کہ مریم علیہا السلام ایک ایسے فرزند کی ماں قرار پائیں جس کا موت بھی کچھ بگاڑ نہ سکی۔

نویں فضیلت یہ ہے کہ حضرت مریم کے فرزند کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا اور زمین پر کسی قسم کا گزند انھیں چھو تک نہ سکا۔

دسویں سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ حضرت مریم کے بیٹے عیسیٰؑ پر صحیفہ انجیل نازل ہوا۔

گیارھویں فضیلت یہ بھی ہے کہ اللہ کے حکم سے مریم علیہا السلام نے جب زمین پر ایڑیاں ماریں تو پانی کا چشمہ پھوٹا۔

افسوس کہ عبد الرحمن ابنِ ملجم نے حضرت علیؓ کو شہید کر ڈالا، حضرت حسنؓ کو زہر دے کر ہلاک کیا گیا اور حضرت حسیؓن کا سر قلم کر دیا گیا۔

آخر میں ہم اقبال کے ایسے اعتقادات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو اقبال ہی کی تحریروں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اقبال کے لکچرس پر مشتمل انگریزی کتاب Reconstruction of Religious Thought in Islam جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے 1934 میں شائع ہوئی تھی جس کا نذیر نیازی نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ یہ در اصل ادق انگریزی کا مشکل اردو میں ترجمہ ہے۔ شاید مقصد یہ رہا ہوکہ صرف ایک نام نہاد روشن خیال طبقے تک ہی یہ محدود رہے جو اقبال سے خوش اعتقادی رکھتا ہو۔ اس کتاب کے چوتھے لکچر ’’انسانی خودی، آزادی اور لافانیت‘‘ میں اقبال صاحب فرماتے ہیں:

’’Heaven & Hell are states, not localities‘‘ جنت و دوزخ در اصل مقامات نہیں بلکہ صرف ذہنی کیفیتوں یا حالتوں کا نام ہے۔

جب کہ اقبال نے خود کہا تھا:

انھی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

سارا قرآن مجید جنت و دوزخ کے مقامات کے ذکر سے بھرا پڑا ہے۔ اقبال جس ہستی سے عشق کا بڑا دعویٰ کرتے ہیں اس ہستی مبارک کو معراج کی رات جنت دوزخ دکھائی گئی تھی۔

مرزا غالب ؔ نے بھی تو کہا تھا:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

اقبال خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی کے حق میں تھے۔ ملاحظہ ہو جسٹس جاوید اقبال (فرزند اقبال) کی سوانح ’’اپنا گریباں چاک‘‘ صفحہ 282۔

جب کہ اللہ نے کہا اولاد کو رزق کی تنگی کے ڈر سے ہلاک نہ کرو ہم تمھیں بھی رزق دیتے ہیں تمھاری اولاد کو بھی دیں گے۔

’’اپنا گریباں چاک‘‘ ہی کے حوالے سے عرض ہے اقبال ایک سے زائد شادیوں پر شرعاً امتناع کو جائز قرار دیتے تھے (جب کہ انھوں نے خود تین شادیاں کر رکھی تھیں) اقبال کے خیال میں اسلامی ریاست کا سربراہ کسی بھی قرآنی حکم یا اجازت کی تعویق (التوا)، تحدید یا توسیع کر سکتا ہے۔ (صفحہ 282) نعوذ باللہ۔

جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں یہ بھی انکشاف کیا کہ ’’مولانا شبلی (نعمانی) کی طرح اقبال بھی مسلمانوں میں فری مارکیٹ اکانومی کے فروغ کی خاطر بنکوں کے منافع کو ربوا (سود) کے زمرے میں نہیں لاتے تھے۔ حالانکہ اللہ نے ہر قسم کے سود کو حرام قرار دیا ہے۔

اقبال کے خیال میں انسان موت کے بعد اگر چاہے تو حیات کا تسلسل ختم کر کے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہو سکتا ہے۔ ایسی روحانی خود کشی کا اُسے اختیار ہے (ملاحظہ ہو اپنا گریباں چاک صفحہ 318)۔ جس دین میں جسمانی خود کشی ہی کی اجازت نہیں وہاں روحانی خود کشی کا فلسفہ سمجھ سے باہر ہے۔

راسخ العقیدہ مسلمانوں کو اقبال کے یہ تضادات ممکن ہے کھل جائیں مگر اقبال بے انتہا پڑھے لکھے، فلسفی و شاعر تھے۔ ان کے یہ اجتہادات اُن کی علمیت کے نتائج ہو سکتے ہیں جو ضروری نہیں کہ دوسروں کے لیے قابل قبول بھی ہوں۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے