ہم ہیں تو کہانیاں ہیں۔ ایک وقت آتا ہے جب کہانیاں پیچھے چھوٹ جاتی ہیں۔ نیما، مہک احمد اور بھی کتنے نام۔۔۔۔ یہ سب پیچھے چھوٹ گئے۔ اب ہمارا ایک ۲۵ سال کا بیٹا ہے۔ عشق ابھی بھی آواز دیتا ہے تو تبسم مسکراتی ہوئی میری آنکھوں میں اتر جاتی ہے۔
’تم عشق سے الگ ہو ہی نہیں سکتے۔ عشق تمہیں مضبوط کرتا ہے۔۔۔۔ ‘
مگر حقیقت یہ ہے کہ اول تا آخر یہ عشق صرف اور صرف ایک ہی ذات سے رہا۔ عرصہ پہلے میں نے سوچا تھا۔ تبسم کو لے کر ایک ناول لکھوں گا۔ یہ قرض ابھی باقی ہے۔ مگر یہ بھی سوچتا ہوں کہ ناول کا قرض ادا کرنا مشکل ہے۔ تبسم پر ناول لکھنا آسان نہیں۔ جب زندگی مجھ پر اپنے راستہ تنگ کر دیتی ہے۔ تاریکی مسلط ہو جاتی ہے تو ایسے میں تبسم کسی جادوگر کی طرح اپنی طلسمی پوٹلی سے رات کی جگہ دن کے چراغ نکال لیتی ہے۔
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
لیکن وہ طلسمی چراغ سے ایک ایسی دنیا برآمد کر لیتی ہے جس پر مجھے ہمیشہ سے ناز رہا ہے۔ وہ ہمیشہ سے باغی ہے اور میری طاقت بھی۔
تبسم اور میری ملاقات کب ہوئی، اب مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں۔ یاد اس لیے بھی نہیں کہ یہ محض جنموں جنموں کا ساتھ نہیں ہے، یہ کچھ اور بھی ہے، جسے یا تو میں سمجھتا ہوں یا تبسم سمجھتی ہے۔۔ بیتے گزرے وقتوں کی وہ اداس پت جھڑ کے دنوں کی گرمیاں تھیں، جب ہم اچانک ایک دوسرے سے ٹکرائے اور آنکھوں نے سرگوشیاں کیں۔۔۔۔ کہ زندگی کے جن پر اسرار حسیں لمحوں کی تلاش میں تم سرگرداں ہوں، وہ لمحے یہیں کہیں رکھے ہیں۔۔ اٹھو اور آگے بڑھو —
تبسم نے تب لکھنا شروع کیا تھا اور میں نے ’’بیسویں صدی‘‘ ’’شمع‘‘ جیسے نیم ادبی جرائد سے آگے بڑھ کر ادب کے خار دار جنگلوں میں پناہ ڈھونڈنی شروع کی تھی۔ اس وقت کا میں کچھ اور تھا۔ میرے احساس کچھ اور تھے۔ گھنگھریالے، ہوا میں اڑتے ہوئے بال۔۔ جاذب نظر چہرہ۔۔ ایسا اپنے بارے میں، میں سوچتا تھا۔۔ آج اس طرح کی کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔۔ آرہ جیسے چھوٹے شہر میں قیام کے باوجود گفتگو کا ایسا قرینہ جو اچھے اچھوں کو اپنی جانب کھینچ لیتا اور ان سب سے بڑھ کر ادب تخلیق کرنے کا احساس۔۔۔۔ خوش فہمیوں کے کچھ ایسے جنگل میرے آگے دور دور تک پھیلے تھے کہ بس خواب تھا اور میں تھا اور ایک آنکھوں کو خیرہ کرنے والی حسین جنت تھی۔۔ تب عمر کا بائیسواں سال تھا اور میں کہانی لکھنے بیٹھتا تھا۔۔۔۔ ’وحشت کے بائیس سال‘۔۔۔۔ اور تبسم میری آنکھوں میں جھانکتی ہوئی پوچھ رہی تھی۔۔۔۔ ’’فلسفوں کے ایسے عجیب و غریب موتی کہاں سے چن کر لاتے ہو تم؟‘‘
سچ تو یہ ہے کہ ان بائیس برسوں میں زندگی خوبصورت تو لگی تھی مگر ایک حسین آمد نے اس ہنستی بولتی زندگی کو کچھ زیادہ ہی حسین اور خوشگوار بنا دیا۔۔ آرہ جیسے چھوٹے شہر میں تبسم سے ملنا تھا کہ نت نئے شگوفوں کے دروازے وا ہو گئے۔۔ وحشت کے خاردار راستوں سے گزرنے کے بعد احساس ہوا تھا کہ ہم اب بھی تنگ نظری کے اندھیرے مکان میں قید ہیں۔۔ اور مکان سے باہر بلوائی قسم کے لوگ خونی آنکھیں لیے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔۔ میں نے ان چند برسوں میں سیکھا کہ زندگی کو جتنا سہل سمجھتا آیا تھا در اصل زندگی اتنی ہی دشوار چیز ہے۔۔ تب بھی تبسم کسی باغی لڑکی کی ظرح میرے سامنے تن کر کھڑی ہو جاتی۔۔ ڈرو مت۔ اپنی کہانیوں کی طرح ہمت والے بنو۔۔ میں ہوں نا۔۔۔۔ پھر ڈرتے کیوں ہو؟‘‘
تبسم سے میری ملاقات کیسے ہوئی یہ بہت دلچسپ کہانی ہے۔ ۸۲ء میں امی جان کا انتقال ہو گیا۔ تب ہم مظفر پور میں تھے۔ ابا حضور مشکور عام بصیری آر ڈی ڈی ای کی پوسٹ پر تھے۔ ابی کو کوارٹر ملا ہوا تھا۔ یہ ہماری زندگی کے اگر سب سے خوبصورت دن تھے تو بد صورت ترین بھی۔۔ امی حضور کی ناگہانی موت ہم بھائی بہنوں میں سے کوئی بھی نہیں جھیل پایا۔۔ امی میرے لیے کیا تھیں، اسے بتا پانا لفظوں سے باہر کی بات ہے۔ وہ سب کچھ تو تھیں۔ میری کہانیاں۔۔ میرا آج جیسا بھی ہے، امی کی تمام، سب سے اچھی دعاؤں کا ہی ثمرہ ہے۔۔ ۸۲ء میں ابا ریٹائر ہو گئے۔۔ ہم آرہ آ گئے۔۔ تب تک میں گریجوئیشن کر چکا تھا۔۔ زندگی کی جو نازک سی ڈال میرے حصے میں آئی تھی، وہ بار بار تقاضا کر رہی تھی۔۔۔۔ کہ میاں زندگی ایک حقیقت اور بھی ہے۔۔ مگر اس حقیقت سے الگ میں افسانوی حقیقت کو زیادہ قبول کر رہا تھا۔۔ جہاں اونچی اڑانیں تھیں۔۔ کئی منزلہ عمارتیں تھیں۔۔ تب ایک دن اچانک ایک چھوٹا سا لڑکا میرے پاس کسی لڑکی کی کہانی لے کر آیا۔۔۔۔ کہانی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے لکھا گیا تھا۔۔ ’’دیکھیے گا میں لکھ سکتی ہوں یا نہیں‘‘
تب آرہ کے چھوٹے سے سمٹے سکڑے ماحول میں رہنے والا میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارے شہر کی کوئی لڑکی بھی اس طرح افسانے لکھ سکتی ہے۔۔ یا مجھے بھیج سکتی ہے۔۔ میں نے افسانہ پڑھا اور پڑھتا چلا گیا۔۔ افسانہ میں کوئی خاص بات نہ تھی مگر افسانے نے جس طرح احساس کا لبادہ زیبِ تن کیا تھا، وہ میرے لیے چونکانے والا تھا۔۔ سچ کہوں تو پہلی بار میں ہی تبسم کا فین بن گیا۔۔ ادھر تبسم میری تحریروں کی فین ہوتی چلی گئی۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا اگر ایک دلچسپ راز کی بتاؤں۔۔ میری لکھاوٹ بہت خراب ہے اور خاص کر جب میں جلد بازی میں لکھتا ہوں تو شاید اللہ کے فرشتے بھی میری تحریر نہ پڑھ سکیں۔ لیکن یہ بندی تو غضب کی واقع ہوئی تھی۔۔ میرے دستخط کر ڈالتی تھی۔ میری اچھی بری ہر طرح کی تحریر پڑھ ڈالتی تھی۔۔ اور حد تو تب ہونے لگی جب میری کہانیوں پر بھی نکتہ چینی کرنے لگی۔۔ اب دل کرتا تھا، اس پاگل سی، انوکھی سی لڑکی سے ملا جائے۔۔ میں تبسم کے گھر پہنچا۔ دروازے پر کھڑے ہو کر آواز لگائی اور سر پر دوپٹہ ڈالے ایک دبلی سی، مہربان چہرے والی لڑکی میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔۔ میں بولتا رہا، بولتا رہا، وہ چپ چاپ سنتی رہی۔۔ مجھے یاد ہے، پہلی بار میں اس نے میرے سامنے بہت کم مکالمہ ادا کیا تھا۔
خیر، چند ملاقاتوں میں ہی تبسم کے اندر کی باغی سرکش لڑکی مجھے صاف صاف نظر آنے لگی۔۔ تب بھی، جب تبسم کے گھر آنے جانے سے ہمارے تذکرے کچھ زیادہ ہی زور پکڑنے لگے اور میں نے آنا جانا کم کر دیا۔۔ تو ایک روز وہ مجھ پر بہت بری طرح ناراض ہوئی۔۔ اس طرح تو تم دوسروں کو اور شہہ دے رہے ہو۔۔ یہاں بیٹھ کر تو ہم گھنٹوں ادب کی ہی بات کرتے ہیں۔ اس میں غلط کیا ہے۔۔ تمہاری کہانیوں کے سارے ہمت ور کردار ایسے موقعوں پر کہاں کھو جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو مجھے کہنے دو، تم جھوٹ لکھتے ہو۔۔۔۔ ‘
یہ وہ دور تھا جب تبسم کو اپنی کہانیوں میں اتارتا ہوا میں بچھو گھاٹی لکھ رہا تھا۔۔۔۔ سچ کیا ایسا ہوتا ہے؟ وہ سونے کا تاج کہاں ہے؟ وہ کمخواب اور مخمل کابستر کہاں ہے اور تبسم غصے میں کہتی ہے۔۔۔۔ ’’نہیں تم ہارنے لگے ہو‘‘۔۔ (بچھو گھاٹی)
بیشک میں زندگی میں کئی مقام پر ہارا۔ کئی مقام ایسے بھی آئے جب ہارتے ہارتے بچا ہوں۔۔ اور ایسے ہر مقام پر سوچتا ہوں تبسم کا ساتھ نہ ملا ہوتا تو شاید کمرے کی ویرانی اور اپنے اندر کی خاموشی سے سجھوتا کر چکا ہوتا۔۔ امی کے انتقال کے بعد ہر موڑ، ہر منزل پر تبسم میرے لیے ایک مضبوط چٹان کی مانند سہارا دینے کو تیار رہی۔۔۔۔ تب کی تبسم اور تھی۔۔ میری تحریروں پر ہر آن فدا ہونے والی، قصیدہ پڑھنے والی۔ لیکن یہ کل کی بات تھی۔۔ جب ہم ہمیشہ کے لیے ایک نہیں ہوئے تھے —اور زندگی کی اہم ترین سرد و گرم جنگ لڑ رہے تھے۔۔ اور یہاں بھی سارے مضبوط فیصلے تبسم نے ہی کیے۔ ہاں اس زمانے میں جب اس نے لکھنا شروع کیا تھا، وہ بار بار اپنی تحریروں پر ناراض ہو جایا کرتی۔۔۔۔ ‘‘ ایسا کیوں ہے مشرف، ان میں جان نہیں آ پا رہی ہے۔ سمجھ نہیں پاتی ہوں۔ اس زبردست چنگاری کی میرے یہاں کہاں کمی رہ جاتی ہے ‘‘۔۔ وہ خود کو ٹٹولتی تھی، اپنا محاسبہ کرتی تھی۔ اس زمانے میں اس نے کئی نظمیں لکھیں۔ بہت پیاری، جذباتی بھی۔۔۔۔ وہ نظموں میں مجھے زیادہ پسند تھی۔ اس لیے جب کہانی کی بات آتی تو میں اس کے سامنے ایک سخت نقاد بن جاتا۔۔ ’’نہیں تبو، یہ نہیں چلے گا۔۔ تم اچانک زندگی سے دور کیوں ہو جاتی ہو؟‘‘
میری تنقید اس حد تک بڑھ گئی کہ ایک طرح سے تبسم کہانی سے کنارہ کش ہوتی چلی گئی۔ نہیں۔ آپ غلط سمجھے۔ اس نے لکھنا بند نہیں کیا۔ وہ زبردست آگ کی منتظر رہی۔ وہ اس سلگتی چنگاری کے انتظار میں رہی اور اب بھی ہے۔۔ جو اسے ایک شاندار کہانی دے جائے۔۔ اس درمیان اس نے نظمیں کہنی جاری رکھیں۔
شادی کے بعد ہم دلی آ گئے ظاہر ہے اب ذمہ داریاں بڑھی تھیں اور اپنے وسائل کو مزید پھیلانا ضروری تھا۔ دلی کی اس چار سالہ زندگی میں تبسم میرے لیے ایک ایسی ڈھال ثابت ہوئی جو بھیانک سے بھیانک طوفان کا مقابلہ کر سکنے کی ہمت رکھتی ہو۔ اس نے دور درشن کے لیے فلمیں لکھیں۔۔ ڈاکو مینٹری بنائی، خود ہدایت بھی دی۔ گھر پر وہ ایک بہترین دوست تھی، ایک لاجواب ساتھی تھی اور میری کہانیوں کی زبردست نقاد۔۔ کبھی کوئی چیز میں مسلمانوں کے فیور میں لکھ ڈالتا تو وہ غصہ ہو کر کہتی۔۔ آخر ہونا کمیونل۔۔ تم لوگ صحیح سوچ ہی نہیں سکتے۔
ایک دلچسپ بات بتاؤں ۶ دسمبر ۹۲ء بابری مسجد ٹوٹنے کے بعد میں نے ایک کہانی لکھی۔۔ میرا ملک گم ہو گیا ہے۔۔ یہ کہانی میں نے ایک ادبی رسالہ کے مدیر کو بھیجی تو تبسم نے فوراً ہی مدیر کو میرے خلاف خط بھیج دیا کہ اسے شائع مت کیجئے گا۔ میرے ایک عزیز ترین دوست کے سامنے بھی مجھ پر بری طرح خفا ہو گئی کہ آخر تم نے کشمیر سے ہجرت کیے ہوئے ہندوؤں پر کیوں نہیں لکھا؟
تبسم تخلیقی اور عملی دونوں زندگیوں میں توازن کی قائل ہے۔ میں کس کس کا ذکر کروں۔ میں تو مجسم تبسم کا فین ہوں اور سچ کہوں تو تبسم کو میں نے بیوی کبھی سمجھا ہی نہیں۔ ایک پیاری پیاری سی دوست سمجھا۔۔ ہمیشہ۔۔ مجھے یاد ہے، ایک بار ہمارا بھانجہ پٹنہ سے دلی آیا تھا۔ وہ ہمیں دیکھ کر بولا۔۔ ’’ماما آپ لوگ تو میاں بیوی لگتے ہی نہیں۔۔۔۔ ‘‘
مجھے اس بات کا احساس ہے کہ تبسم میری کہانیوں کی محرک ضرور ہے لیکن میں تبسم کے لیے کبھی محرک ثابت نہیں ہوا۔ وہ مجھ سے ہمیشہ کہتی ہے۔۔ تم نے اتنی تنقید کی کہ میرا لکھنا کم ہو گیا۔۔ وہ جب موڈ میں ہوتی ہے تو زیادہ تر نظمیں ہی لکھتی ہے۔
نعرۂ مستانہ خوش می آیدم
تا ابد جاناں چنیں می بایدم
اے محبوب، میں تو اس نعرہ مستانہ پہ فدا ہوں اور قیامت کے روز تک اسی وارفتگی پر نثار کہ عشق ہر بار مجھے زندگی دیتا ہے۔ اور یہ عشق ہے جو اسی ایک نام سے شروع اور اسی ایک نام پر ختم بھی ہے۔
٭٭٭